رباط
عمومی معلومات
علاقہ
صوبہ رباط
رقبہ غیر دستیاب مربع کلومیٹر
آبادی 1,200,000 (2005ء)
کالنگ کوڈ 02
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت (متناسق عالمی وقت±00:00)
حکومت
ناظم (ولی) محمد حسن عمرانی
قصبات غیر دستیاب
علامت


رباط، مراکش کا دار الحکومت ہے جس کی آبادی بارہ لاکھ (بمطابق 2005ء) افراد پر مشتمل ہے۔ شہر بحر اوقیانوس کے ساحل پر دریائے ابو ریگریگ کے کنارے واقع ہے۔ قریب واقع دوسرا شہر سالے ہے جس کو رباط کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ سلٹنگ کی وجہ سے رباط بندرگاہ کے طور پر اپنی اہمیت کھو چکا ہے، لیکن بطور صنعتی شہر اس کی اہمیت مسلمہ ہے، جہاں کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے ٹیکسٹائل، تعمیراتی سامان اور کھانے پینے کے سامان کی تیاری کے لیے فیکٹریاں لگائی ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحت اور غیر ملکی سفارتخانوں کی موجودگی رباط کو کاسا بلانکا کے بعد دوسرا سب سے اہم مراکشی شہر بناتی ہے۔

تاریخ ترمیم

رباط کی تاریخ کا آغاز تیسری صدی قبل مسیح میں دریائے مغرب کے کنارے شالہ نامی آبادی سے ہوا۔ 40ء میں رومیوں نے اس پر قبضہ کیا اور اپنی نو آبادی بنایا۔ علاقہ 250ء تک رومیوں کے قبضہ میں رہا اور پھر ان سے بربریوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ ہسپانیہ کے اسلامی دور میں بربریوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 1146ء میں المحد حکمران خاندان کے بربر سردار عبدالمومن نے ہسپانیہ کے خلاف حملوں کے لیے رباط کو ایک اہم مرکز اور ایک مکمل مضبوط قلعہ بنا دیا۔ جس کے بعد شہر کو رباط الفتح کا لقب دیا گیا جس سے اس کے موجودہ نام کی بنیاد پڑی۔ یعقوب المنصور (جنکو مراکش میں مولاۓ یعقوب بھی کہتے ہیں) الموحد خلافت کے ایک اور حکمران تھے جنھوں نے رباط کو اپنی سلطنت کا دار الحکومت بنایا۔ انھوں نے شہر کی دیواریں تعمیر کیں اور دنیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر کے لیے کام کا آغاز کیا، جو ان کی وفات کے بعد نامکمل روک دیا گیا۔ نامکمل مسجد کے کھنڈر اور ملحقہ حسن مینار ابھی تک موجود ہیں۔

یعقوب المنصور کی موت کے ساتھ ہی تنزلی کا دور شروع ہوا اور الموحد حکومت ہسپانیہ اور زیادہ تر افریقی علاقوں میں اپنا اختیار کھونے لگی اور تیرہویں صدی عیسوی میں مکمل طور پر گر گئی۔ اس دوران اختیارات ایک اور مراکشی شہر فاس (Fes) میں مرتکز ہونے لگے۔ 1515ء کے ایک مورو محقق ایل واسان لکھتے ہیں کہ رباط اتنا تباہ ہو چکا تھا کہ اس میں صرف سو کے قریب رہائشی مکان بچے تھے۔ سترہویں صدی عیسوی میں ہسپانیہ سے مورو کی بے دخلی اور ان کے رباط آنے سے شہر دوبارہ آباد ہونے لگا۔

1627ء میں رباط اور سالے کو ملا کر جمہوریہ بو ریگریگ کی بنیاد رکھی گئی، جو بربری قزاقوں کے زیر اثر رہی اور وہ علاقہ کو بحری جہازوں کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتے رہے، جنکو مرکزی حکومت قابو نہیں کر سکی تھی۔ یہاں تک کہ 1666ء میں مراکش العلویون (موجودہ حکمران خاندان) کے زیر اثر متحد ہوا۔ ہسپانوی اور مسلمان حکومتیں لمبے عرصہ تک ‍قزاقوں کو قابو کرنے کی کوششیں کرتی رہیں، اس کے باوجود جمہوریہ بو ریگ ریگ 1818ء تک قائم رہی۔ حکومت کے گرنے کے بعد بھی قزاقوں کی کارروائیوں کو روکا نہ جا سکا اور وہ رباط کی بندرگاہ کو حملوں کے لیے استعمال کرتے رہے۔ 1829ء میں قزاقوں کے ایک حملہ میں ایک آسٹروی جہاز کے لاپتہ ہونے پر رباط کے بندرگاہ کو آسٹریا کی بمباری کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

فرانسیسیوں کا داخلہ 1912ء میں ہوا اور مراکش کو فرانسیسی کالونی بنا دیا گیا۔ فرانسیسی منتظم ہوبرٹ لیاوٹے (Hubert Lyautey) نے دار الحکومت کو فیس سے دوبارہ رباط منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ کی وجوہات میں سے ایک باغی بربریوں کی وجہ سے فیس کی غیر یقینی صورت حال بھی تھی۔ سلطان مولاۓ یوسف نے فرانسیسی فیصلہ کی تعمیل کی اور اپنی رہائش فیس سے رباط منتقل کر لی۔ 1913ء میں منتظم لیاوٹے نے ہنری پروسٹ (Henri Prost) کے ذریعے ولے نویلے (Ville Nouvelle) یعنی کے رباط کا جدید علاقہ کو بطور انتظامی علاقہ کے تشکیل دیا۔ 1956ء میں مراکش کی آزادی کے بعد اس وقت کے حکمران محمد پنجم نے رباط کو ہی دار الحکومت برقرار رکھا۔

 
رباط، مراکش

نامور شخصیات ترمیم

مزید پڑھیے ترمیم

بیرونی روابط ترمیم

سانچہ:عرب ممالک کے دار الحکومت سانچہ:فہرست افریقی دار الحکومت