بھارت میں صرف خاص
صرف خاص (ہندی: राजभत्ता، انگریزی: Privy Purse) کسی آئینی یا جمہوری بادشاہت میں ریاست کے خود مختار حکمرانوں اور شہنشاہی خاندانوں کو ملنے والی خصوصی رقم کو کہا جاتا ہے۔ بھارت میں سنہ 1950ء میں جمہوری آئین نافذ ہونے کے بعد صرف خاص دینے کا آغاز ہوا تھا۔ انگلستان، برطانیہ، جاپان یا دیگر یورپی ممالک (جہاں صرف ایک شاہی خاندان ہوتا ہے) کے برعکس بھارت میں (جمہوریہ کے ابتدائی سالوں میں) کل 562 شاہی خاندان تھے۔ یہ شاہی خاندان اور رجواڑے ان سابقہ ریاستوں کے حکمران تھے جنھوں نے آزاد بھارت میں اپنی ریاستوں کو ضم کیا اور یوں متحدہ بھارتی جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس انضمام کے بعد ان خاندانوں نے اپنے تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے۔ ان نوابی ریاستوں کے بھارتی اتحاد میں انضمام کے منجملہ شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ریاستوں کے حکمرانوں اور ان کے جانشینوں کو تاحیات حکومت ہند کی جانب سے کچھ رقم بھتے کے طور پر دی جائے گی، اسی رقم کو صرف خاص کہا جاتا ہے۔ دراصل اس نظام کو برطانیہ میں جاری صرف خاص کے نظام کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ تاہم صرف خاص کے اس نظام کو سنہ 1971ء میں آئین ہند کی چھبیسویں ترمیم کے تحت اندرا گاندھی کے دور حکومت میں دو سالہ قانونی جد و جہد کے بعد ختم کر دیا گیا۔[1][2][3]
تسمیہ
ترمیمبرطانیہ اور بھارت میں اس رقم کو انگریزی میں پریوی پرس، اردو میں صرف خاص اور ہندی میں راج بھتا، شاہی بھتا یا وشیش بھتا کہا جاتا ہے۔ جمہوریہ بھارت میں سابقہ شاہی خاندانوں کو مل ہی اس رقم کو پریوی پرس یا راج بھتا کہنا زیادہ مناسب نہیں کیونکہ دیگر ممالک کے برعکس بھارت میں یہ رقم ایک معاہدہ کے تحت دی جا رہی تھی اور آئینی طور پر کسی بھی بھتے کو سرکاری یا شاہی درجہ حاصل نہیں تھا، چنانچہ اس رقم کو صرف خاص (विशेश भत्ता) کہنا زیادہ مناسب ہے۔
تاریخ
ترمیمبرطانوی دور حکومت میں ہندوستان میں برطانیہ کے زیر نگین علاقوں کے علاوہ تقریباً 562 آزاد ریاستیں تھیں۔ یہ تمام ریاستیں ایک معاہدہ کے تحت برطانوی حکومت کے تابع تھیں، ان ریاستوں کی حفاظت اور امور خارجہ برطانوی حکومت کے ذمہ تھے۔ ان نوابی ریاستوں کا کل رقبہ برصغیر کے تہائی حصے پر مشتمل تھا، ان ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنے اندرونی معاملات میں مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ برطانوی راج میں ان ریاستوں کی اہمیت و حیثیت معاہدوں کی بنیاد پر طے کی گئی تھی نیز بندوقوں اور توپوں کی سلامی کا نظام قائم تھا جس میں بندوقوں اور توپوں کی تعداد سے ریاست کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ سنہ 1947ء میں برطانوی پارلیمان میں منظور ہونے والے قانون آزادی ہند کے تحت برطانیہ نے ہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کر کے انھیں آزادی دی اور اپنا تسلط ختم کر دیا اور ان نوابی ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں ضم ہونے یا آزاد رہنے کا اختیار دیا گیا۔[4] سنہ 47 کے اختتام تک بیشتر ریاستوں نے بھارت یا پاکستان میں انضام کا فیصلہ کر لیا اور انضمام کے دستاویزوں پر دستخط کر دیے، تاہم کچھ ریاستوں نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا جن میں تراونکور، بھوپال اور جودھپور نے مذاکرات کے بعد انضمام کا فیصلہ کر لیا۔ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے میں بھارت کے پہلے وزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل اور وی پی مینن کا اہم کردار تھا۔ تاہم تین ریاستیں کشمیر، حیدرآباد اور جوناگڑھ نے الحاق کو قبول نہیں کیا، چنانچہ ان ریاستوں کو فوجی کارروائی کے ذریعہ بھارت میں ضم کیا گیا۔
