حصہ بنت احمد السدیری (عربی: حصة بنت أحمد السديري) سعودی عرب کے بادشاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کی پسندیدہ بیویوں میں سے ایک تھی۔[2][3]

حصہ احمد السدیری
Hussa Al Sudairi
(عربی میں: حصة بنت أحمد السديري ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 1900
ریاض   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1969ء (عمر 68–69)
ریاض   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سعودی عرب   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
شریک حیات عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود
اولاد فہد بن عبدالعزیز ،  عبدالرحمان بن عبدالعزیز آل سعود ،  نائف بن عبدالعزیز آل سعود ،  سلمان بن عبدالعزیز [1]،  احمد بن عبدالعزیز آل سعود ،  ترکی ثانی بن عبدالعزیز آل سعود ،  الجوہرہ بنت عبد العزیز آل سعود ،  لطیفہ بنت عبد العزیز آل سعود ،  لؤلؤہ بنت عبد العزیز آل سعود ،  سلطان بن عبدالعزیز   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد احمد بن محمد السدیری
والدہ شریفہ بنت علی بن محمد السویدی
خاندان آل سعود   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل شہزادہ عبد اللہ
شاہ فہد
شہزادہ سلطان
شہزادی لولووہ
شہزادہ عبدالرحمان
شہزدہ نائف
شہزادہ ترکی
شاہ سلمان
شہزادہ احمد
شہزادی لطیفہ
شہزادی الجوہرہ
شہزادی جواہر

پس منظر

ترمیم

حصہ بنت احمد نجد کے ایک بااثر خاندان السدیری کی رکن تھی۔[4] یہ خاندان الدواسر قبیلہ کا حصہ ہے۔[5] شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کی والدہ سارہ السدیری [6] بھی السدیری خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔[7]

ابتدائی زندگی اور شادی

ترمیم

حصہ بنت احمد 1900ء میں نجد میں پیدا ہوئی۔ شاہ عبد العزیز نے اس سے دو مرتبہ شادی کی۔[8] وہ اس کی آٹھویں بیوی تھی۔ ان کی پہلی شادی 1913ء میں ہوئی جب حصہ کی عمر تیرہ سال تھی۔ 1920ء میں انھوں نے دوبارہ شادی کی۔[9] ان کی پہلی اور دوسری شادی کی درمیانی مدت میں حصہ بنت احمد شاہ عبد العزیز کے سوتیلے بھائی محمد بن عبد الرحمن کے عقد میں تھی، [9] جس سے اس کا ایک بیٹا عبد اللہ بن محمد بھی ہے۔[10]

اولاد

ترمیم

حصہ بنت احمد اور شاہ عبد العزیز کے متعدد بچے تھے جن میں سے سات بیٹے ہیں۔[2][11] شاہ عبد العزیز کی کسی دوسری شریک حیات کے حصہ بنت احمد سے زیادہ بیٹے نہیں ہیں۔[12] حصہ بنت احمد سات بیٹوں کی ماں کی وجہ سے شاہ عبد العزیز کی سب سے زیادہ قابل قدر شریک حیات بن گئی۔[13] عرب ثقافت میں سب سے نمایاں بیوی سب سے بڑی تعداد میں بیٹوں کو جنم دینے والی ہوتی ہے۔[13]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی
  2. ^ ا ب Karen Hedwig Backman (16 جون 2012)۔ "Born of Hassa bint Ahmad Al Sudairi"۔ Daily Kos۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-10-24
  3. Sandra Mackey (6 اگست 2005)۔ "Next step critical as Saudi princes jostle for position"۔ SMH۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-15
  4. Irfan Al Alawi (24 اکتوبر 2011)۔ "Saudi Arabia – The Shadow of Prince Nayef"۔ Center for Islamic Pluralism۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-15
  5. Michael Herb (1999)۔ All in the family۔ Albany: State University of New York Press۔ ص 102۔ ISBN:0-7914-4168-7
  6. "King Abdulaziz' Noble Character" (PDF)۔ Islam House۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-15
  7. Mordechai Abir (اپریل 1987)۔ "The Consolidation of the Ruling Class and the New Elites in Saudi Arabia"۔ Middle Eastern Studies۔ ج 23 شمارہ 2: 150–171۔ DOI:10.1080/00263208708700697۔ JSTOR:4283169۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-15
  8. Robin Allen (1 اگست 2005)۔ "Obituary: King Fahd - A forceful but flawed ruler"۔ Financial Times۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-02
  9. ^ ا ب Mark Weston (28 جولائی 2008)۔ Prophets and Princes: Saudi Arabia from Muhammad to the Present۔ John Wiley & Sons۔ ص 169۔ ISBN:978-0-470-18257-4۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-27
  10. Abdulateef Al Mulhim (24 اپریل 2013)۔ "Prince Fahd bin Abdullah: An admiral and a desert lover"۔ Arab News۔ 2016-03-28 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-08
  11. Winberg Chai (22 ستمبر 2005)۔ Saudi Arabia: A Modern Reader۔ University Press۔ ص 193۔ ISBN:978-0-88093-859-4۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-02-26
  12. "Saudi Succession Crisis"۔ The National Security Council۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-06-01
  13. ^ ا ب Amir Taheri (2012)۔ "Saudi Arabia: Change Begins within the Family"۔ The Journal of the National Committee on American Foreign Policy۔ ج 34 شمارہ 3: 138–143۔ DOI:10.1080/10803920.2012.686725
  14. "Royal Court: Prince Turki bin Abdulaziz Al Saud Died"۔ Saudi Press Agency۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-11-12
  15. "Custodian of the Two Holy Mosques Performs Funeral Prayer on Soul of Princess Jawaher bint Abdulaziz"۔ Al Riyadh۔ 6 جون 2015۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-22