بشیر النساء بیگم
بشیرالنساء بیگم (پیدائش:1915ء— وفات: 20 فروری 1972ء) اردو زبان کی شاعرہ تھیں۔
بشیر النساء بیگم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1915ء حیدر آباد ، ریاست حیدرآباد |
وفات | 20 فروری 1972ء (56–57 سال) حیدر آباد |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمخاندان اور ابتدائی حالات
ترمیمبشیرالنساء بیگم 1915ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا خاندان پنجاب کا تھا جہاں وہ ہجرت کرکے حیدرآباد دکن میں آباد ہو گیا تھا۔ بشیر کے والد مولوی عبد الرحمٰن ریاست حیدرآباد دکن کے محکمہ سیاسیات میں مددگار (اسسٹنٹ) کے عہدے پر فائز تھے۔ والدہ شمس النساء بیگم، میرزا صادق علی بیگ تعلقہ دار کی بھانجی تھیں۔ ماموں نے بھانجی کی تعلیم و تربیت اپنی زیر نگرانی کی تھی۔ وہ خود علم دوست، فیاض اور درویشانہ صفت کے مالک تھے۔ شمس النساء بیگم نے جو اُس ماحول میں تربیت پائی تو یہی خصوصیات بشیر کو وراثت میں ملیں۔ بشیر کی والدہ شمس النساء بیگم خوشنویس بھی تھیں اور خطابت کا شہرہ بھی رکھتی تھیں۔[1]
تعلیم اور شاعری
ترمیمبشیر کی تعلیم مکملاً گھر پر ہی ہوئی۔ فارسی کی تحصیل بہت حد تک اعلیٰ درجے کی پائی۔ عربی میں قرآن مجید بامعنی و تفسیر کے ساتھ پڑھا تھا۔ اردو اور فارسی شعرا کا کلام تعلیم کے دوران پڑھا ۔ حافظہ غیر معمولی پایا تھا اور اِس سے بیشتر فارسی کلام انھیں ذہن نشین رہا۔ فارسی سے رغبت کی بنا پر خود شعرگوئی کا بھی شوق پیدا ہوا۔جلد ہی بشیر کا کلام دہلی کے مختلف رسائل یعنی عصمت اور ساقی میں شائع ہونے لگا۔ مشاہیردکن نے بھی اُن کے کلام کی حوصلہ افزائی کی۔ دکن کے زنانہ رسالہ شہاب اور ناہید میں اُن کے کلام کو سراہا گیا۔ نفاست طبع کے ساتھ شعر و سخن کے اِسی شغف کے باعث خواجہ حسن نظامی (متوفی 31 جولائی 1955ء) نے انھیں چمن آراء کا خطاب عطا کیا تھا۔ابتدا میں مہاراجہ سر کشن پرشاد (متوفی: 13 مئی 1940ء) کے درباری شاعر صادق حسین غبارؔ سے شعری اصلاح لیتی رہیں۔ صادق حسین غبارؔ نے جلد ہی کہہ دیا کہ کلام اصلاح سے بے نیاز ہے۔ صادق حسین غبارؔ کے بعد سید علی حیدر نظم طباطبائی (متوفی 1933ء) اور اپنے والد کے دوست ابوظفر عبد الواحد صاحب سے بھی استفادہ کیا۔ بشیر مدتِ دراز تک ادارۂ اَدبیات اُردو، حیدرآباد دکن کے شعبہ ٔ نسواں کی نائب معتمد رہیں۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور (متوفی 25 ستمبر 1962ء) کو اِن سے ہمیشہ تعاون ملا اور وہ اِن پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ اِس میں کوئی شبہہ نہیں کہ دکن میں عورتوں کی تعلیم و ترقی میں اُن کی مساعی بہت قابل قدر تھیں۔
مجموعہ کلام
ترمیمبشیر کا مجموعہ کلام ’’آبگینہ‘‘ کے نام سے ادارۂ اَدبیات اُردو، حیدرآباد دکن سے 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ مجموعہ کلام میں حمد و نعت پر متعدد نظمیں موجود ہیں۔ یوں بھی بشیر کو غزل کی بجائے نظم سے زیادہ رغبت تھی۔ اُس دور میں وہ شعرا میں ڈاکٹر محمد اقبال (متوفی 21 اپریل 1938ء) سے بہت متاثر تھیں۔ بزرگانِ دین سے والہانہ عقیدت تھی۔علاوہ ازیں نثر سے بھی رغبت رہی۔
وفات
ترمیماواخر دِنوں میں بشیر کی صحت خراب رہنے لگی اور 20 فروری 1972ء کو بعد نماز مغرب حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئیں۔ نماز جنازہ شطاریہ مسجد، دبیرپورہ میں ادا کی گئی اور قبرستان ملک پیٹ مقابل تپہ خانہ صحیفہ میں سپردِ خاک ہوئیں۔[2]