زیارت ناحیۂ مقدسۂ، امام حسین کے زیارت ناموں میں سے ہے جو روز عاشورا اور دیگر ایام میں پڑھا جاتا ہے۔ دو زیارتنامے اس نام سے منقول ہیں ان میں سے ایک اسی نام سے مشہور ہے جبکہ دوسرے کو زیارت شہدا بھی کہا جاتا ہے جس میں امام(ع) کے اصحاب اور ان کے قاتلوں کے اسامی بھی درج ہیں۔

مشہور زیارت نامے کا آغاز انبیائے الہی اور ائمۂ اطہار پر سلام سے ہوتا ہے پھر امام حسین اور آپ(ع) کے اصحاب کو سلام دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں، امام(ع) کے بعض اوصاف اور کردار اور آپ(ع) کے قیام کا پس منظر، نیز آپ کی شہادت اور آپ(ع) پر ڈھائے گئے مصائب کو بیان کرتے ہوئے اس مصیبت میں تمام اہل عالم کے عزادار ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس زیارت نامے کا اختتام ائمہ معصومین سے توسل اور خداوند متعال کی درگاہ میں دعا و التجا سے ہوتا ہے۔

ان دو زیارتوں کا امام زمانہ(عج) سے منسوب ہونے سے متعلق مختلف آراء پائے جاتے ہیں۔

ناحیۂ مقدسہ

ترمیم

ناحیۂ مقدسہ شیعوں کے یہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل سے رائج ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔ اس وقت کے دشوار سیاسی اور سماجی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے امام ہادی، امام حسن العسکری اور امام مہدی سے کوئی چیز نقل کرتے ہوئے یا ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان حضرات معصومین کے اسامی گرامی لینے کی بجائے اس اصطلاح کو بروئے کار لائے جاتے تھے اور خاص کر امام مہدی(ع) کے لیے یہ اصطلاح بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔[1]

منسوب

ترمیم

سید ابن طاووس نے اپنی کتابوں ’’اقبال الاعمال‘‘ اور ’’مصباح‘‘ میں فقط لفظ ’’ناحیہ مبارکہ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس چیز کا احتمال ہے کہ یہ زیارت امام ہادی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کیونکہ آپؑ کے زمانے میں حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے شیعہ کھل کر آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے لہٰذا وہ جب بھی امام معصوم کے بارے میں بات کرتے تو لفظ ’’ناحیہ مقدسہ‘‘ استعمال کرتے تھے لہٰذا بعض روایات کہتی ہیں کہ زیارت ’’ناحیہ مقدسہ‘‘ امام ہادی علیہ السلام سے منقول ہے۔

البتہ سید ابن طاووس سے پہلے محمد بن المشہدی نے اپنی کتاب ’’مزارِ کبیر‘‘ میں نقل کیا ہے کہ یہ زیارت حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے نقل ہوئی ہے اور چونکہ ہمارے علما اور بزرگان اس کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں اس لیے ہم بھی اسے پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

زیارت ناحیہ اور اصول کافی

ترمیم

کہتے ہیں کہ اسی زمانہ غیبت صغری میں ناحیہ مقدسہ سے ایک ایسی زیارت برآمد ہوئی ہے جس میں تمام شہداٴ کربلا کے نام اور ان کے قاتلوں کے اسما ٴہیں ۔ اس ”زیارت ناحیہ “ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتاہے کہ اصول کافی جو حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی المتوفی 328 کی 20 سالہ تصنیف ہے وہ جب امام عصر کی خدمت میں پیش ہوئی توآپ نے فرمایا : ” ھذا کاف لشیعتنا۔“ یہ ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے زیارت ناحیہ کی توثیق بہت سے علما نے کی ہے جن میں علامہ طبرسی اور مجلسی بھی ہیں دعائے سباسب بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔

زیارت ناحیہ کا ایک حصہ

ترمیم

" میرا سلام ہو اس شہید پر جس کی داہنی طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر بائیں طرف آ گئی تھیں اور بائیں طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر داہنی طرف آ گئی تھیں
ﺳﻼﻡ ﺍُﻥ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﻧﻔﻮﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﭨﮑﮍﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﯿﺎ
ﮔﯿﺎ ،
مسافرں میں سب سے زیادہ بے کس ؤ مظلوم مسافر پے سلام
ان گریبانوں پے سلام جو خون سے بھرے ہوئے تھے
سلام اس مظلوم امام پر جس کے سر کو پشت گردن سے کاٹا گیا
اس ریش اقدس پرسلام جو خون سے سرخ تھی
اس روخسار پر سلام جو خاک الودہ تھا
ﺳﻼﻡ ﺍﺭﺽِ ﮐﺮﺑﻼ ﭘﮧ ﺑﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﻥ ﭘﺮ ،
ﺳﻼﻡ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮﺩﯾﮱ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﭘﺮ ،
ﺳﻼﻡ ﻧﯿﺰﻭﮞ ﭘﮧ ﺍُﭨﮭﺎﮰ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ،
" میرا سلام ہو اس مظلوم حسین صلواۃ پرکہ جس پرآسمان کے فرشتے بھی رو دیے".

میرا سلام ہو اس قیدی پر جس کا گوشت زنجیریں کھا گیں.......
.میرا سلام ھو اس معصومہ پہ جس کے رخساروں کی رنگت کربلا سے شام تک مسلسل تبدیل ھوتی رہی.
"سلام" اُن ھونٹوں پر جو پیاس سے سوکھے ھوئے تھے
میرا سلام ہو اس بی بی (س) پر جس نے کربلا سے شام تک اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے بھائی کے یتیموں کو کھانا کھلایا
سلام ہو اُس پر جس کے قبر کی مٹی خاکِ شفا ہے-
سلام ہو اس پر جس کے حرم کی فضامیں دعائیں قبول ہوتی ہیں

حضرت صاحب الزمان عجل فرجھم اپنے جدّ مظلوم امام حسین ؑکو مخاطب کرکے فرمــاتے ہیں :

لا ندبنــک صباحا و مســاءا و لابکیــن علیــک بدل الدمــوع دمــا

" ہر صبــح و شــام آپ ؑپہ روتا ہوں اور آنســو کی بجائے آپؑ پہ خــون کے آنســو بہــاتا ہوں "

زیارت ناحیہ میں علی اصغر پر سلام

ترمیم

زیارت ناحیہ میں آپ کے لیے آیا ہے ۔

السلام علي عبدالله بن‏الحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء، المذبوح ‏بالسهم في حجر ابيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الاسدي‏۔

زیارت ناحیہ جناب عقیل اور جناب مسلم بن عقیل کے بیٹوں پر سلام

ترمیم

کتاب شریف « الصحیفة المبارکة المهدیة» میں شہداء کی زیارت ناحیہ میں یوں وارد ہوا ہے :

... اَلسَّلامُ عَلى جَعْفَرِ بْنِ عَقيلٍ ، لَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ وَرامِيَهُ بِشْرَ بْنَ خَوْطٍ الْهَمْدانِيِّ .

اَلسَّلامُ عَلى عَبْدِالرَّحمانِ بْنِ عَقيلٍ ، لَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ وَرامِيَهُ عُمَرَ بْنَ خالِدِ بْنِ أَسَدٍ الْجُهَنِيِّ.

اَلسَّلامُ عَلَى الْقَتيلِ بْنِ الْقَتيلِ ، عَبْدُاللَّهِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ عَقيلٍ ، وَلَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ عامِرَ بْنَ صَعْصَعَةَ ، ]وَقيلَ : أَسَدَ بْنَ مالِكٍ[.(57)

اَلسَّلامُ عَلى عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ عَقيلٍ ، وَلَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ وَرامِيَهُ عَمْرَو بْنَ صُبَيْحٍ الصَّيْداوِيِّ.

اَلسَّلامُ عَلى مُحَمَّدِ بْنِ أَبي سَعيدِ بْنِ عَقيلٍ ، وَلَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ لَقيطَ بْنَ ناشِرٍ الْجُهَنِّيِّ....

زیارت ناحیہ، مشہور اور غیر مشہور

ترمیم

امام حسین کے زیارت ناموں میں دو زیارت نامے ناحیہ مقدسہ سے منسوب ہیں:

  1. زیارت مشہورہ، جو امام زمانہ کے ایک نائب خاص کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے۔ یہ زیارت ذیل کے مآخذ میں نقل ہوئی ہے:
    شیخ مفید کی کتاب "المزار" (قلمی نسخہ)، ابن المشہدی کی کتاب المزار الکبیر، علامہ مجلسی کی بحار الانوار، محمد شیرازی کی کتاب "کتاب الدعا و الزیارہ"، محمود بن سید مہدی موسوی دہ سرخی اصفہانی کی کتاب "رمز المصیبہ"، ابراہیم بن محسن کی کتاب "الصحیفۃ الہادیہ" ـ جو "الصحیفۃ المہدیہ" اور "التحفۃ المہدیہ" کے نام سے بھی مشہور ہے ـ اور حسن شیرازی کی کتاب "کلمۃ الامام المہدی" علیہ السلام۔
  2. دوسری زیارت ـ جو زیارت شہدا کے نام سے مشہور ہے ـ سنہ 252ھ ق میں ابو منصور بغدادی نے محمد بن غالب اصفہانی سے نقل کیا ہے اور اس میں امام حسین کے 80 اصحاب امام حسین(ع) اور ان کے قاتلوں کے نام بھی نقل ہوئے ہیں۔ یہ زیارت نامہ تاریخ صدور کی رو سے یا تو امام ہادی (تاریخ شہادت: سنہ 254ھ ق) سے منسوب ہے یا پھر امام حسن عسکری (تاریخ شہادت سنہ 260ھ ق) سے کیونکہ اس وقت تک امام مہدی(عج) کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی؛ مگر یہ کہ کتاب کی تاریخ صدور کی روایت میں تصحیف[2] ہوئی ہو۔ اس زیارت کا متن ذیل کی کتابوں میں منقول ہے:
    سید ابن طاؤس کی اقبال الاعمال، عبد اللہ بن نوراللہ بحرانی اصفہانی کی عوالم، علامہ مجلسی کی بحار الانوار،[3] محمد تقی سپہر کاشانی کی ناسخ التواریخ، محمد شیرازی کی کتاب الدعا و الزیارہ، دہ سرخی اصفہانی کی رمز المصیبہ اور محمد مہدی شمس الدین کی انصار الحسین۔

