ام المومنین جویریہ بنت حارث (پیدائش: 608ء –و فات: جنوری/فروری 676ء) کا اصل نام برہ تھا۔ غزوہ مریسیع (جسے غزوہ نبی مصطلق بھی کہتے ہیں جو شعبان (دسمبر 627ء) میں ہوا) میں قید ہوکر آئیں، ثابت ابن قیس کے حصہ میں آئیں انھیں نے آپ کو مکاتبہ کر دیا حضور انور نے آپ کا مال کتابت ادا کر دیا اور آپ سے نکاح کر لیا،آپ کی وفات ربیع الاول 56 ہجری میں ہوئی، 65 سال عمر پائی۔[2]

جویریہ بنت حارث
(عربی میں: جويرية بنت الحارث‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 608ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 اپریل 676ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر محمد بن عبداللہ (1 دسمبر 627–8 جون 632)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

نام و نسب

جویریہ نام، قبیلہ خزاعہ کے خاندان مصطلق سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے، جویریہ بنت حارث ابی ضرار بن حبیب بن عائد بن مالک بن جذیمہ (مصطلق) بن سعد بن عمرو بن ربیعہ بن حارثہ بن عمرو مزیقیاء۔

حارث بن ابی ضرار جویریہ کے والد بنو مصطلق کے سردار تھے۔[3]

جویریہ کا نام برہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر جویریہ رکھا کیونکہ اس میں بدفالی تھی۔[4]

نکاح

جویریہ کا پہلا نکاح اپنے ہی قبیلہ میں مسافع بن صفوان (ذی شفر) سے ہوا تھا۔

غزوہ مریسیع اور نکاح ثانی

جویریہ کا باپ اور شوہر مسافع دونوں دشمن اسلام تھے چنانچہ حارث نے قریش کو اشارے سے یا خود سے مدینے پر حملہ کی تیاریاں شروع کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو مزید تحقیقات کے لیے بریدہ بن حصیب اسلمی کو روانہ کیا، انھوں نے واپس آ کر خبر کی تصدیق کی آپ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا، 2 شعبان سنہ 5 ہجری کو فوجیں مدینہ سے روانہ ہوئیں اور مریسیع میں جو مدینہ منورہ سے نو منزل ہے پہنچ کر قیام کیا، لیکن حارث کو یہ خبریں پہلے سے پہنچ چکی تھیں، اس لیے اس کی جمعیت منتشر ہو گئی اور وہ خود بھی کسی طرف نکل گیا، لیکن مریسیع میں جو لوگ آباد تھے، انھوں نے صف آرائی کی اور دیر تک جم کر تیر برساتے رہے مسلمانوں نے دفعۃً ایک ساتھ حملہ کیا تو ان کے پاؤں اکھڑ گئے، 11 آدمی مارے گئے اور باقی گرفتار ہو گئے، جن کی تعداد تقریباً 600 تھی، مال غنیمت میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں ہاتھ آئیں۔ لڑائی میں جو لوگ گرفتار ہوئے۔ ان میں جویریہ بھی تھیں، ابن اسحاق کی روایت ہے جو بعض حدیث کی کتابوں میں بھی ہے کہ تمام اسیران جنگ لونڈی و غلام بنا کر تقسیم کر دیے گئے۔ جویریہ ثابت بن قیس کے حصہ میں آئیں۔ انھوں نے ثابت سے درخواست کی کہ مکاتبت کر لو یعنی مجھ سے کچھ روپیہ لے کر چھوڑ دو، ثابت نے 9 اوقیہ سونے پر منظور کیا جویریہ کے پاس روپیہ نہ تھا، چاہا کہ لوگوں سے روپیہ مانگ کر یہ رقم ادا کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آئیں، عائشہ بھی وہاں موجود تھیں۔ ابن اسحٰق نے عائشہ کی زبانی روایت کی ہے جو یقیناً ان کی ذاتی رائے ہے کہ چونکہ جویریہ نہایت شیریں ادا تھیں، میں نے ان کو آپ صلی اللہ علہ وسلم کے پاس جاتے دیکھا تو سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان کے حسن و جمال کا وہی اثر ہو گا جو مجھ پر ہوا۔ غرض وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ انھوں نے کہا وہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ "تمھاری طرف سے میں روپیہ ادا کر دیتا ہوں اور تم سے نکاح کر لیتا ہوں" جویریہ راضی ہو گئیں آپ نے تنہا وہ رقم ادا کر دی اور ان سے شادی کر لی۔

