وولگا بلغاریہ (Volga Bulgaria) یا وولگا۔ کاما بلغاریہ ترک قومیت کی ایک تاریخی ریاست تھی، جو 7ویں صدی عیسوی سے 13ویں صدی تک دریائے وولگا اور دریائے کاما کے علاقوں میں قائم رہی۔ آج کل یہ علاقے روس میں شامل ہیں اور روس کی ریاستوں تاتارستان اور چوواشیا کے باشندے وولگا بلغاروں کی نسل سے ہیں ۔

وولگا بلغاریہ
Volga Bulgaria
Itil Bulğar
ساتویں صدی–1240s
دار الحکومتبولغار
بیلار
عمومی زبانیںبلغار
سوار,بارسل, بیلار, بارانجا
مذہب
اسلام
حکومتبادشاہت
حکمران 
• وسط ساتویں صدی
کورتاگ
• ابتدائی دسویں صدی
المش
• ابتدائی تیرہویں صدی
غابدولہ چلبر
تاریخی دورقرون وسطی
• 
ساتویں صدی
• 
922
• 
1240s
ماقبل
مابعد
قدیم عظیم بلغاریہ
مغول سلطنت
خانیت قازان
موجودہ حصہ روس
تاتارستان
چوواشیا

ابتدا

ترمیم

وولگا بلغاروں کے بارے میں ہمیں کوئی براہ راست معلومات نہیں ملتیں کیونکہ ان لوگوں اپنی کوئی دستاویزات نہیں ملیں اور ان کے بارے میں جانکاری، عرب، ہندوستان، ایرانی اور روسی ذرائع سے ملتی ہیں ۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وولگا بلغاریہ کی سرزمین پر سب سے پہلے فن اوگریک لوگ آباد ہوئے۔ ترک نسل کے بلغار 660ء میں یہاں کبرات کے بیٹے کوترنگ کی قیادت میں بحیرہ ازوف کے علاقے سے یہاں آئے۔ وہ لوگ 8ویں صدی تک ایدل اورال کے علاقے تک پہنچ گئے، یہاں وہ دوسرے مختلف نسل کے قبیلوں سے اتحاد کر کے اس علاقے کی اکثریتی آبادی بن گئے۔ کچھ دوسرے بلغار قبیلے مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے کئی مہموں کے بعد دریائے ڈینیوب کے علاقوں میں آباد ہو گئے، جو آج کل بلغاریہ کہلاتا ہے۔ وہاں وہ سلاو نسل کے لوگوں میں مدغم ہو گئے اور سلاو زبان اور مشرقی آرتھوڈکس مذہب اختیار کر لیا ۔

زیادہ تر تاریخ دانوں کے نزدیک وولگا بلغار عظیم خزاری سلطنت کی رعیت تھے اور 9ویں صدی عیسوی میں کسی وقت اتحاد کا دور شروع ہوا، بلغاروں نے بلغار نام کے شہر کو اپنا دار الحکومت بنایا، جو آج کل وفاق روس کی خود مختار جمہوریہ تاتارستان کے صدر مقام قازان سے 160 کلومیٹر جنوب میں واقع تھا۔ تاریخ دانوں کو اس میں شک ہے کہ وولگا بلغاروں نے خزاروں سے خود آزادی حاصل کی یا اس وقت آزاد ہوئے جب 965ء میں کیویائی روس کے حکمران سویتو سلاو نے خزاروں کو تباہ کیا ۔

عروج

ترمیم

اس علاقے کی آبادی کی اکثریت ترک قبیلوں سے تعلق رکھتی تھی، جن میں بلغار، بیلار، سوآر، برانجار اور کچھ برتا (ابن رستا کے مطابق) شامل تھے۔ آج کے چواش اور ‍قازان تاتاری انہی وولگا بلغاروں کی نسل سے ہیں (کچھ تھوڑے بہت فن اوگریک لوگوں اور قبچاق ترکوں کے ملاپ کے ساتھ ) ۔

ان کا ایگ دوسرا حصہ فن اور مگیار ( اساگل اور پسکاتر ) قبیلوں پر مشتمل تھا، تاتاری اور بسرمان غالبا اس نسل سے ہیں ۔

وولگا بلغاروں نے اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر 10ویں صدی عیسوی کے شروع میں اپنایا، جب 922ء 923ء میں خلافت عباسیہ کے خلیفہ المقتدر نے ابن فضلانکو وولگا بلغاروں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بھیجا، جس کے ساتھ قاضی اور اسلامی قانون کے استاد بھی وولگا بلغاریہ آئے، جن کے ہاتھ پر یہاں کی آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ ان ماہرین نے ہی یہاں مساجد اور قلعے تعمیر کرنے میں مدد کی۔ تانگری ازم اور دوسرے مذاہب بھی کہیں کہیں مانے جاتے رہے ۔

