عبد الرحمن بن عوف محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی تھے ان کا لقب تاجر الرحمن تھا۔ آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔[2][3]

عبدالرحمن بن عوف
(عربی میں: عبد الرحمن بن عوف ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عبد الرحمن بن عوف 2.png
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 580  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 654 (73–74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت Black flag.svg خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ ام کلثوم بنت عقبہ
سہلہ بنت عاصم
سہلہ بنت سہیل  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ تاجر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
المبنى المشيد حول ضريح الصحابي الجليل عبد الرحمن بن عوف.jpg

نام، نسب، خاندانترميم

عبدالرحمن نام، ابومحمد کنیت والد کا نام عوف اور والدہ کا نام شفاء تھا، یہ دونوں زہری خاندان سے تعلق رکھتے تھے، سلسلہ نسب یہ ہے عبدالرحمن بن عوف ؓ بن عبدجوف بن عبدبن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ القرشی الزہری۔ حضرت عبدالرحمن ؓ کا اصلی نام عبدعمروتھا، ایمان لائے تو رسول اللہ ﷺ نے بدل کر عبدالرحمن رکھا۔ [4]

اسلامترميم

عام روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمن ؓ واقعہ فیل کے دسویں سال پیدا ہوئے تھے، اس لحاظ سے جس وقت رسول اللہ ﷺ نے دعوتِ توحید کی صدا بلند کی اس وقت ان کا سن تیس سال سے متجاوز ہوچکا تھا، فطری عفت وسلامت روی کے باعث شراب سے پہلے ہی تائب ہوچکے تھے، صدیق اکبر ؓ کی رہنمائی سے صراط مستقیم کی شاہراہ بھی نظر آگئی اور بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوکررہروانِ حق کے قافلہ میں شامل ہو گئے، اس وقت تک صرف چند روشن ضمیر بزرگوں کو اس کی توفیق ہوئی تھی اورقافلہ سالار یعنی سرورِ دوعالم ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ [5]

ہجرتترميم

خلعتِ ایمان سے مشرف ہونے کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو بھی عام بلاکشانِ اسلام کی طرح جلاوطن ہونا پڑا، پہلے ہجرت کرکے حبشہ تشریف لے گئے، پھر وہاں سے واپس آئے تو سب کے ساتھ سرزمین یثرب کی طرف ہجرت کرگئے۔ [6]

مواخاتترميم

مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن الربیع انصاری ؓ سے بھائی چارہ کروایا اور وہ انصار میں سے سب سے زیادہ مالدار اورفیاض طبع تھے، کہنے لگے میں اپنا نصف مال ومنال تمہیں بانٹ دیتا ہوں، اورمیری دو بیویاں ہیں ان کو دیکھو جو پسند آئے اس کا نام بتاؤ میں طلاق دے دوں گا، عدت گذارنے کے بعد تم نکاح کرلینا، لیکن حضرت عبدالرحمن ؓ کی غیرت نے گوارانہ کیا، جواب دیا، خدا تمہارے بال ومنال اوراہل وعیال میں برکت دے مجھے صرف بازار دکھادو، لوگوں نے بنی قینقاع کے بازار میں پہنچادیا، وہاں سے واپس آئے تو کچھ گھی اورپنیر وغیرہ نفع میں بچالائے دوسرے روز باقاعدہ تجارت شروع کردی، یہاں تک کہ چند دنوں کے بعد بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو جسم پر مراسم شادی کی علامتیں موجود تھیں، استفسار ہوا یہ کیا ہے، عرض کیا ایک انصاریہ سے شادی کرلی ہے، سوال ہوا مہر کس قدر ادا ہوا ؟ عرض کیا ایک کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، حکم ہوا، توپھر ولیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی سہی۔ [7]

غزواتترميم

2ھ سے غزوات کا سلسلہ شروع ہوا، حضرت عبدالرحمن ؓ اکثر معرکوں میں پامردی وشجاعت کے ساتھ شریک رہے، غزوۂ بدر میں دونوجوان انصاری پہلو میں کھڑے تھے، انہوں نے آہستہ سے پوچھا یاعم !ابوجہل کون ہے جو سرورِ کائنات ﷺ کی شان میں بدزبانی کرتا ہے؟ اسی اثناء میں ابو جہل سامنے آگیا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا وہ دیکھو جس کو تم پوچھتے تھے سامنے موجود ہے، ان دونوں نے جھپٹ کر ایک ساتھ وار کیا اوراس ناپاک ہستی سے دنیا کو نجات دلادی۔ [8] غزوۂ احد میں جانبازی وشجاعت سے لڑے اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ بدن پر بیس سے زیادہ آثار جراحت شمار کیے گئے تھے، خصوصاً پاؤں میں ایسے کاری زخم لگے تھے کہ صحت کے بعد بھی ہمشہ لنگڑا کر چلتے تھے۔ [9]

