احمد حسن امروہی

محدث امروہوی

احمد حسن امروہی (نیز معروف بَہ محدثِ امروہی؛ 1850ء - 1912ء) ایک ہندوستانی عالم اور مجاہد آزادی تھے، جنھوں نے مراد آباد میں جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کے پہلے صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ دار العلوم دیوبند کے فاضل اور محمود حسن دیوبندی کی ثمرۃ التربیت کے بانی ارکان میں سے تھے۔ وہ تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی کے مُجاز و خلیفہ تھے۔

مولانا

احمد حسن امروہی
جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی کے پہلے صدر مدرس
برسر منصب
1879ء-1885ء
جامعہ اسلامیہ عربیہ امروہہ کے پہلے صدر مدرس
جانشینعبد الرحمن صدیقی سندیلوی[1]
لقبمحدثِ امروہی، سید العلماء
ذاتی
پیدائش1850ء
وفات18 مارچ 1912(1912-30-18) (عمر  61–62 سال)
امروہہ، مراد آباد، برطانوی ہند
مذہباسلام
فرقہسنی
فقہی مسلکحنفی
معتقداتماتریدی[2]
تحریکدیوبندی
مرتبہ
استاذامداد اللہ مہاجر مکی

سوانح

ترمیم

احمد حسن 1850 میں امروہہ (جو اس وقت مراد آباد میں آتا تھا) میں پیدا ہوئے تھے۔[3] انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سید رافت علی، کریم بخش نخشبی، محمد حسین جعفری سے حاصل کی اور امجد علی خان سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ [4] وہ اعلی تعلیم کے لیے میرٹھ گئے، جہاں انھوں نے محمد قاسم نانوتوی سے اکتسابِ علم کیا۔ [5] نانوتوی نے انھیں تمام علوم سکھائے اور پھر انھیں دار العلوم دیوبند بھیجا، جہاں پر انھوں نے محمود حسن دیوبندی اور فخر الحسن گنگوہی سے 1290 ہجری میں سندِ فراغت حاصل کی۔[3][5] امروہی تصوف میں امداد اللہ مہاجر مکی کے مُجاز و خلیفہ تھے اور حدیث میں احمد علی سہارنپوری اور شاہ عبد الغنی کے مُجاز تھے۔ [4]

اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امروہی؛ مدرسہ قاسمیہ کے صدر مدرس بنائے گئے، جو ان کے استاد نانوتوی نے خورجہ میں قائم کیا تھا۔ [6][7] اس کے بعد انھوں نے دہلی اور سنبھل کے اسلامی اداروں میں بطور صدر مدرس خدمات انجام دیں، یہ ادارے ممکنہ طور پر مدرسہ عبد الرب، دہلی اور مدرسہ جامع مسجد، سنبھل تھے۔ [5][6] وہ 1879ء (1296 ہجری) میں جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی، مراد آباد کے صدر بنے، اس عہدہ پر رہ کر انھوں نے 1885ء ذو القعدہ 1303ھ تک خدمات انجام دیں۔ [5] بعد میں وہ امروہہ چلے گئے، جہاں انھوں نے جامع مسجد میں ایک قدیم مدرسہ کو دوبارہ قائم کیا، [ا] اور خود تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں اور پہلے مہتمم، صدر اور سینئر استاذِ حدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ [5][9][10] چند سال بعد؛ مجلس شورٰی دار العلوم دیوبند نے انھیں دار العلوم پڑھانے کے لیے بلایا۔ انھوں نے وہاں صرف دو ماہ پڑھایا اور پھر واپس امروہہ چلے گئے۔ [11] اس کے تلامذہ میں اسماعیل سنبھلی شامل ہیں۔ [12]

