خدائی خدمتگار آزادی ہند کی ایک تحریک جو عدم تشدد کے فلسفے پر برطانوی راج کے خلاف صوبہ خیبر پختونخوا کے پشتون قبائل نے شروع کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی خان عبدالغفار خان نے کی جو مقامی طور پر باچا خان یا بادشاہ خان کے نام سے معروف تھے۔[1]
بنیادی طور یہ تحریک پشتون علاقوں میں سماجی و فلاحی کاموں کے لیے ترتیب دی گئی تھی جس کا مقصد تعلیم کے متعلق شعور اور خوں ریزی کے خلاف بیداری پیدا کرنا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی رنگ میں ڈھلتی گئی اور متعدد مرتبہ برطانوی راج کے زیر عتاب آئی۔ 1929ء تک اس تحریک کے تمام راہنما صوبہ بدر کر دیے گئے اور مرکزی راہنما گرفتار کر لیے گئے۔ سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس تحریک کے راہنماؤں نے آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس سے رابطے بھی قائم کیے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت نہ ملنے پر اس تحریک نے باقاعدہ طور پر 1929ء میں انڈین نیشنل کانگریس سے الحاق کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کانگریس کی حمایت کے بعد برطانوی حکام پر سیاسی طور پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا، دوسری طرف مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی اخلاقی طور پر سیاسی قیدیوں کی حمایت شروع کر دی جس کے بعد خان عبد الغفار خان کو رہا کر دیا گیا اور تحریک پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تعزیرات ہند 1935ء کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی چھوٹے پیمانے پر انتخابی عمل شروع کیا گیا اور اسی کے بعد 1937ء کے انتخابات میں خان عبد الغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی منتخب ہوئے۔
خدائی خدمتگار تحریک کو 1940ء کے بعد ایک بار پھر برطانوی راج کے زیر عتاب آنا پڑا کیونکہ اس تحریک نے “ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک میں خوب سرگرمی دکھائی۔ اس دور میں خدائی خدمتگار تحریک کو صوبہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1946ء میں خدائی خدمتگار تحریک نے کانگریس کی اتحادی کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور بھاری کامیابی حاصل کی، گو کہ اس تحریک کو مسلمانوں کی تحریک پاکستان کے نمائندگان کی جانب سے انتہائی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔
حکومت برطانیہ کے ہندوستان میں خاتمے اور حکومت کی منتقلی کے مذاکرات کے دوران میں کانگریس اس بات پر رضامند ہو گئی کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ریفرنڈم کے ذریعہ فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیں۔ کانگریس کو اس بات کا یقین تھا کہ خدائی خدمتگار تحریک کی حمایت کی وجہ سے وہ نہایت آسانی سے اس ریفرنڈم میں صوبہ خیبر پختونخوا کو ہندوستان میں شامل کروا سکیں گے، مگر خدائی خدمتگار تحریک نے ریفرنڈم میں حصہ لینے سے انکار کر دیا اور صوبہ کا پاکستان سے الحاق ہوا۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد غیر متوقع طور پر خدائی خدمتگار تحریک کو نئی پاکستانی حکومت کے زیر عتاب آنا پڑا۔ اس تحریک کی حکومت پاکستان نے برطرف کر دیا اور اس تحریک پر پابندی عائد کر دی۔

ایک سرخ پوش بزرگ، مکولیکا بنرجی کی یاداشت: غیر مسلح پٹھان

خدائی خدمتگار تحریک سے پہلے کے حالات ترمیم

بیسیوں صدی سے پہلے پشتون معاشرہ نہایت جنگجو، عدم مساوات کا شکار، بنیاد پرست اور سماجی بگاڑ، جہالت اور غیر تعلیم یافتہ بنیادوں پر استوار تھا۔[2] تعلیم کے مواقع نہایت محدود تھے۔ یہاں آباد تمام پشتون قبائل مسلمان تھے اور معاشرے پر مذہب کی چھاپ واضح تھی، معاشرے پر مساجد کے امام جو مولوی کہلاتے تھے ان کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔ تعلیم حاصل کرنا اور خاص طور پر انگریزی طرز پر قائم سرکاری مدرسوں میں بچوں کا تعلیم حاصل کرنا جہنم واصل ہونے سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ خان عبد الغفار خان کے مطابق، “تعلیم کے متعلق اس تمام پروپیگنڈہ کا مقصد پشتونوں کو غیر تعلیم یافتہ اور جہالت میں غرق رکھنا تھا، اسی وجہ سے یہاں کی آبادی ہندوستان میں سب سے زیادہ پسماندہ تصور کی جاتی ہے، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ مولوی انگریز سرکار کی منشا پر یہ کام کر رہے ہیں۔“[3] وہ اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “چونکہ یہاں اسلام کو آئے کافی عرصہ بیت چکا ہے، اسلامی تعلیمات اپنی اصل شکل سے مسخ ہو چکی ہیں“۔[4]