دومتہ الجندل کی مہمترميم

شعبان 6ھ میں دومتہ الجندل کی مہم پر مامور ہوئے، رسول اللہ ﷺ نے بلا کر اپنے دستِ اقدس سے عمامہ باندھا پیچھے شملہ چھوڑا، اورہاتھ میں علم دے کر فرمایا، بسم اللہ راہِ خدا میں روانہ ہوجاؤ، جو لوگ خدا کی نافرمانی وعصیان میں مبتلا ہیں ان سے جاکر جہاد کرو، لیکن کسی کو دھوکا نہ دینا فریب نہ کرنا، بچوں کو نہ مارنا، یہاں تک کہ دومتہ الجندل پہنچ کر قبیلہ کلب کو اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول کریں تو ان کے بادشاہ کی لڑکی سے نکاح کرلینا۔ حضرت عبدالرحمن ؓ اس اعزاز کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوکر دومتہ الجندل پہنچے اور تین دن تک دعوت و تبلیغ اسلام کا فرض اس خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے کہ قبیلہ کلب کے سردار صبغ بن عمروا لکلبی جو مذہباً عیسائی تھے اوراس کی قوم کے بہت سے لوگ بطیب خاطر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، البتہ بعضوں نے جن کو اس کی توفیق نہ ہوئی جزیہ منظور کر لیا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے حسب فرمان اصبغ کی لڑکی تماضر سے شادی کرلی اوررخصت کراکے مدینہ ساتھ لائے، چنانچہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ [10]

فتح مکہترميم

مکہ کی فوج کشی میں بھی شریک تھے، اس کے زیر نگین ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو قبیلہ بنو جذیمہ کے پاس جو اطراف مکہ میں مسکن گزین تھا دعوت اسلام کے لیے بھیجا، انہوں نے غلطی سے قتل و خون ریزی کا بازار گرم کر دیا، سرورِکائنات ﷺ کو اطلاع ہوئی تو نہایت متاسف ہوئے اورہاتھ اٹھا کر بارگاہِ رب العالمین میں تین دفعہ اپنی برأت ظاہرکی، خدایا!خالد ؓ نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں۔ حضرت عبدالرحمن ؓ کے خاندان اورقبیلہ بنوجذیمہ میں گو قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی، یہاں تک کہ ان کے والد عوف کو اسی قبیلہ کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا، تاہم اخوت اسلامی نے اس دیرینہ عداوت کو بھی محوکردیا، چنانچہ اس خونریزی سے بیزار ہوکر حضرت خالد بن ولید ؓ سے کہا، افسوس تم نے اسلام میں جاہلیت کا بدلہ لیا، انہوں نے جواب دیا میں نے تمہارے باپ کے قاتل کو مارا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا بے شک تم نے میرے باپ کے قاتل کو مارا؛ لیکن درحقیقت یہ فاکہ بن مغیرہ کا انتقام تھا، جوتمہارا چچا تھا، (حضرت عبدالرحمن ؓ کے والد عوف اورحضرت خالد ؓ کے چچا فاکہ بن مغیرہ تجارت کے خیال سے یمن جا رہے تھے بنو جذیمہ نے راہ میں ایک ساتھ دونوں کو قتل کیا تھا، سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 256)اس کے بعد دونوں میں نہایت گرم گفتگو ہوئی، آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی توحضرت خالد ؓ سے ارشاد ہوا بس خالد!میرے اصحاب کو چھوڑ، اگرتوراہِ خدا میں کوہِ احد کے برابر بھی سونا صرف کرے گا تب بھی ان کے برابر نہ ہوگا۔ فتح مکہ کے بعد حجۃ الوداع تک جس قدر مہمات اورجنگیں پیش آئیں، حضرت عبدالرحمن ؓ سب میں شریک رہے، آخری سفرحج سے واپس آنے کے بعد10 ھ میں سرورِ کائنات ﷺ نے وفات پائی اورسقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا قصہ پیش آیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اسی گتھی کے سلجھانے میں شریک تھا اورصدیق اکبر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں ان کا تیسرا نمبر تھا۔

عہد فاروقی ؓترميم

خلیفہ اول کے عہد میں حضرت عبدالرحمن ؓ ایک مخلص مشیر اورمصائب الرائے رکن کی حیثیت سے ہر قسم کے مشوروں میں شریک رہے 13 ھ میں جب صدیق اکبر ؓ کا آفتاب حیات لب بام آیا اورایک جانشین نامزد کرنے کی فکر دامن گیر ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن ؓ کو بلاکر اس کے متعلق مشورہ کیا اوراس منصب جلیل کے لیے فاروق اعظم ؓ کا نام لیا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے نہایت آزادی اورخلوص کے ساتھ کہا عمر کی اہلیت میں کیا شک ہے ؛لیکن مزاج میں سختی ہے، حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا، ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا، لیکن جب یہ بارگراں ان ہی پر آپڑے گا تو خود بخود نرم ہوجائیں گے۔[11] غرض چند روزہ علالت کے بعد خلیفہ اول نے داعی اجل کو لبیک کہا اورحضرت فاروق ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔

فاروق اعظم ؓ نے مسندخلافت پر قدم رکھنے کے ساتھ نظام خلافت کو پہلے سے زیادہ منظم و مرتب کر دیا، مہمات مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے ایک مستقل مجلس شوریٰ قائم کی، حضرت عبدالرحمن ؓ اس مجلس کے نہایت صائب الرائے، پرجوش اورسرگرم رکن ثابت ہوئے، بہت سے معاملات میں ان ہی کی رائے پر آخری فیصلہ ہوا، عراق پر مستقل اورباقاعدہ فوج کشی کے لیے جب دار الخلافہ کے گرد ایک عظیم الشان لشکرمجتمع ہوا اورعوام نے زور ڈالا کہ خود امیر المومنین اس فوج کی باگ اپنے ہاتھ میں لیں، یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ خود بھی اس کے لیے تیار ہو گئے تو اس وقت صرف حضرت عبدالرحمن ؓ ہی تھے جنھوں نے سختی کے ساتھ اس کی مخالفت کی اور کہاکہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں، خدانخواستہ اگر شکست ہوئی اور امیر المومنین کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے، حضرت عبدالرحمن ؓ کی اس مآل اندیشی نے تمام اکابر صحابہ ؓ کی آنکھیں کھول دیں اور سب نے پرزور الفاظ میں اس کی تائید کی، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس اہم عہدہ کے لائق کوئی شخص نہ تھا، حضرت علی ؓ سے کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا، غرض اسی غود وفکر میں تھے کہ حضرت عبدالرحمن ؓ کی نگاہِ انتخاب نے یہ مشکل بھی حل کردی، اورکھڑے ہوکر کہا میں نے پالیا، حضرت عمرؓ نے پوچھا کون؟ بولے سعد بن ابی وقاص ؓ اس حسن انتخاب پر ہر طرف سے صدائے تحسین وآفرین بلند ہوئی، اورواقعات نےبہت جلد ثابت کر دیا کہ یہ انتخاب کس قدر موزوں تھا۔

اسی طرح معرکہ نہاوند میں بھی حضرت عمر ؓ کو موقع جنگ پر جانے سے روکا، لیکن کبھی کبھی جوش مآل اندیشی پر غالب آجاتا تھا، چنانچہ جب مہم شام میں اسلامی فوجیں رومیوں کی عظیم الشان تیاریوں کے باعث مقامات مفتوحہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ آئیں، حضرت ابوعبیدہ ؓ سپہ سالارِ اعظم نے رومیوں کے جوش وخروش اورٹڈی دل اجتماع کی اطلاع دار الخلافہ میں بھیجی، توحضرت عبدالرحمن ؓ کو اس قدر جوش آیا کہ بیتاب ہوکر بولے، امیرالمومنین تو خود سپہ سالار بن اورمجھ کو ساتھ لے کر چل، خدانخواستہ اگر ہمارے بھائیوں کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے، لیکن اس موقع پر دوسرے مآل اندیش صحابہ ؓ نے مخالفت کی اوراسی پر فیصلہ ہوا۔ حضرت عبدالرحمن ؓ نے انتظامی اور قانونی حیثیت سے جو رائیں دیں، ان کا اجمالی تذکرہ انشاء اللہ علم وفضل کے سلسلہ میں آئے گا۔

واقعہ ہائلہترميم

23ھ میں ایک روز حسب معمول حضرت عمرؓ صبح کی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے کہ دفعۃً فیروز نامی ایک عجمی غلام نے حملہ کیا اورمتعدد زخم پہنچائے، حضرت عبدالرحمن ؓ کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے مصلے پر کھڑاکیا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے جلدی جلدی نماز تمام کی[12] اورحضرت عمر ؓ کو اٹھاکر ان کے گھر لائے۔

