جامعہ عربیہ مسعودیہ نور العلوم، بہرائچ
جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم، جو نورالعلوم بہرائچ کے نام سے بھی معروف ہے، بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر بہرائچ میں واقع دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا قدیم دار العلوم ہے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم، بہرائچ | ||||
معلومات | ||||
تاسیس | 29 مارچ 1931 | |||
نوع | دار العلوم | |||
محل وقوع | ||||
شہر | بہرائچ | |||
ملک | بھارت 271801 |
|||
ریکٹر | زبیر احمد قاسمی[1] | |||
شماریات | ||||
طلبہ و طالبات | 950[2] (سنة ؟؟) | |||
درستی - ترمیم ![]() |
تاریخ
ترمیمجامعہ عربیہ مسعودیہ نور العلوم (قدیم نام: مدرسہ عربیہ نور العلوم) یکم ذو القعدہ 1349ھ مطابق 29 مارچ 1931ء کو قاضی پورہ، بہرائچ میں محفوظ الرحمن نامی نے اپنے والد شاہ نور محمد بہرائچی کے انتقال کے بعد، شہر بہرائچ کے مجاہد آزادی اور انڈین کانگریس پارٹی کے سیاسی رہنما خواجہ خلیل احمد شاہ کی تجویز پر قائم کیا۔[3][4][5][6][7] آزادی کے وقت محفوظ الرحمن نامی نے 1948ء میں بہرائچ میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے مولانا آزاد نور العلوم ہائی اسکول کی بنیاد رکھی، جو اب آزاد انٹر کالج کے نام سے معروف ہے۔[8][9][10]
جنوری 1937ء میں مدرسے نے معاشی ترقی کے لیے نور العلوم کے نام سے ایک نجی اسکول قائم کیا، جہاں مستحق مسلم نوجوانوں کو چمڑے کی مصنوعات کی تیاری کی تعلیم دی گئی۔ اس منصوبے کو حکومت کی جانب سے محکمہ صنعت کے ذریعے سالانہ 600 روپے وظیفہ کی امداد کا پروانہ دیا گیا۔[11][12]
یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنے نام کے ساتھ نوری کا لاحقہ لگاتے ہیں۔[13][14]
تحریک آزادی میں حصہ
ترمیماس مدرسے سے وابستہ افراد نے تحریک آزادی ہند میں بھی حصہ لیا۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے سلسلے میں مدرسے کے سابق صدر مدرس سلامت اللہ بیگ قاسمی جیل گئے۔ مدرسے کے سابق کارگزار مہتمم کلیم اللہ نوری نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں اساتذہ کی ہدایت پر 1941ء میں مہاتما گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اس سلسلے میں بہرائچ اور گونڈہ کی جیلوں میں ایک سال سے زائد عرصہ گزارا۔ 1942ء میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے تحت آزادی کی سرگرمیوں سے وابستہ رہے اور آزادی تک تحریک سے منسلک رہے۔ اندرا گاندھی کی وزارت کے دوران مذکورۂ بالا دونوں کو ”مجاہد آزادی“ کا خطاب دیا گیا۔[15][16]
انتظامیہ
ترمیمادارے کے پہلے مہتمم محمد احسان الحق تھے،[17] اور موجودہ مہتمم زبیر احمد قاسمی ہیں۔[1]
دو لسانی عربی-اردو لغت مصباح اللغات کے مصنف[18][19][20] اور ماہنامہ دار العلوم کے تیسرے مدیر عبد الحفیظ بلیاوی[21][22] اس مدرسے کے تدریسی عملے کے رکن اور ناظر (ناظر الكلية) رہ چکے ہیں۔[23][24]
ذیل میں مدرسے کے مہتممین، نائب مہتممین اور کارگزار مہتممین کی فہرست دی گئی ہے۔[24][25]
نام | مدتِ منصب | ||
---|---|---|---|
1 | محمد احسان الحق | 1931ء | ستمبر 1945ء |
2 | محفوظ الرحمن نامی | ستمبر 1945ء | فروری 1946ء |
3 | محمد احسان الحق | فروری 1946ء | ستمبر 1954ء |
4 | فضل حق | ستمبر 1954ء | دسمبر 1956ء |
5 | محمد احسان الحق | دسمبر 1956ء | جنوری 1961ء |
6 | محمد افتخار الحق قاسمی | جنوری 1961ء | جنوری 2008ء |
7 | کلیم اللہ نوری
|
|
|
8 | حیات اللہ قاسمی
|
|
|
9 | زبیر احمد قاسمی | جنوری 2018ء | "بر سرِ منصب" |
ممتاز فضلا
ترمیمجامعہ عربیہ نور العلوم، بہرائچ کے ممتاز فضلا، جن کے نام حروفِ تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے ہیں:[26]
- حبیب احمد اعمیٰ
- حکیم ابو البرکات، کلکتہ
- جنید احمد بنارسی
- راحت علی خان نانپاروی
- شبیر احمد دربھنگوی
- شکیل احمد سیتاپوری، سابق استاذ دار العلوم دیوبند
- عابد علی سالارگنجی
- عبد الباری قاضی پوروی
- عبد الرحیم بستوی، استاذ منطق و فلسفہ دار العلوم دیوبند[27]
- عبد الرزاق سونی پتی
- عبد العلی فاروقی، مہتمم دار العلوم فاروقیہ اور مدیر ماہنامہ البدر، کاکوری، لکھنؤ
- عبد اللطیف لطیف بہرائچی
- عتیق احمد بستوی، استاذ حدیث و فقہ دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ[28]
- عزیز احمد نوری اکبرپوروی
- محمد الیاس بارہ بنکوی، استاذ حدیث مدرسہ کاشف العلوم، مغربی نظام الدین، دہلی[29]
- محمد زکریا قاسمی سنبھلی، شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
- محمد عرفان بیگ فخرپوری
- محمد نعمان بیگ فخرپوری
- ممتاز احمد بارہ بنکوی
- محبّ الرحمٰن بلیاوی
رسالے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب "بہرائچ: حفظ قرآن اور ختم بخاری کی تقریب منعقد"۔ ای ٹی وی بھارت۔ 15 مارچ 2020ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-22
- ↑ "1.82 کروڑ کے عطیات سے چلنے والے شہر کے تین مدارس". امر اجالا (بزبان ہندی). 20 Sep 2022ء. Retrieved 2024-11-22.