تحریک کا منبع ترمیم

پشتونوں کی سماجی اصلاح واسطے چلائی گئی تحریک جو “انجمن اصلاح افغان“ کہلاتی ہے، اس تحریک کا ابتدائی مقصد سماجی بگاڑ کی اصلاح اور جسم فروشی کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔ خان عبد الغفار خان جو اس تحریک کے بانی تھے، اس بات سے آگاہ تھے کہ جب بھی برطانوی حکومت نے تحاریک کو کچلنے کی ٹھانی ہے تو براہ راست افواج کا استعمال کیا ہے، اگر برطانوی حکومت کو اس حوالے سے مکمل کامیابی حاصل نہیں بھی ہوتی، پھر بھی ان کی اس تحریک کو جزوی نقصان بھی خاصہ مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے خان عبد الغفار خان نے اس تحریک کو مجموعی طور پر عدم تشدد کے فلسفے سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔
یہ تحریک قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے فسادات سے پہلے شروع کی گئی تھی جب اس تحریک کے سینکڑوں غیر مسلح حامیوں پر برطانوی فوجیوں نے کھلے عام گولی چلائی۔ اس واقعہ کے بعد اس تحریک کو پشتون حلقوں میں کافی پزیرائی ملی، یہ نقصان شاید اس نقصان سے کہیں کم تھا جو 1947ء میں پاکستان کے قائم ہونے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے مسلم لیگی وزیر اعلٰی عبد القیوم خان نے اس تحریک کو گرفتاریوں اور سرکاری تحویل میں تشدد کے ذریعے پہنچایا۔ اس تحریک پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور مشہور بابرہ قتل عام دراصل اس تحریک کو پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس تحریک کو اپنے جوبن کے زمانے میں تقریباً 100000 غیر مسلح سرخ پوشوں کی حمایت حاصل تھی۔
بینر جی مکولیکا جو “غیر مسلح پٹھان“ کے مصنف ہیں، ان کے مطابق، “خدائی خدمتگار تحریک مقامی طور پر چلائی جانے والی نہایت اثر انگیز تحریک تھی، اس تحریک کے دو بنیادی اجزاء تھے، اسلام اور پشتونولی۔ عدم تشدد کا فلسفہ دراصل اسلام اور پشتونولی کی اصل روح سے ملاپ کھاتا تھا اور یہی اس تحریک کی برطانوی راج کے دوران کامیابی کی ضمانت بھی بن گیا“۔

تحریک کی اٹھان ترمیم

تحریک کے ابتدائی دور میں سماجی اصلاح اور پشتونوں کی برطانوی سامراج کے سامنے اہمیت واضع کرنا دو اہم ستون تھے۔ خان عبد الغفار خان نے خدائی خدمتگار تحریک کو باقاعدہ شروع کرنے سے پہلے مقامی طور پر دوروں، جلسوں اور مباحثوں کے ذریعے اپنے نکتہ نظر کو نہایت خوب انداز میں پشتون حلقوں میں منوا لیا تھا۔ انجمن اصلاح افغان کے نام سے شروع ہونے والی یہ تحریک مختلف شاخوں پر مشتمل تھی، جن میں سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والی شاخیں “انجمن زمینداران“ اور “نوجوان تحریک برائے پشتون جرگہ“ تھیں جو 1927ء میں قائم کی گئیں۔ 1928ء میں پشتون مسائل اور سماجی اصلاحات کو اجاگر کرنے کے لیے خان عبد الغفار خان نے ایک میگزین “پختون“ کے نام سے جاری کیا۔ 1929ء میں قصہ خوانی بازار پشاور میں ہوئے قتل عام کے بعد، اسی شام کو خان عبد الغفار خان نے انجمن اصلاح افغان کو خدائی خدمتگار تحریک میں ضم کرنے اور اس کے سیاسی مقاصد کی نشان دہی کا اعلان کر دیا۔[1]

سرخ پوش ترمیم

خان عبد الغفار خان نے اس تحریک میں بھرتیوں کے لیے سب سے پہلے ان نوجوانوں کو ترجیح دی جو مدارس سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ یہ نوجوان تربیتی مراحل سے گزرتے تھے اور خاص لباس زیب تن کرتے اور مکمل طور پر تحریک سے وابستہ تھے۔ گاؤں گاؤں جا کر تحریک کا پیغام پہنچانا اور نئی بھرتیاں ممکن بنانا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ پہلے تحریک کے لیے سفید لباس کا انتخاب کیا گیا، لیکن یہ لباس سفر کی وجہ سے جلد میلا ہو جاتا تھا۔ مقامی طور پر رضاکاروں نے اپنے لباسوں کو اول ہلکے اینٹ کے رنگ جیسے رنگنا شروع کر دیا اور پھر باقاعدہ طور پر اینٹ کا گہرا رنگ لباس پر استعمال کیا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ پشتون حلقوں میں یہ رضا کار “سرخ پوش“ کے نام سے مشہور ہو گئے۔

