رتھ فاؤ
ڈاکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ (جرمن: Ruth Katherina Martha Pfau) المعروف رتھ فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء) ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائیٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انھوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال 10 اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ہوا۔
رتھ فاؤ | |
---|---|
(جرمنی میں: Ruth Pfau)[1] | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (جرمنی میں: Ruth Katherina Martha Pfau) |
پیدائش | 9 ستمبر 1929ء [2][3] لائپزش [2] |
وفات | 10 اگست 2017ء (88 سال)[4][3] کراچی [5] |
وجہ وفات | مرض نظام قلب و عروقی |
مدفن | گورا قبرستان، کراچی [6] |
طرز وفات | طبعی موت |
رہائش | جرمنی (9 ستمبر 1929–1960) کراچی (1960–10 اگست 2017) |
شہریت | جرمنی پاکستان (1988–)[7] برطانوی ہند |
مذہب | کاتھولک مسیحیت |
عملی زندگی | |
پیشہ | طبی مصنف ، مصنفہ ، طبیبہ [8][1]، راہبہ [8][1] |
پیشہ ورانہ زبان | جرمن [9]، انگریزی |
شعبۂ عمل | طب [10]، صحت کی دیکھ ریکھ [10] |
اعزازات | |
بامبی ایوارڈ (2012)[11] اعزازی ڈاکٹریٹ (2004)[12] رامن میگ سیسے انعام (2002)[13] ہلال پاکستان (1989)[7] اعزازی شہریت (1988) ہلال امتیاز (1979)[14] ستارہ قائد اعظم (1969) |
|
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیم9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم" تک لے آئی اور انھوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا۔
پاکستان کے لیے خدمات
ترمیمسنہ 1958ء میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انھوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔[15] مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انھوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاو، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔
خود نوشت
ترمیمڈاکٹر رتھ فاؤ کی سوانح حیات Serving the Unserved ہے۔ جو ڈاکٹر ضیا مطاہر نے لکھی[16] اور اس کا اردو ترجمہ 2013 میں بعنوان خدمت ہو مقصدِ حیات میرا کیا۔[17] ان کی تصانیف میں درج ذیل کتب شامل ہیں۔[18]
- To Light a Candle: Reminiscences and Reflections of Dr. Ruth Pfau
- The Last Word Is Love: Adventure, Medicine, War and God
- Serving the Unserved: A Biography of Dr. Ruth Pfau
- Ma vie, une pure folie: médecin, religieuse, battante
- Ruth Pfau: mit den Augen der Liebe : als Reporter unterwegs mit einer ungewöhnlichen Frau im wilden Pakistan
- Wer keine tranen hat: was mein leben tragt
- Und hätte die Liebe nicht: 50 Jahre in Pakistan
- Abenteuer Karachi/Pakistan: Zu Besuch bei Dr. Ruth Pfau in Pakistan
- Leben heißt anfangen: Worte, die das Herz berühren
- Das letzte Wort wird Liebe sein: ein Leben gegen die Gleichgültigkeit
- Verrückter kann man gar nicht leben: Ärztin, Nonne, Powerfrau
- Srdce má své d°uvody۔ .۔ : lékařka a řeholnice pomáhá v Pákistánu
وفات
ترمیمرتھ فاؤ طویل علالت کے بعد 10 اگست 2017ء کو 88 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں۔[19][20][21][22]
اعزازات
ترمیمحکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔ ڈاکٹر رُتھ فائو کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انھیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی ہیں اور گذشتہ 56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ انھیں پاکستان کی"مدر ٹریسا" بھی کہا جاتا ہے۔
- 1969: آرڈر آف میرٹ (جرمنی)
- 1969: ستارہ قائد اعظم
- ہلال امتیاز[23]
- ہلال پاکستان[23]
- 2002: رامن میگ سیسے انعام[24]
- اپریل 2003: Jinnah Award for 2002.[25]
- 2004: ڈاکٹر آف سائنس (DSc), honoris causa. آغا خان یونیورسٹی، کراچی۔[23]
- 2010 نشان قائد اعظم عوامی خدمات پر۔[26]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118593528 — اخذ شدہ بتاریخ: 21 جون 2023 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب اشاعت: روزنامہ ٹیلی گراف — تاریخ اشاعت: 14 اگست 2017 — Sister Ruth Pfau, 'Mother Teresa of Pakistan' – obituary
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb15558040x — بنام: Ruth Pfau — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ اشاعت: ڈان — تاریخ اشاعت: 10 اگست 2017 — Light to Pakistan's leprosy patients, Dr Ruth Pfau passes away in Karachi
- ↑ https://www.ruth-pfau-schule.de/index.php/ruth-pfau
- ↑ https://tribune.com.pk/story/1485430/state-funeral-held-dr-ruth-pfau-karachi/
- ^ ا ب تاریخ اشاعت: 1 اکتوبر 1999 — NUN´S LEPROSY SERVICE A CHRISTIAN WINDOW TO MUSLIMS KARACHI, Pakistan (UCAN) -- A German Catholic nun was feted on her 70th birthday for her ongoing work to eradicate leprosy in Pakistan, a service that she says has afforded Muslims in the country a peek at Christianity.
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000701401 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 دسمبر 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000701401 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000701401 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
- ↑ http://www.bambi.de/alle-preistrager?syear=2012
- ↑ https://web.archive.org/web/20110927130614/http://www.aku.edu/News/Con2004/distawds.shtml
- ↑ https://web.archive.org/web/20110611042046/http://www.rmaf.org.ph/Awardees/Citation/CitationPfauRut.htm
- ↑ ناشر: ریڈیو پاکستان — تاریخ اشاعت: 10 اگست 2018 — First death anniversary of Dr. Ruth Pfau observed
- ↑ V4PsO9J95Yk پاکستانی مدر ٹریسا
- ↑ https://books.google.com.pk/books?id=ZPvaAAAAMAAJ&q=%22Ruth+Pfau%22&dq=%22Ruth+Pfau%22&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwjn1PH_vNnVAhWLbhQKHUs-BS8Q6AEINjAD
- ↑ "onepakistan.com.pk - This website is for sale! - onepakistan Resources and Information"۔ 30 اگست 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2017
- ↑ inauthor:"Ruth Pfau" - Google Search
- ↑ Mudaser Kazi (9 August 2017)۔ "Pakistani lepers' messiah Dr Ruth Pfau hospitalised and her condition's worsening"۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2017
- ↑ "Pakistan's leprosy fighter Dr Ruth Pfau passes away"۔ Muslim Global۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2017
- ↑ "Light to Pakistan's leprosy patients, Dr Ruth Pfau passes away in Karachi"۔ Dawn۔ 10 August 2017
- ↑ Haider Ali Sindhu (19 August 2017)۔ "Dr. Ruth Pfau departs the world with three last wishes"۔ Daily Pakistan۔ 03 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2024
- ^ ا ب پ Doctor of Science (DSc), honoris causa, awarded to Dr. Ruth Katherina Martha Pfau آرکائیو شدہ 27 ستمبر 2011 بذریعہ وے بیک مشین Aga Khan University, Karachi Retrieved 6 جولائی 2010.
- ↑ "The 2002 Ramon Magsaysay Award for Public Service"۔ 07 مارچ 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2017
- ↑ "Ruth Pfau to be honoured today"
- ↑ List of civil awards