متن اور اس میں مندرج مضامین

ترمیم

اَلسّلامُ عَلَی الشَّیبِ الخَضیبِ
سلام ہو [خون میں] خضاب شدہ ریش مبارک پر
اَلسّلامُ عَلَی الخَدِّ التَّریبِ
سلام ہو خاک آلود رخسار پر
اَلسّلامُ عَلَی الثَّغرِ المَقروعِ بِالقَضیبِ
سلام ہو ان دانتوں پر جنہیں چھڑی سے مضروب کیا گیا
اَلسّلامُ عَلَی الرَّأسِ المَرفوعِ
سلام اس سر مبارک پر جس کو نیزے پر اٹھایا گیا
اَلسّلامُ عَلَی الاَجسادِ العارِیةِ فِی الفَلَواتِ
سلام ان عریاں جسموں پر جنہیں صحرا میں چھوڑ دیا گیا
اَلسّلامُ عَلَی النُّفوسِ المُصطَلماتِ
سلام ہو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جسموں پر
اَلسّلامُ عَلَی الاَرواحِ المُختَلساتِ
سلام ہو مکاری اور ظلم کے ساتھ چھینی جانے والی روحوں پر
اَلسّلامُ عَلَی الجُسومِ الشاحِباتِ
سلام ہو نحیف رنگ باختہ جسموں پر
اَلسّلامُ عَلَی الاَبدانِ السَّلیبَةِ
سلام ہو ان جسموں پر جن کا لباس لوٹ لیا گیا
اَلسّلامُ عَلَی المُجَدِّلینَ فِی الفَلَواتِ
سلام ہو بیابانوں میں بکھری لاشوں پر
اَلسّلامُ عَلَی النّازِحینَ عَنِ الاَوطانِ
سلام ہو وطن سے دور کیے جانے والوں پر

زیارت ناحیۂ مقدسہ کا آغاز انبیائے الہی اور اہل بیت، امام حسین اور کربلا میں اصحاب حسین(ع) پر درود و سلام سے ہوتا ہے: "اَلسَّلامُ عَلی آدمَ صَفوَةِ اللهَ مِن خَلیقَتِهِ... اور پھر جنگ سے پہلے کے امام حسین(ع) کے اوصاف اور کردار، جنگ کے پس منظر، آپ(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کے واقعۂ شہادت اور درپیش مسائل اور سختیوں اور پورے عالم اور زمینی اور آسمانی موجودات کے عزادار ہونے، جیسے مسائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ آخر میں اہل بیت سے توسل اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کے ساتھ زیارت نامہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔(صوتی فائل ڈاؤنلوڈآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ shiavoice.com (Error: unknown archive URL) زیارت کا متنآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ namieh.persianblog.ir (Error: unknown archive URL))

سلام

ترمیم

زیارت نامے کے آغاز میں 22 نبیوں (علیہم السلام) کا تذکرہ ہوا ہے اور بعد ازاں اصحاب کساء (علیہم السلام) میں سے ہر ایک کا نام اور بعض خصوصیات کا تذکرہ ہے جس کے بعد انھیں سلام دیا گیا ہے اور اس زیارت میں کبھی امام حسین(ع) کا نام اور آپ کے فضائل اور کردار کے نمونوں کو ذکر کر کے آپ کو سلام دیا گیا ہے اور کبھی آپ(ع) کے اعضاء و جوارح اور آپ(ع) پر وارد ہونے والے مصائب کا تذکرہ کرکے۔

اگلے حصے میں امام حسین(ع) کے اصحاب اور ساتھیوں کو سلام دیا گیا ہے۔

امام کی دینی اور سماجی حیثیت کی طرف اشاره

ترمیم

مفصل مضمون: امام حسین علیہ السلام

بعد کے حصے میں امام حسین کے اوصاف اور ان کی منزلت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور قیامِ عاشورا کے بعض اسباب بیان ہوئے ہیں:

"زمانے کے حالات اور اس کے تقاضوں سے آگاہی نے آپ کو دشمن کے خلاف میدان میں اترنے پر مجبور کیا؛ اپنے عزیز و اقارب، پیروکاروں اور دوستوں کو لے کر عزیمت کرچکے اور حکمت اور احسن انداز سے نصیحت کرتے ہوئے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی اور حدود [الہی] کے قیام اور معبود کی پیروی کا حکم دیا اور پلیدی اور سرکشی سے منع کیا اور ظلم و ستم کا مقابلہ کیا[4]

واقعۂ عاشورا کی توصیف

ترمیم

اس حصے میں روز عاشورا کے بعض واقعات کی وضاحت کچھ یوں ہوئی ہے:

"انھیں ان کے کام سے منع کرنے کے بعد آپ نے ان کے لیے حجت اور دلیل پر تاکید فرمائی؛ انھوں نے آپ کی بیعت توڑ دی اور آپ کے پروردگار اور آپ کے نانا پر غضبناک ہوئے اور آپ کے خلاف جنگ لڑی۔ اور اس ملعون شخص نے اپنے لشکریوں کو حملے کا حکم دیا اور یہ کہ آپ کو پانی سے اور اس میں داخل ہونے سے باز رکھیں۔۔۔ انھوں نے اپنے تیر اور پتھر آپ کی طرف پھینکے اور اپنے مجرم ہاتھوں کو آپ کی نابودی کے لیے کھولا۔۔۔ ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا اور گہرے گھاؤ آپ کے جسم مبارک پر مارے۔۔۔ حتی کہ زخمی ہوکر گھوڑے کی زین سے زمین پر آ رہے، گھوڑے اپنے سموں سے آپ کے جسم پر دوڑے اور ستمگروں نے اپنی بُرّاں شمشیریں آپ پر اتار دیں ۔۔۔ وَالشِّمرُ جالِسٌ عَلی صَدرِكَ، وَمولغٌ سَیفَهُ عَلی نَحرِكَ، قابِضٌ عَلی شَیبِكَ بِيدِهِ، ذابِحٌ لَكَ بِمُهنَدِهِ

عاشورا کے بعد کے مصائب کی توصیف

ترمیم

زیارت کا یہ حصہ امام حسین کی شہادت کے بعد کے واقعات کی تصویر کشی کرتا ہے۔ امام زمانہ فرماتے ہیں: "آپ کا سر مبارک نوک سناں پر تھا اور آپ کے گھرانے کو اسیر غلاموں کی مانند زنجیروں میں جکھڑا گیا تھا۔ ان کے چہرے گرمی کی تپش سے جھلس رہے تھے اور انہیں وسیع بیابانوں اور صحراؤں میں لے جایا جارہا تھا، ان کے ہاتھ ان کی گردنوں میں لٹکے ہوئے تھے اور انہیں بازاروں میں پھرایا جارہا تھا[5]

امام زمانہ اس افسوسناک المیئے کو قتلِ اسلام ۔۔۔ کے مترادف قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: "ہلاکت ہو ان سرکشوں پر جنھوں نے آپ کو مار کر اسلام کو مار دیا اور نماز اور روزے کو بے معنی کرکے معطل کیا، سنتوں کو پامال کرکے رکھ دیا اور ایمان کے ستونوں کو گرا دیا۔ قرآنی آیات کو بگاڑ دیا اور فساد اور دشمنی میں خوب کوشاں ہوئے۔۔۔ کتاب خدا کو ترک کر دیا گیا اور حق و حقیقت کے ساتھ خیانت ہوئی"آپ کے جانے کے ساتھ ہی اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، حرام و حلال اور تنزیل و تاویل کا خاتمہ ہوا۔ آپ کے بعد تغییر، تبدیلی، بے دینی، کفر، نفسانی خواہشات، گمراہیاں، بلوے، بیہودگیاں اور باطل اعمال نمودار ہوئے[6]

کائنات میں اس مصیبت کی بازگشت

ترمیم

اس مصیبت کی عظمت اس قدر ہے کہ پوری کائنات عزادار و سوگوار ہوئی اور سب نوحہ اور گریہ کناں ہوئی: "پیغمبر(ص) پریشان حال ہوئے اور آپ(ص) کا دل گریاں ہوا اور آپ کی خاطر فرشتے اور انبیا نے آپ(ص) کو تعزیت پیش کی اور آپ کی خاطر آپ کی والدہ زہرا(س) سوگوار اور مصیبت زدہ ہوئیں۔ اللہ کے مقرب فرشتے عزاداری اور تعزیت کے لیے آپ کے والد امیرالمؤمنین کے پاس آتے تھے اور آپ کے لیے اعلی علیین میں ماتم و عزا کی مجلس بپا ہوئی۔۔۔ آسمان اور اس کے باشندے، بہشت اور اس کے خزانہ دار اور پھیلے ہوئے پہاڑ اور ان کے دامن اور تمام تر سمندر اور ان کی مچھلیاں اور جنّات اور ان کے بچے اور خانۂ خدا اور مقام ابراہیم اور مشعر الحرام اور حل و حرم آپ کے لیے روئے