تحریک کی تنظیمی ساخت ترمیم

اس تحریک میں شامل ہونے والے رضاکاروں کو بنیادی تربیت فراہم کی جاتی تھی اور ان کی فوجی طرز پر پلاٹون بنائی جاتی تھیں۔ ہر پلاٹون کی سربراہی چیدہ شخصیت کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور ان رضا کاروں کو بنیادی فوجی تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ان رضاکاروں کے پاس اپنے اپنے جھنڈے ہوتے تھے جو پہلے تو سرخ رنگ، پھر تین رنگی لیکن حتمی طور پر سرخ رنگ کے جھنڈے ان کی پہچان بن گئے۔ مرد سرخ جبکہ خواتین کالا لباس پہنتی تھیں۔ فوجی طرز پر ہر پلاٹون کا اپنا جھنڈا، بیج، نشانی اور نعرہ بھی مختص ہوا کرتا تھا۔
خان عبد الغفار خان نے کئی ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جو جرگہ کہلاتی تھیں۔ جرگہ دراصل پشتون معاشرے میں روایتی قبائلی کمیٹی کو کہا جاتا ہے۔ گاؤں کی سطح پر قائم تنظیمیں مل کر بڑی تنظیمیں بناتیں تھیں جو ضلعی سطح پر قائم کمیٹیوں یا جرگوں کو جوابدہ ہوتی تھیں۔ صوبائی جرگہ اس تحریک کا تنظیمی مرکز تھا اور اس میں شامل ارکان ذیلی قصباتی اور گاؤں کے جرگوں سے نامزد کیے جاتے تھے۔ خان عبد الغفار خان صوبائی جرگہ اور تحریک کے سربراہ تھے۔
پلاٹون کے افسران یا سربراہان منتخب نہیں کیے جاتے تھے، اس کی وجہ پشتون قبائل میں اس طرز پر ہونے والی چپقلشوں اور اختلافات کا ہونا تھا۔ خان عبد الغفار خان نے اس رکاوٹ سے بچنے کے لیے سالار اعظم مقرر کیا جو اپنے لیے ذیلی افسران نامزد کرتا تھا۔ اس کے علاوہ جرنیل بھی مقرر کیے جاتے تھے۔ یہ تمام عہدے رضاکارانہ ہوتے تھے، افسران، جرنیل، سالار، جرگے کے ارکان اور تحریک کا سربراہ بھی تحریک کے لیے یکسوئی سے کارکنوں کے شانہ بشانہ کام کرتا اور ماہانہ چندہ دینے کا پابند ہوتا۔ اس تحریک میں خواتین کو بھی بھرتی کیا جاتا تھا جنھوں نے خواتین میں سماجی بہتری اور تحریک کے مقصد کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اس تحریک کے رضا کار گاؤں گاؤں جاتے اور وہاں مدرسے قائم کرتے، سماجی خدمات اور کھیتوں میں کام کرتے۔ عوامی اجتماعات کا انعقاد کرتے اور وقتا فوقتاً تربیتی مشقیں اور پہاڑوں میں فوجی طرز کے مارچ پاسٹ کا انعقاد کرتے۔

نظریہ ترمیم

 
خدائی خدمتگار

خان عبد الغفار خان کی سربراہی میں اس تحریک نے عدم تشدد کے فلسفے پر گامزن رہتے ہوں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سماجی خرابیوں کے خلاف اور پشتون حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ مسلمان پشتون کے حقوق کی آواز اٹھائے اس تحریک نے کئی موقعوں پر جب پشاور میں ہندوؤں اور سکھوں پر برطانوی افواج نے تشدد کیا، خدائی خدمتگار تحریک کے رضاکاروں نے امدادی کارروائیاں جاری کیں۔
“نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں آکر ہمیں یہ سکھایا ہے کہ،“مسلمان وہ شخص ہے جس کسی کو بھی زبان یا اپنے فعل سے نقصان نہ پہنچائے اور وہ خدا کی بنائی مخلوقات کے لیے فائدہ اور خوشی کا پیغام لائے۔ خدا کی زات پر ایمان دراصل اس کے پیدا کیے ہوئے انسانوں سے محبت کا دوسرا نام ہے“۔۔ خان عبد الغفار خان
“مسلمان یا پشتون کو عدم تشدد کا حامی سمجھتے ہوئے مجھے کوئی عار محسوس نہیں ہوتے۔ یہ کوئی نیا فلسفہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو چودہ سو سال پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ میں ثابت کر دیا تھا، ہم دراصل نبی کریم کی سنت پر عمل کر رہے ہیں“۔۔ خان عبد الغفار خان

تحریک کے خلاف برطانوی راج کے حربے ترمیم

برطانوی افواج خدائی خدمتگار تحریک کے خلاف کئی حربوں کا استعمال کرتی رہی،

“برطانوی فوجی ہمیں تشدد کا نشانہ بناتے، ہمیں انتہائی سرد موسم میں تالابوں میں گھنٹے ڈبوئے رکھتے، داڑھیاں مونڈ ھ دیتے لیکن اس کے باوجود خان عبد الغفار خان نے ہمیں اور دوسرے کارکنان کو بتا رکھا تھا کہ کسی بھی صورت صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔ باچا خان کہا کرتے تھے کہ تشدد کا کوئی جواب صرف یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر تشدد ہو، لیکن یاد رکھو کہ عدم تشدد کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ تم عدم تشدد کے فلسفہ اور اس سے جڑے صبر کو قتل نہیں کر سکتے، یہ ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ کئی موقعوں پر برطانوی فوجی ہم پر اپنے گھوڑے اور گاڑیاں چڑھا دیتے مگر ہم منہ میں چادریں ڈال کر اسے بھینچ لیتے تاکہ ہماری آہیں باہر نہ نکلیں۔ گو ہم انسان تھے، مگر ہمیں اپنے زخموں اور کمزوریوں کو واضع کرنے کی اجازت نہ تھی۔“ -- مشرف دین (سرخ پوش)۔