انضمام کے بعد یہ ریاستیں اپنی حفاظت، نظام مواصلات اور امور خارجہ کو حکومت ہند کو سونپنے کی پابند تھیں جس کے بعد ان ریاستوں کا انتظام بھی تقریباً برطانوی عہد حکومت ہی کی طرح تھا۔ سنہ 1949ء کے بعد ان ریاستوں کو آئینی نظام حکومت میں مکمل ضم اور اسی کے ساتھ سابق حکمرانوں کے شاہی خطاب اور القاب کو سرکاری درجہ دیا گیا۔ نیز ان سابق حکمرانوں کے لیے ایک خاص بھتے کی منظوری دی گئی۔ 1947ء میں شاہی خاندانوں کو اپنی ریاستی جائداد رکھنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن 1949ء میں اس اجازت کو منسوخ کر کے ان ریاستی جائدادوں کو حکومت ہند نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ بعد ازاں سنہ 1971ء میں آئین ہند کی چھبیسویں ترمیم کے تحت سابق حکمرانوں اور ان کے جانشینوں کو دیا جانے والا صرف خاص بھی پارلیمان میں منظور کر کے ختم کر دیا گیا۔
صرف خاص کی قیمتیں
ترمیمصرف خاص کی رقم کا تعین متعدد امور کو سامنے رکھ کر کیا جاتا تھا۔ مثلاً ریاست کی آمدنی، توپوں کی سلامی کی تعداد، ریاست کی تاریخی اہمیت وغیرہ۔ عموماً صرف خاص کی رقم 5،000 روپے سالانہ سے لاکھوں روپے تک تھی۔ 562 ریاستوں میں سے 102 ریاستیں ایسی تھیں جنہیں ایک لاکھ سے زائد صرف خاص ملتا تھا۔ جبکہ 6 ریاستیں حیدرآباد، میسور، تراونكور، بڑودا، جے پور اور پٹیالہ ایسی تھیں جنہیں دس لاکھ سے زائد رقم ملتی تھی۔ ان کے علاوہ متعدد چھوٹی جاگيروں کو ریاستوں کی طرف سے محض حقیر مراعات ملتی تھیں۔ ریاست حیدرآباد جسے ابتدا میں 4,285,714 روپے دیے جاتے تھے، کچھ ہی برسوں میں کم کر کے بیس لاکھ کر دیے گئے۔ نیز عموماً حکومت ہند جانشینوں کو صرف خاص کے لیے کم رقم دیا کرتی تھی جو کچھ برسوں بعد بالکل ختم کر دی گئی۔[5]
ریاست کا نام | صرف خاص کی رقم (روپے میں) | دیگر تفصیلات |
---|---|---|
میسور | 26,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
حیدرآباد | 20,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1967ء) |
تراونکود | 18,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
جے پور | 18,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
پٹیالہ | 17,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
بڑودا | 13,64,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1951) |
ادے پور (میواڑ) | 10,00,000 | |
کشمیر | 10,00,000 | |
کولہاپور | 10,00,000 | |
گوالیار | 10,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1961) |
جودھپور | 10,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1952) |
نوانگر | 10,00,000 | |
بیکانیر | 10,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1950) |
بھاؤنگر | 10,00,000 | |
ریوا | 10,00,000 | |
کچھ | 8,00,000 | |
گونڈال | 8,00,000 | |
موروی | 8,00,000 | |
کچ بہار | 7,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
کوٹا | 7,00,000 | |
رامپور | 6,60,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1966) |
بھوپال | 6,20,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1960) |
الور | 5,20,000 | |
بھرت پور | 5,02,000 | |
اندور (ہولکر ریاست) | 5,00,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1961) |
نابھا | 4,10,000 | |
راج پیپلا | 3,97,946 | |
فریدکوٹ | 3,81,400 | |
دھرنگ دھرا | 3,80,000 | |
پوربندر | 3,80,000 | |
تریپورا | 3,30,000 | |