حضرت عبدالرحمن ؓ کا ایثارترميم

خلیفہ دوم کی حالت غیر ہوئی تو لوگوں نے منصب خلافت کے لیے کسی کو نامزد کرنے کی درخواست کی حضرت عمر ؓ نے چھ آدمیوں کے نام پیش کرکے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے آخر وقت تک خوش رہے تھے، یہ باہم کسی ایک کو منتخب کر لیں، لیکن تین دن کے اندر یہ مسئلہ طے پاجائے۔ خلیفہ دوم کی تجہیز وتکفین کے بعد حسبِِ وصیت انتخاب کا مسئلہ پیش ہوا، لیکن دودن تک کچھ فیصلہ نہ ہو سکا، تیسرے روز حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا کہ یہ مسئلہ چھ آدمیوں میں دائر ہے، اس کو تین شخصوں میں محدود کرنا چا ہئے، اورجو اپنے خیال میں جس کو زیادہ مستحق سمجھتا ہے اس کا نام لے، چنانچہ حضرت زبیرؓ نے حضرت علی ؓ کی نسبت رائےدی، حضرت طلحہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کو پیش کیا اورحضرت سعد ؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کا نام لیا؛ لیکن حضرت عبدالرحمن ؓ اپنے حق سے باز آگئے اورحضرت علی ؓ اورعثمان ؓ سے کہا کہ اب تم دونوں میں جو احکام الہی، سنتِ نبوی ﷺ طریقۂ شیخین ؓ کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، عام روایت یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے کہا میں سب سے پہلے اس عہد پر راضی ہوں ؛لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں خاموش رہے، بہرحال حضرت عبدالرحمن ؓ نے دونوں کو راضی کرکے اس کا تصفیہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ہر ایک کو علاحدہ لے جاکر ان کے فضائل ومناقب یاددلائے اور کہامجھے توقع ہے کہ اگر میں تمہیں یہ منصب دوں تو عدل وانصاف کروگے اوراگر تمہارے مقابل کو یہ شرف نصیب ہو تو اطاعت سے کام لوگے، غرض اس عہدو پیمان کے بعد حضرت عبدالرحمن ؓ نے مجع عام میں ایک مؤثر تقریر کی اورحضرت عثمان ؓ سے کہا ہاتھ پھیلاؤ اورخود بڑھ کر بیعت کرلی ان کا بیعت کرناتھا کہ تمام خلقت ٹوٹ پڑی۔ [13]

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن ؓ نگاہِ انتخاب نے حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ پر کیوں ترجیح دی؟ عام خیال یہ ہے کہ ان دونوں کی باہمی یگانگت محبت اور رشتہ داری کا نتیجہ تھا، چنانچہ طبری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عباس ؓ نے ابتداہی میں حضرت علی ؓ سے اپنا شبہ ظاہر کر دیا تھا۔[14] لیکن یہ صحیح نہیں ہے، رشتہ داری بے شک ایک مؤثر چیز ہے مگر ایسے اہم معاملات میں بنائے فیصلہ نہیں ہوسکتی۔ اصل یہ ہے کہ گو اسلام نے قبائل کو باہم متحد کر دیا تھا؛ تاہم ایک حد تک منافست ومسابقت کا خیال باقی تھا، اورلوگ اس کو پسند نہ کرتے تھے کہ نبوت وخلافت ایک ہی قبیلہ یعنی بنوہاشم میں مجتمع ہوجائے، چنانچہ خلافت مرتضوی میں جو خانہ جنگیاں برپاہوئیں وہ اسی منافست کا نتیجہ تھیں، حضرت عبدالرحمن ؓ کی نگاہِ عاقبت نے اس کا پہلے ہی اندازہ کرلیاتھا اوریہی وجہ ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کوحضرت علی ؓ پر ترجیح دی ورنہ اسلام کا شیرازہ اسی وقت بکھرجاتا، جیسا کہ بعد کو واقعات نے ثابت کر دیا ہے۔ اس ترجیح کی ایک دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی ؓ نے شیخین ؓ کی روش پر کاربند ہونے میں پس و پیش کیا تھا، جیسا کہ متعددروایتوں سے ثابت ہوتا ہے برخلاف اس کے حضرت عثمان ؓ نے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ ہامی بھری تھی، بہرحال حضرت عبدالرحمان ؓ نے اس عقدہ کو جس ایثارودوراندیشی اوردانائی کے ساتھ حل کیا وہ یقیناً ان کی زندگی کا مایہ ناز کارنامہ ہے۔

وفاتترميم

عہد عثمانی ؓ میں حضرت عبدالرحمن ؓ نے نہایت خاموش زندگی بسر کی اورجہاں تک معلوم ہے مہمات ملکی میں انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی، یہاں تک کہ روح اطہر نے پچھیتر برس تک اس سرائے فانی کی سیر کرکے 31ھ میں داعیِ حق کو لبیک کہا، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت علی ؓ نے جنازہ پر کھڑے ہوکر کہا: اذھب یا ابن عوف فقد ادرکت صفوھاوسبقت زلقھا یعنی"ابن عوف!جاتونے دنیا کا صاف پانی پایا اورگدلاچھوڑدیا" حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جنازہ اٹھانے والوں میں شریک تھے اور کہتے جاتے تھے "واجبلاہ"یعنی یہ پہاڑ بھی چل بسا، حضرت عثمان ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورجنت البقیع میں دفن کیا۔ [15]