ایک اور حربہ جو غیر مسلح اور عدم تشدد کا پرچار کرنے والے سرخ پوشوں کے خلاف راستہ بند کرنے کے دوران آزمایا جاتا تھا وہ جلوس پر گاڑیاں اور گھوڑوں کے ذریعے چڑھائی کرنا ہوتا تھا۔ 1930ء میں ایک موقع پر گھروال رائفلز کے سپاہیوں نے غیر مسلح خدائی خدمتگاروں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ اس حکم عدولی کے بعد رجمنٹ کی جانب سے لندن کو براہ راست یہ پیغام بھجوایا گیا کہ ہندوستان کی فوج کسی بھی ناخوشگوار موقع اور جنگ میں قابل بھروسا تصور نہیں کی جا سکتی۔ 1931ء تک خدائی خدمتگار کے 5000 جبکہ گانگریس کے 2000 اراکین کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔[5]
1932ء میں خدائی خدمتگار تحریک نے نئے طور سے اپنی جدوجہد کو استوار کیا۔ اس بار خواتین کو مرکزی کردار دیا گیا۔ سماجی روایات کے عین مطابق خواتین کی تضحیک اور ان سے بدتمیزی نہایت برا خیال کیا جاتا تھا۔ گو یہ تحریک اس نئے طریقہ کار سے انتہائی تیزی سے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی مگر پھر بھی ایک بار پانچ پولیس افسران کو بنارس میں معطل کر دیا گیا۔ اس کی وجہ وہ رپورٹ تھی جس میں ان کے خلاف خواتین رضاکاروں کے خلاف تشدد کا ثابت ہوا تھا۔
برطانوی افواج نے 1932ء میں ہی باجوڑ کے ایک گاؤں پر بمباری کی اور خان عبد الغفار خان کو 4000 سرخ پوش رضا کاروں کے ہمراہ گرفتار کر لیا۔ باجوڑ میں یہ بمباری 1936ء کے اواخر تک جاری رہی، یہ نہایت ظالمانہ فعل تھا اور ایک برطانوی افسر نے اپنے 1933ء میں ایک تجزیاتی رپورٹ میں تحریر کیا تھا کہ، “ہندوستان مشقوں کے لیے بہترین جگہ ہے، برطانوی سلطنت میں شاید ایسا کوئی دوسرا مقام نہ ہو گا جہاں افواج برطانیہ کو اپنی صلاحیتوں کو ہر طرح سے آزمانے کا موقع نہ ملتا ہو، حالیہ بمباری اس کی بہترین مثال ہے“۔
ان تمام حربوں کے علاوہ سرخ پوشوں کو زہر دینا اور گرفتار مردوں کو انتہائی ظالمانہ طریقہ سے خصی کر دینے کے حربے انتہائی درجہ کی انسانی تذلیل میں شامل تھے۔[6][7] دوسری جنگ عظیم کی مخالفت میں ڈاکٹر خان صاحب کے استعفٰی کے بعد، برطانوی حربوں میں ایک نیا رخ دیکھا گیا۔ اب وہ پہلے جیسے تشدد کے قائل نہ رہے تھے بلکہ اب ان کے حربے محلاتی سازشوں پر مبنی تھے۔ یعنی تحریک کی مختلف شاخوں میں پھوٹ ڈلوانے کا کام شروع کیا گیا۔ پشتونوں میں اسلام کے نام پر ایک بار پھر سے نفرت اور فرقہ وارانہ تشدد کا حربہ آزمایا جانے لگا اور سب سے بڑھ کر صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ پروپیگنڈہ بہت عام ہو گیا کہ ہندو اور پٹھانوں کے اتحاد میں یہ تحریک دراصل نہایت خوفناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ کام مسجدوں کے امام یا مولویوں کے ذریعہ کیا جانے لگا۔ گورنر جارج کننگھم نے اپنے ایک تجزیاتی پرچے میں حکومت برطانیہ کو کچھ ایسے کلمات ارسال کیے جو ستمبر 1943ء میں جاری کیے گئے تھے، “حکومت برطانیہ کی یہ حکمت عملی اب تک نہایت کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ دراصل اسلام کے گرد گھومتی ہے۔[8]

انڈین نیشنل کانگریس سے تعلقات ترمیم

 
خان عبد الغفار خان اور گاندھی

خدائی خدمتگار تحریک کو 1930ء میں انتہائی درجے کے حکومتی دباؤ کا سامنا تھا اور خان عبدالغفار خان اور ان کے ساتھی اس بات پر متفق تھے کہ انھیں سیاسی حمایتیوں کی جلد یا بدیر ضرورت پڑے گی تاکہ اس دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ یہ صرف سیاسی قوتیں ہی کر سکتی تھیں۔ اسی حوالے سے دسمبر 1928ء میں بیرسٹر محمد جان عباسی نے خان عبد الغفار خان کو خلافت کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔ سیاسی اتحاد کے ان مذاکرات کا نتیجہ کچھ اتنا خوشگوار نہ نکلا تھا کیونکہ مولانا شوکت علی پر پنجاب سے ایک رکن نے جسمانی حملہ کر دیا اور یہ مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے۔
اس واقعے کے بعد گو خان عبدالغفار خان کے علی برادران سے تعلقات خوشگوار رہے مگر پھر بھی گاندھی پر ان کی کڑی تنقید سے باچا خان کی نظر میں گاندھی کی عزت بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ کانگریس نے تحریک کو اس کی تحریک آزادی ہندوستان میں شمولیت کے بدلے ہر قسم کی سیاسی، سماجی اور عددی حمایت کی یقین دہانی بھی کروا دی۔ کانگریس کی طرف سے حمایت کا یہ مسودہ جب خدائی خدمت گار تحریک کے صوبائی جرگہ میں پیش کیا گیا تو 1931ء میں غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر کانگریس سے اتحاد کر دیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں اس اتحاد کا قائم ہونا برطانوی حکومت کے لیے بڑا جھٹکا ثابت ہوا اور سیاسی طور پر اس تحریک پر سے دباؤ میں کافی حد تک خاتمہ ہو گیا۔