ایڈر | 3,28,000 | |
جند | 3,28,100 | |
مئ یُور بھَنْج | 3,27,400 | |
تِہْڑی-گرھوال ریاست | 3,00,000 | |
دھار | 2,90,000 | |
راج کوٹ | 2,85,000 | |
بوندی | 2,81,000 | |
وارانسی (بنارس) | 2,80,000 | |
کوریا | 2,78,700 | |
ٹونک | 2,78,00 | |
پالن پور | 2,75,000 | |
کپورتھلا | 2,70,000 | |
پُدُکّوٹّئی (پُڑُکّوٹّئی) | 2,66,500 | |
دھَول پور | 2,64,000 | |
منی پور | 2,54,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (1955) |
پٹنہ | 2,49,600 | |
کوچی | 2,35,000 | |
سانگلی | 2,32,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1965) |
لمبڑی | 2,30,000 | |
بریا | 2,25,000 | |
منڈی | 2,20,000 | |
چھوٹا ادے پور | 2,12,000 | |
سروہی | 2,12,600 | |
ڈُنگ پور | 1,98,000 | |
اورچھا (بہ وائے مجہول) | 1,85,300 | |
جیسلمیر | 1,80,000 | |
دیواس کنِشٹھ (بہ یائے مجہول) | 1,80,000 | |
پلیٹانا | 1,80,000 | |
وانکانیر | 1,80,000 | |
جاورا | 1,75,000 | |
رائے گڑھ | 1,72,600 | |
بنسدا | 1,60,000 | |
دتیا | 1,54,300 | |
جس دان | 1,50,000 | |
دھرم پور | 1,50,000 | |
بستر | 1,50,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1961) |
رتلام | 1,50,000 | |
پنّا | 1,47,300 | |
وادھون | 1,46,915 | |
سرگوجا | 1,45,300 | |
دیواس ورِشٹھ (یہ یائے مجہول) | 1,45,000 | |
بروانی | 1,45,000 | |
کیونجھار | 1,41,500 | |
پھالٹن | 1,40,442 | |
راج گڑھ | 1,40,000 | |
جنجیرہ | 1,39,580 | |
کھمبات | 1,38,000 | |
چمبا | 1,38,000 | |
کشن گڑھ | 1,36,000 | |
جھالاواڑ | 1,36,000 | |
گنگ پور | 1,35,100 | |
لُناودا | 1,31,000 | |
رادھن پور | 1,29,000 | |
جھابؤا | 1,27,000 | |
بانس واڑا | 1,26,000 | |
جَوہار | 1,24,000 | |
جیت پور | 1,21,536 | |
نرسنگھ گڑھ | 1,15,000 | |
کالا ہانڈی | 1,14,000 | |
سنت | 1,12,000 | |
مالیر کوٹلہ | 1,10,000 | |
دھرول (بہ وائے مجہول) | 1,10,000 | |
ساونت واڑی | 1,07,500 | |
کرولی | 1,05,000 | |
خیر گڑھ | 1,02,300 | |
پرتاپ گڑھ | 1,02,000 | |
جُبّال | 1,01,000 | |
چھترپور | 1,00,350 | |
بلکھا | 1,00,000 | |
تھانہ دیولی | 1,00,000 | |
چَرکھاری | 95,900 | |
بامرا | 95,300 | |
علی راج پور | 95,000 | |
دانتا | 92,000 | |
جام کھنڈی | 91,163 | |
لکھتر | 91,000 | |
سندور | 90,000 | |
شاہ پورا | 90,000 | |
ڈھینکانال (بہ یائے مجہول) | 89,700 | |
بھور | 89,042 | |
سیرئی کیلا | 88,900 | |
والا | 88,750 | |
واگھٹ | 80,000 | (ایک اندازے کے مطابق 18,000) |
بشہر | 80,000 | |
وادیا | 78,250 | |
لاٹھی | 77,500 | |
سونپور | 76,700 | |
اوندھ | 75,212 | |
اجے گڑھ | 74,700 | |
بیجاور | 70,700 | |
جنبو گھوڑا | 70,000 | |
بلاسپور | 70,000 | |
سیلانا | 70,000 | |
کانکیر | 68,700 | |
بالاسینور | 68,000 | |
کوٹڈا سنگانی (بہ وائے مجہول) | 67,000 | |
جشپور | 66,300 | |
باجنا | 65,500 | |
کوردھا | 63,800 | |
سارن گڑھ | 63,600 | |
نیا گڑھ | 62,800 | |
تال چیر | 62,500 | |
سائیلا | 62,500 | |
کلسیا | 60,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1961) |
کوروائی (پہلا واؤ، وائے مجہول) | 60,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
کھلچی پور | 60,000 | |
نالا گڑھ | 60,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
سوکیت | 60,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
مئی ہر | 56,500 | |
ساگوڑ | 55,400 | |
موڈھول | 55,300 | |
بتگان پلی | 53,900 | |
تھارڈ | 53,400 | |
مولی | 53,000 | |
