برطانوی ادب
برطانوی ادب (انگریزی: British literature) مملکت متحدہ، آئل آف مین اور رودبار جزائر کے ادب پر مشتمل ہے، چنانچہ اس مضمون میں انہی خطوں میں بولی جانے والی انگریزی زبان کے ادب پر روشنی ڈالی جائے گی۔ تاہم اس میں انگریزی زبان کے علاوہ قدیم انگریزی جسے اینگلو سیکسن بھی کہا جاتا ہے، بھی شامل ہے، نیز لاطینی ادب اور اینگلو نارمن ادب کا بھی ضمنا تذکرہ ہو گا کیونکہ مذکورہ تمام زبانیں انگریزی زبان و ادب کے ارتقا میں معاون رہی ہیں یا خود اس کا حصہ تھیں۔ برطانیہ کی دیگر زبانوں کے ادب پر برطانیہ کی دیگر زبانوں کا ادب کے عنوان سے ایک علاحدہ مضمون موجود ہے جس میں ان ادبی زبانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو خطہ برطانیہ میں تخلیق ہوئیں۔
برطانوی شناخت
ترمیمبرطانوی شناخت کی تعریف ہر دور میں بدلتی رہی ہے۔ انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور ویلز پر مشتمل جزیرہ رومی سلطنت کے پلینیوس (23–79) کے زمانہ سے ہی جزیرہ برطانیہ عظمی کہلاتا رہا ہے۔[1] اس جزیرہ پر 450ء میں اینگلو نیسکسن حملہ ہوا اور اسی عہد سے انگریزی زبان یہاں کی قومی زبان رہی ہے۔[2] اس سے قبل وہاں کے اصل باشندے کیلٹک زبانیں بولتے تھے۔ موجودہ دور کی مملکت متحدہ کے اجزا مختلف زمانے میں اس میں شامل ہوئے۔ 1536ء اور 1542ء کے ویلز اکیٹ کے تحت ویلز کو مملکت انگلستان میں شامل کیا گیا۔ البتہ 1707ء میں جب مملکت برطانیہ عظمی اور مملکت سکاٹ لینڈ کے درمیان معاہدہ ہوا تب ویلز اس کا حصہ نہیں تھا۔ پھر 1801ء میں متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ کی تشکیل میں ویلز کو مملکت آئرلینڈ کے ساتھ شامل کر لیا گیا۔ زمانہ حال تک وہاں سیلٹک زبانیں رائج تھیں اور یہ زبانیں ویلز کے مختلف علاقوں میں اب بھی موجود ہیں۔
1921ء میں آئرش قومیت تحریک کے تحت تقسیم آئرلینڈ عمل میں آئی اور اس طرح جمہوریہ آئرلینڈ کا ادب برطانوی ادب کا حصہ نہیں رہا۔ البتہ شمالی آئرلینڈ کا ادب پر برطانوی اور آئرش دونوں ادب کا اطلاق ہوتا ہے۔[3]
20ویں صدی میں ویلز کا انگریزی ادب بالخصوص وہ ادبی تخلیقات جن میں ویلز کا تذکرہ ہوا ہے اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔ جدید ویلز ادب کا ارتقا بھی عام انگریزی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا اور اس طرح اسے اپنی مختلف شناخت ملی۔[4]
سلطنت برطانیہ کی وجہ سے اس کی کالونیوں میں انگریزی زبان و ادب کو خوب پھلنے پھلونے کا موقع ملا اور 19ویں صدی میں انگلستان میں اور اس کے بعد کے دنوں میں ویلز، جزیرہ آئرلینڈ اور دیگر علاقوں میں ترقی پزیر رہا۔[5][6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Pliny the Elder's Naturalis Historia Book IV. Chapter XLI Latin text and English translation، numbered Book 4, Chapter 30, at the Perseus Project۔
- ↑ Jones & Casey 1988:367–98 "The Gallic Chronicle Restored: a Chronology for the Anglo-Saxon Invasions and the End of Roman Britain"۔
- ↑ Seamus Deane (1986)۔ A Short History of Irish Literature۔ London: Hutchinson۔ ISBN 0-09-161361-2
- ↑ Raymond Garlick An Introduction to Anglo-Welsh Literature (University of Wales Press, 1970)
- ↑ Douglas Hill (1 اکتوبر 1988)۔ "A report on stories from the outposts of Commonwealth literature"۔ The Globe and Mail۔ صفحہ: 21
- ↑ Robert McCrum (13 اکتوبر 2003)۔ "English Is a World Language – and That's to Be Prized"۔ Los Angeles Times۔ صفحہ: B15