تحریک کا ضابطہ ترمیم

تحریک کے ضابطے کے حوالے سے دو مختلف نسخے اس وقت دستیاب ہیں جو یہ ہیں:

نسخہ نمبر 1 ترمیم

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں خدائی خدمتگار ہوں۔ میں بغیر کسی ذاتی فائدے کے اپنی قوم کی خدمت کروں گا۔ میں اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی نا انصافی کا ذاتی طور پر بدلہ نہیں لوں گا اور اس بات کا پابند رہوں گا کہ میرے فعل کسی کے لیے بھی بوجھ یا تکلیف نہ بن پائیں۔ میں عدم تشدد کا داعی ہوں۔ اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کو تیار ہوں۔ میں انسانوں کی خدمت کروں گا، میری اس خدمت کا دائرہ کار کسی بھی صورت کوئی مذہب یا قبیلہ نہیں ہو گا بلکہ ہر انسان کی خدمت میرا فرض قرار پایا جائے۔ میں یہاں مقامی طور پر بنائی گئی اشیاء استعمال کرنے کا پابند ہوں۔ میں کسی عہدے کا خواہش مند نہیں ہوں۔[9]

نسخہ نمبر 2 ترمیم

میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں کہ،

  1. میں اپنے آپ کو خدائی خدمتگار میں شریک کرنے کی اور اس کا حصہ بننے کی درخواست پیش کرتا ہوں۔
  2. میں ہر موقع پر اپنے ذاتی آرام، جائداد اور یہاں تک کہ زندگی کی قربانی بھی قوم کی خدمت اور آزادی کے لیے پیش کرنے کو تیار ہوں۔
  3. میں قبائلی جھگڑوں اور خاندانی جھگڑوں میں حصہ دار نہیں بنوں گا اور نہ ہی کسی سے جھگڑا، جھڑپ یا مار پیٹ کروں گا۔ میں ہمیشہ عدم تشدد کا پاسدار رہوں گا اور اپنے دشمن یا مخالف کو پناہ اور آرام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔
  4. میں کسی بھی دوسری تنظیم کا حصہ نہیں بنوں گا اور نہ ہی عدم تشدد کے فلسفے کی پاسداری میں ہونے والے نقصان کا ازالہ طلب کروں گا۔
  5. میں ہمیشہ اپنے افسران کی ہدایات کا پابند رہوں گا۔
  6. میں ہمیشہ عدم تشدد کے فلسفے پر زندگی گزاروں گا۔
  7. میں انسانیت کی خدمت کروں گا۔ میری زندگی کا مقصد مکمل آزادی کا حصول ہے۔ ملکی بھی اور مذہبی۔
  8. میں اپنے افعال میں ہمیشہ سچائی اور پارسائی کو فروغ دوں گا۔
  9. میں اپنی ان خدمات کا کوئی بھی صلہ کسی بھی انسان سے طلب نہیں کروں گا۔
  10. میری تمام تر خدمات خدائے بزرگ برتر کی خوشنودی کے لیے ہیں، میں کسی بھی طور کسی انسان سے ان خدمات کے صلے میں کچھ طلب کرنا پسند نہیں کروں گا۔[10]

تحریک کا ترانہ ترمیم

ہم ہیں اللہ کے سپاہی، ملک اور موت اسی کے لیے
ہم بڑھتے ہیں آگے، ساتھ اپنے راہنما، ہم ہیں ہر دم تیار، موت ہے ہماری
ہم بڑھتے رہیں گے آگے، اللہ ہی کے لیے، اس کے نام کے ہیں شیدائی، ہم مر بھی جائیں
ہم خدمت کے قائل، اللہ ہے ہمارا ساتھ، ہم ہیں سپاہی، ہم ہیں خدام، اللہ کے سپاہی
اللہ ہی ہمارا بادشاہ، عظیم تر ہے وہ بادشاہ، ہم اپنے بادشاہ کے سپاہی
اللہ ہے مالک ہمارا، ہم ہیں اللہ کے سپاہی
یہ ملک ہمارا ہے، ہم پاسباں اس کے ہیں
ہم مر جائیں اس کی خاطر، راضی ہے ہمارا رب، ہم اللہ کے سپاہی
ہم خدمت کے قائل، ہم محبت کرنے والے، عظیم تر ہے ہمارا مقصد، عظیم ہے ہماری قوم
ہم آزادی کے حامی، کٹ کیوں نہ جائے گردن، ہم اللہ کے سپاہی، ہم اللہ کے سپاہی
[11]

تحریک سے سیاسی جماعت تک ترمیم

تعزیرات ہند 1935ء کے تحت جب صوبائی خود مختاری میسر آ گئی تو خیبر پختونخوا میں چھوٹے پیمانے پر 1936ء میں انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ خان عبدالغفار خان کو صوبہ بدر کر کے ان کی یہاں آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ آپ کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب ان اس موقع پر صوبہ میں تحریک کا انتظام سنبھالا اور اس کو نیا سیاسی رخ عطا کیا۔ اس نئی سیاسی جماعت نے نہایت قلیل اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور ڈاکٹر خان صاحب وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ خان عبد الغفار خان 29 اگست 1937ء کو پشاور واپس آ گئے اور پشاور کے روزنامہ خیبر میل نے اس دن کو ان کی زندگی کا خوشگوار ترین دن گردانا۔کانگریس کے ساتھ اتحاد میں قائم یہ حکومت دو سال تک قائم رہی اور ڈاکٹر خان صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ کئی اصلاحات متعارف کروائیں۔ جن میں زرعی اصلاحات، پشتو کو بطور تدریسی زبان متعارف کروانا اور سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل تھیں۔
کانگریس کی مرکزی قیادت کی ہدایت پر صوبے کے گیارہ میں سے آٹھ وزراء نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر آزادی نہ دینے پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ ان استعفوں نے ہندوستانی تاریخ میں نیا سیاسی منظر نامہ واضع کیا اور خیبر پختونخوا میں خدائی خدمتگار تحریک کے مخالفین کو اپنے قدم جمانے کا موقع میسر آ گیا۔

