خانزادہ بیگم

بانی مغلیہ سلطنت ظہیر الدین محمد بابر کی بڑی بہن اور عمر شیخ مرزا (امیرفرغانہ) اور قتلغ نگار خانم کی بیٹی، ازبک سردار محمد شیبانی خان کی زوجہ۔

خانزادہ بیگم (پیدائش: 1478ء – وفات: ستمبر 1545ء) حاکم فرغانہ عمر شیخ مرزا کی بیٹی اور بانیٔ مغلیہ سلطنت ظہیر الدین محمد بابر کی بڑی بہن اور محمد شیبانی خان کی زوجہ تھی۔

خانزادہ بیگم
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1478ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اندیجان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات ستمبر1545ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قندھار   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن باغ بابر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات محمد شیبانی خان (جولا‎ئی 1500–)  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عمر شیخ مرزا   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ قتلغ نگار خانم   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان تیموری خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ہمسر ملکہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
جولا‎ئی 1500  – 1502 
در سلسلہ شیبانیان  

سوانح

ترمیم

خاندان اور ابتدائی حالات

ترمیم

خانزادہ بیگم 1478ء میں وادیٔ فرغانہ کے ایک شہر اندیجان میں پیدا ہوئیں۔ وہ امیر فرغانہ عمر شیخ مرزا اور قتلغ نگار خانم کی پہلی اولاد تھیں اور مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی بڑی بہن تھیں۔ خانزادہ بیگم والد کی طرف سے ابوسعید مرزا کی جانب سے تیموری اور والدہ کی طرف سے حاکم مغلستان یونس خان سے بھی تیموری النسل تھیں۔

ازدواج

ترمیم
 
محمد شیبانی خان

1497ء سے ہی بابر اور اُزبکوں کے درمیان تنازعات زور پکڑ گئے تھے اور آخرکار یہ تنازع 1500ء میں عروج کو جا پہنچا جب ازبک سردار محمد شیبانی خان نے سمرقند کا محاصرہ کر لیا اور بابر کو سمرقند سے نکلنا پڑا۔شیبانی خان سمرقند میں داخل ہو گیا اور وہاں شاہی حرم اُس کے ہاتھ آیا۔ شیبانی خان نے خانزادہ بیگم سے شادی کرلی۔ ہمایوں نامہ میں گلبدن بیگم کا بیان ہے کہ محمد شیبانی خان نے بابر بادشاہ کو یہ پیغام بھجوایا تھا کہ اگر تم خانزادہ بیگم کا نکاح مجھ سے کردو تو ہمارے مابین صلح قائم ہو سکتی ہے۔ ہمایوں نامہ کا یہ بیان غالباً مستند قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ خود بابر بادشاہ نے تزک بابری میں لکھا ہے کہ جب وہ سمرقند سے نکلا تو خانزادہ بیگم سمیت متعدد خواتین کو سمرقند میں پیچھے چھوڑ آیا تھا۔جب محمد شیبانی خان سمرقند میں داخل ہوا تو اُس نے خانزادہ بیگم سے نکاح کر لیا۔ ایک دوسری روایت میں یہ ملتا ہے کہ خود خانزادہ بیگم محمد شیبانی خان سے شادی کی متمنی تھی۔ بابر کو مجبوراً اِس شادی کی اِجازت اُس وقت دینا پڑی جب وہ سمرقند سے پریشانی کے عالم سے نکل چکا تھا۔ اِس شادی میں رکاوٹ یہ تھی کہ خانزادہ بیگم کی خالہ مہر نگار خانم پہلے ہی شیبانی خان سے بیاہی ہوئی تھی۔ اِس رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے شیبانی خان نے اُس کی خالہ مہر نگار خانم کو طلاق دے دی اور جولائی 1500ء میں خانزادہ بیگم سے نکاح کر لیا۔ البتہ اِس روایت کا ماخذ نہ تو ہمایوں نامہ ہی ہے اور نہ تزک بابری۔ ہمایوں نامہ کی انگریزی مترجمہ مسز اے بیورج کا خیال ہے کہ شاید خانزادہ بیگم نے شیبانی خان سے نکاح اِس لیے کیا ہو تاکہ ازبکوں کے ہاتھوں بابر کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو بابر کو شیبانی خان گرفتار کرلیتا یا قتل کر دیتا۔[1] شیبانی خان سے ایک بیٹا خرم مرزا پیدا ہوا جسے اوائل عمر میں ہی بلخ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا مگر وہ کمسنی میں ہی فوت ہوا۔ شیبانی خان سے خانزادہ بیگم کی شادی کامیاب ثابت نہ ہوئی کیونکہ کچھ مدت بعد شیبانی خان نے محسوس کیا کہ خانزادہ بیگم اپنے بھائی بابر کی ہمدرد ہے اور مشکل وقت میں وہ اُسی کا ساتھ دے گی۔ چنانچہ اُس نے خانزادہ بیگم کو طلاق دے دی۔

عقدِ ثانی

ترمیم

شیبانی خان سے طلاق کے بعد خانزادہ بیگم نے ایک سید شیخ ہادی سے نکاح کر لیا جو 1509ء میں مرو کی ایک لڑائی میں قتل ہو گیا۔ اِسی جنگ میں شیبانی خان بھی زخمی ہوکر فوت ہوا۔مرو کی لڑائی میں شاہ اسماعیل صفوی نے خانزادہ بیگم کو عزت و احترام کے ساتھ بابر بادشاہ کے پاس کابل بھجوا دیا جہاں وہ حاکم تھا۔ اُس وقت خانزادہ بیگم کی عمر تینتیس سال تھی۔

عقدِ ثالث

ترمیم

کابل میں ورود کے بعد خانزادہ بیگم کی تیسری شادی مہدی بیگ سے ہوئی جسے مہدی خواجہ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس شادی سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔

وفات

ترمیم

خانزادہ بیگم نے ستمبر 1545ء میں قبلچک کے مقام پر قندھار میں وفات پائی جب وہ نصیر الدین محمد ہمایوں کے ہمراہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ میت کو امانتاً تابوت میں ڈال کر دفن کر دیا گیا اور تین مہینے بعد میت قندھار سے کابل لے جائی گئی اور وہاں باغ بابر میں تدفین کی گئی۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 376/377۔
  2. طالب ہاشمی: تاریخ اسلام کی چار سو باکمال خواتین، صفحہ 380۔

مزید دیکھیے

ترمیم