ریاست کوٹہ برٹش راج میں واقع ایک شاہی ریاست تھی جو سترہویں صدی عیسوی میں شہر کوٹہ، راجستھان میں قائم ہوئی۔ اِس ریاست کا موجودہ مقام راجستھان میں واقع ہے۔ کوٹہ، راجستھان پر سترہویں صدی عیسوی مین ریاست بوندی کے راجپوتوں کی حکومت قائم ہوئی۔ سترہویں صدی عیسوی میں ہی کوٹہ، راجستھان ریاست کوٹہ کی تشکیل عمل میں آئی۔ اِس ریاست کا مرکز کوٹہ، راجستھان تھا جبکہ ذیلی تقسیم میں یہ راجپوتانہ ایجنسی کا حصہ تھی۔[1]

Kota State
Kotah State
कोटा रियासत
سترہویں صدی عیسوی–1949ء
Flag of ریاست کوٹہ
Flag

ریاست کوٹہ کا نقشہ، امپرئیل گیزیٹئیر کے مطابق
رقبہ 
• 1931
14,828 کلومیٹر2 (5,725 مربع میل)
آبادی 
• 1931
685804
تاریخ
تاریخ 
• 
سترہویں صدی عیسوی
• 
1949ء
مابعد
[[بھارت]]
آج یہ اس کا حصہ ہے:راجستھان، بھارت
 اس مضمون میں ایسے نسخے سے مواد شامل کیا گیا ہے جو اب دائرہ عام میں ہے: ہیو چھزم، مدیر (1911)۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (بزبان انگریزی) (11واں ایڈیشن)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس 

تاریخ

ترمیم

1631ء میں ریاست کوٹہ ریاست بوندی سے الگ کر دی گئی۔ 18 جون 1707ء سے 8 ستمبر 1713ء کے درمیانی عرصہ میں ریاست کوٹہ دوبارہ ریاست بوندی میں ضم کر لی گئی۔26 دسمبر 1817ء کو ریاست کوٹہ ایسٹ اندیا کمپنی کی تحویل میں آگئی۔ یہاں پر راجستھان کے راجپوتوں کا چوہان خاندان حکومت کرتا رہا جسے برٹش راج حکومت کی جانب سے وراثتی طور پر 17 توپوں کی سلامی کا حق تفویض ہوا تھا۔[2]

حکمران

ترمیم

ریاست کوٹہ کے حکمرانوں کا شاہی خطاب مہاراؤ تھا۔[3]

 
ریاست بوندی یا ریاست کوٹہ میں محل میں بیٹھی اداس درباری خاتون کا عکس- زمانہ تقریباً 1610ء
 
ریاست کوٹہ کے حکمران مہاراؤ مہاراجا بھیم سنگھ دوم کی شادی کا منظر- 28 اپریل 1930ء، بمقام کوٹہ، راجستھان۔
 
ریاست کوٹہ کے حکمران مہاراؤ رام سنگھ دوم۔ زمانہ غالباً 1827ء سے 1866ء تک کا وسطی زمانہ۔ ساتھ میں ریاست بوندی کا حکمران مہاراؤ رام سنگھ نظر آ رہا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم

اٹھارویں صدی سے مغلیہ حکومت کا زوال ہندوستان کی مغل شاہی افسران کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ علاقے ہاتھ سے جا رہے تھے اس کے ساتھ نوکریاں ختم ہو رہی تھیں۔ خاص طور پر جو افسران اس سے متا ثر ہوئے وہ مسلمان افسر شاہی تھی جو تعداد میں سب سے زیادہ تھی۔ کچھ مسلم افسران نے ابھرتی ہو ئی طاقت ،مرہٹوں کی نوکری کو ترجیح دی ،مرزا غالب کے چچا مرہٹوں کی طرف سے آگرہ کے قلعہ دار تھے(1)، کچھ مسلم افسران نے انگریزوں کی نوکریاں حاصل کیں جیسے کہ سر سید احمد خان ،جو نائب منشی، کمشنری آگرہ 1839ء؁ میں مقرر ہوئے(2)،لیکن شمالی ہندوستان کے زیادہ ترمسلمان افسروں کو انگریزی تعلیم اور انگریز کی نوکری بالکل نا پسند تھیں، جس میں ایک بڑا حصہ علما کی تعلیمات کا تھا، اس لیے مسلمان مغل افسر شاہی کو ہندو ریاستیں بہتر معلوم ہو ئیں کہ راجا مہاراجا ان کو قبول کرتے تھے، فارسی رائج تھی اور اردو کا عروج تھا۔ مذہب میں مداخلت نہیں تھی اور شمالی ہندوستان سے راجستھان جس کا اُس وقت نام راجپوتانہ تھا،کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں تھا۔چنانچہ بڑے بھائی اکبر علی بیگ ریاست قرولی میں وزیر، دو سرے نمبر کے بھائی واجد علی بیگ ریاست اودے پور میں ناظم اور چھوٹے بھا ئی حسین علی بیگ ریاست کوٹہ میں دیوان، ایک دوست بابو محمد اسما عیل ریاست کوٹہ میں پوسٹ ماسٹر۔ جب ریاست حیدرآباد میں استحکام آیا اور وہاں کے در نوکریوں کے لیے کھلے تو لاتعداد لوگ حیدرآباد میں ملازمت کے لیے گئے، وہاں کے مسائل دو تھے ایک تو فاصلہ ،جو وہاں ریلوے کا راستہ کھلنے کے بعد کم ہوا دوسرے وہاں کا بڑا مسئلہ ملکی اور غیر ملکی کا تھا جس نے ملازمتوں میں رکاوٹیں ڈالیں۔ ریاست کوٹہ راجستھان کے جنوب مشرقی علاقے کی ریاست تھی۔ یہ دہلی سے روڈ پر سفر کریں تو پانچ سو کلومیٹر دور ہے۔ راستہ جے پور سے ہو کر جاتا ہے، جے پور تک سڑک اچھی ہے اُس کے بعد گاڑی کی رفتار سڑک خراب ہو نے سے سست ہو جاتی ہے۔ تقریباً آٹھ گھنٹے کا سفر ہے کوٹہ دریائے چمبل کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ چمبل دریا جنوب کی طرف بہتا ہے اور دریا ئے نربدہ میں اس کا اخراج ہے۔ بیچ شہر میں ایک جھیل کشور ساگر خوبصورت ہے۔ یہاں راجا کا محل گڑھ کہلاتا ہے جہاں ایک میوزیم بھی ہے ۔ اس میوزیم میں کوٹہ مصوری کے نمونے ہیں ، جو راجستھانی طرز مصوری کی ہی ایک قسم ہے(3)۔یہاں کا مشہور تہوار دسہرہ ہے جو بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، شاید پورے ہندوستان میں میسور کے بعد کوٹہ ہی میں یہ تہوار قومی سطح کا ہوتا ہے (4)، یہاں مسلم آبادی وجے نگر اور گھنٹہ گھر کے علاوہ چمبل گارڈنز میں قیام پزیر ہے۔ یہاں کی سوغات یہاں کاباریک بنا ہوا کپڑاہے جو ڈوریہ کہلاتا ہے جو عام طور پر ساڑھیوں میں استعمال ہو تا ہے۔ کوٹہ کی تاریخی دستاویزات ریاست راجستھان کے قیام کے بعد بیکانیر منتقل کر دی گئی ہیں (5)کچھ دستاویزات 1876ء؁ کے بعد کی کوٹہ میں بھی ہیں لیکن وہ یہاں کی افسر شاہی کے روڑے اٹکانے کی نظر ہیں۔میں نے دو مختلف سفر کوٹہ کے کیے کہ کچھ دستاویزات دیکھ سکوں، کوٹھریاں دستاویز کے بستوں سے ٹھسی پڑی تھیں، لیکن کامیابی نہیں ہو سکی کہ انچارج دونوں دفعہ سفر میں تھیں اور کلرک کی استادیاں اپنے زور شور پر ۔ ریاست کوٹہ پہلے ریاست بوندی کا حصہ تھی۔نور الدین جہانگیر نے اپنے دور حکومت میں کوٹہ کا انتظام راجا راؤ رتن کو مرحمت فرمایا۔ جب شاہ جہاں تخت نشین ہوا تو راؤ رتن نے شاہی دربار میں حاضر ہو کر اپنے فرزند مادھو سنگھ کو جو پہلے ہی کوٹہ کا صوبہ دار تھاحکمرانی کی سند عطا کروادی(6)۔ 1815ء؁ اور 1818ء؁کے درمیان ایسٹ انڈیا کمپنی نے مشہور راجستھانی ریاستوں سے معاہدے کیے، اس سے پہلے مرہٹے اور پنڈاری یہاں لوٹ مار کیا کرتے تھے۔ریاست کوٹہ سے بھی معاہدہ اسی دوران ہو 1857 ء؁کی جنگ آزادی کے بعد انگریز ریزیڈنٹ میجر برٹن جب واپس کوٹہ آئے تو ان سے منشی جے دیال نے اپنا بدلہ لینے کے لیے ایک مجمہ اکھٹا کرکے ان کو قتل کر دیا اور بنگلے کو لوٹ لیا۔ اس کی تفصیل اخبار ٹائمز 19 دسمبر 1857 میں ایک خط میں شائع ہو ئی(7)۔1857ء؁ کے بعد کا دور اردو کی ارتقا کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دلی اجڑی، لکھنؤ، رامپور، حیدرآباد کی ریاستیں آباد ہو ئیں اور بعد ازاں ان ریاستوں کے خاتمے کے بعد مزید چھوٹی ریاستیں مہاجرین اردو کی آ ماج گاہ بنیں، راجستھان میں جے پور، الور، بیکانیر، جودھپور، بھرت پوتر، کوٹہ، جھا لا واڑ اور ٹونک ان اجڑے دیار کے بکھرے مو تیوں سے جگمگانے لگیں۔ مندرجہ ذیل شعر جو الور کے لیے کہا گیا سبھی مندرجہ بالا ریاستوں پر لاگو ہو تا ہے۔ شور ہے شعر و سخن کا ہر طرف۔۔۔۔۔ ان دنوں الور کا جہاں آباد ہے(منشی ہیرا لعل شہرت) 1873 ء؁ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب فیض علی خان کو ریاست کا مدار المہام مقرر کیا۔نواب صاحب نے دو سال کی قلیل مدت میں کوٹہ کی نئی تہذیب و ترتیب کا کام کیا، متعدد اسکول کھولے، زمینوں کے نئے انتظام کیے، اردو کو سرکاری زبان بنایا۔ ریاست کوٹہ کے مختلف شعبہ جات میں اردو کا نفاذ انہی کی قدموں کی برکت سے ہوا۔ چونکہ ریاست میں اردو زبان جاننے والے کم تھے اس لیے باہر سے لوگ بلوائے گئے اور اہم عہدوں پر فائز کیے گئے(8)۔ مرزا حسین علی بیگ جن کے والد مرزا حبیب اللہ بیگ کوٹہ سے تقریباً سو کلومیٹر شمال مشرق میں ریا ست قرولی کے وزیر تھے ، انھوں نے ہی اپنے بیٹے کو کوٹہ کی راہ پر لگایا اور کوٹہ کے حالات میں بہتری کا دیکھ کر ان کو وہاں جانے کی ترغیب دی ۔ یہ اس بات سے واضح ہے کہ حسین علی بیگ کوٹہ سے 1895ء؁ میں ریٹائر ہوئے، اگر انھوں نے تیس سال بھی نوکری کی تو 1865ء؁کے آس پاس وہ کوٹہ میں وارد ہو ئے۔ کوٹہ میں سب سے عام جرم جانوروں کی چوری تھی اور یہ مقدمات دیوان مرزاحسین علی بیگ کی عدالت میں آٗئیں ہوں گے اور انھوں نے بھی اس جرم پرضرور فیصلے کیے ہو نگے۔کوٹہ کاسب سے دور اندیش حکمراں مہاراؤ امید سنگھ کا دور 1889ء؁ سے 1940ء؁ تک ہے۔ اُس نے کوٹہ کو جدید دور کا ایک ترقی یافتہ اور روشن خیال علاقہ بنایا۔ ریلوے لائن، بجلی پانی، سڑکیں ، سرائیں، کنویں اور جتنے بھی انتظامات ریاست کے مفاد میں ہو سکتے تھے ، کیے۔ امید سنگھ کے گزرنے کے 42 سال بعد تک بھی اُن کو یاد کیا جاتا ہے۔ میرے ریاست کے سفر میں جگت نرائن سے ملاقات ہو ئی جنھوں نے ایک کتاب امید سنگھ مہاراؤ کا دور حکومت ہندی زبان میں لکھی(9) اور اُس کے دور حکومت کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مرزا حسین علی بیگ جب رٹائر ہو کر دلّی میں آبسے تو جس راجا ریاست کوٹہ کی دلّی میں ان سے ملاقات ہو ئی وہ مہاراؤ امید سنگھ ہی ہو سکتے ہیں۔ان مہاراؤ سے ہی انھوں نے حیات نامہ لینے میں مشکلات کا ذکر کیا ہوگا۔ یہ ذکر مرزا حسین علی بیگ کے تذکرہ میں اوپر آچکا ہے۔