خدائی خدمتگار تحریک کا زوال ترمیم

خدائی خدمتگار تحریک کے زوال کے پس پردہ دو بڑے عوامل تھے۔ ان دو عوامل میں پہلا 1939ء میں کانگریسی قیادت کی ہدایت پر بطور احتجاج صوبائی حکومت سے استعفیٰ تھا۔ خدائی خدمتگار تحریک کا یہ استعفیٰ صوبے میں مسلم لیگ کے لیے سیاسی طور پر نہایت موزوں ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ اس استعفیٰ کی وجہ سے برطانوی حکومت کا دباؤ پھر سے اس تحریک پر درپیش ہو گیا۔
1940ء میں پختون اتحاد میں پھوٹ پڑ گئی۔ یہ پھوٹ نوجوانوں کی اس تنظیم میں واقع ہوئی جو خدائی خدمتگار تحریک سے وابستہ تھی۔ 1940ء میں یہ پھوٹ اندرونی انتخابات کے نتائج پر سامنے آئی جب کوہاٹ کے سالار اسلم خان نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی مگر خان عبد الغفار خان نے ان نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ خان عبد الغفار خان کے اس فیصلہ نے جنوبی اضلاع میں تحریک کو نمایاں نقصان پہنچایا۔ یہاں سے ہی تحریک نے صوبائی اور قومی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ عبد الغفار خان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ سالار اسلم خان چونکہ فارورڈ بلاک سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس ضمن میں انھیں اپنے بیٹے غنی خان کا فیصلہ قابل قبول ہو گا جو نوجوانوں کی اس تنظیم کے سربراہ تھے۔ برطانوی حکومت نے اس صورت حال کا خوب فائدہ اٹھایا۔“یہ خان عبد الغفار خان کی انتہائی فاش سیاسی غلطی تھی، گو وہ اس پر بعد میں پشیمان بھی ہوئے مگر یہ بھی درست ہے کہ ان کا نکتہ نظر بالکل درست تھا۔ اس وقت غنی خان کے علاوہ کسی پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔[12]
عدم تشدد کے فلسفے کا بھی بعض اوقات خیال نہ رکھنا اس تحریک کے زوال کا سبب بنا، مثال کے طور پر غنی خان نے اپریل 1947ء میں نوجوانوں کی تنظیم میں ایک مسلح گروہ تشکیل دیا۔ یہ گروہ مسلم لیگی کارکنوں کی جانب سے گانگریسی ارکان اور خدائی خدمتگار تحریک کے سرخ پوشوں پر حملوں کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اس گروہ کا بظاہر خدائی خدمتگار تحریک سے کوئی واسطہ نہ تھا مگر غنی خان جو عبد الغفار خان کے فرزند تھے اور خدائی خدمتگار تحریک سے وابستہ بھی رہے، ان کا یہ طرز عمل تحریک کے لیے کچھ اچھا شگون ثابت نہ ہوا۔

اکتوبر 1946ء میں جواہر لعل نہرو نے صوبہ خیبر پختونخوا کا دورہ کیا اور اس دورہ کے اثرات نہایت افسوسناک حد تک ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت کی برطرفی کی شکل میں برآمد ہوئے۔ اس دورہ کے بعد جب سرخ پوش احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے تو یہاں آباد ہندوؤں اور سکھوں کو یہ خطرات لاحق ہو گئے کہ شاید یہ تقسیم ہند سے پہلے ہوئے دوسروں علاقوں میں ہندو مسلم فسادات کی ہی کڑی ہے۔ سرخ پوش اس احتجاج کے بعد صوبہ کی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو گئے۔[13]