آخری حصہ اور زیارت کا متن

ترمیم

زیارت کا آخری حصہ زائر اور دوسرے مؤمنین کے لیے استغفار اور دعا پر مشتمل ہے اور نماز زیارت پر زیارت نامہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔

زیارت ناحیہ مقدسہ
ترجمہ
:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

السَّلامُ عَلى آدمَ صَفْوةِ اللهِ مِن خَليقَتِهِ، السَّلامُ عَلى شِيثَ وَليِّ اللهِ وخِيرَتِهِ، السَّلامُ عَلى إدْريسَ القائِمِ للهِ بِحُجَّتِهِ، السَّلامُ عَلى نُوح المُجَابِ في دَعوَتِهِ، السَّلامُ عَلى هُود المَمْدودِ مِنَ اللهِ بِمَعونَتِهِ. السَّلامُ عَلى صَالِح الَّذي تَوَجَّهَ للهِ بِكَرامَتِهِ، السَّلامُ عَلى إِبْراهِيم الَّذي حَبَاهُ اللهُ بِخُلَّتِهِ، السَّلامُ عَلى إِسْمَاعيل الَّذي فَداهُ اللهُ بِذِبْحٍ عَظيمٍ مِنَ جَنَّتِهِ، السَّلامُ عَلى إِسْحَاق الَّذي جَعَل اللهُ النُّبُوَّةَ في ذُرِّيَّتِهِ. السَّلامُ عَلى يَعقوب الَّذي رَدَّ الله عَليهِ بَصَرَهُ بِرَحمَتِهِ، السَّلامُ عَلى يُوسف الَّذي نَجَّاهُ اللهُ مِنَ الجُّبِّ بِعَظَمَتِهِ، السَّلامُ عَلى مُوسَى الَّذي فَلَقَ اللهُ البَحْرَ لَهُ بِقُدرَتِهِ، السَّلامُ عَلى هَارُون الَّذي خَصَّهُ اللهُ بِنُبوَّتِهِ. السَّلامُ عَلى شُعَيب الَّذي نَصَرَهُ اللهُ عَلى أُمَّتِهِ، السَّلامُ عَلى دَاود الَّذي تَابَ اللهُ عَليهِ مِن خَطيئَتِهِ، السَّلامُ عَلى سُلَيمَان الَّذي ذُلَّتْ لَهُ الجِنُّ بِعزَّتِهِ، السَّلامُ عَلى أيُّوب الَّذي شَفَاهُ اللهُ مِنْ عِلَّتِهِ، السَّلامُ عَلى يُونس الَّذي أنْجَزَ اللهُ لَهُ مَضْمُونَ عِدَّتِه. السَّلامُ عَلى عُزَير الَّذي أحيَاهُ اللهُ بَعدَ مَوتَتِهِ، السَّلامُ عَلى زَكَريَّا الصَّابِر فِي مِحْنَتِهِ، السَّلامُ عَلى يَحْيَى الَّذي أزْلَفَهُ اللهُ بِشَهادَتِهِ، السَّلامُ عَلى عِيسَى رُوح اللهِ وَكَلِمَتِهِ. السَّلامُ عَلى مُحمَّدٍ حَبيبِ اللهِ وصَفْوتِهِ، السَّلامُ عَلَى أميرِ المُؤمِنين عَليِّ بْن أبي طَالِبٍ المَخْصُوص بِأخُوَّتِهِ، السَّلامُ عَلى فَاطِمَةَ الزَّهراءِ ابنَتِهِ، السَّلامُ عَلى أبِي مُحَمَّدٍ الحَسَنِ وَصِيِّ أبِيهِ وخَليفَتِهِ، السَّلامُ عَلى الحُسينِ الَّذي سَمَحَتْ نَفْسُهُ بِمُهجَتِهِ، السَّلامُ عَلى مَنْ أطَاعَ اللهَ فِي سِرِّهِ وَعَلانِيَتِهِ، السَّلامُ عَلى مَنْ جَعَلَ اللهُ الشِّفاءَ فِي تُرْبَتِهِ، السَّلامُ عَلَى مَن الإِجَابَة تَحْتَ قُبَّتِهِ، السَّلامُ عَلى مَن الأئمَّة مِنْ ذُرِّيَّتِهِ. السَّلامُ عَلى ابْنِ خَاتَمِ الأنبِيَاءِ، السَّلامُ عَلَى ابْنِ سَيِّدِ الأوصِيَاءِ، السَّلامُ عَلَى ابْنِ فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ، السَّلامُ عَلَى ابنِ خَدِيجَة الكُبْرَى، السَّلامُ عَلَى ابْنِ سِدْرَة المُنتَهَى، السَّلامُ عَلى ابْنِ جَنَّة المَأوَى، السَّلامُ عَلى ابْنِ زَمْزَمَ وَالصَّفَا. السَّلامُ عَلى المُرَمَّلِ بالدِّمَاءِ، السَّلامُ عَلى المَهْتُوكِ الخِبَاءِ، السَّلامُ عَلَى خَامِسِ أصْحَابِ أهْلِ الكِسَاءِ، السَّلامُ عَلى غَريبِ الغُرَبَاءِ، السَّلامُ عَلى شَهِيدِ الشُّهَدَاءِ، السَّلامُ عَلى قَتيلِ الأدْعِيَاءِ، السَّلامُ عَلى سَاكِنِ كَرْبَلاءِ، السَّلامُ عَلى مَنْ بَكَتْهُ مَلائِكَةُ السَّمَاءِ، السَّلامُ عَلَى مَنْ ذُرِّيتُهُ الأزكِيَاءُ. السَّلامُ عَلى يَعْسُوبِ الدِّيْنِ، السَّلامُ عَلى مَنَازِلِ البَرَاهِينِ. السَّلامُ عَلى الأئِمَّةِ السَّادَاتِ، السَّلامُ عَلى الجُيوبِ المُضَرَّجَاتِ، السَّلامُ عَلى الشِّفَاهِ الذَّابِلاتِ، السَّلامُ عَلى النُّفوسِ المُصْطَلِمَاتِ، السَّلامُ عَلَى الأروَاحِ المُختَلسَاتِ. السَّلامُ عَلى الأجْسَادِ العَاريَاتِ، السَّلامُ عَلى الجُسُومِ الشَّاحِبَاتِ، السَّلامُ عَلى الدِّمَاءِ السَّائِلاتِ، السَّلامُ عَلى الأعْضَاءِ المُقطَّعَاتِ، السَّلامُ عَلى الرُّؤوسِ المُشَالاَتِ، السَّلامُ عَلى النُّسْوَةِ البَارِزَاتِ. السَّلامُ عَلى حُجَّةِ رَبِّ العَالَمِينَ، السَّلامُ عَلَيكَ وعَلى آبَائِكَ الطَّاهِرِينَ، السَّلامُ عَلَيْكَ وعَلى أبْنَائِكَ المُسْتَشْهَدِينَ، السَّلامُ عَليكَ وعَلى ذُرِّيَّتِك النَّاصِرِينَ، السَّلامُ عَليكَ وعَلى المَلائِكَةِ المُضَاجِعِينَ. السَّلامُ عَلى القَتيلِ المَظلُومِ، السَّلامُ عَلى أخِيْهِ المَسمُومِ. السَّلامُ عَلى عَليٍّ الكَبِيرِ، السَّلامُ عَلى الرَّضِيعِ الصَّغِيرِ، السَّلامُ عَلَى الأبْدَانِ السَّلِيبَةِ، السَّلامُ عَلى العِتْرَةِ القَريْبَةِ، السَّلامُ عَلى المُجدَّلِينَ في الفَلَوَاتِ، السَّلامُ عَلى النَّازِحِينَ عَن الأوطَانِ، السَّلامُ عَلى المَدْفُونِينَ بِلا أكْفَانِ، السَّلامُ عَلى الرُّؤوسِ المُفَرَّقَةِ عَن الأبْدانِ. السَّلامُ عَلى المُحتَسِبِ الصَّابِرِ، السَّلامُ عَلى المَظْلُومِ بِلا نَاصِرِ، السَّلامُ عَلَى سَاكِنِ التُّربَةِ الزَّاكِيَةِ، السَّلامُ عَلى صَاحِبِ القُبَّة السَّامِيَةِ. السَّلامُ عَلى مَن طَهَّرَهُ الجَلِيلُ، السَّلامُ عَلى مَنِ افْتَخَرَ بِهِ جِبرائِيلُ، السَّلامُ عَلى مَنْ نَاغَاهُ فِي المَهْدِ مِيكَائيلُ. السَّلامُ عَلى مَنْ نُكِثَتْ ذِمَّتُهُ، السَّلامُ عَلى مَن هُتِكَتْ حُرْمَتُهُ، السَّلامُ عَلى