لیکن دوسری روایت میں اس سے زیادہ واضح بیان مذکور ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ جویریہ کا باپ (حارث) رئیس عرب تھا۔ جویریہ جب گرفتار ہوئیں، تو حارث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی، میری شان اس سے بالا تر ہے میں انے قبیلے کا سردار اور رئیس عرب ہوں آپ اس کو آزاد کر دیں، آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ جویریہ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے، حارث نے جا کر جویریہ نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تیری مرضی پر رکھا ہے دیکھنا مجھ کو رسوا نہ کرنا، انھوں نے کہا "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔ ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت کی ہے کہ جویریہ کے والد نے ان کا زرفدیہ کیا اور جب وہ آزاد ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔ جویریہ سے جب نکاح کیا تو تمام اسیران جنگ جو اہل فوج کے حصہ میں آ گئے تھے، دفعۃً رہا کر دیے گئے، فوج نے کہا جس خاندان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کر لی وہ غلام نہیں ہو سکتا،[5][6][7] عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی عورت کو جویریہ سے بڑھ کر اپنی قوم کے حق میں مبارک نہیں دیکھا، ان کے سبب سے بنو مصطلق کے سینکڑوں گھرانے آزاد کر دیے گئے۔[8]

حلیہ

جویریہ خوبصورت اور موزوں اندام تھیں، عائشہ کہتی ہیں، كَانَتْ جُوَيْرِيَةُ امْرَأَةً حُلْوَةً مُلاَّحَةً، لاَ يَرَاهَا أَحَدٌ إِلاَّ أَخَذَتْ بِنَفْسِهِ ترجمہ: شیریں اور تلخ (معتدل مزاج) عورت تھیں، انھیں کسی نے نہیں دیکھا سوائے ان کے محرم کے۔[9]

فضل وکمال

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کیں، ان سے حسب ذیل بزرگوں نے حدیث سنی ہے، ابن عباس، جابر، ابن عمر رضی اللہ عنہم، عبیدبن السباق، طفیل، ابوایوب مراغی، کلثوم، ابن مصطلق، عبد اللہ بن شداد بن الہاد، کریب۔

اخلاق

جویریہ زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں، ایکدن صبح کو مسجد میں دعا کر رہیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذرے اور دیکھتے ہوئے چلے گئے، دوپہر کے قریب آئے تب بھی ان کو اسی حالت میں پایا۔[10] جمعہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے تو روزہ سے تھیں، جویریہ سے دریافت کیا کہ کل روزہ سے تھیں؟ بولیں، "نہیں" فرمایا "تو کل رکھو گی؟" جواب ملا "نہیں" ارشاد ہوا "تو پھر تم کو افطار کر لینا چاہیے۔"[11] دوسری روایتوں میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے ان تین دنوں میں ایک دن جمعہ کا ضرور ہوتا تھا۔ اس لیے تنہا جمعہ کے دن ایک روزہ رکھنے میں علما کا اختلاف ہے، ائمہ حنفیہ کے نزدیک جائز ہے، امام مالک سے بھی جواز کی روایت ہے۔ بعض شافعیہ نے اس سے روکا ہے،۔[12] ابو یوسف کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جمعہ کے روزہ کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لیا جایا کرے[13] یہ بحث صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے متعلق ہے اور دنوں سے اس کا تعلق نہیں ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے مودت تھی۔ اور ان کے گھر آتے جاتے تھے ایک مرتبہ آکر پوچھا کہ "کچھ کھانے کو ہے؟" جواب ملا۔ "میری کنیز نے صدقہ کا گوشت دیا تھا وہی رکھا ہے اور اس کے سوا اور کچھ نہیں" فرمایا "اسے اٹھا لاؤ، کیونکہ صدقہ جس کو دیا گیا تھا اس کو پہنچ چکا۔"[14]

انتقال و مدفن

جویریہ نے 70 سال کی عمر میں ماہِ ربیع الاول 56ھ مطابق جنوری/ فروری 676ء میں وفات پائی۔[15][16] حسن صورت اور حسن سیرت دونوں میں یکتا تھیں۔ مدینہ منورہ کے گورنر مروان بن الحکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

روایت حدیث

آپ نے متعدد احادیث نبوی مروی ہیں جن میں سے 7 احادیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔[15] علاوہ ازیں امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ نے بھی مختلف دیگر اسناد سے آپ سے احادیث نبوی کو روایت کیا ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ^ ا ب عنوان : Джувайрия бинт Харис
  2. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد 6، صفحہ 594 نعیمی کتب خانہ گجرات
  3. طبقات ابن سعد ج2 ق1 ص45
  4. صحیح مسلم ج2 ص231
  5. سنن ابو داؤد کتاب العتاق ج2 ص105
  6. طبقات ابن سعد ج2 ق1 ص46
  7. صحیح مسلم ص61
  8. اسد الغابہ ج5 ص420
  9. اسد الغابہ ج5 ص420
  10. صحیح ترمذی ص590
  11. صحیح بخاری ج1 ص267
  12. فتح الباری جلد 4 صفحہ 204
  13. بذل المجہور جلد صفحہ 169
  14. صحیح مسلم ج1ص400
  15. ^ ا ب شمس الدین الذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 2، صفحہ 263۔ مطبوعہ بیروت، لبنان
  16. خلیفہ بن خیاط: تاریخ خلیفہ بن خیاط، صفحہ 224، تذکرہ سنہ 56ھ، مطبوعہ ریاض، 1985ء۔