علم وفضلترميم

رسول اللہ ﷺ کی صحبت نے حضرت عبدالرحمن ؓ کے کیسۂ فضل و کمال کو علمی زروجواہر سے پر کر دیا تھا، گوانہوں نے دوسرے کبار صحابہ ؓ کی طرح حدیثیں بہت کم روایت کیں، تاہم خلفائے راشدین ؓ کو بہت اہم اورضروری موقعوں پر اپنے معلومات سے فائدہ پہنچایا، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں جب رسول اللہ ﷺ کی وراثت کا جھگڑا چھڑا تو انہوں نے بلند آہنگی کے ساتھ اس حدیث کی تصدیق کی کہ آنحضرت ﷺ کے متروکہ میں وراثت نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت عمر ؓ کے عہد میں جب ایران فتح ہوا اورانہیں فکر دامنگیر ہوئی کہ آتش پرستوں کے ساتھ کیاسلوک ہونا چائیے تو اس وقت عبدالرحمن ؓ ہی نے اس عقدہ کو حل کیا اوربیان کیاکہ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کے ساتھ اہل کتاب کی روش اختیار کی تھی اورانہیں ذمی قراردیا۔ [16]

18ھ میں عمواس میں طاعون پھیلا اورحضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام ؓ سے بلا کر دریافت کیا کہ طاعون زدہ مقام سے ہٹنا جائز ہے یا نہیں؟ تو کوئی اس کا قطعی جواب نہ دے سکا، حضرت عبدالرحمن ؓ اس وقت موجود نہ تھے ؛لیکن جب انہیں خبر ملی تو انہوں نے حاضر ہوکر کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جاؤ، اگر تم پہلے سے طاعون زدہ مقام میں ہو تو وہاں سے نہ ہٹو۔ [17]

اصابت رائےترميم

خدائے تعالی نے حضرت عبدالرحمن ؓ کو اصابت رائے اوردوراندیشی کا نہایت وافر حصہ دیا تھا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے وقت مستحقین خلافت پر ریمارک کرتے ہوئے فرمایا تھا، عبدالرحمان ؓ نہایت صائب الرائے، ہوشمند اورسلیم الطبع ہیں ان کی رائے کو غور سے سننا اوراگر انتخاب میں مخالفت پیدا ہوجائے تو جس طرف عبدالرحمن ؓ ہوں ان کا ساتھ دینا۔ [18] حضرت عمرؓ کی رائے صرف حسن ظن نہیں ؛بلکہ دیرینہ تجربات پر مبنی تھی، چنانچہ حضرت عبدالرحمن ؓ نے خلافت کی گرہ کو جس خوبی کے ساتھ سلجھایا وہ ان کی تجربہ کاری اورہوش مندی کی نہایت بین شہادت ہے۔

اخلاق وعاداتترميم

حضرت عبدالرحمن ؓ کا دامن فضل وکمال اوراخلاقی جواہر پاروں سے مالا مال تھا، خصوصاً خوفِ خدا، حب رسول، صدق وعفاف ترحم، فیاضی اورانفاق فی سبیل اللہ ان کے نہایت درخشاں اوصاف تھے۔

خوفِ خداترميم

خوفِ کے باعث دنیا کا ہرواقعہ ان کے لیے مرقع عبرت بن جاتا تھا اوراس کی ہیبت و جلال کو یادکرکے رونے لگتے تھے، ایک دفعہ دن بھر روزہ رہے، شام کے وقت کھانا سامنے آیا تو بے اختیار مسلمانوں کا گذشتہ فقروفاقہ یاد آگیا بولے مصعب بن عمیر ؓ مجھ سے بہتر تھے، وہ شہید ہوئے تو کفن میں صرف ایک چادر تھی جس سے سرچھپا یا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے، اورپاؤں چھپائے جاتے تھے تو سرکھل جاتا تھا، اسی طرح حمزہ ؓ شہید ہوئے، حالانکہ وہ مجھ سے بہتر تھے، لیکن اب دنیا ہمارے لیے کشادہ ہو گئی ہے، اورہمیں اس قدردنیاوی نعمتیں مرحمت کی گئی ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ شاید ہماری نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں ہو گیا، اس کے بعد اس قدر رقت طاری ہوئی کہ کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ [19]