بونائی | 52,800 | |
سمتھر | 51,800 | |
چوڑا | 51,250 | |
مِراج (کنِشٹھ) | 50,454 | |
ادے پور (چھتیس گڑھ) | 50,000 | |
لوہارو | 50,000 | |
وجے نگر | 50,000 | |
کُرُندواد ورِشٹھ | 49,924 | |
جاٹھ | 49,924 | |
کُرُندواد کنِشْٹھ 1 | 49,270 | |
کُرُندواد کنِشْٹھ 2 | 49,270 | |
پٹودی | 48,000 | |
واؤ | 48,200 | |
سیتا مئو | 48,000 | |
ملیا | 47,500 | |
باؤنی | 46,850 | |
بھدرواہ | 46,460 | |
ویرپور | 44,500 | |
منسا | 41,200 | |
مالپور | 40,600 | |
نیلگری | 40,000 | |
کیونتھال | 39,700 | |
سنجیلی | 38,900 | |
رام درگ | 38,818 | |
وانود (ونود) | 38,430 | |
بروالا | 36,510 | |
اتھ گڑھ | 36,100 | |
کشل گڑھ | 34,775 | |
واساود | 34,400 | |
دوجنا | 34,000 | |
جیناباد | 33,800 | |
کھنڈپاڑا | 33,600 | |
دس پلا | 33,500 | |
کھارساون | 33,000 | |
جوبت | 32,500 | |
کاٹھی واڑا | 32,000 | |
ہندول | 32,000 | |
ساوانور | 30,316 | |
کھِرسرا | 30,000 | |
پیپلودا | 30,000 | |
سُرگنا | 30,000 | |
رائے راکھول | 29,700 | |
سکتی | 29,000 | |
گھوداسر | 28,420 | |
سودسنا | 28,200 | |
علی پورہ | 28,150 | |
نرسنگھ پور | 28,100 | |
کوٹی | 27,250 | |
سوہاول | 25,900 | |
پال لہارا | 25,000 | |
مکرائی | 25,000 | |
رنپور | 25,000 | |
امبلیارا | 24,500 | |
وتھل گڑھ | 23,220 | |
بارمبا | 22,700 | |
موہن پور | 20,700 | |
چھوئی کھدان | 20,300 | |
تھی اوگ | 20,000 | |
نم کھیڑا | 20,000 | |
پٹ دی | 20,000 | |
بل سان | 20,000 | |
مانڈوا | 19,920 | |
جفراباد | 19,310 | |
اومیٹا | 19,200 | |
ساتھمبا | 19,130 | |
باگھل | 18,700 | |
پاٹھری | 18,250 | |
سریلا | 18,250 | |
ٹھاروچ | 18,100 | |
چنگ بھاکر | 17,300 | |
رَناسن (ریہواڑ) | 17,100 | |
مہلوگ | 16,500 | |
جلیا دیوانی | 16,135 | |
بھجّی | 16,000 | |
دھمی | 15,760 | |
لودھیکا | 15,690 | |
کھنیادانا | 15,600 | |
کوٹھی | 15,400 | |
واسنا | 15,100 | |
گوری ہر | 15,000 | |
نمرانا | 15,000 | |
کمھار سائیں | 14,500 | |
کھدل | 14,500 | |
برَوندھا | 14,500 | |
ولاسنا | 14,200 | |
لوا | 12,500 | |
ورسودا | 12,500 | |
کٹوسان | 12,100 | |
جامنیا | 12,000 | |
ایلول | 11,700 | |
ٹیگیریا | 11,200 | |
پال دیو | 10,400 | |
لوگاسی | 10,100 | |
گرولی | 10,050 | |
جسو | 8,600 | |
پندرا | 8,100 | |
بیری | 7,750 | |
مگوڑی | 7,370 | |
ٹوڑی فتحپور | 7,000 | |
متھوار | 6,000 | |
وادی جاگیر | 6,000 | |
جگنی | 5,950 | |
تاراؤں | 5,850 | |
بیہت | 5,600 | |
بھے سوندا | 5,600 | |
پاہرا | 5,300 | |
مادھن | 5,200 | |
کامتا رجولا | 5,000 | |
دھوروئی | 5,000 | |
نئی گاون ریبائی (بہ یائے مجہول) | 5,000 | |
راج گڑھ (بھوپاور) | 5,000 | |
وکھت پور | 4,700 | |
کانیٹھی | 4,400 | |
گُھنڈ | 4,200 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
سانگری | 3,600 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1965) |
کونیہار | 3,600 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1964) |
لیکھی | 3,540 | |
پلاج | 3,500 | |
ہاپا | 3,430 | |
تاجپوری | 3,000 | |
بانکا پہاڑی | 3,000 | |
بیجنا | 3,000 | |
راتیش | 3,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
راوِن گڑھ | 3,000 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں |
دیدھروٹا (ی اور واؤ مجہول) | 2,760 | |
ڈیلٹاہ | 2,400 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1949) |
دارکوٹی | 2,400 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ1953) |
