حجت الاسلام (عربی زبان: حجة الإسلام) اسلام میں علمائے کرام کے لیے مروج ایک خطاب یا لقب ہے جو خاص کسی ایسے عالم کو دیا جاتا ہے جو تمام علوم ہائے دین پر بیک وقت عبور رکھتا ہو۔ یہ خطاب عموماً علمائے اہل تشیع کے لیے مخصوص ہے۔ کبھی کبھار یہ خطاب حجۃ الاسلام والمسلمین بھی لکھا جاتا ہے۔ یہ لقب شہنشاہ فارس فتح علی شاہ قاچار کے عہد میں علمائے شیعہ کے لیے مروج عام ہوا۔

تاریخ ترمیم

یہ خطاب کس قدر قدیمی ہے اور کب اِس کا اطلاق و استعمال عموماً علما پر ہونے لگا؟۔ اِس کا اندازہ قدیمی ماخذوں سے ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خطاب امام ابوحامد محمد بن محمد الغزالی (متوفی 18 دسمبر 1111ء) کو دیا گیا۔[1][2] علمائے اہل سنت نے اِس لقب کو امام مسلم بن حجاج نیشاپوری (متوفی 6 مئی 875ء) کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مصر کے متعدد علما کے لیے بھی اِس لقب کو استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ: ابن خشعب عبد اللہ بن احمد (متوفی 567ھ/ 1189ء)، اسماعیل بن موھب (متوفی 575ھ/ 1171ء)، شافعی مجتہد صدر الدین محمد بن عمر (متوفی 617ھ/ 1220ء) اور شمس الدین احمد بن خلیل الخوئی (متوفی 637ھ/ 1238ء[3] مصر میں فقہ شافعی کے اکثر سرکاری دستاویزات میں علمائے جید کے نام کے ساتھ یہ لقب لکھا جاتا رہا ہے جیسے کہ مصری شافعی عالم دین منہاجی السیوطی (متوفی 880ھ/ 1475ء[4]

عقائد اثناعشریہ کے مطابق ترمیم

اہل تشیع میں حجت کی اِصطلاح اِن معنوں میں مستعمل ہے:

عام طور پر اُس شخص کو حجت کہتے ہیں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تک رسائی ممکن ہو یا جو کسی مقررہ زمانے میں بنی نوع انسان میں اللہ یا اُس کی مشیت کا مظہر بن کر دین کا کام کرتا ہے۔ اِن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کی حجت تھے۔ ابتدا سے ہی یہ اصطلاح خاص معنوں کے لیے مستعمل ہو چکی تھی۔ بعض علمائے شیعہ کے مطابق یہ اصطلاح وحی کے عمل میں ایک خاص وظیفہ ٔ عمل پر دلالت کرتی ہے۔ کبھی کبھار یہ اصطلاح خلافت میں اُس ہستی یا شخصیت پر بھی دلالت کرتی ہے جس کے واسطے سے کمزور لوگ اُس ہستی یا شخصیت تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس تک عام طور پر رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ عقائد اثناعشریہ میں اِس زمرے کی منظم ترتیب دیکھنے کو ملتی ہے جس میں وہ شخص بھی شامل ہے جسے وہ حجت سمجھتے ہیں۔ یہ ترتیب پیغمبروں اور ائمہ اثناعشر کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ اس عقیدے کے تحت دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی پیغمبر یا امام کو اللہ تعالیٰ کی منشا کی طرف راہنمائی کے لیے موجود ہونا چاہیے۔ اِس عقیدے کی دلیل یوں ہے کہ اگر لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نمائندہ یعنی حجت موجود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ چونکہ مخفی اور پوشیدہ ہے، لہٰذا لوگ اُس کی عبادت نہ کرسکیں گے۔ اِس کے علاوہ اگر ایسا مستند مفسر (امام) موجود نہ ہو تو صحف سابقہ اور خود قرآن کریم کی تشریح و تعبیر (یعنی تفسیر و معانی) میں بہت سے اختلافات اور ابہام کا دروازہ کھل جائے گا۔[5] عقائد اثناعشریہ میں کبھی انسان یا شخص کا حجت ہونا ضروری نہیں، حدیث کی مشہور شیعی کتاب کتاب الکافی حجت بھی کہلاتی ہے۔