حب رسول ﷺترميم

ایک صحابیٔ رسول کی حیثیت سے حضرت عبدالرحمن ؓ رسالتمآب ﷺ کی محبت اورخدمت وحفاظت میں ہمیشہ پیش رہے، واقعہ احد صحابہ ؓ کی جان نثاری ومحبت کا نہایت سخت امتحان تھا، حضرت عبدالرحمن ؓ اس آزمائش میں پورے اترے، بدن پر بیس زخم کھائے، پاؤں میں ایسا کاری زخم لگا کہ لنگڑاکر چلنے لگے، لیکن جذبہ جان نثاری نے میدان سے منہ موڑنے نہ دیا۔ حضرت سرورِ کائنات ﷺ کبھی باہر تشریف لے جاتے تو حضرت عبدالرحمن ؓ پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیتے، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ باہر نکلے، حضرت عبدالرحمن ؓ بھی پیچھے چلے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ ایک نخلستان میں پہنچ کر سربسجود ہو گئے اوراس قدردیر تک سجدہ میں رہے کہ ان کو خوف ہوا کہ شاید روح اطہر خدا سے جاملی، گھبراکر قریب آئے آنحضرت ﷺ نے سرمبارک اٹھاکر فرمایا کیا ہے عبدالرحمن ؓ؟ انہوں نے اپنی گھبراہٹ کی وجہ عرض کیا، ارشاد ہوا"جبریل علیہ السلام نے مجھ سے کہا :کیا میں آپ کو یہ بشارت نہ دوں کہ خداوند جل وعلانے فرمایا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجےگا میں اس پر درود بھیجوں گا اورجو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا[20]یعنی یہ طویل سجدہ سجدۂ تشکر تھا۔ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی ہمیشہ آپکی یاد تازہ رہتی تھی، نوفل بن ایاس فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ سے اکثر لطف صحبت رہتا تھا درحقیقت وہ خوب ہم نشین تھے، ایک روز ہم کو اپنے دولت کدہ پر لے گئے پھر خود اندرداخل ہوئے اورغسل کرکے باہرآئے، اس کے بعد کھانا آیا روٹی اورگوشت دیکھ کر بےاختیار رونے لگے میں نے پوچھا:ابو محمد!یہ گریہ وزاری کیسی؟بولے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی لیکن تمام عمرآپﷺ کے اہل و عیال کو پیٹ بھر جو کی روٹی بھی نہ ملی، ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اتنے دنوں تک دنیا میں رہنا ہمارے لیے بہتر نہیں ہے۔ [21]

صدق وعفافترميم

دیانتداری، صدق وعفاف حضرت عبدالرحمن ؓ کے دستارِ فضل وکمال کا نہایت خوبصورت طرہ تھا، صحابہ کرام ؓ کو ان کی صداقت پر اس قدر اعتماد تھا کہ مدعی یا مدعا علیہ ہونے کی حیثیت میں بھی وہ تنہا ان کے بیان کو کافی سمجھتے تھے، ایک دفعہ حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں حضرت زبیر ؓ نے مقدمہ دائر کیا کہ میں نے آلِ عمرؓ سے ایک قطعہ زمین خریدا ہے جو عمرؓ کو دربارِ نبوت سے بطور جاگیر مرحمت ہوا تھا، لیکن عبدالرحمن ؓ کا دعویٰ ہے کہ ان کو اورعمر ؓ کو ایک ساتھ جاگیر ملی تھی اورفلاں جگہ سے فلاں جگہ تک ان کاحصہ ہے، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا عبدالرحمن ؓ اپنے موافق یا مخالف شہادت دے سکتے ہیں۔ [22] آنحضرت ﷺ نے فرمایاتھا کہ میرے بعد جو شخص میری ازواج مطہرات ؓ کی نگرانی ومحافظت کرے گا وہ نہایت صادق اورنیکو کار ہوگا، چنانچہ یہ فرض مخصوص طورپر حضرت عبدالرحمن ؓ سے متعلق تھا وہ سفر حج کے موقعوں پر ساتھ جاتے تھے، سواری اورپردہ کاانتظام کرتے تھے، جہاں پڑاؤ ہوتا تھا وہاں انتظام واہتمام کے ساتھ اتارتے تھے، غرض انہیں صرف اپنی عصمت وعفت کے باعث امہات المومنین ؓ کی خدمت وحفاظت کا فخر نصیب ہواتھا جوان کا مخصوص طغرائے امتیاز ہے۔ [23]