بعد از تقسیم ہند ترمیم

1947ء میں تقسیم ہند خدائی خدمتگار تحریک کے باقاعدہ خاتمے کا نشان بن گئی۔ گو خیبر پختونخوا میں گانگریسی حمایت یافتہ خدائی خدمت گار تحریک کی حکومت قائم تھی مگر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر گورنر خیبر پختونخوا نے اس حکومت کو برطرف کر دیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ عبدالقیوم خان نے وزارت اعلٰی کا منصب سنبھال لیا، جو پہلے کانگریس میں ہی شامل تھے اور بعد میں مسلم لیگ کا حصہ بنے۔ عبدالقیوم خان نے عبدالغفار خان اور محمد علی جناح کے درمیان ہوئے روابط کو ایک سازش کے تحت منسوخ کروا دیا، یہی موقع تھا کہ اس کے بعد حکومت خیبر پختونخوا اور حکومت پاکستان نے اس تحریک کے راہنماؤں اور رضا کاروں پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حالات دراصل ذاتی نوعیت کی مخالفتوں کی وجہ سے پیدا کیے گئے۔[14]محمد علی جناح نے عبدالقیوم خان کو صوبہ میں کانگریسیوں اور خدائی خدمتگار تحریک کے رضاکاروں سے نمٹنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی۔ تحریک کے خلاف ہوئے پرتشدد اقدامات کے نتائج نہایت بھیانک ہیں اور پشاور میں بابڑہ قتل عام کا واقعہ اس دور کی یادگار ہے۔ گو خدائی خدمتگار تحریک قیام پاکستان کے کٹر مخالفین تصور کیے جاتے تھے مگر یاد رہے کہ ستمبر 1947ء میں سردریاب کے مقام پر اس تحریک کے مرکزی قائدین نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پاکستان کو تسلیم کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ اس سے پہلے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کی پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ہی پاکستان کی وفاداری کا عہد کیا گیا مگر مقامی طور پر مسلم لیگی قیادت نے مرکزی قیادت کو اندھیرے میں رکھا، مقامی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بعد کے پر تشدد واقعات اس تحریک اور صوبہ کے پختونوں کے لیے نہایت بھیانک رخ اختیار کر گئے۔[15]
گو قیوم خان اور مرکزی قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ خدائی خدمتگار تحریک کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا مگر پھر بھی اس تحریک کو وسط ستمبر 1948ء میں غیر قانونی قرار دے کر پابندی عائد کر دی۔ وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور صوبائی حکومت نے مرکزی دفاتر جو سردریاب کے مقام پر 1942ء میں قائم کیے گئے تھے نذر آتش کر دیے۔ اس کے بعد ہی برپا ہونے والے پرتشدد احتجاج میں بابرہ کا قتل عام وقع پزیر ہوا۔[16]
اس تحریک کو راہنماؤں کی ذاتی فوائد یا بدلتے حالات کی وجہ سے چھوڑ جانے پر بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کلیدی اراکین نے سیاسی طور پر قیوم خان کو باور کرانے کے لیے مسلم لیگی دھڑے تشکیل دیے، مثال کے طور پر پیر مانکی شریف نے مسلم لیگی دھڑا تشکیل دے کر قیوم خان سے الحاق کیا اور 1951ء میں قیوم خان کی دوبارہ بطور وزیر اعلٰی تقرری پر سیاسی فائدہ حاصل کیا۔[16]
1951ء میں عارضی طور پر اس تحریک پر سے پابندی اٹھا لی گئی لیکن 1955ء میں ایک بار پھر مرکزی حکومت نے پابندی عائد کر دی۔ اس بار یہ پابندی خان عبد الغفار خان کی ون یونٹ کے قیام کے خلاف احتجاج کے بعد عائد کی گئی تھی۔ مرکزی حکومت نے خان عبد الغفار خان کو اس ضمن میں مرکزی حکومت میں وزارت کی پیشکش کے ساتھ خدائی خدمتگار تحریک کو مرکزی دھارے کی جماعت بنانے کی بھی پیشکش کی مگر خان عبد الغفار خان نے اسے رد کر دیا۔[17]
گو 1972ء میں خدائی خدمتگار تحریک پر عائد پابندی ختم کر دی گئی مگر سیاسی طور پر یہ تحریک ختم ہو چکی تھی۔

