جگت گوسائیں

مغل ملکہ اور مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی زوجہ، مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی والدہ

جگت گوسائیں یا بلقیس مکانی (پیدائش: 13 مئی 1573ء— وفات: 19 اپریل 1619ء) مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی بیوی اور مغل ہندوستان کی ملکہ تھی۔ جگت گوسائیں کا بیٹا شاہ جہاں تھا۔

جگت گوسائیں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 23 مئی 1573ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جودھ پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 اپریل 1619ء (46 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن سہاگ پور   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات نورالدین جہانگیر   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد شہاب الدین شاہ جہاں اول   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد راجہ ادھے سنگھ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ملکہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
3 نومبر 1605  – 19 اپریل 1619 

سوانح

ترمیم

جگت گوسائیں کی پیدائش 13 مئی 1573ء کو جودھ پور میں ہوئی۔ مغل تواریخ میں جگت گوسائیں کو عموماً جودھ پوری شاہزادی کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔جگت گوسائیں کا باپ راجہ ادھے سنگھ تھا جو موٹا راجا بھی کہلاتا تھا۔ ماں رانی من رنگ دیوی تھی جو گوالیار کے راجا اسکاران کی بیٹی تھی۔ راجا اسکاران راجہ بہاری مل کی حمایت سے امبر کا بھی راجا تسلیم کیا جاتا تھا۔ جگت گوسائیں کا دادا راجہ راؤ مال دیو راٹھور تھا جس نے بحیثیت راجا مارواڑ 1532ء سے 1562ء تک حکومت کی۔

مغل دربار میں مقام

ترمیم

٭مزید پڑھیں: جلال الدین اکبر، مارواڑ، راجہ ادھے سنگھ، نورالدین جہانگیر، شاہ جہاں مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد میں مارواڑ سے خوشگوار تعلقات اُستوار ہوئے۔ راجہ ادھے سنگھ کی خواہش پر شہنشاہ اکبر نے جگت گوسائیں کی نسبت نورالدین جہانگیر سے 26 جون 1586ء کو کردی گئی۔ ابتداً یہ سیاسی مصلحت کے تحت سر انجام پانے والی پہلی شادی تھی جو کسی غیر مسلم شاہزادی کی کسی مسلم شاہزادے کے ساتھ طے پائی۔ [1] 21 جنوری 1590ء کو فتح پور سیکری میں رخصتی عمل میں آئی۔ 1590ء میں جگت گوسائیں کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام بیگم سلطان رکھا گیا مگر وہ محض ایک سال کی عمر میں ہی انتقال کرگئی۔[2] 5 جنوری 1592ء کو نورالدین جہانگیر کا تیسرا بیٹا خرم پیدا ہوا جسے تاریخ میں شاہ جہاں کے نام سے پکارا گیا۔ خرم کی پیدائش کے بعد جگت گوسائیں کو تاج بی بی کا لقب شہنشاہ اکبر کی جانب سے تفویض ہوا۔[3] ابھی خرم محض چھ دن کا تھا کہ اُسے شہنشاہ اکبر کے حکم سے رقیہ سلطان بیگم کی تحویل میں دے دیا گیا تاکہ وہ خرم کی پرورش کرسکیں۔[4][5][6] اِس موقع پر شہنشاہ اکبر نے جگت گوسائیں کو رسم خوشی میں یاقوت اور موتیوں جیسے جواہرات عنایت کیے۔[7] 1597ء میں جگت گوسائیں سے جہانگیر کی آخری اولاد عزت النساء بیگم پیدا ہوئی جو بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔[8]

