دار ارقم مکہ مکرمہ میں کوہ صفا کے قریب ایک گھر تھا جہاں مسلمان ابتدا اسلام میں چھپ کر نماز ادا کرتے۔ دار ارقم کو پہلا اسلامی مدرسہ یا پہلی مسلم جامعہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ گھر ارقم بن ابی الارقم مخزومی کا تھا جو مشرکین کی نگاہوں اور مجلسوں سے الگ تھلگ تھا اسے نبی اکرم نے 5 نبوی سے اپنی دعوت اور مسلمانوں کی اجتماعی دعوت کا مرکز بنایا۔[1]

خفیہ تبلیغ کا مرکز ترمیم

اعلان نبوت کے چوتھے سال تک مسلمان جو کم تعداد میں تھے چھپ کر گھاٹیوں میں نماز ادا کرتے ایک دفعہ قریش نے انھیں دیکھ لیا تو نوبت گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو ایسی ضرب لگائی کہ اس کا خون بہہ نکلا یہ پہلا خون تھا جو اسلام کی خاطر بہایا گیا[2] ایسے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے طے یہ پایا کہ عام صحابہ اپنا اسلام عبادت اور تبلیغ چھپ کر کریں رسول اللہ یہ کام خود تو علانیہ کرتے لیکن صحابہ کے ساتھ مصلحت کی خاطر چھپ کر جمع ہوتے۔

مرکز ہونے کی وجہ ترمیم

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ قریش کو علم نہ تھا کہ ارقم بن ابی الارقم مسلمان ہو چکے ہیں دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی عمر 16 سال سے کم تھی قریش کو امید نہ تھی کہ اس نوجوان کے گھر مسلمان جمع ہو سکتے ہیں۔[3]

عرصہ مرکز ترمیم

ارقم بن ابی الارقم ساتویں نمبر پر ایمان لانے والے مسلمان تھے اور یہ اجتماعی مرکز عمر فاروق کے اسلام لانے تک جاری رہا اس وقت مسلمانوں کی تعداد 40 ہو چکی تھی،[4] ارقم کا گھر کوہ صفا کے دامن میں مشرقی جانب ایک تنگ گلی میں تھا، عام لوگوں کو یہاں آنے جانے والوں کی خبر نہ ہوتی۔ ابتدائے اسلام میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی گھر میں نشست فرماتے تھے، تب قریش کی طرف سے ایذاء کا خطرہ تھا، اس لیے آپ نے مشرکوں سے مخفی رہ کر دعوت حق کو پھیلایا۔ آپ دار ارقم میں حاضر ہونے والے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیتے اور یہ باہر جا کر آپ کے ارشادات عام کرتے۔ تقریبا ایک سال یہ خفیہ مرکز قائم رہا۔

دار ارقم کی دعا ترمیم

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دار ارقم ہی میں بیٹھ کر دعا فرمائی، اے ﷲ! تمھیں عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے جو زیادہ پسند ہے، اس کے ذریعے اسلام کو عزت بخش۔ یہ بدھ کا دن تھا، اگلے ہی روز یعنی جمعرات کو عمر بن خطاب نے گلے میں تلوار لٹکا کر دار ارقم کا رخ کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چالیس کے قریب صحابہ یہاں جمع تھے۔ عمر کا ارادہ سب کو قتل کرنے کا تھا، قسمت نے پلٹا کھایا۔ اب وہ مسلمان ہونے کے ارادے سے نکلے، دار ارقم پہنچ گئے۔ عمر مشرف باسلام ہوئے تو یہاں موجود مسلمان باہر نکلے، نعرۂ تکبیر بلند کیا اور بلا جھجک کھلم کھلا بیت ﷲ کا طواف کیا۔ دار ارقم کو دار اسلام کہا جانے لگا۔

تاریخ دار ارقم ترمیم

ارقم نے اپنی زندگی ہی میں اپنا گھر بیٹے عثمان کو تحفے میں دے دیا اور تاکید کی کہ اسے نہ بیچنا۔ ابن سعد کہتے ہیں، میں نے خود دار ارقم میں تحفے کی یہ دستاویز دیکھی ہے۔ اس میں تحریر تھا،

بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم، وہ گھر (یا قطعۂ اراضی) جو صفا میں ہے، اس کے بارے میں ارقم کا فیصلہ ہے کہ حرم کے پاس ہونے (اور ابتدائے عہد نبوت میں اس گھر کے اہم ہونے) کی وجہ سے اسے حرمت دی جائے، بیچا جائے نہ وراثت میں منتقل کیا جائے۔ تحریر پر دو اشخاص ہشام بن عاص اور اس کے آزاد کردہ غلام کی گواہی ثبت تھی چنانچہ گھر اسی حالت میں قائم رہا، اس میں ایک قبہ (یا مسجد) بھی تھا۔ ارقم کی اولاد اس میں رہتی رہی یا اسے کرائے پر اٹھاتی رہی لیکن جب یہ ان کے پوتوں کے ہاتھ آیا تو انھوں نے دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے آگے فروخت کر دیا۔ ارقم کے پوتے عمران بن عثمان بیان کرتے ہیں، مجھے وہ دن یاد ہے جب ابو جعفر کے دل میں دار ارقم ہتھیانے کا خیال آیا۔ ایام حج میں وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔ ہم گھر کی چھت پر نصب خیمے میں بیٹھے تھے، ہمارے نیچے اتنے قریب سے گذرا کہ میں چاہتا تو اس کی ٹوپی اتار لیتا۔ مروہ سے اترتے اور کوہ صفا پر چڑھتے ہوئے وہ ہمیں دیکھتا ر ہا۔ کچھ عرصہ کے بعد حسن بن علی کے پڑپوتے محمد بن عبد ﷲ نے منصور کے خلاف بغاوت کی تواس نے انھیں قتل کرا دیا۔ ارقم کے دوسرے پوتے عبد ﷲ بن عثمان محمد بن عبد ﷲ کے ساتھی تھے لیکن بغاوت میں حصہ نہ لیا تھا، اس کے با وجود ابو جعفر نے انھیں بیڑیوں میں جکڑنے کا حکم دے دیا۔ پھر کوفہ سے ایک شخص شہاب بن عبد رب ان کے پاس آیا اور کہا، اگر تم دار ارقم بیچ دو تو میں تمھیں بیڑیوں سے چھڑوا سکتا ہوں۔ عبد ﷲ کی عمر اسی برس سے تجاوز کر چکی تھی اور وہ قید و بند سے عاجز آئے ہوئے تھے۔ پھر بھی انھوں نے کہا، یہ گھر صدقہ کیا ہوا ہے، میرا اس میں صرف ایک حصہ ہے، بقیہ میں میرے بھائی بہن شریک ہیں۔ شہاب نے کہا، آپ اپنا حصہ دے دیں تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ناچار ہو کر وہ سترہ ہزار دینار لے کر گھر سے دست بردار ہو گئے۔ ان کے بھائی بہنوں کو بڑی رقوم ملیں تو وہ بھی اپنے حصے فروخت کر کے چلتے بنے۔ اس طرح دار ارقم ابو جعفر منصور کے ہاتھ آ گیا۔ منصور کے بعد اس کا بیٹا مہدی خلیفہ بنا تو اس نے اپنی بیوی (اور باندی)، موسیٰ اور ہارون رشید کی والدہ خیزران کو تحفے میں دے دیا جس نے اس کی تعمیر نو کی اور یہ بیت الخیزران کہلانے لگا۔ مہدی کا پوتا جعفر بن موسی خلیفہ بنا تو دار ارقم اس کے پاس آگیا، اس میں مصر کے شطوی اور یمن کے عدنی بھی رہتے رہے۔ آخر کار اسے موسیٰ بن جعفر کی اولاد میں سے غسان بن عباد نے خرید لیا۔ شاہ عبد العزیز کے دور حکومت میں حرم کی پہلی سعودی توسیع ہوئی تو مسعی (صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا راستہ) پر چھت ڈال کر دار ارقم کو اس میں شامل کر لیا گیا۔ دار ارقم بظاہر دنیا میں موجود نہیں رہا تاہم اس کی یاد زندہ اور تاریخ تابندہ ہے۔[5][6][7]

اصحاب ارقم ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. الرحیق المختوم، صفحہ 130، صفی الرحمن مبارکپوری، مکتبہ السلفیہ، لاہور
  2. ابن ہشام
  3. موسوعہ الاخلاق والزهد والرقائق مؤلف: ياسر عبد الرحمن، ناشر: مؤسسہ اقرأ للنشر والتوزيع والترجمہ، القاہرہ
  4. الفقہ الاسلامی و ادلتہ مؤلف: وہبۃ الزحیلی ناشر: دار الفكر -شام- دمشق
  5. السیرۃ النبویہ، ابن ہشام
  6. الطبقات الکبری، ابن سعد
  7. البدایہ والنہایہ، ابن کثیر