حسنہ 1895ء سے 1912ء تک دار العلوم دیوبند کی مجلسِ شورٰی کے رکن رہے۔ [13] وہ محمود حسن دیوبندی کی ثمرۃ التربیت کے بانی ارکان میں سے تھے۔ [5] انھوں نے آریہ سماج کے لوگوں سے مناظرے کیے اور ان ممتاز علما میں سے تھے، جنھوں نے قادیانیوں سے مناظرے کیے۔ [14] 15 جون 1909ء کو انھوں نے رام پور میں ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ احمدیوں سے مناظرہ کرکے انھیں شکست دی۔ [15] ان کے ادبی کاموں میں ’’افاداتِ احمدیہ‘‘، ’’اِزالۃ الوَسواس‘‘ اور ’’المعلومات الالٰہیہ‘‘ شامل ہیں۔[3] وہ ایک مفتی تھے اور ان کے فتاوٰی؛ پھلودا اور رام پور کی لائبریریوں میں پائے جاتے ہیں۔[3]

امروہی کا انتقال؛ طاعون سے 18 مارچ 1912ء کو امروہہ، مراد آباد میں ہوا۔ [16] ان کی نمازِ حافظ محمد احمد نے پڑھائی۔ [17] کفایت اللہ دہلوی، حبیب الرحمن عثمانی اور محمود حسن دیوبندی نے ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔ [18]

  1. یہ اب مدرسہ اسلامیہ امروہہ یا جامعہ اسلامیہ عربیہ امروہہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ بھارت کے نمایاں اسلامی اداروں میں شامل ہے۔ جسے اولاً محمد قاسم نانوتوی نے قائم کیا تھا۔[8]

حوالہ جات

ترمیم
  1. فریدی 2009، ص 175
  2. خلیل احمد سہارنپوری (2001ء)۔ مباحث فی عقائد اھل السنہ۔ دار الفتح۔ صفحہ: 101 
  3. ^ ا ب پ ت اسیر ادروی (2 اپریل 2016ء)۔ تذکرہ مشاہیر ہند: کاروانِ رفتہ۔ دیوبند: دار المؤلفین۔ صفحہ: 19 
  4. ^ ا ب فریدی 2000، ص 369–370
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث منصورپوری 2014، ص 156
  6. ^ ا ب فریدی 2000، ص 371
  7. امداد الحق بختیار (16 October 2020)۔ "سید العلماء قاسم ثانی حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہی: حیات وخدمات"۔ بصیرت آن لائن۔ 10 اکتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2021 
  8. فریدی 2009، ص 33
  9. رضوی 1981، ص 24
  10. فریدی 2000، ص 375
  11. فریدی 2000، ص 379–380
  12. فریدی 2000، ص 385
  13. قاسمی 2020، ص 564
  14. فریدی 2000، ص 388, 395
  15. فریدی 2000، ص 397
  16. منصورپوری 2014، ص 156-157
  17. قاسمی 1999، ص 62
  18. فریدی 2000، ص 416-422

کتابیات

ترمیم
  • نسیم احمد فریدی (جنوری 2000ء)۔ "حضرت مولانا سید احمد حسن محدث امروہی"۔ $1 میں نواز دیوبندی۔ سوانح علمائے دیوبند۔ 2۔ دیوبند: نواز پبلیکیشنز۔ صفحہ: 366–430 
  • سلمان منصورپوری (2014ء)۔ تحریک آزادی ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار۔ دیوبند: دینی کتاب گھر۔ صفحہ: 156–157 
  • محمد طیب قاسمی (جولائی 1999ء)۔ مدیر: اکبر شاہ بخاری۔ 50 مثالی شخصیات۔ دیوبند: مکتبہ فیض القرآن۔ صفحہ: 50–633 
  • سید محبوب رضوی (1981ء)۔ ہسٹری آف دی دار العلوم دیوبند [تاریخ دار العلوم دیوبند] (بزبان انگریزی)۔ 2۔ ترجمہ بقلم مرتاض حسین ایف قریشی۔ دیوبند: دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 23–26 
  • محمد اللہ قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (2 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 564–565 
  • نسیم احمد فریدی (2009ء)۔ مدیر: محب الحق۔ سید العلماء۔ امروہہ: جامعہ اسلامیہ عربیہ