خانیت استراخان
خانیت استراخان ایک تاتار خانیت تھی، جو اردوئے زریں (ترکی زبان میں آلتین اُردا) کے انہدام کے بعد قائم ہوئی۔ یہ ریاست 15ویں اور 16ویں صدی عیسوی میں دریائے وولگا کے طاس سے ملحقہ علاقوں میں موجود رہی، جہاں آج کل روس کا علاقہ استرا خان اوبلاست واقع ہے ۔
اس ریاست کو 1460ء میں محمود استراخانی نے قائم کیا۔ اس کا دار الحکومت حاجی ترخان شہر تھا، جو روسی وقائع (کرونیکل) میں استراخان کے ناں سے درج ہے۔ ریاست کے علاقوں میں زیریں وولگا وادی اور دریائے وولگا کا طاس، آج کے استراخان اوبلاست اور دریائے وولگا کے دائیں کنارے آج کے کلمیکیا کے گیاہستانوں (سٹیپ لینڈ) سمیت شامل تھا۔ بحیرہ قزوین کا شمال مغربی ساحل ریاست کی جنوبی سرحد اور خانان کریمیا (قرم یورتی) اس کی مغربی سرحد پر واقع تھے۔ خانان استراخان کا صدرمقام حاجی تارخان، آج کے استراخان شہر سے 12 کلومیٹر دور واقع تھا ۔
ریاست کی تشکیل سے پہلے
ترمیمدریائے وولگا کے زیریں علاقے میں 5ویں صدی عیسوی سے ہی مختلف ترک قبیلے آباد چلے آ رہے تھے۔ جیسے کہ خزار جنھوں نے یہاں سب سے پہلے خزاری سلطنت قائم کی تھی۔ مشرق کی طرف سے منگول مداخلت کے بعد یہاں وولگا بلغاروں کی ریاست وولگا بلغاریہ کا خاتمہ ہوا اور یہ علاقے اردوئے زریںکے زیر نگیں آ گیا۔ یہ سلطنت خانہ جنگی کی وجہ سے کمزور ہوئی تو 1466ء کے قریب نیم خود مختار خانان استرا خان ریاست قائم ہوئی۔ دریائے وولگا کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے کئی تجارتی راستے اس کے اختیار میں تھے جو آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھے، لیکن تجارتی راستے اپنی کشش کی وجہ سے ہمسایہ ریاست اور خانہ بدوش قبیلوں کے خانان استراخان پر حملے کا باعث بھی بنتے۔ قریم یورتی ( خانان کریمیا) کے خان مینلی اول گیرائے، جس نے اردوئے عظیم کے دار الحکومت سرائے باتو کو تباہ کیا تھا، خانان استراخان کو بھی بہت نقصان پہنچایا ۔
لوگ اور مذہب
ترمیمخانان استراخان کی آبادی کی اکثریت استراخانی تاتار اور نوگائے لوگوں پر مشتمل تھی۔ تاجر ماسکو، کازان (قازان)، کریمیا، وسط ایشیا اور قفقاز پار کے علاقوں کو تجارت جہاں سے گذر کر ہی کرتے تھے ۔
اشرافیہ میں درجہ بہ درجہ سب سے پہلے خان پھر سلطان، بیگ اور مورزالر تھے۔ باقی لوگوں کوقارا خلق یعنی کالے لوگ ( پرانی ترک بولی میں مطلب عظیم مخلوق، قارا عام طور پر بڑے یا عظیم کے لیے استعمال ہوتا تھا ) جو عام لوگوں کے لیے ترک رتبہ تھا۔ ریاست کا مذہب اسلام تھا ۔
تاریخ
ترمیم1530ء کی دہائی میں استراخان نے خانان کریمیا اور ریاست اردوئے نوگائے کے ساتھ ماسکو کی روسی ریاست کے خلاف تعاون کیا۔ اس کے بعد استراخان اپنے پہلے حلیفوں تاتاروں کے ساتھ تنازعات میں الجھ گیا۔ 1552ء میں زار روس ایوان چہارم،نے خانان قازان کے دار الحکومت قازان پر قبضہ کر لیا، اس کے کچھ ہی عرصے بعد استرا خان میں بھی ایک ماسکو نواز حکومت قائم ہو گئی ۔
ایوان چہارم نے استراخان میں اپنی فوجیں بھیجیں، جس کی وجہ سے استراخان کا آخری حکمران درویش خان، ماسکو کا باجگزار بننے پر مجبور ہوا۔ 1554ء میں ماسکو نواز اشرافیہ اور نوگائے قبائلیوں نے استرا خان پر حملہ آورروسی فوجوں کی حمایت کی۔ استرا خان پر کریمیا کا حملے ٹلنے کے بعد درویش خان نے خانان کریمیا سے، اپنے علاقوں سے روسیوں کو نکالنے کے لیے گٹھ جوڑ کیا۔ ایوان چہارم نے روسی آباد کاروں اور کاسک فوجوں کو بھیجا، جنھوں نے علاقے کو فتح کیا اور 1556ء میں اس کا ماسکو سے الحاق کر دیا۔ خانان استرا خان کا دار الحکومت حاجی ترخان کا محاصرہ کیا گیا اور اسے جلا دیا گیا، ریاست روسیوں کے قبضے میں چلی گئی اور اس کا خاتمہ ہو گیا۔ درویش خان ازوف کے قلعے میں بھاگ گیا۔ خانان استراخان کے خاتمے کے بعد روسیوں کے حلیف کلمیکوں نے تاتاروں پر حملے کیے اور نوگائے خانہ بدوشوں کو علاقے سے نکال دیا۔ روسیوں اور کلمیکوں نے علاقے کی مسلم اکثریتی آبادی کا قتل عام کیا اور بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا ۔
کافی نوگائے قازقستان اور داغستان چلے گئے۔ تقریبا 70 ہزار تاتاری آج بھی استرا خان اوبلاست میں رہتے ہیں ۔
استراخان کے خان
ترمیمخطاب | نام | دور حکومت |
---|---|---|
خان | محمود بن کوچک | 1465 - 1466 C.E. |
خان | قاسم بن محمود | 1466 – 1490 C.E. |
خان | عبد الکریم | 1490 – 1504 C.E. |
خان | قاسم بن سید احمد | 1504 – 1532 C.E. |
خان | اق قبق بن مرتضی بیگ | 1532 – 1534 C.E. (پہلا دور) |
خان | عبد الرحمان | 1534 – 1538 C.E. |
شیخ حیدر | 1538 – 1541 C.E. | |
خان | اق قبق بن مرتضی بیگ | 1541 – 1544 C.E. (دوسرا دور) |
خان | یمغرچی خان | 1544 – 1554 C.E. |
خان | درویش علی | 1554 – 1556/57 C.E. |
زار روس کے ایوان چہارم نے 1557ء میں خانان استراخان فتح کر لیا- |
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر خانیت استراخان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |