رچرڈ ڈاکنز (انگریزی: Richard Dawkins)؛ (پیدائش: مارچ 26، 1941ء) برطانیہ کے نامور ماہر ارتقائی حیاتیات اور مصنف ہیں۔ وہ 1995ء سے 2008ء تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر برائے عوامی تفہیم سائنسی علوم رہے ہیں۔ 1976ء میں اپنی کتاب "دی سیلفش جین" سے شہرت پانے والے رچرڈ ڈاکنز نے اپنی کتاب "ایکسٹنڈڈ فینو ٹائپ" (1982ء) میں ارتقائی حیاتیات سے وابستہ انقلابی نظریات پیش کیے۔ ڈاکنز ایک انسانیت پسند اور ملحد دانشور ہیں۔ 1986ء میں اپنی کتاب "دی بلائنڈ واچ میکر" میں گھڑی ساز والے نظریے کی مخالفت میں دلائل دیے اور اسی کے تسلسل میں انھوں نے اپنی مشہور متنازع کتاب "دی گاڈ ڈیلیوژن" لکھی جس میں انھوں نے کائنات کے ایک ماورائے طبعی خالق کے روایتی نظریے کے خلاف اپنا موقف پیش کیا۔ اس کتاب کا دنیا بھر میں 30 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور انگریزی متن کے دو ملین سے زائد نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ تاہم ڈارون کے نظریات کی شدید حمایت اور الوہی وجود کے ببانگ دہل انکار پر مذہبی حلقوں کی طرف سے انھیں شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔ رجعت پسند حلقوں کی طرف سے انھیں 'ڈارون کا کتا' (Darwin's Rottweiler) اور اس جیسے القاب سے نوازا جاتا رہا ہے۔

رچرڈ ڈاکنز
(انگریزی میں: Clinton Richard Dawkins ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (ناروی بوکمول میں: Clinton Richard Dawkins ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 26 مارچ 1941ء (83 سال)[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نیروبی [8][9][1][10][11]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش نیروبی
اوکسفرڈ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت متحدہ [12][13]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن رائل سوسائٹی ،  رائل سوسائٹی آف لٹریچر   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی بالیول کالج، آکسفورڈ (–1962)[9]
جامعہ اوکسفرڈ (–1966)[14]  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈاکٹری مشیر نکولاس ٹنبرجن   ویکی ڈیٹا پر (P184) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ نکولاس ٹنبرجن   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر ارتقائی حیاتیات ،  ماہر خلقیات ،  سائنسی مصنف [9]،  سائنس مشہوری باز ،  مضمون نگار [15]،  ماہر علمیات ،  منظر نویس [16][17]،  ماہر حیاتیات ،  استاد جامعہ ،  مصنف ،  ماہر حیوانیات ،  اداکار [18][19]،  مصنف [20]،  ماہر جینیات ،  فلم اداکار [21]،  ٹیلی ویژن اداکار [21]،  صوتی اداکار [21]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [22][23]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل خلقیات [24]،  ارتقائی حیاتیات ،  حیوانیات [24]،  حیاتیات [24]،  مذہبیت [24]،  مسیحی کلیسیا [24]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ اوکسفرڈ [9]،  جامعہ کیلیفورنیا، برکلے ،  جامعہ اوکسفرڈ   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر ڈارون ،  برٹرینڈ رسل ،  نکولاس ٹنبرجن ،  ڈگلس ایڈم   ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک الحاد [25][26]،  سیکولرازم [27]،  لامعرفت [28]  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
رائل سوسائٹی فیلو   (2001)[29]
فیلو آف دی رائل سوسائٹی آف لٹریچر    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ،  باضابطہ ویب سائٹ[30][31]  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

ڈاکنز کینیا کے شہر نیروبی میں 1941ء میں پیدا ہوئے۔ باپ وہاں کی برطانوی نوآبادیاتی سول سروس کا ملازم تھا۔ ڈاکنز کو بچپن میں مسیحی روایات کے تحت بپتسمہ دیا گیا یہاں تک کہ لڑکپنے کی عمر میں انھوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کا مطالعہ کیا جس سے زمین پر آغاز و تکوین حیات سے متعلق کئی سوالات کو نسبتا بہتر سمجھنے کا موقع ملا۔ ابتدائی تعلیم چرچ اسکول میں حاصل کرنے کے بعد 1959ء بالائل اسکول، آکسفورڈ میں علم حیوانات کو باقاعدہ پڑھنا شروع کیا۔ یہاں انھیں نوبل انعام یافتہ سائنس دان نکولاس تمبرجین سے تلمذ کا موقع ملا۔ 1967ء تا 1969ء وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے میں علم حیوانات کے اسسٹنٹ پروفیسر رہے اس دوران ویتنام کی جنگ کا آغاز ہوا اور وہ جنگ مخالف تحریک کے سرگرم ترین ارکان میں شامل تھے۔ 1995ء میں آکسفورڈ میں سمونیی پروفیسر برائے عوامی تفہیم سائنس کی کرسی کا اجرا ہوا اور اس کے بانی چارلس سیونیی نے اس امید کے ساتھ انھیں اس کا پہلا کرسی نشین منتخب کیا کہ وہ عوام میں سائنسی طرز فکر کے فروغ میں نہایت نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ 1970ء سے اب تک مختلف مواقع پر متعدد تاریخ ساز علمی اور فکری خطبات بھی دے چکے ہیں۔ انھوں نے 2008ء میں اپنی تدریسی مصروفیات سے سبکدوشی کا اعلان کیا ہے اور ایک کتاب لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس میں وہ نوجوان نسل کو سائنس و خرد دشمن فرسودہ دیو مالاؤں سے ہوشیار رہنے کی نصیحت کریں گے۔

ذاتی زندگی

ترمیم

انھوں نے اگست 1967ء میں آئرلینڈ میں اپنی ایک ساتھی معلمہ ماریان ستامپ سے شادی کی جو 1984ء میں طلاق کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ اسی سال جون میں انھوں نے آکسفورڈ میں ایو براہم سے شادی کی۔ ایو کے بطن سے ایما جیولیٹ ڈاکنز نام کی بیٹی پیدا ہوئی، جبکہ ایو براہم 1994ء میں سرطان کے مرض کا شکار ہو گئی۔

مبنی بر جین ارتقا کا نظریہ

ترمیم

ڈاکنز نے اپنی کتاب "دی سیلفش جین" میں اس بحث کا آغاز کیا کہ ارتقائی عمل میں جس فطری چناؤ سے اشیاء روبہ ارتقا ہوتی ہیں، خواص اور ساخت کے اس چناؤ میں فیصلہ کن کردار جین کا ہوتا ہے۔ مبنی بر جین ارتقا یا Gene-centred view of evolution کے مطابق ارتقا میں جین 'چناؤ کی بنیادی اکائی' ہے۔ کئی ایک سائنسی قضیوں کے حل طلب رہنے کے باوجود ڈاکنز کا یہ خیال اب بھی ارتقائی سائنس کے حلقوں میں ایک گرم مباحثہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

خلاقیت پر تنقید

ترمیم

رچرڈ ڈاکنز عقیدہء خلاقیت کے شدید مخالف کے طور پر تب مشہور ہوئے جب ان کی کتاب "دی بلائنڈ واچ میکر" منظر عام پر آئی۔ خلاقیت سے مراد یہ عقیدہ ہے کہ کائنات، انسان اور تمام فطری مظاہر ایک مشیت کے تخلیق کردہ ہیں۔ مذکورہ کتاب میں انھوں نے گھڑی ساز کے نظریے کو نشانہ تنقید بنایا جو اٹھارہویں صدی کے مشہور ماہر الہیات ولیم پیلے نے پیش کیا تھا۔ اس نے اپنی کتاب "فطری الہیات" میں استدلال کیا تھا کہ ایک چابی کی گھڑی جو ظاہر ہے کہ اس قدر پیچیدہ اور ساخت میں اس قدر پیچیدہ ہے کہ یہ قیاس ناممکن ہے کہ یہ کسی حادثے کی شکل میں خود بخود وجود میں آگئی ہو، پیلے کے خیال میں کائنات کے منظم وجود پر بھی یہ دلیل صادق آتی ہے۔ ڈاکنز کے خیال میں حیاتیاتی دنیا میں نظر آنے والی کٹواں پیچیدگی اسی فطری چناؤ کی وضع کردہ ہیں جو ایک "اندھا گھڑی ساز" ہے اور اسے خود اپنے فعل کو روک لینے، تیز کرنے یا سست کرنے پر کوئی قدرت حاصل نہیں۔ ڈاکنز اس موضوع پر رجعت پسند حلقوں سے متعدد ٹی۔ وی مذاکروں میں حصہ لے چکے ہیں۔

2004ء میں امریکی صحافی بل موئرز کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا؛ "سائنس جتنا کچھ بھی جانتی ہے، ارتقا کا نظریہ تمام تر سائنسی معلومات میں سب سے زیادہ یقینی اور مصدقہ ہے"۔ ان کا ادارہ موسسہ رچرڈ ڈاکنز برائے عقل و سائنس طلبہ میں عقلی علوم کے فروغ اور خرد افروزی کے احیاء کے لیے کام کر رہا ہے۔

ڈاکنز اور مذہب

ترمیم

روایتی مذہبی رجحانات کی مخالفت کی وجہ سے برطانیہ اور دیگر ممالک میں انھیں شدید تنقید اور تشنیع کا سامنا ہے۔ 1994ء میں تھامس باس نے ایک انٹرویو میں ڈاکنز کے لیے 'عسکریت پسند دہریہ' کا لقب اختیار کیا اور ڈاکنز نے بجائے مذمت کے جواب دیا: برٹرنڈ رسل نے اپنے آپ کو ایک پرجوش متشکک کہا ہے، میرا نشانہ بلند ہے اور میں اس کے لیے لبلبی بھی دبا سکتا ہوں۔ ڈاکنز کلیسائی حلقوں میں شدید مطعون ہونے کے باوصف اپنے آپ کو "ثقافتاً مسیحی" کہتا ہے۔ ڈاکنز نے 2010ء میں پاپائے روم پوپ بینیڈکٹ XVI کے دورہء انگلستان کی مخالفت میں 54 ہم خیال شخصیات کے ہمراہ "دی گارڈین" میں مفصل خط لکھا، اس کے بقول پوپ کو چاہیے کہ وہ کلیسا کے ہاتھوں ہونے والی انسانیت کی بدترین بے حرمتیوں پر معافی مانگے۔

ڈاکنز خدا پر یقین نہیں رکھتا مگر ساتھ ہی یہ کہتا ہے کہ وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ "خدا کا وجود نہیں- رچرڈ ڈاکنز کے مطابق وہ خدا پر اتنا ہی یقین رکھتے ہیں جتنا اپنے باغ میں پریوں کی موجودگی پر۔"۔[32]

وہ کہیں خود کو ایتھیئسٹ یعنی ملحد اور کہیں اگنوسٹک یعنی متشکک کہتے ہیں۔ بظاہر اس تضاد کی ایک جگہ انھوں نے وضاحت کی ہے۔انھوں نے ایک گفتگو میں مذہبی سے ایتھیئسٹ تک کے سات درجے بیان کیے ہیں۔ پہلے درجے کا شخص کہتا ہے کہ اسے یقین ہے، خدا موجود ہے۔ ساتویں درجے پر پہنچا ہوا شخص کہتا ہے کہ اسے یقین ہے، خدا نہیں ہے۔ دوسرے سے چھٹے درجے تک کے تمام لوگ اگناسٹک ہیں۔ دوسرے درجے پر موجود شخص کہتا ہے کہ مجھے خدا کے وجود کا ٹھیک سے علم نہیں لیکن اس کے ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ چوتھے درجے والا کہتا ہے کہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات برابر ہیں۔

ڈاکنز کہتے ہیں کہ وہ چھٹے نمبر ہیں۔ یعنی وہ خدا کے وجود کو مکمل مسترد نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ خدا کے ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

دیگر کام

ترمیم

ڈاکنز کی دیگر علمی کاوشوں میں قدیم طریقہ علاج پر کڑی تنقید اور سیارہ زمین کی بڑھتی ہوئی آبادی پر اظہار تشویش پر متعدد مقالات شامل ہیں۔ اس کے بقول لاطینی امریکہ کی آبادی ہر چالیس سال بعد دوگنی ہو رہی ہے۔ اس نے رومن کیتھولک کی افزائش آبادی کے بارے میں تعلیمات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ رویہ بھوک قحط اور فاقوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اخبارات و رسائل میں سیاسی و سماجی موضوعات پر تجزیوں کے کئی مقبول سلسلوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے 2003ء میں امریکہ کے عراق پر حملے کی مخالفت میں حزب اختلاف کا پرزور ساتھ دیا اور اسی طرح وہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے جوہری توسیع کے منصوبوں کے بھی پرزور مخالف کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں۔ 2011ء میں انھوں نے لندن میں ایک نوزائیدہ نجی یونیورسٹی "نیو کالج آف ہیومینیٹیز" بطور استاد ملازمت اختیار کر لی ہے۔

اعزازات

ترمیم
  • ڈاکٹر آف سائنس، آکسفورڈ یونیورسٹی، 1989ء
  • یونیورسٹی آف ہڈرسفیلڈ، یونیورسٹی آف ویسٹمنسٹر، درہم یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہل، یونیورسٹی آف آنتورپ، یونیورسٹی آف اوسلو، یونیورسٹی آف ابردین، وریجی یونیورستیت برسل اور یونیورسٹی آف ویلنشیا سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں
  • رائل سوسائٹی آف لٹریچر اور لاس اینجلس ٹائمز کی طرف سے بہترین تصنیف کے ادبی انعامات
  • سائنس ٹیکنالوجی انعام، بی بی سی۔
  • زوالوجیکل سوسائٹی آف لندن، چاندی کا تمغا
  • فائنلی انوویشن ایوارڈ 1990ء
  • مائیکل فیراڈے ایوارڈ 1990ء
  • نکایاما انعام 1994ء
  • ہیومنسٹ آف دی ایئر، امیرکن ہیومنسٹ ایسوسی ایشن، 1996ء
  • انٹرنیشنل کاسمس پرائز 1997ء
  • کسلر پرائز 2001ء
  • تمغہء صدارت جمہوریہ اطالیہ 2001ء
  • بسنتینیال کیلون ایوارڈ، رائل فلاسفیکل سوسائٹی آف گلاسگو، 2002ء
  • نیرنبرگ پرائز فار سائنس ان پبلک انٹرسٹ، 2009ء
  • برطانوی جریدہ "پراسپکٹ" 2004ء میں کی گئی رائے شماری میں برطانیہ کے 100 بڑے دانشوروں میں بہترین دانشور
  • شیکسپیئر انعام، الفریڈ توپفئر فاؤنڈیشن، 2005ء
  • لیوس تھامس انعام برائے سائنسی تصانیف 2006ء
  • آتھر آف دی ایئر، گلیکسی برٹش بک ایوارڈ 2007ء
  • ٹائم میگزین کے مطابق دنیا کی سو اثرانداز ترین شخصیات میں سے ایک، 2007ء
  • ڈیلی ٹیلیگراف کے 100 لونگ جینئس کی درجہ بندی میں 20 ویں جگہ، 2007ء
  • دیشنر ایوارڈ، جرمنی
  • دنیا کے بہترین سائنسی کاموں کے اعزاز میں ڈاکنز کے نام پر "رچرڈ ڈاکنز ایوارڈ" کا اہتمام

تصانیف

ترمیم

دی گاڈ ڈیلیوژن

ترمیم

دی گاڈ ڈیلیوژن، بوسٹن سے 2006ء میں شائع ہوئی۔رچرڈ ڈاکنز کا خیال ہے کہ ان کی صرف ایک کتاب دا گاڈ ڈلیوژن پڑھنے والا ایتھیئسٹ ہوجائے گا۔

دیگر تصانیت

ترمیم
  • دی سیلفش جین، آکسفورڈ، 1976ء
  • دی ایکسٹنڈڈ فینوٹائپ، آکسفورڈ، 1982ء
  • دی بلائنڈ واچ میکر، نیو یارک 1986ء
  • ریور آؤٹ آف ایڈن، بوسٹن، 1995ء
  • کلائمنگ ماؤنٹ امپروبیبل، نیو یارک، 1996ء
  • انویونگ دی رین بو، بوسٹن، 1998ء
  • اے ڈیولز چیپلین، بوسٹن، 2003ء
  • دی انسیسٹرز ٹیل، بوسٹن، 2004ء
  • دی گریٹسٹ شو آن ارتھ، 2009ء
  • دی میجک رئیلٹی، 2011ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb118988507 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm1468026/ — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015
  3. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6qz9t7g — بنام: Richard Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی — پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p58255.htm#i582550 — بنام: Professor Clinton Richard Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. ڈسکوجس آرٹسٹ آئی ڈی: https://www.discogs.com/artist/459604 — بنام: Richard Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. انٹرنیٹ سوپرلیٹیو فکشن ڈیٹا بیس آتھر آئی ڈی: https://www.isfdb.org/cgi-bin/ea.cgi?84037 — بنام: Richard Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/dawkins-richard-clinton — بنام: Richard Clinton Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. ربط: https://d-nb.info/gnd/120434059 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  9. ^ ا ب پ ت مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اخذ شدہ بتاریخ: 26 مارچ 2015 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  10. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/120434059 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 فروری 2017 — اجازت نامہ: CC0
  11. مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — عنوان : CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — Guardian topic ID: https://www.theguardian.com/books/2008/jun/11/richarddawkins — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
  12. http://www.nytimes.com/2006/12/17/weekinreview/17kennedy.html?em&ex=1166418000&en=49d19a68cb09e250&ei=5087
  13. تاریخ اشاعت: 2 جنوری 2017 — Libris-URI: https://libris.kb.se/katalogisering/pm13304759pmpzn — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018
  14. http://solo.bodleian.ox.ac.uk/OXVU1:LSCOP_OX:oxfaleph020515491
  15. http://observer.guardian.co.uk/comment/story/0,6903,1268687,00.html — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اپریل 2015
  16. http://www.quora.com/What-does-Richard-Dawkins-think-of-Deepak-Chopra
  17. http://www.therichest.com/celebnetworth/celeb/authors/richard-dawkins-net-worth/
  18. http://www.abc.net.au/tv/qanda/txt/s3469101.htm
  19. http://www.telegraph.co.uk/news/religion/9082059/For-once-Richard-Dawkins-is-lost-for-words.html
  20. http://news.bbc.co.uk/mobile/bbc_news/politics/713/71366/story7136682.wml
  21. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://www.imdb.com/name/nm1468026/
  22. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000601285 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  23. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/11342691
  24. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jn20000601285 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  25. https://www.psychologytoday.com/blog/side-effects/201202/why-does-richard-dawkins-take-issue-agnosticism
  26. https://www.huffingtonpost.co.uk/2014/11/27/famous-atheists-believe-values-richard-dawkins_n_6231968.html
  27. https://richarddawkins.net/aboutus/
  28. The Daily Telegraph، Daily telegraph اور الديلي تلغراف — اخذ شدہ بتاریخ: 29 ستمبر 2019
  29. عنوان : Fellows Directory — Fellow of the Royal Society ID: https://royalsociety.org/people/11316/ — اخذ شدہ بتاریخ: 11 اپریل 2018
  30. Richard Dawkins — اخذ شدہ بتاریخ: 14 نومبر 2022
  31. ٹویٹ آئی ڈی: https://twitter.com/statuses/1518967468286529536
  32. "Richard Dawkins: I can't be sure God does not exist"۔ دی ٹیلیگراف۔ 25 جنوری 2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 

بیرونی روابط

ترمیم