انفاق فی سبیل اللہترميم

ہجرت کے بیان میں گذرچکا ہے کہ حضرت عبدالرحمن ؓ کو بے نیازی اوراستغنانے تجارت کی طرف مائل کر دیا تھا؛ چنانچہ اس میں انہوں نے اس قدر ترقی کی کہ ایک عظیم الشان دولت کے مالک ہو گئے، یہاں تک کہ ایک دفعہ ان کا تجارتی قافلہ مدینہ آیا تو اس میں سات سو اونٹ پر صرف گیہوں آٹا اور دوسری اشیائے خورد نی بار تھیں، اس عظیم الشان قافلہ کا تمام مدینہ میں غل پڑ گیا، حضرت عائشہ ؓ نے سنا تو فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ عبدالرحمن ؓ جنت میں رینگتے ہوئے جائیں گے، حضرت عبدالرحمن ؓ کو اطلاع ہوئی تو ام المومنین ؓ کے پاس حاضر ہوکر عرض کیا میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ یہ پورا قافلہ مع اسباب وسامان بلکہ اونٹ اورکجاوہ تک راہِ خدا میں وقف ہے" [24] صحابہ ؓ کی دولت ذاتی راحت وآسائش کے لیے نہ تھی ؛بلکہ جو جس قدرزیادہ دولت مند تھا اسی قدر اس کا دستِ کرم زیادہ کشادہ تھا، حضرت عبدالرحمن ؓ کی فیاضی اورانفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آنحضرت ﷺ کے عہد ہی سے شروع ہوچکا تھااور وقتاً فوقتاً قومی مذہبی ضروریات کے لیے گراں قدر رقمیں پیش کیں، سورۂ برأت نازل ہوئی اورصحابہ ؓ کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دی گئی تو حضرت عبدالرحمن ؓ نے اپنا نصف مال یعنی چارہزار پیش کیے، پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینا روقف کیے، اس طرح جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اورپانچ سواونٹ حاضر کیے۔ [25] عام خیرات وصدقات کا یہ حال تھا کہ ایک ہی دن میں تیس تیس غلام آزاد کردیتے تھے، ایک دفعہ انہوں نے اپنی ایک زمین چالیس ہزاردینار میں حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ فروخت کی اورسب راہ خدا میں لٹادیا، (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث تذکرہ عبدالرحمن ؓ) لیکن اس فیاضی کے باوجود ہر وقت یہ فکردامنگیر رہتی تھی کہ کہیں اس قدر تمول آخرت کے لیے موجب نقصان نہ ہو، ایک دفعہ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر گزارش کی اماں مجھے خوف ہے کہ کثرت مال مجھے ہلاک کر دے گی، ارشاد ہوا بیٹا راہِ خدا میں صرف کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ میرے اصحاب ؓ میں بعض ایسے ہیں کہ مفارقت کے بعد انہیں میرا دیدارنصیب ہوگا۔ [26] غرض فیاضی اورانفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آخری لمحہ حیات تک قائم رہا، وفات کے وقت بھی بچاس ہزاردینار اورایک ہزار گھوڑے راہِ خدا میں وقف کیے، نیز بدر میں جو صحابہ ؓ شریک ہوئے تھے اوراس وقت تک زندہ موجود تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چارسودینار کی وصیت کی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت ایک سو اصحاب بدر بقید حیات تھے اورسب نے نہایت خوشی کے ساتھ اس وصیت سے فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی حصہ لیا۔ [27] امہات المومنین کے لیے بھی ایک باغ کی وصیت کی جو چارلاکھ درہم میں فروخت ہوا، نیز اس سے پہلے مختلف موقعوں پر بڑی بڑی رقمیں پیش کیں، ایک دفعہ ایک جائداد پیش کی جو چالیس ہزار دینار میں فروخت ہوئی تھی، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ ان کے صاحبزادہ ابوسلمہ سے اکثر بطریق تشکرودعا فرمایا کرتی تھیں، خدا تمہارے باپ کو سلسبیل جنت سے سیراب کرے۔ [28]

مذہبی زندگیترميم

حضرت عبدالرحمن ؓ نماز نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھتے تھے، خصوصاً ظہر کے وقت فرض سے پہلے دیر تک نوافل سے شغل رکھتے تھے۔ [29] اکثر روزے رکھتے تھے، حج کے لیے بھی بارہا تشریف لے گئے، جس سال حضرت عمر ؓ مسند نشین خلافت ہوئے اس سال امارت حج کی خدمت بھی ان ہی کے سپرد ہوئی تھی۔ [30]

ذریعۂ معاشترميم

تجارت اصلی ذریعہ ٔمعاش تھا، آخر میں زراعت کا کاروبار بھی نہایت وسیع پیمانہ پر قائم ہو گیا تھا، آنحضرت ﷺ نے خیبر میں ایک وسیع جاگیر مرحمت فرمائی تھی، پھر انہوں نے خود بہت سی قابل زراعت اراضی خرید کر کاشت کاری شروع کی تھی، چنانچہ صرف مقام"جرف" کے کھیتوں میں بیس اونٹ آب پاشی کا کام کرتے تھے۔ [31] حضرت عبدالرحمن ؓ کے کاروبار میں خدائے پاک نے غیر معمولی برکت دی تھی، وہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں پتھر بھی اٹھاتا تو اس کے نیچے سونا نکل آتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس قدرفیاض اورانفاق فی سبیل اللہ کے باوجود وہ اپنے وارثوں کے لیے نہایت وافر دولت چھوڑگئے، یہاں تک کہ چاروں بیویوں نے جائداد متروکہ کے صرف آٹھویں حصہ سے اسی اسی ہزار دینار پائے سونے کی اینٹیں اتنی بڑی بڑی تھیں کہ کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر تقسیم کی گئیں اورکاٹنے والوں کے ہاتھ میں آبلے پڑ گئے، جائداد غیر منقولہ اورنقدی کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اورسوگھوڑے اورتین ہزار بکریاں چھوڑیں۔ [32]

