حبیب احمد اعمیٰ
بہرائچ کی ایک اہم علمی شخصیت، جامعہ مسعودیہ نورا لعلوم کے متعلم اول اور قدیم استاذ، جید عالم دین مولانا حافظ حبیب احمداعمیٰ 5 جون 1915ء کو شہر بہرائچ کے مشہور محلہ گدڑی میں پیدا ہوئے تھے، ناظرہ قرآن کریم اور حفظ کلام اللہ کی تعلیم جامعہ مسعودیہ نورا لعلوم [1] کے قدیم ترین استاذحافظ عبد الخالق اور امام جامع مسجد بہرائچ الحاج حافظ عبد الحمید صاحب سے حاصل کی، بعدہٗ فارسی سے لے کر دورہ حدیث شریف تک جامعہ مسعودیہ نورا لعلوم ہی میں بانی جامعہ مولانا محفوظ الرحمن نامی، شیخ الحدیث مولانا سید حمید الدین، صدر المدرسین جامعہ مولانا محمدسلامت اللہ صاحبؒ وغیرہ سے اکتساب فیض کیا، 13 اکتوبر1938میں فارغ التحصیل ہو کر جامعہ مسعودیہ نورا لعلوم کے اولین فضلاء میں شامل ہوئے اور ’’حافظ اعمیٰ صاحب‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
حبیب احمد اعمیٰ | |
---|---|
پیدائش | حبیب احمد 5 جون 1915ء محلہ گڈری شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان |
وفات | 30 جون 2001 |
مدفن | قبرستان عیدگاہبہرائچاتر پردیش ہندوستان |
رہائش | محلہ گڈری شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان |
اسمائے دیگر | حافظ اعمیٰ |
وجہِ شہرت | جامعہ مسعودیہ نورا لعلوم کے متعلم اول |
مؤثر شخصیات | محفوظ الرحمن نامی، سید حمید الدین |
مذہب | اسلام |
حالات و خدمات
ترمیممولانا حافظ حبیب احمد مولانا محفوظ الرحمن نامیکے چہیتے شاگردوں میں سے تھے، حضرت مولانا نامیؒ ؔ سفر وحضر میں اکثر آپ کو ساتھ رکھتے اور دل وجان سے چاہتے تھے، حافظ صاحب کے بیان کے مطابق ایک سفر میں حضرت نامیؒ ؔ نے معانقہ فرمایا، اس معانقہ کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ بہت سے علوم منتقل ہو گئے ہیں۔[2] مولانا موصوف نے فراغت کے بعد کچھ دنوں کرتپور بجنور اور علاقہ بانس گاؤں ضلع بہرائچ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور دسمبر 1940 میں آپ کے مشفق ومربی، بانی جامعہ حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب نامیؒ ؔ جنھوں نے آپ کو صرف پڑھا یا ہی نہیں تھا بلکہ علوم گھول کر پلائے تھے نے مکمل اعتماد کے ساتھ جامعہ نورا لعلوم کا استاذ مقرر فرما دیا، اس کے بعد تادمِ حیات مسلسل 60 سال چھ ماہ تک بڑی کامیابی کے ساتھ طلبہ نورالعلوم کی علمی پیاس بجھاتے رہے۔[2] حافظ صاحب کا نور العلوم کی تعلیمی ترقی میں بہت ہی اہم رول رہا ہے، وہ انتہائی ذہین وفطین، قوی الحافظہ اور بہت ہی کامیاب استاذ تھے، مشکل سے مشکل کتابیں بے تکان پڑھاتے تھے، فن صرف فارسی ادب اور فن منطق کے تو امام تھے، فن نحو اور فقہ سے وافر مقدار میں شغف رکھتے تھے، کتنا ہی کوئی مشکل صیغہ یا زبان فارسی کا کوئی مشکل شعر ہو، بلا تکلف حل فرما دیا کرتے تھے، گلستاں کتاب کی پوری پوری حکایت پڑھا کر ایک ساتھ ترجمہ کرادیا کرتے تھے اور ترجمہ میں کبھی واو تک کا ترجمہ نہیں چھوٹتا تھا، علی العموم شرح جامی، قطبی، شرح تہذیب، ازہار العرب، گلستاں، بوستاں، مفتاح القواعد، کافیہ، علم الصیغہ، فصول اکبری، مختصر القدوری وغیرہ کتابیں زیر درس رہتی تھیں، شروع کی سات کتابیں احقر کو بھی آپ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، آپ طلبہ کے سامنے درس میں متعلقہ مسئلہ کا نچوڑ پیش کیا کرتے تھے، جو ہر اعتبار سے جامع اور مانع ہوا کرتا تھا، طلبہ میں صحیح عبارت خوانی کی صلاحیت پیدا کرانے میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی، آپ کا درس بے حد مقبول ہوتا تھا، شہد کی مکھیوں کی طرح طلبہ آپ کو گھیرے رہتے تھے، اعمیٰ ہونے کے باوجود بہت سے بیناؤں پر بھاری تھے۔ ایک مرتبہ ابوذر مانی انسپکٹر آف اسکول جو سرکار سے منظور شدہ اداروں کو دیکھنے اور چیک کرنے پر مامور تھے، نور العلوم تشریف لائے، جامعہ کے اس وقت کے نائب مہتمم حضرت مولانا کلیم اللہ نوری سے کہا کہ آپ نے اپنے ادارہ میں ایک نابینا شخص کو پڑھانے کے لیے رکھ رکھا ہے، وہ کیا پڑھاتے ہوں گے؟ حضرت نائب مہتمم صاحب نے ابوذر مانی سے کہا کہ آپ جایئے کچھ سوالات کیجئے، چنانچہ ابوذر مانی صاحب حافظ صاحب کی درسگاہ میں حاضر ہوئے، سلام کیا حاضری کی غرض ظاہر کی اور انھوں نے اپنے اعتبار سے کئی مشکل سوالات کیے، حافظ اعمیٰ صاحب نے حسب عادت سوالات کو بہت غور سے سن کر فرمایا کہ آپ کے سوالات صحیح نہیں ہیں،پھر حافظ صاحب موصوف نے سوال وجواب کو واضح انداز میں بیان فرمایا، جس سے ابوذر مانی صاحب بہت متاثر ہوئے اور جاکر حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوریؔ ؒ سے عرض کیا’’کہ اگر ایسے لوگ دو چار اور مل جائیں تو رکھ لیں، یہ تو بہت ہی قابل وذہین شخص ہیں‘‘۔ حضرت مولاناحافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت کا معاملہ فرماتے تھے اور طلبہ آپ سے بھی بہت قریب رہتے تھے، آپ کی خدمت کو سعادت تصور کرتے تھے، چنانچہ بندہ بھی زمانہ طالب علمی میں ایک زمانہ تک موصوف کو درسی کتب کے مطالعہ کرانے کے لیے حاضر رہتا تھا، دو وقتہ مدرسہ میں ظہر کے بعد گھر سے اکثر بندہ ہی لایا کرتا تھا، اکثر وبیشتر عصر کی نماز کے بعد ضروری سامان مثلاً پان، سبزی خریدنے، چائے نوشی، اخبار کے مطالعہ کے لیے بازار لیجایا کرتا تھا، اسی طرح مختلف ضروریات سے علاقہ بانس گاؤں، علاقہ بنکٹی، ریولیا، گنڈارہ، حسام پور، جرول قصبہ، قیصرگنج، نوگئیاں، برخوردارہ پور، مدرسہ انوار العلوم بنگئی اور لکھنؤ وغیرہ کے اسفار میں حافظ صاحب کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، نیز برادرم مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمیؔ استاذ حدیث جامعہ نور العلوم، مولانا محمد نعیم خاں قاسمیؔ استاذ مدرسہ قاسمیہ گوکل دھام ممبئی اور مولانا محمد جمال الدین قیصرگنجی، مولانا مفتی صہیب احمد صاحب قاسمیؔ اور مولانا ضیاء الرحمن صاحب گونڈی بھی حافظ صاحب کی متعلقہ کتب کے مطالعہ کے لیے ایک طویل زمانے تک حاضر رہے۔ آپ کے تلامذہ میں جامعہ نور العلوم کے سابق مہتمم حضرت مولانا محمد افتخار الحق صاحب قاسمیؔ اور موجودہ مہتمم حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمیؔ، جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کے مہتمم حضرت مولانا سید رشید الدین صاحب حمیدیؒ، دار العلوم الاسلامیہ بستی کے مہتمم حضرت مولانا محمد باقر حسین صاحب، ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا مجیب اللہ صاحب قاسمیؔ گونڈوی، حضرت مولانا عبد الرحیم بستوی صاحب دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سنبھلی، حضرت