مَنْ أُرِيقَ بِالظُّلْمِ دَمُهُ. السَّلامُ عَلى المُغسَّلِ بِدَمِ الجِرَاحِ، السَّلامُ عَلى المُجَرَّعِ بِكاسَاتِ الرِّمَاحِ، السَّلامُ عَلى المُضَامِ المُستَبَاحِ. السَّلامُ عَلى المَنْحُورِ في الوَرَى، السَّلامُ عَلى مَن دَفنَهُ أهْلُ القُرَى، السَّلامُ عَلى المَقْطُوعِ الوَتِينِ، السَّلامُ عَلى المُحَامي بِلا مُعِينٍ. السَّلامُ عَلى الشَّيْبِ الخَضِيبِ، السَّلامُ عَلى الخَدِّ التَّرِيْبِ، السَّلامُ عَلى البَدَنِ السَّلِيْبِ، السَّلامُ عَلى الثَّغْرِ المَقْرُوعِ بالقَضِيبِ، السَّلامُ عَلى الرَّأسِ المَرفُوعِ. السَّلامُ عَلى الأجْسَامِ العَارِيَةِ في الفَلَوَاتِ، تَنْهَشُهَا الذِّئَابُ العَادِيَاتُ، وتَخْتَلِفُ إِلَيها السِّباعُ الضَّارِيَاتُ. السَّلامُ عَليْكَ يَا مَولاَيَ وعَلى المَلائِكَةِ المَرْفُوفينَ حَولَ قُبَّتِكَ، الحَافِّينَ بِتُربَتِكَ، الطَّائِفِين بِعَرَصَتِكَ، الوَاردِينَ لِزَيَارَتِكَ. السَّلامُ عَليكَ فَإنِّي قَصَدْتُ إِلَيكَ، ورَجَوتُ الفَوزَ لَدَيكَ. السَّلامُ عَليكَ سَلامُ العَارِفِ بِحُرمَتِكَ، المُخْلِصِ في وِلايَتِكَ، المُتَقرِّبِ إِلى اللهِ بِمَحَبَّتِكَ، البريءِ مِن أعَدَائِكَ، سَلامُ مَنْ قَلْبُهُ بِمُصَابِك مَقرُوحٌ، وَدَمْعُهُ عِندَ ذِكرِكَ مَسْفُوحٌ، سَلامُ المَفْجُوعِ الحَزِينِ، الوَالِهِ المُستَكِينِ. سَلامُ مَن لَو كَانَ مَعَكَ بِالطُّفُوفِ لَوَقَاكَ بِنَفسِهِ حَدَّ السُّيُوفِ، وبَذَلَ حَشَاشَتَهُ دُونَك لِلحُتُوف، وجَاهَد بَينَ يَدَيكَ، ونَصَرَكَ عَلى مَن بَغَى عَلَيكَ، وَفَدَاك بِرُوحِه وَجَسَدِهِ، وَمَالِهِ وَولْدِهِ، وَرُوحُهُ لِرُوحِكَ فِدَاءٌ، وَأهْلُهُ لأهلِكَ وِقَاءٌ. فَلَئِنْ أخَّرَتْني الدُّهُورُ، وَعَاقَنِي عَنْ نَصْرِكَ المَقْدُورُ، وَلَمْ أكُنْ لِمَنْ حَارَبَكَ مُحَارِباً، وَلِمَنْ نَصَبَ لَكَ العَدَاوَةَ مُناصِباً، فَلأنْدُبَنَّكَ صَبَاحاً وَمَسَاءً، وَلأبْكِيَنَّ لَكَ بَدَل الدُّمُوعِ دَماً، حَسْرَةً عَلَيكَ، وتَأسُّفاً عَلى مَا دَهَاكَ وَتَلَهُّفاً، حَتَّى أمُوتُ بِلَوعَةِ المُصَابِ، وَغُصَّةِ الاِكْتِئَابِ. أشْهَدُ أنَّكَ قَدْ أقَمْتَ الصَّلاةَ، وَآتَيْتَ الزَّكَاةَ، وَأَمَرْتَ بِالمَعرُوفِ، وَنَهَيْتَ عَنِ المُنْكَرِ والعُدْوَانِ، وأطَعْتَ اللهَ وَمَا عَصَيْتَهُ، وتَمَسَّكْتَ بِهِ وَبِحَبلِهِ، فأرضَيتَهُ وَخَشيْتَهُ، وَرَاقبتَهُ واسْتَجَبْتَهُ، وَسَنَنْتَ السُّنَنَ، وأطفَأْتَ الفِتَنَ. وَدَعَوْتَ إلَى الرَّشَادِ، وَأوْضَحْتَ سُبُل السَّدَادِ، وجَاهَدْتَ فِي اللهِ حَقَّ الجِّهَادِ، وكُنْتَ لله طَائِعاً، وَلِجَدِّك مُحمَّدٍ ( صَلَّى اللهُ عَلَيه وَآلِه ) تَابِعاً، وَلِقُولِ أبِيكَ سَامِعاً، وَإِلَى وَصِيَّةِ أخيكَ مُسَارِعاً، وَلِعِمَادِ الدِّينِ رَافِعاً، وَللطُّغْيَانِ قَامِعاً، وَللطُّغَاةِ مُقَارِعاً، وللأمَّة نَاصِحاً، وفِي غَمَرَاتِ المَوتِ سَابِحاً، ولِلفُسَّاقِ مُكَافِحاً، وبِحُجَجِ اللهِ قَائِماً، وللإِسْلاَمِ وَالمُسْلِمِينَ رَاحِماً، وَلِلحَقِّ نَاصِراً، وَعِنْدَ البَلاءِ صَابِراً، وَلِلدِّينِ كَالِئاً، وَعَنْ حَوزَتِه مُرامِياً. تَحُوطُ الهُدَى وَتَنْصُرُهُ، وَتَبْسُطُ العَدْلَ وَتنْشُرُهُ، وتنْصُرُ الدِّينَ وتُظْهِرُهُ، وَتَكُفُّ العَابِثَ وتَزجُرُهُ، وتأخُذُ للدَّنيِّ مِنَ الشَّريفِ، وتُسَاوي فِي الحُكْم بَينَ القَويِّ والضَّعِيفِ. كُنْتَ رَبيعَ الأيْتَامِ، وَعِصْمَةَ الأنَامِ، وَعِزَّ الإِسْلامِ، وَمَعْدِنَ الأَحْكَامِ، وَحَلِيفَ الإِنْعَامِ، سَالِكاً طَرائِقَ جَدِّكَ وَأبِيكَ، مُشَبِّهاً في الوَصيَّةِ لأخِيكَ، وَفِيَّ الذِّمَمِ، رَضِيَّ الشِّيَمِ، ظَاهِرَ الكَرَمِ، مُتَهَجِّداً فِي الظُّلَمِ، قَويمَ الطَّرَائِقِ، كَرِيمَ الخَلائِقِ، عَظِيمَ السَّوابِقِ، شَرِيفَ النَّسَبِ، مُنِيفَ الحَسَبِ، رَفِيعَ الرُّتَبِ، كَثيرَ المَنَاقِبِ، مَحْمُودَ الضَّرَائِبِ، جَزيلَ المَوَاهِبِ. حَلِيمٌ، رَشِيدٌ، مُنِيبٌ، جَوادٌ، عَلِيمٌ، شَدِيدٌ، إِمَامٌ، شَهِيدٌ، أوَّاهٌ، مُنِيبُ، حَبِيبٌ، مُهِيبٌ. كُنْتَ للرَّسُولِ ( صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ ) وَلَداً، وَللقُرآنِ سَنَداً، وَلِلأمَّةِ عَضُداً، وفي الطَّاعَةِ مُجتَهِداً، حَافِظاً للعَهدِ والمِيثَاقِ، نَاكِباً عَن سُبُل الفُسَّاقِ، وبَاذلاً للمَجْهُودِ، طَويلَ الرُّكُوعِ والسُّجُودِ، زاهِداً في الدُّنيَا زُهْدَ الرَّاحِلِ عَنْها، نَاظِراً إِلَيها بِعَينِ المُسْتَوحِشِينَ مِنْها. آمَالُكَ عَنْها مَكفُوفَةٌ، وهِمَّتُكَ عَنْ زِينَتِهَا مَصْرُوفَةٌ، وَأَلحَاظِكَ عَن بَهْجَتِهَا مَطْرُوفَةٌ، وَرَغْبَتِكَ فِي الآخِرَة مَعرُوفَةٌ، حَتَّى إِذَا الجَورُ مَدَّ بَاعَهُ، وأسْفَرَ الظُّلْمُ قِنَاعَهُ، وَدَعَا الغَيُّ أتْبَاعَهُ. وأنْتَ فِي حَرَمِ جَدِّك قَاطِنٌ، وَللظَّالِمِينَ مُبَايِنٌ، جَلِيسُ البَيتِ وَالمِحْرَابِ، مُعتَزِلُ عَنْ اللَّذَاتِ والشَّهَوَاتِ، تَنْكُرُ المُنْكَرَ بِقَلبِكَ وَلِسَانِك، عَلى حَسَبِ طَاقَتِكَ وَإمْكَانِكَ. ثُّمَّ اقْتَضَاكَ العِلْمُ للإِنْكَارِ، وَلزمَكَ أنْ تُجَاهِدَ الفُجَّار، فَسِرْتَ فِي أوْلادِكَ وَأهَالِيكَ، وشِيعَتِكَ ومُوَالِيكَ، وصَدَّعْتَ بِالحَقِّ وَالبَيِّنَةِ، وَدَعَوتَ إِلَى الله بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ. وَأمَرْتَ بِإِقَامَةِ الحُدُودِ، والطَّاعَةِ لِلمَعْبُودِ، وَنَهَيْتَ عَنِ الخَبَائِثِ وَالطُّغْيَانِ، وَوَاجَهُوكَ بِالظُّلْمِ وَالعُدْوَانِ، فَجَاهَدْتَهُم بَعْدَ الإِيعَازِ لَهُم، وَتَأكِيدِ الحُجَّةِ عَلَيْهِم، فَنَكَثوا ذِمَامَكَ وِبَيْعَتَكَ، وأسْخَطَوا رَبَّك وَجَدَّك، وَبَدؤُوكَ بِالحَرْبِ، فَثَبَتَّ لِلطَّعْنِ والضَّرْبِ، وطَحَنْتَ جُنُودَ الفُجَّارِ، وَاقْتَحَمْتَ قَسْطَلَ الغُبَارِ، مُجَاهِداً بِذِي الفِقَارِ، كَأنَّكَ عَلِيٌّ المُخْتَارُ. فَلمَّا رَأوْكَ ثَابِتَ الجَأْشِ، غَيْرَ خَائِفٍ وَلا خَاشٍ، نَصَبُوا لَكَ غَوائِلَ مَكْرِهِمُ، وقَاتَلُوكَ بِكَيْدِهِمُ وَشَرِّهِمُ، وأمَرَ اللَّعِينُ جُنودَهُ، فَمَنَعُوكَ المَاءَ وَوُرُودَهُ، ونَاجَزُوكَ القِتَالَ، وَعَاجَلُوكَ النِّزَالَ، وَرَشَقُوكَ بِالسِّهَامِ وَالنِّبَالِ، وبَسَطُوا إِلَيكَ أَكُفَّ الاِصْطِلاَمِ، وَلَمْ يَرْعَوْا لَكَ ذِمَاماً، وَلا رَاقَبُوا فِيْكَ أثَاماً، فِي قَتْلِهِمُ أوْلِيَاءَكَ، وَنَهْبِهِمُ رِحَالَكَ. وَأنْتَ مُقْدَّمٌ في الهَبَوَاتِ، ومُحْتَمِلٌ للأذِيَّاتِ، قَدْ عَجِبَتْ مِنْ صَبْرِكَ مَلائِكَةُ السَّمَاوَاتِ، فَأحْدَقُوا بِكَ مِنْ كِلِّ الجِّهَاتِ، وأثْخَنُوكَ بِالجِّرَاحِ، وَحَالُوا بَيْنَكَ وَبَينَ الرَّوَاحِ، وَلَمْ يَبْقَ لَكَ نَاصِرٌ، وَأنْتَ مُحْتَسِبٌ صَابِرٌ. تَذُبُّ عَنْ نِسْوَتِكَ وَأوْلادِكَ، حَتَّى نَكَّسُوكَ عَنْ جَوَادِكَ، فَهَوَيْتَ إِلَى الأرْضِ جَرِيْحاً، تَطَأُكَ الخُيولُ بِحَوَافِرِهَا، وَتَعْلُوكَ الطُّغَاةُ بِبَوَاتِرِها، قَدْ رَشَحَ لِلمَوْتِ جَبِيْنُكَ، واخْتَلَفَتَ بالاِنْقِبَاضِ والاِنْبِسَاطِ شِمَالُكَ وَيَمِينُكَ، تُدِيرُ طَرَفاً خَفِيّاً إلى رَحْلِكَ وَبَيْتِكَ، وَقَدْ شُغِلْتَ بِنَفسِكَ عَنْ وُلْدِكَ وَأهَالِيكَ. وَأَسْرَعَ فَرَسُكَ شَارِداً إِلَى خِيَامِكَ، قَاصِداً مُحَمْحِماً بَاكِياً، فَلَمَّا رَأَيْنَ النِّسَاءُ جَوَادَكَ مَخْزِيّاً، وَنَظَرْنَ سَرْجَكَ عَلَيهِ مَلْوِيّاً، بَرَزْنَ مِنَ الخُدُورِ، نَاشِرَات الشُّعُورِ عَلى الخُدُودِ، لاطِمَاتُ الوُجُوه سَافِرَات، وبالعَوِيلِ دَاعِيَات، وبَعْدَ العِزِّ مُذَلَّلاَت، وإِلَى مَصْرَعِكَ مُبَادِرَات، والشِّمْرُ جَالِسٌ عَلى صَدْرِكَ، وَمُولِغٌ سَيْفَهُ عَلى نَحْرِكَ، قَابِضٌ عَلى شَيْبَتِكَ بِيَدِهِ، ذَابِحٌ لَكَ بِمُهَنَّدِهِ، قَدْ سَكَنَتْ حَوَاسُّكَ، وَخفِيَتْ أنْفَاسُكَ، وَرُفِع عَلى القَنَاةِ رَأسُكَ. وَسُبِيَ أهْلُكَ كَالعَبِيدِ، وَصُفِّدُوا فِي الحَدِيْدِ، فَوقَ أقْتَابِ المطِيَّاتِ، تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ حَرُّ الهَاجِرَات، يُسَاقُونَ فِي البَرَارِي وَالفَلَوَاتِ، أيْدِيهُمُ مَغْلُولَةٌ إِلَى الأعْنَاقِ، يُطَافُ بِهِم فِي الأسْوَاقِ، فالوَيْلُ للعُصَاةِ الفُسَّاقِ. لَقَد قَتَلُوا بِقَتْلِكَ الإِسْلامَ، وَعَطَّلوا الصَّلاةَ وَالصِّيَامَ، وَنَقَضُوا السُّنَنَ وَالأحْكَامَ، وَهَدَّمُوا قَوَاعِدَ الإيْمَانِ، وحَرَّفُوا آيَاتَ القُرْآنِ، وَهَمْلَجُوا فِي البَغْيِ وَالعُدْوَانِ. لَقَدْ أصْبَحَ رَسُولُ اللهِ ( صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ ) مَوتُوراً، وَعَادَ كِتَابُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مَهْجُوراً، وَغُودِرَ الحَقُّ إِذْ قُهِرْتَ مَقْهُوراً، وَفُقِدَ بِفَقْدِكَ التَّكبِيرُ وَالتهْلِيلُ، وَالتَّحْرِيمُ وَالتَّحِليلُ، وَالتَّنْزِيلُ وَالتَّأوِيلُ، وَظَهَرَ بَعْدَكَ التَّغْيِيرُ وَالتَّبدِيلُ، والإِلْحَادُ وَالتَّعطِيلُ، وَالأهْوَاءُ وَالأضَالِيلُ، وَالفِتَنُ وَالأَبَاطِيلُ. فَقَامَ نَاعِيكَ عِنْدَ قَبْرِ جَدِّكَ الرَّسُولِ ( صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ )، فَنَعَاكَ إِلَيهِ بِالدَّمْعِ الهَطُولِ، قَائِلاً : يَا رَسُولَ اللهِ، قُتِلَ سِبْطُكَ وَفَتَاكَ، واسْتُبِيحَ أهْلُكَ وَحِمَاكَ، وَسُبِيَتْ بَعْدَكَ ذَرَارِيكَ، وَوَقَعَ المَحْذُورُ بِعِتْرَتِكَ وَذَويكَ. فانْزَعَجَ الرَّسُولُ، وَبَكَى قَلْبُهُ المَهُولُ، وَعَزَّاهُ بِكَ المَلائِكَةُ وَالأنْبِيَاءُ، وَفُجِعَتْ بِكَ أُمُّكَ الزَّهْرَاءُ، وَاخْتَلَفَ جُنُودُ المَلائِكَةِ المُقَرَّبِينَ، تُعَزِّي أبَاكَ أمِيرَ المُؤْمِنينَ، وأُقِيمَتْ لَكَ المَآتِمُ فِي أَعْلَى عِلِّيِّينَ، وَلَطَمَتْ عَلَيكَ الحُورُ العِينُ. وَبَكَتِ السَّمَاءُ وَسُكَّانُهَا، وَالجِنَانُ وَخُزَّانُهَا، وَالهِضَابُ وَأقْطَارُهَا، وَالبِحَارُ وَحِيتَانُها، وَالجِنَانُ وَولْدَانُهَا، وَالبَيتُ وَالمَقَامُ، وَالمَشْعَرُ الحَرَام، وَالحِلُّ والإِحْرَامُ. اللَّهُمَّ فَبِحُرْمَةِ هَذَا المَكَانِ المُنِيفِ، صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَتِهِم، وأدْخِلْنِي الجَنَّة بِشَفَاعَتِهِم. اللَّهُمَّ إِنِّي أتوَسَّلُ إِلَيكَ يَا أسْرَعَ الحَاسِبِينَ، وَيَا أكْرَمَ الأَكْرَمِينَ، وَيَا أحْكَمَ الحَاكِمِينَ، بِمُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ، وَرَسُولِكَ إِلَى العَالَمِينَ أجْمَعِينَ، وَبِأخِيهِ وَابْنِ عَمِّهِ الأنْزَعِ البَطِينِ، العَالِمِ المَكِينِ، عَليٍّ أمِيْرِ المُؤْمِنِينَ، وَبِفَاطِمَةَ سَيِّدَةِ نِسَاءِ العَالَمِينَ. وَبِالحَسَنِ الزَّكِيِّ عِصْمَةَ المُتَّقِينَ، وَبِأَبِي عَبْدِ اللهِ الحُسَينِ أَكَرَمِ المُستَشْهِدِينَ، وَبِأوْلاَدِهِ المَقْتُولِينَ، وَبِعِتْرَتِهِ المَظلُومِينَ. وَبِعَلِيِّ بْنِ الحُسَيْنِ زَيْنِ العَابِدِينَ، وَبِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قِبْلَةِ الأوَّابِينَ، وَبِجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَصْدَقِ الصَّادِقِينَ، وَبِمُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ مُظِهِرِ البَرَاهِينَ، وَبِعَليِّ بْنِ مُوسَى نَاصِرِ الدِّينَ، وَبِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قُدْوَةِ المُهْتَدِينَ، وَبِعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ أزْهَدِ الزَّاهِدِينَ، وَبِالحَسَنِ بْنِ عَليٍّ وَارِثِ المُسْتَخْلفِينَ، وَبِالحُجَّةِ عَلى الخَلْقِ أجْمَعِينَ، أنْ تُصَلِّيَ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِينَ الأَبَرِّينَ، آلِ طَهَ وَيَاسِينَ، وَأنْ تَجْعَلَنِي فِي القِيَامَةِ مِنَ الآمِنِينَ المُطْمَئِنِّينَ، الفَائِزِينَ الفَرِحِينَ المُسْتَبْشِرِينَ. اللَّهُمَّ اكتُبْنِي فِي المُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ، وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الآخِرِينَ، وَانْصُرْنِي عَلى البَاغِينَ، واكْفِنِي كَيْدَ الحَاسِدِينَ، وَاصْرِفْ عَنِّي مَكْرَ المَاكِرينَ، وَاقْبِضْ عَنِّي أيْدِي الظَّالِمِينَ، وَاجْمَع بَينِي وَبَينَ السَّادَةِ المَيَامِينَ فِي أعَلَى عِلِّيِّينَ، مَعَ الَّذِينَ أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَداءِ وَالصَّالِحِينَ، بِرَحْمَتِكَ يَا أرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. اللَّهُمَّ إِنِّي أُقْسِمُ عَلَيكَ بِنَبِيِّكَ المَعْصُومِ، وَبِحُكْمِكَ المَحْتُومِ، وَنَهْيِكَ المَكْتُومِ، وَبِهَذا القَبْرِ المَلْمُومِ، المُوَسَّدِ في كَنَفِهِ الإِمَامِ المَعْصُومِ، المَقْتُولِ المَظْلُومِ، أنْ تَكْشِفَ مَا بِي مِنَ الغُمُومِ، وَتَصْرِفَ عَنِّي شَرَّ القَدَرِ المَحْتُومِ، وَتُجِيرُنِي مِنَ النَّارِ ذَاتِ السُّمُومِ. اللَّهُمَّ جَلِّلْنِي بِنِعْمَتِكَ، وَرَضِّنِي بِقَسَمِكَ، وتَغَمَّدْنِي بِجُودِكَ وَكَرَمِكَ، وَبَاعِدْنِي مِن مَكْرِكَ وَنِقْمَتِكَ. اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الزَّلَلِ، وَسَدِّدْنِي فِي القَوْلِ وَالعَمَلِ، وَافْسَحْ لِي فِي مُدَّةِ الأَجَلِ، وَاعْفِنِي مِنَ الأوْجَاعِ وَالعِلَلِ، وَبَلِّغْنِي بِمَوَالِيَّ وَبِفَضْلِكَ أَفْضَلَ الأَمَلِ. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَاقْبَلْ تَوبَتِي، وَارْحَم عَبْرَتِي، وَأَقِلْنِي عَثْرَتي، وَنَفِّسْ كُرْبَتِي، وَاغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي، وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي. اللَّهُمَّ لا تَدَعْ لِي فِي هَذَا المَشْهَدِ المُعَظَّمِ، وَالمَحَلِّ المُكَرَّمِ، ذَنْباً إلاَّ غَفَرْتَهُ، وَلا عَيْباً إِلاَّ سَتَرْتَهُ، وَلاَ غَمّاً إلاَّ كَشَفْتَهُ، وَلاَ رِزْقاً إلاَّ بَسَطْتَهُ، وَلا جَاهاً إِلاَّ عَمَرْتَهُ، وَلا فَسَاداً إِلاَّ أصْلَحْتَهُ، وَلاَ أمَلاً إِلاَّ بَلَغْتَهُ، وَلا دُعَاءً إِلاَّ أجَبْتَهُ، وَلاَ مَضيقاً إلاَّ فَرَّجْتَهُ، وَلا شَمْلاً إلاَّ جَمَعْتَهُ، وَلا أمْراً إلاَّ أتْمَمْتَهُ، وَلا مَالاً إِلاَّ كَثَّرْتَهُ، وَلا خُلْقاً إلاَّ حَسَّنْتَهُ، وَلا إِنْفَاقاً إِلاَّ أخْلَفْتَهُ، وَلا حَالاً إِلاَّ عَمَرتَهُ، وَلا حَسُوداً إِلاَّ قَمَعْتَهُ، وَلا عَدوّاً إِلاَّ أرْدَيْتَهُ، وَلا شَرّاً إِلاَّ كَفَيْتَهُ، وَلا مَرَضاً إِلاَّ شَفَيْتَهُ، ولا بَعِيداً إِلاَّ أدْنَيْتَهُ، وَلا شَعْثاً إِلاَّ لَمَمْتَهُ، وَلا سُؤالاً إِلاَّ أعْطَيْتَهُ. اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ العَاجِلَةِ، وثَوَابَ الآجِلَةِ، اللَّهُمَّ أغْنِنِي بِحَلالِكَ عَنِ الحَرَامِ، وَبِفَضْلِكَ عَنْ جَمِيعِ الأنَامِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أسْأَلُكَ عِلْماً نَافِعاً، وَقَلْباً خَاشِعاً، وَيَقِيناً شَافِياً، وَعَمَلاً زَاكِياً، وَصَبْراً جَمِيلاً، وَأجْراً جَزِيلاً. اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شُكْرَ نِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَزِدْ فِي إحْسَانِكَ وَكَرَمِكَ إِلَيَّ، وَاجْعَلْ قَولِي فِي النَّاسِ مَسْمُوعاً، وَعَمَلي عِنْدَكَ مَرْفُوعاً، وَأثَري فِي الخَيْرَاتِ مَتْبُوعاً، وَعَدُوِّي مَقْمُوعاً. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الأخْيَارِ، فِي آنَاءِ اللَّيلِ وَأطْرَافِ النَّهَارِ، وَاكْفِنِي شَرَّ الأشْرَارِ، وَطَهِّرنِي مِن الذُّنُوبِ وَالأوْزَارِ، وَأَجِرْنِي مِن النَّار، وأحِلَّنِي دَارَ القَرَارِ، وَاغْفِرْ لِي وَلِجَمِيعِ أُخْوانِي وأخَوَاتي المُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِنَاتِ، بِرَحْمَتِكَ يَا أرْحَمَ الرَّاحِمِينَ۔