کروسیڈروں سے پہلے (جنھوں نے اپنے لیے تجارتی راستے ڈھونڈے)، دریائے وولگا کے درمیانی حصہ پر واقع ہونے کی وجہ سے یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کے بڑے حصے پر وولگا بلغاریہ کی اجارہ داری تھی ۔

وولگا بلغاریہ کا دار الحکومت بلغار ایک ترقی کرتا ہوا اور پھلتا پھولتا شہر تھا جو اپنے زمانے میں اسلامی دنیا کے بڑے شہروں سے رقبے، خوش حالی اور دھن دولت میں مقابلہ کرتا تھا ۔

وولگا بلغاروں کے تجارتی شراکت داروں میں شمال میں وائی کنک لوگ (ناروےیاگرا، بنینیٹ اور بجارملینڈ سے جنوب میں بغداد اور قسطنطنیہ (موجودہ ترکی کا شہر استنبولمغربی یورپ سے مشرق میں چین تک شامل تھے ۔

ریاست کے دوسرے بڑے شہروں میں بیلار، سوآر (سوار)، قاشان اور جوکتاؤ تھے۔ موجودہ تاتارستان اور روس کے شہر قازان (کازان) اور ییلابوگا وولگا بلغاریہ کے سرحدی قلعوں کے طور پر تعمیر کیے گئے تھے ۔

وولگا بلغاریہ کے کچھ شہر ابھی تک نہیں ملے لیکن وہ روسی دستاویزات میں درج ہیں، ان میں اوشل، توخچن، ابراہیم (بریاکیموف) اور تاؤ الی شامل ہیں۔ ان شہروں میں کچھ منگولوں کے حملے اور اس کے بعد تباہ ہو گئے۔ وولگا بلغاریہ کو قابل ذکر فوجی خطرہ صرف مغرب میں روسی راجواڑوں سے تھا اور 11ویں صدی میں متعدد روسی حملوں میں یہ علاقے تاراج ہوئے۔ 12ویں کے آخر اور 13ویں صدی کے شروع میں روسی رجواڑے ولادیمیر (موجودہ روس کا ایک صوبہ) کے حکمرانوں خاص طور پر آندرے متقی اور وسیوولادا سوم نے اپنی مشرقی سرحدوں کے تحفظ کے لیے باقاعدہ منصوبے کے ساتھ بلغاروں کے شہروں میں لوٹ مار کی، مغرب کی طرف سے سلاووں کے ڈر سے بلغاروں نے اپنا دار الحکومت بلغار شہر سے بیلار شہر منتقل کر لیا ۔

زوال

ترمیم

ستمبر 1223ء میں سمارا شہر کے قریب چنگیز خان کی فوج کا ہراول دستہ سوبدائی بہادر کے بیٹے اوران کی سرکردگی میں وولگا بلغاریہ میں داخل ہوا لیکن سمارا بیند کی جنگ میں شکست کھا کر واپس لوٹ گیا۔ 1236ء میں منگول پھر وولگا بلغاریہ پر حملہ آور ہوئے لیکن انھیں وولگا بلغاریہ کو، یہاں کی خانہ جنگی کے باوجود، فتح کرنے میں 5 سال لگے۔ اس طرح وولگا بلغاریہ الس جوجی کا حصہ بن گیا، حو بعد میں اردوئے زریں (ترکی اور تاتاری زبانوں میں آلتین اوردا) کہلایا ( یہ ریاست سائبیریا سے ہنگری تک پھلی ہوئی تھی)۔ اس کے بعد وولگا بلغاریہ بھی کئی ریاستوں میں منقسم ہو گیا اور ہر ریاست، اردوئے زریں کی باجگزار بن گئی اور کچھ خود مختاری حاصل کر لی۔ 1430ء کی دہائی میں خانان قازان قائم ہوئی جو ان سب ریاستوں میں سب سے اہم ریاست تھی ۔

کچھ تاریخ دانوں کے مطابق وولگا بلغاریہ کی 80 فیصد آبادی منگول مداخلت کے دوران ماری گئی تھی اور باقی آبادی کو منگولوں نے شمال میں آباد کر دیا (موجودہ تاتارستان اور چواشیا میں)۔ وولگا بلغاریہ کے گیاہستانوں (اسٹیپے ) میں خانہ بدوش قپچاق اور منگولوں کو آباد کیا گیا۔ جس کی وجہ سے زراعت کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ۔

وقت کے ساتھ ساتھ وولگا بلغاریہ کے تباہ شدہ شہروں کی نئے سرے سے تعمیر ہوئی اور وہ ایک دفعہ پھر اردوئے زریں ریاست کے تجارتی اور گھریلو صنعتی مرکز بن گئے۔ کچھ بلغاروں خاص طور پر ماہرین اور ہنرمندوں کو زبردستی اردوئے زریں کے دار الحکومت سرائے اور دوسرے جنوبی شہروں میں آباد کیا گیا۔ اس کے ساتھ وولگا بلغاریہ ایک بار پھر زرعی اور گھریلو صنعتی مرکز بن گیا ۔