مولانا عتیق احمد صاحب بستوی استاتذہ دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، حضرت مولانا نثار احمد صاحب بستوی صدر المدرسین دار العلوم الاسلامیہ بستی، حضرت مولانا مفتی نعمت اللہ صاحب قاسمیؔ صدر المدرسین مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، جامعہ نور العلوم کی مجلس شوریٰ کے مؤقر رکن حضرت مولانا جنید احمد صاحب بنارسی، حضرت مولانا عبد الکریم صاحب قاسمیؔ پورینہ خورد بانس گاؤں، جامعہ کے صدر المدرسین حضرت مولانا مفتی ذکر اللہ صاحب قاسمیؔ، مبلغ دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد عرفان صاحب قاسمیؔ صدر مجلس شوریٰ مدرسہ اسلامیہ فاروقیہ بھوانی پور بنکٹ وغیرہ خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان کے علاوہ آپ کے بہت سے تلامذہ اور شاگرد جامعہ ہذا اور ملک کے مختلف اداروں میں علم دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں، جو انشاء اللہ توشۂ آخرت اور رفع درجات کا باعث ہوں گے۔ حافظ صاحب کا علم بڑا پختہ تھا، وہ انتہائی مدقق، محقق، اساتذہ وطلبہ کے لیے مرجع اور بہت ہی قابل شخص تھے، معذوری کے باوجود اوقات ونظام جامعہ کے بے حد پابند تھے، اسی طرح پنج وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ اپنی مسجد میں اور جمعہ کی نماز شہر کی جامع مسجد میں پڑھنے کا التزام واہتمام فرماتے تھے۔ حافظ صاحب موصوف کے دو صاحبزادے نجیب احمد اور مجیب احمد اور دو صاحبزادیاں طاہرہ خاتون، طیبہ خاتون تھیں، فی الحال نجیب احمد اور طاہرہ خاتون بقید حیات ہیں اور طاہرہ خاتون مولانا محمد اسحق صاحب کے ساتھ منسوب ہیں۔[2]
وفات
ترمیممولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیٰ صحت مند جسم کے مالک تھے، لیکن وصال سے تقریباً ایک سال قبل لقوہ کا اثر ہو گیا تھا، پھر علاج کے بعد قدرے افاقہ ہو گیا، تو جامعہ تشریف لانے لگے، جامعہ کے ذمہ داران نے رعایت کرتے ہوئے صرف ایک کتاب کا درس متعلق کر دیا تھا اور کل تین گھنٹے کی حاضری ضروری قرار دی تھی اور یہ سلسلہ تقریباً ایک سال جاری رہا۔ پھر دوبارہ فالج کا اٹیک ہوا، جس کی بنا پر صاحب فراش ہو گئے، لیکن ذہن ودماغ بالکل صحیح کام کر رہا تھا، پھر اچانک ایک شام طبیعت بگڑنی شروع ہوئی اور دوسرے دن 30 جون 2001صبح 9؍ بجے بعمر 86؍ سال 25؍ یوم وطن مالوف محلہ گدڑی شہر بہرائچ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ انتقال کی خبر بجلی کی طرح پورے ضلع میں پھیل گئی، مولانا موصوف کے انتقال پر جامعہ کے اس وقت کے کارگزار مہتمم حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمیؔ نے فرمایا : کہ مولانا حافظ حبیب احمد صاحب کے انتقال سے جامعہ نور العلوم کے پہلے دور کا اختتام ہو گیا۔ تجہیز وتکفین کی تیاریاں شروع ہو گئی، اوربعد العصر سینکڑوں علما، اساتذہ وطلبہ، خواص وعوام نے جامع مسجد کی صحن میں جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا قاری زبیر احمد صاحب قاسمیؔ کی زیر اقتداء نماز جنازہ ادا کی اور اس علمی خزانے کو شہر کے مشہور قبرستان ’’عیدگاہ‘‘ میں سپرد خاک کیا گیا ۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- نورالعلوم کے درخشندہ ستارے (مطبوعہ 2011)
- ناموارن بہرائچ از عبرت بہرائچی