- ↑ جنید احمد نور (2019ء)۔ بہرائچ: ایک تاریخی شہر (پہلا ایڈیشن)۔ بہرائچ، بھارت: جنید احمد نور۔ ج 1۔ ص 94، 126–127، 187–188
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011ء)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے (پہلا ایڈیشن)۔ بہرائچ، بھارت: حافظ ضمیر احمد۔ ص 21، 28–29
- ↑ محمد قمر اسحاق (1996ء)۔ ہندوستان کے اہم مدارس۔ نئی دہلی: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز۔ ج 1۔ ص 82
- ↑ عبد القدیر خان (1931ء)۔ مختصر حالات شاہ نور محمد بہرائچی۔ بہرائچ، بھارت: محمد احسان الحق۔ ص 23–24
- ↑ کیلاش نارائن پانڈے (1988ء). اتر پردیش ڈسٹرکٹ گزٹیرز: بہرائچ (بزبان انگریزی). لکھنؤ: اتر پردیش ڈسٹرکٹ گزٹیرز ڈپارٹمنٹ. p. 211.
- ↑ نور 2019، صفحہ 127
- ↑ پانڈے 1988، صفحہ 214
- ↑ محمد اشرف قاسمی (یکم جون 2021ء)۔ "جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ میں"۔ بصیرت آن لائن۔ 22 نومبر 2024ء کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2024ء
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|تاریخ=
(معاونت) - ↑ رام نارائن ایس راوت (2011ء). Reconsidering Untouchability Chamars and Dalit History in North India [چھوت چھات پر نظر ثانی: شمالی ہندوستان میں دلت کی تاریخ] (بزبان انگریزی). بلومنگٹن، انڈیانا: انڈیانا یونیورسٹی پریس. p. 113. ISBN:9780253222626.
- ↑ متحدہ صوبہ جات آگرہ و اودھ (بھارت) صنعتیں محکمہ (1938ء). Administration Report [انتظامیہ کی رپورٹ] (بزبان انگریزی). pp. 2، 58.
- ↑ اسیر ادروی (1994ء)۔ تذکرہ مشاہیرِ ہند: کاروانِ رفتہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ ص 236–237
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے، صفحہ: 33
- ↑ نور 2019، صفحہ 133–134، 137–138
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے، صفحات: 51، 57–58، 118
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011ء)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے۔ ص 22، 117
- ↑ "عبد الحفیظ بلیاوی کے حوالے سے..." کوآرٹرلی جرنل آف دی پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی (بزبان انگریزی). پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی. 49 (3–4): 82. 2001ء.
- ↑ وحید الزماں کیرانوی (2000ء). "مقدمہ از عمید الزماں کیرانوی". القاموس الوحید (بزبان انگریزی). لاہور و کراچی، پاکستان: ادارہ اسلامیات. p. 89.
- ↑ ادروی 1994، صفحہ 158
- ↑ نایاب حسن قاسمی (2013ء)۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ۔ ص 117
- ↑ محمد اللہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (تیسرا ایڈیشن)۔ شیخ الہند اکیڈمی۔ ص 725
- ↑ قاضی اطہر مبارکپوری (نومبر 2003ء)۔ کاروان حیات۔ نئی دہلی: فرید بک ڈپو۔ ص 105–106
- ^ ا ب جامعہ عربیہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ: مختصر تعارف، خدمات اور منصوبے۔ بہرائچ: شعبۂ نشریات، نور العلوم۔ 1980ء۔ ص 11
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے، صفحات: 117–118
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے، صفحات: 8–9، 111–112
- ↑ اشتیاق احمد قاسمی (2016)۔ مولانا بستوی کا ذکر جمیل (1 ایڈیشن)۔ دیوبند: حجاز بُک ڈپو
- ↑ ابن الحسن عباسی (اکتوبر 2020)۔ یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ [مطالعۂ یادگار شخصیات] (1 ایڈیشن)۔ کراچی: مجلس تراث الاسلام۔ ص 236–237
- ↑ "حضرت مولانا محمد الیاس بارہ بنکوی – جامعۃ البنات" (بزبان امریکی انگریزی). 19 Jul 2017. Archived from the original on 2022-02-09. Retrieved 2024-11-22.
- ↑ امیر احمد قاسمی (2011)۔ نور العلوم کے درخشندہ ستارے، صفحہ: 16
- ↑ حقانی القاسمی (13 مارچ 2022ء)۔ "مدارس کے مجلات: ایک جائزہ"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-11-21