ثابت بن قیس
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ(وفات: 12ھ) بن شماس انصاری، غزوہ بدر میں شامل صحابی ان کی کنیت ابو محمد ہے۔
خطیب النبی لقب تھا۔ اور کاتب وحی بھی تھے۔آپ مدینہ منورہ کے انصاری ہیں اور خاندان بنی خزرج سے ان کا نسبی تعلق ہے۔ اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہرست میں ان کا نام نامی بہت ہی مشہور ہے ۔ آپ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خطیب تھے اور ان کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے بہترین زندگی پھر شہادت پھر جنت کی بشارت دی تھی ۔ 12ھ میں جنگ یمامہ کے دن مسیلمہ کذاب کی فوجوں سے جنگ کرتے ہوئے شہادت سے سربلند ہو گئے۔[1]
ثابت بن قیس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
پیشہ | محدث |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | مہمات نبوی کی فہرست ، غزوہ احد ، غزوہ خیبر ، غزوہ خندق |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمثابت نام، ابو محمد کنیت، قبیلۂ خزرج سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، ثابت بن قیس بن شماس بن زہیر بن مالک بن امرء القیسؓ بن مالک اغر بن نعلبہ بن کعب بن خزرج، خطیب رسول اللہ لقب، کاتب وحی تھے۔ والدہ کا نام ہند طائیہ تھا، بس اتنا ہی معلوم ہے کہ خاندان طے سے تھیں۔ [2]
اسلام
ترمیمحضرت قیس بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت سے قبل مسلمان ہوئے۔
غزوات اور دیگر حالات
ترمیمآنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو خیر مقدم کے لیے تمام شہر امنڈ آیا تھا، اس موقع پر حضرت ثابت نے جو خطبہ دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا: نمنعك مما نمنع منه أنفسنا وأولادنا فما لنا قال الجنة قالوا: رضينا[3] یعنی ہم آپ کی ہر اس چیز کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ہم کو اس کا معاوضہ کیا ملے گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا "جنت" تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ "ہم سب راضی ہیں"
غزوۂ بدر میں شریک تھے، اصحاب ِمغازی نے اگرچہ ان کو اصحاب بدر کے زمرہ میں شامل نہیں کیا ہے، لیکن علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں یہی رائے ظاہر کی ہے ،[4] باقی غزوات کی شرکت پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔
غزوہ مریسیع 5ھ میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ام المومنین اسیر ہوکر حضرت ثابتؓ اور ان کے ابن عم کے حصہ میں آئی تھیں، انھوں نے 19 اوقیہ سونے پر مکاتب بنایا، حضرت جویریہؓ نے آنحضرت ﷺ سے مدد طلب کی، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رقم مذکور ادا کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے غلامی سے نجات دی اور اپنے عقد میں لے لیا۔
9ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا اور بدویانہ طریقہ پر آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہر نکلو، آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعد عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبہ سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت ثابت کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو،حضرت ثابتؓ بن قیس نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے۔
اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا،آنحضرت ﷺ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو لے کر اس کے پاس گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمھاری اتباع کرتا ہوں،آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کرسکتا، خدا نے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہے گا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو تو ثابت موجود ہیں ان سے پوچھ اب میں جاتا ہوں۔
11ھ میں آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو انصار سعد بنؓ عبادہ کو خلیفہ بنانے کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ،حضرت ابوبکرؓ صدیق کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو لے کر پہنچے، اس موقع پر حضرت ثابت ؓ نے جو خطبہ دیا وہ حسب ذیل تھا۔
أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ[5] یعنی ہم خدا کے مدد گار اور اسلام کی فوج ہیں اور مہاجرین معدودے چند ہیں، تعجب ہے کہ اس پر بھی کچھ لوگ ہم کو خلافت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ صدیق نے جواب دیا کہ تم نے جو کچھ کہا بالکل صحیح ہے، لیکن قریش کے سوا دوسرا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔
اسی سنہ میں طلیحہ بن خویلد پر فوج کشی ہوئی، حضرت خالدؓ بن ولید اس مہم کے افسر تھے، انصار حضرت ثابؓت بن قیس کی ماتحتی میں تھے۔[6] [7]
کاتب وحی
ترمیمآپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سید الناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ [8] [9]
غزوات میں شرکت
ترمیمغزوۂ بدر سمیت باقی غزوات کی شرکت پر تمام ائمہ فن کا اتفاق ہے۔
حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو خیر مقدم کے لیے تمام شہر امنڈ آیا تھا، اس موقع پر ثابت نے جو خطبہ دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا: نمنعك مما نمنع منہ أنفسنا وأولادنا فما لنا قال الجنة قالوا: رضينا[10] یعنی ہم آپ کی ہر اس چیز کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ہم کو اس کا معاوضہ کیا ملے گا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا "جنت" تو تمام مجمع پکار اٹھا کہ "ہم سب راضی ہیں"
غزوہ مریسیع 5ھ میں ام المومنین جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسیر ہوکر ثابت اور ان کے ابن عم کے حصہ میں آئی تھیں، انھوں نے 9 اوقیہ سونے پر مکاتب بنایا، جویریہ نے آنحضرت ﷺ سے مدد طلب کی، آپ ﷺ نے رقم مذکور ادا کرکے ان کو ہمیشہ کے لیے غلامی سے نجات دی اور اپنے عقد میں لے لیا۔
خطیب اسلام
ترمیم9ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا اور بدویانہ طریقہ پر آنحضرت ﷺ کے دروازے پر آکر آواز دی کہ باہر نکلو، آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو بات چیت کے بعد عطار بن حاجب کو کھڑا کیا کہ تمیم کے رتبہ سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کرے ،عطار اس قبیلہ کا مشہور خطیب تھا، اس کی تقریر ختم ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ثابت کو حکم دیا کہ تم اس کا جواب دو، ثابتؓ نے اس فصاحت و بلاغت سے جواب دیا کہ اقرع بن حابس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بول اٹھا کہ اپنے باپ کی قسم ان کا خطیب ہمارے خطیب سے بہتر ہے۔
اسی سال مسیلمہ کذاب، بنو حنیفہ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مدینہ آیا، آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ثابت بن قیس کو لے کر اس کے پاس گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، مسیلمہ نے کہا کہ اگر اپنے بعد مجھ کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کرو تو ابھی تمھاری اتباع کرتا ہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھ کو یہ چھڑی دینا بھی گوارا نہیں کر سکتا، خدا نے تیری نسبت جو فیصلہ کیا ہے وہ ہوکر رہے گا میں تیرے انجام کو خواب میں دیکھ چکا ہوں اور زیادہ گفتگو کی ضرورت ہو تو ثابت موجود ہیں ان سے پوچھ اب میں جاتا ہوں۔
جب وہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو رسول اللہ کے سامنے اونچا بولنے سے منع کیا گیا ہے تو حضرت ثابت کو فکر دامن گیر ہوئی۔ وہ اپنے گھر میں سر جھکا کر بیٹھ رہے۔ لوگوں نے پوچھا تو فرمایا کہ مجھے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ اس باعث مجھے ضرور جہنم میں جانا پڑے گا۔ رسول اللہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم ثابت جہنمی نہیں بلکہ میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ [11]
وفات
ترمیم12ھ میں مسیلمہ کذاب سے مقابلہ ہوا، ثابت اس میں شریک تھے مسلمانوں کو شکست ہوئی، تو انس نے آکر کہا چچا! آپ نے دیکھا وہ خوشبو مل رہے تھے، بولے کہ یہ لڑنے کا طریقہ نہیں ہے، لوگ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں اس طرح نہیں لڑتے تھے اس کے بعد اٹھے اور خندق کھود کر نہایت پامردی سے لڑے اور آخر شہادت حاصل کی۔ بدن پر زرہ نہایت عمدہ تھی ایک مسلمان نے اتارلی، ایک دوسرے مسلمان نے خواب میں دیکھا کہ ثابت ان سے کہہ رہے ہیں، فلاں مسلمان میری زرہ اتارلی ہے تم خالد سے کہو کہ اس سے وصول کر لیں اور مدینہ پہنچ کر حضرت ابوبکر صدیق سے کہنا کہ ثابت پر اتنا قرض تھا وہ اس زرہ سے ادا کریں اور میرا فلاں غلام آزاد کر دیں، خالد نے زرہ لے لی اور ابوبکر صدیق نے اس وصیت پر عمل کیا۔[12]