غذا ولباسترميم

دسترخوان وسیع تھا؛ لیکن پرتکلف نہ تھا، کبھی قیمتی اورخوش ذائقہ کھانا سامنے آجاتا تو گذشتہ فقروفاقہ یاد کرکے آنکھیں پر نم ہو جاتیں، لباس میں زیادہ تر ریشم کا استعمال تھا؛ کیونکہ فقروفاقہ میں بیماری کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے خاص طورپر اجازت دی تھی، ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن ؓ کے بیٹے ابوسلمہ ریشمی کرتا زیب تن کیے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو گریبان میں ہاتھ ڈال کراس کے چیتھڑے اڑادیئے، حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا کیاآپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اجازت دی ہے، فرمایاہاں معلوم ہے؛ لیکن صرف تمہارے لیے اجازت ہے دوسروں کے لیے نہیں۔ [33]

حلیہترميم

حلیہ یہ تھا، قدطویل، رنگ سرخ وسپید، چہرہ خوبصورت، ریش دراز، سرپر کان سے نیچے تک گھونگھردار کا کلیں، کلائی گھٹی ہوئی، انگلیاں موٹی اورمضبوط، سامنے کے دودانت گرگئے تھے اورغزوۂ احد میں زخمی ہونے کے باعث پاؤں میں لنگ تھا۔ [34]

اولاد وازواجترميم

حضرت عبدالرحمن ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے ساتھ عموماً لطف ومحبت سے پیش آتے تھے، ایک انصاریہ سے شادی کی تو بیس ہزار دینار مہر میں دیے، [35]بیویوں کے نام یہ ہیں: کلثوم بنت عتبہ بن ربیعہ، تماضربنت الاصبغ، کلثوم بنت عقبہ بن ابی منیط، سہلہ بنت عاصم، بحریہ بنت ہانی، سہلہ بنت سہیل، ام حکیم بنت قارظ، بنت ابی الخشخاش، اسماء بنت سلامہ، ام حریث، یہ بہرا سے قید ہو کر آئی تھیں، مجد بنت یزید، غزال بنت کسریٰ، یہ مدائن سے گرفتار ہوکر آئی تھیں، بعض مورخین کا خیال ہے کہ خاندان کسریٰ کی شہزادی تھیں، زینب بنت الصباح بادیہ بنت غیلان۔ [36] حضرت عبدالرحمن ؓ کی اولاد نہایت کثیر تھی، جن لڑکوں کے نام معلوم ہو سکے وہ یہ ہیں۔ سالم، اسلام سے پہلے پیداہوئے اور پہلے ہی مرے، محمد، ابوسلمہ فقیہہ، ابراہیم، اسمعیل، حمید، زید، عمر، عدی، عروہ، اکبر، سالم اصغر، ابوبکر، عبد اللہ، عبدالرحمن، مصعب، سہیل (ابوالابیض)عثمان، عروہ، یحییٰ، بلال صاحبزادیوں کےنام یہ ہیں: ام القم، یہ زمانہ جا ہلیت ہی میں پیدا ہوئی تھی، حمیدہ امۃ الرحمن، صغریٰ، ام یحییٰ، جویریہ، امیہ، مریم

حدیث میں ذکرترميم

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ: عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبد الرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[37]

حوالہ جاتترميم

  1. عنوان : Абд ар-Рахман ибн Ауф
  2. Hadith – Chapters on Virtues – Jami` at-Tirmidhi – Sunnah.com – Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى اللہ عليہ و سلم)
  3. "آرکائیو کاپی". 01 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 05 مئی 2014. 
  4. (مستدرک حاکم:4/276)
  5. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث)
  7. (بخاری باب بنیان الکعبہ باب کیف اخی النبی ﷺ بین الصحابہ)
  8. (مسند : ا/193،وبخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل)
  9. (سیرت ابن ہشام :1/461)
  10. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی :64)
  11. (طبری :2137)
  12. (ابن سعد جزو3 قسم اول صفحہ 244)
  13. (بخاری باب الاتفاق علی بیعہ عثمان ؓ، لیکن بعض تفصیلی باتیں تاریخ طبری سے ماخوذہیں)
  14. (طبری :2780)
  15. (استیعاب جلد 2 وطبقات ابن سعد تذکرہ عبدالرحمن بن عوف ؓ)
  16. (کتاب الخراج :74، ومسند:194)
  17. (بخاری باب طاعون)
  18. (تاریخ طبری :2780)
  19. (بخاری باب غزوۂ احد)
  20. (مسند :1/191)
  21. (اصابہ:4/ 177)
  22. (مسند ابن حنبل:1/192)
  23. (اصابہ:4/177)
  24. (اسد الغابہ:3/316)
  25. (اسد الغابہ: 316)
  26. (استیعاب :2/404)
  27. (اسد الغابہ:3 صفحہ)
  28. (ترمذی :621)
  29. (اصابہ:4/177)
  30. (اصابہ:3/317)
  31. (استیعاب:2/403)
  32. (اسد الغابہ:3/317)
  33. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث تذکرہ عبدالرحمن بن عوف ؓ)
  34. (اصابہ :4/177)
  35. (طبقات قسم اول جزء ثالث تذکرہ عبدالرحمن بن عوف ؓ)
  36. (استیعاب :2/402)
  37. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713