تنقید ترمیم

گو برطانیہ کے سامراجی قبضہ کے خلاف خدائی خدمتگار تحریک نہایت موثر تھی، مگر اس تحریک کے سماجی اثرات دیرپا ثابت نہ ہوئے۔ خان عبدالغفار خان کے خاندان کا تحریک کے سیاسی مقاصد پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے یہ تحریک، پاکستان کے سرکاری حلقوں میں خاص مقام پیدا نہ کر سکی۔ اس تحریک پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کی مخالفت دراصل اس موقف کی ترجمانی تھا کہ یہ تحریک قیام پاکستان کی بھی مخالف تھی۔[18] ان وجوہات کی بنا پر اس تحریک کو پاکستان کے قیام کے بعد کئی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، 1950ء اور 1960ء کے درمیانی عرصہ میں اس تحریک کو باقاعدہ کمیونسٹ قرار دیا جاتا تھا۔ کئی مخالف دھڑوں نے اس تحریک کو اسلام مخالف نظریات کی حامل بھی قرار دیا۔ اس تحریک کا عدم تشدد کا دعویٰ بھی کئی موقعوں پر موثر دکھائی نہ دیا، کئی مخالفین کے مطابق جیسے اس تحریک کو سلطنت برطانیہ کے خلاف کامیابیاں ملیں شاید کسی اور سامراجی طاقت اس طرح کی تحریک کو کسی بھی صورت قبول نہ کرتی، جیسے کہ برطانوی راج نے قبول کیا تھا۔ اس کا ایک ثبوت پاکستانی حکومت کے اس تحریک کے خلاف پر تشدد اور سیاسی واقعات کا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس تحریک کا سیاسی ڈھانچہ اس طور متاثر ہوا کہ 1972ء میں یہ تحریک اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل نہ تھی۔[2] کئی تنقید نگاروں کے خیال میں خدائی خدمت گار تحریک کا عدم تشدد کا دعویٰ دراصل اتنا بھی موثر اور قابل قبول نہ تھا جتنا کہ اس تحریک کے حامی گردانتے ہیں۔ بینر جی اور شوف فیلڈ جیسے مصنفین نے اپنی تصانیف میں کئی واقعات حوالوں کے ساتھ شائع کیے ہیں جہاں اس تحریک کے رضا کار اپنے عدم تشدد کے فلسفے سے ہٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔[19]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب سرخ پوش تحریک۔(2008) بمطابق 14 ستمبر 2008ء بریٹانیکا آن لائن: ربط
  2. ^ ا ب مکولیکا بینر جی۔ غیر مسلح پٹھان: صوبہ خیبر پختونخوا میں مخلافت اور یاداشتیں۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس (2000ء) 
  3. خان عبد الغفار خان۔ میری زندگی اور جدوجہد۔ دہلی: ہند پاکٹ کتب (1969ء)۔ صفحہ: 12 
  4. خان عبد الغفار خان۔ میری زندگی اور جدوجہد۔ دہلی: ہند پاکٹ کتب (1969ء)۔ صفحہ: 17 
  5. قصہ خوانی میں قتل و غارت کا حال: قاضی سرور۔ 20 اپریل 2002ء دی سٹیٹ مین آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ statesman.com.pk (Error: unknown archive URL)
  6. پٹحانوں کی نسل کشی :آر کے کوشک روزنامہ ٹریبون، جمعہ 11 جون 2004ء، چندریگڑھ، بھارت آن لائن [1]
  7. "غنی خان کا انٹرویو۔ ہڑپہ ڈاٹ کام پر"۔ 17 جولا‎ئی 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2016 
  8. پختون قوم پرستی ٹوٹنے سے بننے تک [1] مصنف: خان عدیل (یونیورسٹی آف نیو انگلینڈ، آسٹریلیا) ایشیائی قو میتیں، والیم 4, نمبر شمارہ 1, فروری 2003ء کارفیکس پبلشنگ: ٹیلر اور فرانسس گروپ [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ khyber.org (Error: unknown archive URL)
  9. سرفراز ناظم نے جیسے بیان کیا (عمر 86 سال). بینر جی 2000ء:74.
  10. گاندھی جی کی تحریر، “آزاد ترجمہ“ میں شائع ہوئی۔ 15 اکتوبر، 1938ء اور خان عبد الغفار خان کی کتب میں بھی نقل ہوئی 1997ء:صفحہ 269.
  11. ہارون الرشید (2005ء) تاریخ پختون۔ والیم 2 صفحہ 573
  12. آر۔کے۔کوشک (11 جون 2004ء)۔ "پختونوں کے اختلافات"۔ نٹرائیبون 
  13. "پشاور کے باہر سرخ پوشوں کا اجتماع: ہندوؤں اور سکھوں کا خیبر پختونخوا سے انخلاء (جارج جونز)"۔ نیویارک ٹائمز۔ بدھ 19 مارچ 1947ء 
  14. ایم ایس کوریجو۔ سرحدی گاندھی، تاریخ میں مقام۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی (1993ء) 
  15. شیر زمان تیازی۔ "پشتونوں کے مسائل"۔ خیبر ڈاٹ آرگ 
  16. ^ ا ب رفیق افضل۔ پاکستان: تاریخ اور سیاست 1971ء - 1947ء۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان (2002ء)۔ صفحہ: 38 
  17. سید افضال حسین زیدی (28 ستمبر 2005ء)۔ "کیا پرانی قسط دہرائی جائے گی؟"۔ روزنامہ ڈان 
  18. خان عدیل۔ "پختون قوم پرستی"۔ ایشیائی قومیتیں۔ والیم 4، نمبر شمارہ 1۔ کارفیکس پبلشنگ: ٹیلر اینڈ فرانسس گروپ (فروری 2003ء) 
  19. شوف فیلڈ۔ "پختون قبائل"۔ افغان جنگجو معاشرہ اور وسط ایشیا کے قبائل۔ سوم۔ شوف فیلڈ پبلشرز، وکٹوریا (اگست 2003ء)۔ صفحہ: 220 

مطالعہ کے لیے مددگار مواد ترمیم

  • بالڈف، سکاٹ: خدائی خدمتگار کرسچن سائنس مانیٹر [3]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ khyber.org (Error: unknown archive URL)
  • بینر جی، میکولیکا (2000ء). غیر مسلح پٹھان: خیبر پختونخوا میں مخالفت اور یاداشتیں۔ (ISBN 0-933452-68-3)
  • ایک ناتھ ایزوران (1999ء). اسلام کا غیر مسلح سپاہی: غفار خان: پہاڑوں جیسا بلند آہنگ. (نلگری پریس، تومیلز، کینیڈا). ISBN 1-888314-00-1
  • خان بہروز (جولائی 2004ء) تاریخ میں سفر۔ دی نیوز۔ ربط [4][مردہ ربط]
  • ہارون الرشید (2005ء) پٹھانوں کی تاریخ۔ والیم 2 صفحہ 573
  • شیر زمان۔ (2002ء) باچا خان افغانستان میں: ایک یاداشت
  • انیلا بابر، (29 مئی 2006ء) پختونولی - دی پوسٹ
  • خان عبد الغفار خان۔ 1997ء۔ "خدائی خدمتگار (اللہ کے خادم)/صوبہ خیبر پختونخوا میں سرخ پوشوں کی تحریک، 1927ء-47ء۔" پی ایچ ڈٰی کا مقالہ۔, تاریخ۔ ہاوائی یونیورسٹی۔
  • مائیکل تھامس (جون 2004ء) کیا ہم عبد الغفار خان جیسے نہیں ہیں؟آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islamicvoice.com (Error: unknown archive URL)
  • تالبوت، آئن (یکم مارچ 1989ء)صوبائی سیاست اور تحریک پاکستان: مسلم لیگ کی صوبہ خیبر پختونخوا میں اٹھان 1937ء

بیرونی روابط ترمیم