اہل و عیال
ترمیمعبد اللہ اور اسمعیل، بیوی کا نام جمیلہ تھا جو عبد اللہ بن ابی بن سلول سردار خزرج کی بیٹی تھیں۔[13] دو بیٹے قیس اور اسماعیل تھے اور ایک بیٹا محمد بھی تھا جو حضرت علی کا ساتھی تھا اور واقعہ حرہ میں شہید ہوا۔ [14]
فضل و کمال
ترمیمبخاری میں ان سے ایک روایت منقول ہے اور بھی چند حدیثیں ہیں جن کو حضرت انسؓ بن مالک، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، محمد بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے۔ حضرت ثابتؓ نہایت فصیح البیان اور زبان آور تھے، انصار نے اسی بنا پر ان کو اپنا خطیب بنایا تھا، آنحضرت ﷺ نے بھی دربار نبوت کا ان ہی کو خطیب تجویز فرمایا۔ [15][16]
اخلاق
ترمیماحترام نبوت ان کی سیرت کا جلی عنوان ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو موجود نہ پاکر فرمایا، کوئی ثابت کی خبر لاتا، ایک شخص نے کہا میں جاتا ہوں گھر میں جا کر دیکھا تو سر نیچے کیے بیٹھے تھے، پوچھا کیا ہے؟ کہا کیا بتاؤں بہت برا حال ہے، میری آواز تیز ہے، آنحضرت ﷺ کے سامنے چلا کر بولتا تھا، اب میرا سارا عمل باطل ہو گیا اور جہنمی ہو گیا ہوں (یہ اس آیت کی طرف اشارہ تھا جس میں آنحضرت ﷺ کے روبرو آہستہ بولنے کی ہدایت نازل ہوئی تھی) اس شخص نے آنحضرت ﷺ کو خبر کی، آپ ﷺ نے فرمایا ان سے جاکر کہو کہ تم جہنمی نہیں میں تم کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ [17] آنحضرت ﷺ کو ان سے جو محبت اور اُنس تھا، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک بار جب وہ بیمار پڑے تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم عیادت کو تشریف لے گئے اور ان کی ان الفاظ میں دعا کی۔ اذهب الباس رب الناس عن ثابت بن قيس بن شماس[18] [19]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ أبو نعيم الأصبهاني۔ معرفة الصحابة۔ دار الوطن۔ ج الأول۔ ص 464
- ↑ أسد الغابة في معرفة الصحابة - ثابت بن قيس آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ (الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب الثاء بعدھا الألف:1/131)
- ↑ (اصابہ:1/203)
- ↑ (بخاری، بَاب رَجْمِ الْحُبْلَى مِنْ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ، حدیث نمبر:6328)
- ↑ (طبری:4/1886)
- ↑ الجامع لأحكام القرآن» سورة الحجرات» قوله تعالى يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ البدایہ والنہایہ 5/341، طبقات بن سعد 1/82، عیون الاثر /315، تہذیب الکمال 4/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ 245، المصباح المضئی 19،
- ↑ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» ثابت بن قيس آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب الثاء بعدھا الألف:1/131
- ↑ المستدرك على الصحيحين» كتاب معرفة الصحابة رضي الله تعالى عنهم» مدح النبي بعض أصحابه بأسمائهم آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ اسد الغابہ ج 1 ص 333 حصہ اول دوم: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
- ↑ (طبقات :5/59)
- ↑ تهذيب الكمال للمزي» ثابت بن قيس بن شماس بن مالك بن امرئ القيس بن مالك آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "صحة قصة وصية ثابت بن قيس - خالد بن علي المشيقح"۔ ar.islamway.net (عربی میں)۔ 23 أبريل 2017 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-04-15
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاريخ أرشيف=
(معاونت) - ↑ "ثابت بن قيس ووصيته | ماكتيوبس وكيف أجيزت وصيته بعد موته"۔ ماكتيوبس (عربی میں)۔ 22 نومبر 2019۔ 2021-04-27 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-04-15
- ↑ (بخاری:718)
- ↑ (تہذیب التہذیب، باب من اسمہ ثابت:2/11)
- ↑ السنن الكبرى» كتاب الخلع والطلاق» باب الوجه الذي تحل به الفدية آرکائیو شدہ 2017-04-24 بذریعہ وے بیک مشین