زاہد حسن امروہوی

ہندوستانی حنفی دیوبندی بزرگ اور امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ

زاہد حسن امروہی (ت 1279ھ - 1374ھ) ایک ہندوستانی حنفی دیوبندی بزرگ اور امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے، جنھوں نے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ، جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی رام پور اور دار العلوم حسینیہ چلہ امروہہ جیسی مشہور دینی درسگاہوں میں تدریسی اور انتظامی خدمات انجام دی ہیں۔

زاہد حسن امروہوی
معلومات شخصیت
پیدائش ت 1279ھ
امروہہ، اتر پردیش، برطانوی ہند
وفات 26 ربیع الاول 1374ھ (بہ عمر 95 سال)
امروہہ، اتر پردیش، ہندوستان
شہریت برطانوی ہند
ڈومنین بھارت
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد حامد حسن امروہی، طاہر حسن امروہی
عملی زندگی
پیشہ حافظ قرآن ،  معلم ،  صوفی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی و تعلیمی زندگی

ترمیم

زاہد حسن امروہی ت 1279ھ کو محلہ چاہ ملا امان، امروہہ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔[حوالہ درکار] سلسۂ نسب یوں ہے: زاہد حسن  بن علی حسن بن مہربان علی بن سعادت علی بن محمد حسن بن فیض محمد بن محمد مسعود بن محمد نظر بن خواجہ سید داود[1] بن خواجہ سید بن عبد اللہ ترکمان بن ”جلال الدین [2] بن سید الموئد بن جعفر بن محمد بن محمود بن احمد بن علی اصغر بن جعفر ثانی بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن جعفر الصادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حسین بن علی ابن ابی طالب“۔[حوالہ درکار]

امروہی نے ابتدائی تعلیم امروہہ میں ہی اپنے والد کی سرپرستی میں حاصل کی، قرآن کریم ایک مصری استاد سے امروہہ میں حفظ کیا،[حوالہ درکار] نیز امداد اللہ مہاجر مکی سے مثنوی مولانا روم کا درس لیا اور انھیں کے مرید اور خلیفہ تھے۔[3][4]

مناصب

ترمیم

1303ھ میں احمد حسن امروہی نے زاہد حسن امروہی کو مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ کا مہتمم مقرر کیا،[3] ساتھ ہی میں اس مدت میں امروہی 1319ھ تا 1325ھ مدرسۃ الغرباء شاہی مرادآباد کے منتظم بھی رہے،[حوالہ درکار] اسی درمیان میں محرر کتب خانہ کے طور پر بھی خدمت انجام دی،[5] 1339ھ میں مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ سے علاحدہ ہوکر احمد حسن امروہی کے فرزند کی تحریک پر جامعہ حسینیہ دار العلوم چلہ کی بنیاد رکھی اور اس کے مہتمم ہوئے، دونوں مدرسوں کے اتحاد کے بعد مدرسہ قدیم (مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ) میں نائب مہتمم ہوئے،[حوالہ درکار] 1340ھ میں جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ کے مہتمم اول عبد الرحیم ٹانڈوی کے بعد زاہد حسن امروہی چالیس روپیہ کی تنخواہ کے پر جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ کے مہتمم مقرر ہوئے اور 1344ھ تک چار سال اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔[6] 1358ھ میں معظم حسنین کے دور اہتمام میں دونوں مدرسوں (مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد اور جامعہ حسینیہ دار العلوم چلہ امروہہ) کے صدر مہتمم رہے، بعدہ تاحیات یعنی 1374ھ تک مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے۔[7]

وفات

ترمیم

1371ھ میں ان پر فالج کا حملہ ہوا،[3] جس کی وجہ سے نصف بدن مفلوج ہو گیا، مرض تقریباً ڈھائی سال تک رہا اور روز بروز ترقی کرتا رہا؛[حوالہ درکار] یہاں تک کہ 26 ربیع الاول 1374ھ بہ مطابق 23 نومبر 1954ء کوصبح ساڑھے پانچ بجے  بہ عمر 95 سال امروہہ میں جان جاں آفریں کے سپرد کی۔[8]

 

ریلوے لائن اتراسی روڈ امروہہ کے قریب اپنے آبائی قبرستان میں اپنے والد علی حسن کے جوار میں مدفون ہوئے۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرآۃ الانساب مرقومہ صفحہ 167۔ الرحیم اکیڈمی 
  2. سید ارتضیٰ علی کرمانی، سیرت پاك حضرت عثمان مروندی۔ عنوان: حضرت سید جلال سرخ بخاری رحمۃ الله علیہ، صفحہ 73، مطبوعہ لاہور 
  3. ^ ا ب پ مصباح احمد صدیقی (جنوری 2003ء)۔ "مولانا حامد حسن"۔ تذکرہ علمائے امروہہ (پہلا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: مصباح احمد صدیقی بہ تعاون غالب انسٹی ٹیوٹ۔ صفحہ: 210 
  4. نسیم احمد فریدی (1990ء)۔ "حاشیہ مکتوب نمبر 149"۔ مکتوبات سید العلماء (پہلا ایڈیشن)۔ امروہہ: ادارۂ اہتمام جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد۔ صفحہ: 328 - 329 
  5. محمد سالم قاسمی، اخلد رشیدی، محمد سلمان منصور پوری (مرتب)، مدیران (نومبر - دسمبر 1992ء)۔ "کتب خانہ مدرسہ شاہی کی تاریخ"۔ ماہنامہ ندائے شاہی (تاریخ شاہی نمبر)۔ حافظ محمد صدیق۔ 4 (11-12): 604 
  6. عبد المعید قاسمی سنبھلی (جنوری 1991ء)۔ تاریخ ٹانڈہ بادلی (پہلا ایڈیشن)۔ ضلع رامپور، اترپردیش: مکتبہ سعدیہ جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی۔ صفحہ: 64 - 65 
  7. دستاویزات متعلقہ مدرسہ 
  8. چک رسید اندراج فوتی مؤرخہ 25 نومبر 1954ء۔ میونسپلٹی امروہہ