مغل دربار میں مقام میں کمی

ترمیم

جگت گوسائیں اپنے شوہر جہانگیر کے ابتدائی عہد میں بہت جلد اپنی حیثیت و وَقار کو زائل کربیٹھی جب مغل دربار میں ملکہ نورجہاں کی آمد ہوئی۔ جہانگیر نے 25 مئی 1611ء کو ملکہ نورجہاں سے شادی کرلی اور اُس کی آمد سے دربار میں جگت گوسائیں کا رتبہ کمزور پڑ گیا۔ملکہ نورجہاں جہانگیر کی چہیتی بیوی اور بااِقتدار ملکہ بن کر ثابت ہوئی۔[9][10] حالانکہ اِس سے قبل پادشاہ بیگم کا خطاب صالحہ بانو بیگم کے پاس تھا جو شہنشاہ جہانگیر کی بیوی تھیں، لیکن جب نورجہاں بحیثیت مغل ملکہ تسلیم کرلی گئی تو صالحہ بانو بیگم کا اقتدار محل شاہی سے کم ہوتا گیا اور 10 جون 1620ء کو صالحہ بانو بیگم کی وفات پر نورجہاں مغل سلطنت کی مطلق العنان ملکہ بن گئی اور پادشاہ بیگم کے اعزازی لقب اب نورجہاں کو تفویض ہوا۔ [11]

وفات

ترمیم

19 اپریل 1619ء کو جگت گوسائیں کا 45 سال کی عمر میں اکبرآباد کے ایک نواحی علاقے سہاگپور میں انتقال ہوا۔[12] تدفین سہاگپور میں کی گئی۔[13] شہنشاہ جہانگیر نے اُس کی وفات کا تذکرہ اپنی خودنوشت تزک جہانگیری میں کیا ہے اور حکم دیا گیا کہ جگت گوسائیں کو بلقیس مکانی کے لقب سے یاد رکھا جائے[14] اور تمام سرکاری کاغذات و دَستاویزات میں یہی نام درج کیا جائے۔[15] بعد ازاں اُس کی قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ 1832ء میں جب آگرہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں آگیا تو انگریزی فوجیوں نے بارود اِس مقبرے میں بھردی جس کی ضرورت سقوطِ آگرہ کے وقت پیش آئی۔[16]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Findly, p. 124
  2. Shireen Moosvi (2008)۔ People, taxation, and trade in Mughal India۔ Oxford: Oxford University Press۔ صفحہ: 114۔ ISBN 9780195693157 
  3. Findly, p. 125
  4. S. M. Burke (1989)۔ Akbar, the greatest Mogul۔ Munshiram Manoharlal Publishers۔ صفحہ: 142 
  5. Jahangir, Emperor of Hindustan (1999)۔ The Jahangirnama: Memoirs of Jahangir, Emperor of India۔ ترجمہ بقلم Wheeler M. Thackston۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 437۔ ISBN 978-0-19-512718-8۔ Ruqayya-Sultan Begam, the daughter of Mirza Hindal and wife of His Majesty Arsh-Ashyani [Akbar], had passed away in Akbarabad. She was His Majesty's chief wife. Since she did not have children, when Shahjahan was born His Majesty Arsh-Ashyani entrusted that "unique pearl of the caliphate" to the begam's care, and she undertook to raise the prince. She departed this life at the age of eighty-four. 
  6. Munis D. Faruqui (2012)۔ Princes of the Mughal Empire, 1504–1719۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 71۔ ISBN 978-1-107-02217-1 
  7. Diana، Michael Preston (2008)۔ A teardrop on the cheek of time : the story of the Taj Mahal۔ London: Corgi۔ ISBN 0552154156۔ The Hindu Jodh Bai was consoled with a magnificent gift of rubies and pearls 
  8. Shireen Moosvi (2008)۔ People, taxation, and trade in Mughal India۔ Oxford: Oxford University Press۔ صفحہ: 114۔ ISBN 9780195693157 
  9. Findly, p. 49
  10. Findly, p. 126
  11. Findly, p. 125
  12. transl.، ed.,، annot. by Wheeler M. Thackston (1999)۔ The Jahangirnama : memoirs of Jahangir, Emperor of India۔ New York [u.a.]: Oxford Univ. Press۔ صفحہ: 300۔ ISBN 9780195127188 
  13. Ashirbadi Lal Srivastava (1973)۔ Society and culture in 16th century India۔ Shiva Lal Agarwala۔ صفحہ: 293 
  14. Findly, p. 94
  15. Findly, p. 162
  16. R. Nath (1989)۔ Histographical Study of Indo-Muslim Study: Medieval Architecture of India and Pakistan۔ Historical Research Documentation Programme۔ صفحہ: 10۔ ISBN 978-8-185-10510-9