دھادی | 2,400 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1952) |
بیجا | 2,400 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1950) |
منگل | 2,400 | جانشینوں کو صرف خاص نہیں (سنہ 1946) |
کٹھودیا | 192 |
صرف خاص کا اختتام
ترمیمنوآزاد بھارت میں صرف خاص کے متعلق عموماً منفی رائے تھی، نیز اس وقت کے بھارت کے اقتصادی حالات کے پیش نظر اس نظام کو بھارتی معیشت پر بوجھ تصور کیا جاتا تھا۔ مزید ان سابق حکمرانوں کے شاہی خطاب اور القاب کو بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری خیال کیا گیا۔ چنانچہ خصوصی مراعات اور صرف خاص کو ختم کرنے کی تجویز پارلیمان میں سب سے پہلے 1969ء میں پیش کی گئی۔ لیکن اس وقت راجیہ سبھا میں محض ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے یہ تجویز منظور نہیں ہوئی، 149 ووٹ اس کی تائید میں جبکہ 75 ووٹ اس کے خلاف تھے۔[6] سنہ 1971ء میں اس تجویز کو دوبارہ پیش کیا گیا اور اس وقت آئین ہند کی چھبیسویں ترمیم کے تحت اسے منظور کر لیا گیا۔[3] اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھارت کے تمام شہریوں کے یکساں حقوق اور حکومت کے میزانیہ کو کم کرنے کی ضرورت کے پیش نظر اس معاملہ پر خصوصی توجہ کی۔ چنانچہ آئین ہند کی اس ترمیم کے بعد صرف خاص کے نظام کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور ہندوستان میں صدیوں سے چلی آ رہی بادشاہت کے آخری آثار بھی ختم ہو گئے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد کئی شاہی خاندانوں نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے عدالتوں میں عرضیاں داخل کیں لیکن ان کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ سنہ 1971ء میں شاہی خاندانوں کے بہت سے افراد انتخابات میں کھڑے ہوئے لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔[7][8]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Latest Patna News 03/11/2014: Hindi News: नीतीश को प्रिवी-पर्स, बागी विधायकों को कुछ नहीं | पटना समाचार - दैनिक भास्कर हिंदी न्यूज़
- ↑ "BBC Hindi | भारतीय अर्थव्यवस्था के उतार चढ़ाव"۔ 28 اپریل 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2016
- ^ ا ب "Twenty Sixth Amendment"۔ Indiacode.nic.in۔ 28 دسمبر 1971۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2011
- ↑ اشتیاق احمد (سیاسی سائنسدان)، State, Nation and Ethnicity in Contemporary South Asia (London & New York, 1998)، p. 99
- ↑ "Maharaja" by Jarmani Dass, page 424-435
- ↑ "H. H. Maharajadhiraja Madhav Rao vs Union of India on 15 December, 1970"۔ Indian Kanoon۔ صفحہ: See para 44۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2012۔
The Bill was voted upon in the Lok Sabha on September 2, 1970. 332 votes for and 154 votes against it, were cast. It was considered in the Rajya Sabha ,on September 5, 1970, and was defeated, 149 voting for and 75 against it. It failed in the Rajya Sabha to reach the requisite majority of not less than two-thirds of the members present and voting.
- ↑ "India's privy purses and the Cyprus deal"۔ 05 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اگست 2016
- ↑ How fair were the Privy Purses? - IN SCHOOL - The Hindu
بیرونی روابط
ترمیم- نوابی ریاستوں کے صرف خاص پر ایک ویب گاہآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uqconnect.net (Error: unknown archive URL)