اسماعیلی عقائد کے مطابق ترمیم

  • اسماعیلیوں میں یہ اصطلاح خلافت کی اِس خاص شخصیت کے بارے میں مستعمل ہے جس کی نسبت یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ وحی کے منصب کی بجا آوری کا کام کر رہی ہو۔ فاطمی عہد میں یہ اصطلاح اُن بڑے داعیانِ مطلق کے لیے استعمال ہوتی تھی جو عام داعیان کی راہنمائی کیا کرتے تھے۔ بااعتبارِ تعداد یہ بارہ حجت تھے جو بارہ اضلاع کے صدر نشین تھے۔ بعض اوقات اضلاع کی نگرانی کے لیے چوبیس داعی مقرر ہوتے تھے۔ غالب یہ ہے کہ بارہ داعی اضلاع میں اور بارہ داعی امام کی عدالت کے لیے مقرر ہوتے ہوں گے۔ حجۃ الاعظم کا ذِکر داعی ٔ اعظم کے ساتھ ہی ملتا ہے۔ طیبی اسماعیلیوں نے فاطمی مصطلحات کو اپنے عقائد میں ویسے ہی برقرار رکھا ہے جیسے فاطمیوں نے اختیار کیں۔طیبی اسماعیلیوں میں اِن تنظیمات میں مصطلحات کا پتا نہیں چلتا۔[6]

عقائد نزاریہ کے مطابق ترمیم

نزاریوں میں اِس اصطلاح نے بڑی پیچیدگی اختیار کی ہے۔ غالباً یہ پہلی بار حسن بن صباح (متوفی 12 جون 1124ء) کے لیے استعمال کی گئی جو نزاریوں کی تحریک کا سربراہ تھا جبکہ عقائد نزاریہ کے مطابق امام خود مستور تھا۔ بعد ازاں ج بحال شدہ امام وحی الٰہی کا مظہر اور مرکز قرار پایا تو صرف ایک ’’حجت‘‘ باقی رہ گیا جس نے اِلہام کی مدد سے امام کی حقیقت کا اِدراک کر لیا تھا۔ جیسے جیسے نزاریوں کی تعلیمات کا اِرتقا ہوتا گیا، حجت کا منصبی وظیفہ بھی مختلف مراحل سے طے پاتا رہا۔ آخرکار حجت ’’امام‘‘ کا ولی عہد قرار پایا۔ زمانہ حال میں نزاریوں نے حجت کی جو فہارس تیار کی ہیں، اُن میں ہر امام کو حجت کا کارِ منصبی تفویض کیا گیا ہے۔ اِس کی حیثیت ترجمان یا ظاہری علامت کی سی ہوتی ہے۔[7]

نامور شخصیات ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. شمس الدین الذہبی: سیراعلام النبلاء، جلد 19، صفحہ 322۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1988ء
  2. ابن حجر عسقلانی: نزھۃ الالباب فی الالقاب، صفحہ 94۔ مطبوعہ 1411ھ۔
  3. ابن ابی اصیبعہ: عیون الانباء فی طبقات الاطباء، صفحہ 464، 740۔ مطبوعہ بیروت، 1965ء
  4. منهاجی اسیوطی، جواهر العقود ومعین القضاة والموقعین والشهود، جلد 1، صفحہ 389۔ جلد 2، صفحہ 475۔ مطبوعہ بیروت، 1417ھ
  5. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 7، صفحہ 939۔
  6. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 7، صفحہ 939، 940۔
  7. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 7، صفحہ 940۔