:
اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
سلام آدم پر جو برگزیدہء خدا اور خلیفہ خدا ہیں، سلام شیث پر جو ولی خدا اور پسندیدہ خدا ہیں، سلام ادریس پر جو اپنی دلیل کے ساتھ (جنت میں) مقیم ہیں، سلام نوح پر جن کی دعا قبول کی گئی، سلام ہود پر جن کی اللہ کی طرف سے مخصوص مدد کی گئی، سلام صالح پر جن کو اللہ نے اپنے کرم سے ذی شان قرار دیا، سلام ابراہیم پر جن کو اللہ نے اپنی خلت سے سر فراز کیا، سلام اسماعیل پر جن کو اللہ نے ذبح عظیم کی قرار داد کے ساتھ اپنی جنت سے فدیہ بهیجا، سلام اسحاق پر جن کی ذریت میں اللہ نے نبوت کا سلسلہ رکھا، سلام یعقوب پر جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دوبارہ بینائی دی، سلام یوسف پر جن کو خدا نے اپنا کرم عظیم فرما کر کنویں سے نجات دی، سلام موسی پر جن کے لئے خدا نے اپنی قدرت سے دریا کو شگافتہ کردیا، سلام ہارون پر جن کو خدا نے اپنی نبوت سے مخصوص فرمایا، سلام شعیب پر جن کو خدا نے ان کی امت پر غالب کیا، سلام داؤد پر جن کے ترک اولی کو الله نے معاف کر دیا، سلام سلیمان پر جن کے لئے خدا کی دی ہوئی عزت کی بدولت قومِ جن تابع ہوگئی، سلام ہو ایوب پر جن کو الله نے بیماری سے شفا دی، سلام یونس پر خدا نے ان کے اس وعده کو پورا کیا جس کی انہوں نے ضمانت کی تهی، سلام عزیر پر جن کو خدا نے مرنے کے بعد دوباره زنده کیا، سلام زکریا پر جو اپنی شدید آزمائش میں بهی صابر رہے، سلام یحیی پر جن کا مرتبہ الله نے ان کی شہادت سے اور بڑهادیا، سلام عیسی پر جو بزبانِ وحی الله کی روح اور الله کا کلمہ ہیں، سلام محمد مصطفی (ص) پر جو محبوب خدا اور پسندیده خدا ہیں، سلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب پر جن کو پیغمبر کے بھائی ہونے کا مخصوص شرف دیا گیا، سلام فاطمہ زہرا دختر رسول پر، سلام ابو محمد حسن مجتبی پر جو اپنے باپ کے وصی وجانشین ہیں، سلام حسین پر جنہوں نے راهِ خدا میں انتہائی زخمی ہونے کے بعد جو جان جسم میں باقی ره گئی تهی وه بهی دے دی، اس پر سلام جس نے مخفی اور آشکار خدا کی عبادت کی ، اس پر سلام جس کی خاک میں اللہ نے اثر شفا قرار دیا، سلام اس پر کہ جس کی قبہ کے نیچے دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس پر سلام جس کی ذریت سے قیامت تک امام رہیں گے، آخری پیغمبر کے فرزند پر سلام، سردار اوصیاء علی (ع) کے فرزند پر سلام، فاطمۃ الزہرا (س) کے فرزند پر سلام، خدیجہ بزرگ مرتبہ کے فرزند پر سلام، سدرة المنتہی کے وارث پر سلام، جنت جیسی پناه گاه کے وارث پر سلام، زمزم وصفا کے وارث پر سلام، آلوده خاک وخون پر سلام، سلام اس پر جس کا خیمہ پهاڑ ڈالا گیا، چادرِ تطہیر والوں کی پانچویں فرد پر سلام، مسافروں میں سب سے زیاده بیکس مسافر پر سلام، شہیدوں میں سب سے زیاده پر درد شہید پر سلام، اس پر سلام جس کو مجہول النسب لوگوں نے قتل کیا، ساکنِ ارضِ کربلا پر سلام، اس پر سلام جس کو آسمان کے فرشتے روئے، اس پر سلام جس کی نسل سے ائمہ اطہار ہیں، سلام دین کے سردار پر، سلام ان (ائمہ) پر جو حق کی منزلیں ہیں، سلام ان ائمہ پر جو پیشوائے ملت ہیں، ان گریبانوں پر سلام جو خون میں بھرے تھے، ان ہونٹوں پر سلام جو پیاس سے سوکھے ہوئے تھے، سلام ان پر جو ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے، سلام ان پر جن کو قتل کے فوراً بعد لوٹ لیا گیا، سلام ہو بے گور وکفن نعشوں پر، [سلام ہو ان جسموں پر دهوپ کی شدت سے جن کے رنگ بدل گئے]، (ارض کربلا پر) بہنے والے خون پر سلام، جسموں سے جدا کردیئے جانے والے اعضاء پر سلام، نیزوں پر اٹھائے جانے والے سروں پر سلام، بے ردا ہوجانے والی مستورات پر سلام، حجت پروردگار عالم پر سلام، آپ پر سلام اور آپ کے پاکیزه آباء واجداد پر سلام، آپ پر سلام اور آپ کے شہید ہونے والے فرزندوں پر سلام، آپ پر سلام اور حمایت حق کرنے والی آپ کی ذریت پر سلام، آپ پر اور آپ کے پہلو میں رہنے والے فرشتوں پر سلام، سلام ظلم و ستم سے قتل کئے جانے والے پر اور ان کے بهائی (حسن (ع)) پر جن کو زہر دیا گیا، سلام جناب علی اکبر پر، [سلام] کم سن شیرخوار پر، سلام ان جسموں پر جن کو (بعد شہادت) لوٹا گیا، سلام نبی کی قریب ترین ذریت پر، سلام ان لاشوں پر جن کو بیابان میں پڑا چهوڑ دیا گیا، سلام ان مسافروں پر جو اپنے وطن سے دور تهے، سلام بے کفن دفن کئے جانے والوں پر، سلام ان سروں پر جن کو جسموں سے جدا کر دیا گیا، راهِ خدا میں اذیّت اٹھانے والے صابر پر سلام، عالم بیکسی میں ظلم کئے جانے والے پر سلام، خاکِ پاک پر رہنے والے پر سلام، قبۂ بلند رکهنے والے پر سلام، اس پر سلام جس کو خدائے بزرگ نے پاکیزه و پاک قرار دیا، اس پر سلام جس پر جبریل نے فخر کیا، اس پر سلام جس کو گہواره میں میکائیل نے لوریاں دیں، اس پر سلام جس کے بارے میں عہد وپیماں کو توڑ دیا گیا، اس پر سلام جس کی حرمت کو ضائع کیا گیا، اس پر سلام جس کا خون ظلم سے بہایا گیا، اس پر سلام جس کو زخموں سے بہنے والے خون میں نہلادیا گیا، اس پر سلام جس کو ہر طرف سے نیزے لگائے جاتے تهے، اس پر سلام جس پر ہر ظلم و ستم روا رکها گیا، [اس پر سلام جسے اتنی بڑی کائنات میں یکہ و تنہا چهوڑدیا گیا]، اس پر سلام جس کو گرد ونواح کے گاؤں والوں نے دفن کیا، اس پر سلام جس کی شہ رگ کو (بے دردی سے) کاٹا گیا، اس پر سلام جو یکہ وتنہا دشمنوں کی یلغار کو ہٹا رہا تھا، اس ریش اقدس پر سلام جو خون سے سرخ تهی، اس رخسار پر سلام جو خاک آلود تها، اس بدن پر سلام جو غبارآلود تها (اس لٹے اور نچے ہوئے بدن پر سلام)، ان دانتوں پر سلام جن پر ظلم کی چهڑی چل رہی تهی، اس [سر اقدس] پر سلام جو نیزه پر اٹهایا گیا، ان جسموں پر سلام جو بیابان میں برہنہ پڑے تھے جن کو ستمگارانِ امت بھیڑیوں کی طرح دوڑ دوڑ کر جھنجھوڑ رہے تھے اور کٹ کھنے درندے بن کر (پامالی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے) منڈلا رہے تھے ۔ میرے مولا آپ پر سلام اور آپ کے قبہ کے گرد جمع رہنے والے فرشتوں پر سلام جو آپ کی تربت کو گهیرے رہتے ہیں اور آپ کے صحنِ اقدس کا طواف کرتے ہیں اور آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے ہیں ۔ آپ پر سلام، میں نے آپ کی جانب رخ کیا ہے اور آپ کی بارگاه سے کامیابی کا امیدوار ہوں، آپ پر سلام آپ کی حرمت کو پہچاننے والے کا، سلام آپ سے خالص محبت رکھنے والے کا سلام، سلام آپ کی محبت کے ذریعہ سے قربِ خدا حاصل کرنے والے کا، اس کا سلام جو آپ کے دشمنوں سے بیزار ہے، اس کا سلام جس کا دل آپ کے غم سے زخمی ہے، اور آپ کے ذکر کے وقت اس کی آنکهوں سے آنسو جاری رہتے ہیں جو آپ کے مصائب سے نہایت دردمند ملول اور بے حال ہے ۔ اس کا سلام جو میدانِ کربلا میں اگر آپ کے ساتھ ہوتا تو تلواروں کی باڑھ پر اپنی جان کو ڈال دیتا اور آمادہ موت ہوکر اپنے خون کا آخری قطرہ آپ پر نثار کردیتا، اور باغیوں کے مقابلہ میں آپ کے سامنے جہاد کرکے آپ کی نصرت کرتا اور اپنی روح، اپنا جسم، اپنا مال اور اپنی اولاد سب کچھ آپ پر فدا کردیتا، اس کی روح آپ کی روح پر نثار ہوتی اور اس کے اہل آپ کے اہل پر فدا ہوتے ۔ اب جبکہ زمانہ نے مجھے مؤخر کردیا اور اس وقت موجود نہ ہونے کی وجہ سے میرے مقدر نے مجھے آپ کی نصرت سے روک دیا، آپ سے لڑنے والوں سے نہ لڑسکا اور آپ کے دشمنوں کے لئے میدان میں آکر کھڑا نہ ہوسکا تو صبح وشام بیقراری سے آپ کے غم میں رویا کروں گا اور آنسو کے بدلہ آنکھوں سے خون بہاؤں گا، یہ آپ کا غم یہ آپ کے مصائب پررنج وملال اور آهِ پُردرد کبهی جانے والی نہیں، اسی سوزشِ غم اسی رنج وملال کو ساتھ لے کر دنیا سے اٹھ جاؤں گا ۔ مولا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز کو قائم کیا، بڑی زبردست زکوة دی، نیکیوں کا حکم دیا، برائیوں اور سرکشی سے روکا، آپ نے خدا کی اطاعت کی کبهی اس کی نافرمانی نہیں کی، آپ نے اپنا رابطہ خدا سے قائم رکها اور اس کو انتہائی خوش رکها، آپ ہمیشہ خدا کی نا فرمانی سے ڈرے، آپ کی نظر ہمیشہ اس کی طرف رہی، آپ نے ہمیشہ اس کی رضا کو پسند کیا (اس کی آواز پر لبیک کہی)، آپ نے سنتِ خدا اور رسول (ص) کو قائم کیا، اور فتنوں کی آگ کو بجهایا، دوسروں کو راهِ حق کی طرف بلایا، اور حق کے راستوں کو اجاگر کرکے دکھایا، اور خدا کی راہ میں جو جہاد کا حق تھا اسے پورا کردیا، آپ خدا کے مطیع رہے، اور اپنے جد محمد مصطفی (ص) کے پیرو رہے، اور اپنے باپ کے تابع فرمان رہے، اور اپنے بھائی حسن (ع) کی وصیت کو جلد پورا کیا، آپ ہیں ستونِ دین کو بلند کرنے والے، سرکشی کی بنیادوں کو کهودینے والے، اور سرکشوں کے سروں کو ضرب نیزه و شمشیر سے کچل دینے والے، امت پیغمبر کو نصیحت کرنے والے، اور موت کے بهنور تیرنے والے، اور اہل فسق وفجور کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے، خدا کی حجتوں کے ساتھ قائم رہنے والے، اسلام اور مسلمین کے لئے دل میں رحم رکهنے والے، حق کی نصرت کرنے والے، اور سخت آزمائش کے وقت صبر کرنے والے، دین کی حفاظت کرنے والے، اور دین پر حملہ کرنے والوں کا منہ پهیردینے والے، آپ ہدایت کی حفاظت اور نصرت کرتے رہے، اور عدل وانصاف کی نشر و اشاعت کرتے رہے، دین کی نصرت وحمایت کرتے رہے، اور دین کی حقارت کرنے والوں کی روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہے، آپ طاقتور سے کمزور کا حق دلاتے تھے اور حکم میں طاقتور اور کمزور کو برابر رکهتے تھے۔ آپ یتیموں کی بہار تھے، مخلوق کے لئے پناہ گاہ تھے، اسلام کی عزت تھے، آپ کے پاس احکام الہی کا سرمایہ تھا، آپ حاجتمندوں کو گرانقدر عطیہ دینے کا عزم کئے ہوئے تھے، اپنے جد امجد اور پدرِ نامدار کے طریقوں پر چلنے والے، اور اپنے بهائی کی طرح امر خیر کی ہدایت فرمانے والے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے، پسندیده خو بو رکهنے والے (صاحب اوصاف حمیده)، آپ کی سخاوت اظہر من الشمس، آپ پردہ شب میں تہجد گزار، آپ کا ہر طریقہ مضبوط و درست، آپ کی ہر عادت بزرگانہ شان کی حامل، آپ کی ہر سبقت عظیم الشان، آپ کا نسب انتہائی بلند، آپ کے کمالات انتہائی اونچائی پر، آپ کا ہر مرتبہ بلندتر، آپ کے فضائل بہت ہی زیاده، آپ کے خصائل سب پسندیده، آپ کی بخششیں نہایت قیمتی، آپ صاحبِ علم، راهِ حق پر گامزن، خدا کی طرف مائل، سخی عزم کے طاقتور، صاحبِ علم، امامِ امت، گواهِ حقانیت، ملت کے لئے دردمند، خدا سے لو لگائے ہوئے، ہر صاحبِ دل کے محبوب، خدا کے غضب سے ڈرنے والے، آپ رسول (ص) کے فرزند ہیں، قرآن کے لئے سند ہیں، امت کے لئے دست و بازو ہیں، طاعت خدا میں تعب اٹهانے والے، عہد وپیمان کی حفاظت کرنے والے، بدکاروں کے راستوں سے الگ تهلگ، مصیبت زده کو عطا کرنے والے، طولانی رکوع وسجده کرنے والے، دنیا کو اس طرح چھوڑ دینے والے جیسے دنیا سے رخصت ہونے والے دنیا سے سیر ہوتا ہے، دنیا کو آپ نے ہمیشہ نفرت کی نگاه سے دیکها، آپ کی آرزوئیں دنیا سے ہٹی ہوئی تھیں، دنیا کی آرائش سے آپ کوسوں دور تھے، رونق دنیا سے آپ کی نگاہیں پهری ہوئی تهیں، اور دنیا جانتی ہے کہ آپ کا میلان خاطر بس آخرت کی طرف تها، یہاں تک کہ جب ظلم وجور اپنے ہاتھ بہت بڑھانے لگا، اور ظلم کے چہرہ پر جو ہلکا سا پرده تها وه بهی نہ رہا، گمراہی نے اپنے چیلوں کو ہر طرف سے بلا لیا، اس وقت آپ اپنے [جد امجد] کے حرم میں مقیم تھے، ظالموں سے دور تھے، گوشہ نشین تھے اور محرابِ عبادت میں محوِ عبادت تھے، دنیا کی لذتوں اور خواہشوں سے کناره کش تهے، اور اپنی طاقت کے مطابق اور امکان کی حد تک اپنے دل وزبان سے حرام سے بچنے کی ہدایت بهی کرتے رہے تهے، (آپ سے بیعت یزید کا مطالبہ ہوا) اور آپ کے حقیقت شناس علم نے طے کرلیا کہ بیعت سے انکار ہو اور بیعت نہ کرنے کی وجہ سے جو لوگ قتال کریں ان فاجروں سے جہاد کریں ۔ فوراً آپ اپنی اولاد اہلِ خاندان اپنی فرمانبردار جماعت کو لے کر چلے، آپ نے حق اور روشن دلائل کو واضح کر دیا، اور خلق خدا کو حکمت اور پسندیده موعظہ کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دی، اور حدود شریعت کے قائم کرنے کا، نیز معبود کی فرمانبرداری کا، محرمات سے بچنے اور سرکشی سے باز رہنے کا حکم دیا، لیکن ستمگاروں نے ظلم وعداوت سے آپ کا مقابلہ کیا، آپ نے پہلے تو ان کو غضب خدا سے ڈرایا اور حجت ہدایت کی مضبوطی کی، [پهر ان سے جہاد کیا]، آخرکار جب انہوں نے آپ کے بارے میں ہر عہد کو توڑدیا، ہر حکم خدا کو پسِ پشت ڈال دیا اور آپ کی بیعت سے بهی پهر گئے، اور اپنی شقاوت سے انہوں نے آپ کے خدا اور آپ کے جد امجد کو غضبناک کیا، اور آپ سے لڑنے کی پہل اپنی طرف سے کی، تو پهر آپ بهی ضرب نیزه وشمشیر کے لئے میدان میں آگئے، اور بدکاروں کے لشکروں کو پیس ڈالا، آپ جنگ کے گہرے غبار میں دھنسے ہوئے ذوالفقار سے حیدر کرار کی طرح قتال کر رہے تھے ۔ اعداء نے جب آپ کے دل کو مضبوط اور بالکل بے خوف و ہراس دیکها تو آپ کے لئے اپنے مکر کے جال بچهانے لگے، اور اپنی مخصوص سفیانی چالاکیوں اور شرارت کے ساتھ آپ کے ساتھ قتال کرنے لگے، ملعون عمر بن سعد نے اپنے لشکروں کو حکم دے دیا کہ پانی حسین (ع) تک نہ پہنچ سکے۔ سب لوگ تیزی کے ساتھ آپ سے قتال کرنے لگے اور پے در پے ملے جلے حملے ہونے لگے، آپ کو تیروں سے چهلنی کر دیا، سب نے ظلم و ستم کے ہاتھ آپ کی طرف بڑهادیئے، نہ انہوں نے آپ کے بارے میں اپنی کسی ذمہ داری کو دیکها نہ یہ کہ آپ کو اور آپ کے ساتهیوں کو قتل کرنے میں اور آپ کے سامان کو لوٹنے میں، وه کتنے زبردست گناه کے مرتکب ہوں گے! آپ غبار جنگ میں دھنسے ہوئے تھے اور ہر ایک اذیت اٹھا رہے تھے، آپ کا صبر دیکھ کر تو ملائکہ افلاک بهی تعجب کررہے تهے، ظالموں نے ہر طرف سے آپ کو گهیرلیا اور زخم پر زخم پہنچا کر آپ کو مضمحل کردیا، دم لینے کی مہلت نہ دی، آپ کا کوئی مددگار نہ رہا تها، بیکسی کے عالم میں انتہائی صبر وضبط کے ساتھ آپ اپنی مستورات اور بچوں کی طرف سے ہجوم اشقیاء کو ہٹا رہے تهے، یہان تک کہ انہوں نے آپ کو گهوڑے سے گرادیا، آپ زخموں سے چور ہوکر زمین پر گرے، لشکر کے گهوڑے اپنے سموں سے آپ کو کچل ربے تھے، اور سرکش ستمگر اپنی تلواریں لئے آپ پر چڑهے چلے آتے تهے، موت کا پسینہ آپ کی پیشانی پر آیا ہوا تها، اور آپ کے دست وپا ادهر ادهر سمٹتے اور پهیلتے تهے ۔ آپ چشم نیم وا سے اپنے کنبہ اور اپنے بچوں کو دیکھ رہے تهے، حالانکہ اس وقت آپ کی خود کی حالت تو ایسی تهی کہ آپ کو اپنے کنبہ کا اور بچوں کا دهیان نہ آسکتا تها، اس وقت آپ کا گهوڑا ہنہناتا اور روتا ہوا آپ کے خیام کی طرف چلا، جب اہلِ حرم نے آپ کے رہوار کو بے سوار دیکها اور زین اسپ کو نیچے ڈهلکا ہوا دیکها تو بے قرار ہوکر خیموں سے نکل پڑیں اور بال بکهرائے ہوئے منہ پر طمانچے مارتے ہوئے جبکہ پرده کا دهیان نہ تها نوحہ وبکا کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کو وارثوں کو پکارتے ہوئے جبکہ اپنی اس مخصوص عزت و شوکت کے بعد حقارت کی نظر سے دیکهے جا رہے تهے، سب کے سب [آپ] کی قتل گاہ کی طرف تیزی سے جا رہے تھے۔ آه شمر اس وقت آپ کے سینہ بیٹها ہوا تها، اور اپنا خنجر آپ کی گردن پر پهیررہا تها، ریشِ مبارک ظالم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے اپنی ہندی تلوار سے آپ کو ذبح کر رہا تها، آپ کے دست وپا بے حرکت ہوگئے (آپ کے ہوش و حواس ساکن ہوگئے) اور سانس رک گیا،نیزه پر سر اقدس کو اٹهایا گیا، اور اہلِ حرم کو غلاموں کی طرح قید کرلیا گیا، اور آہنی زنجیروں میں جکڑ کر اونٹوں پر بٹهالیا گیا، دن کے دوپہر کی گرمیاں ان کے چہروں کو جهلسا رہی تهی، اور وه غریب بیابانوں اور جنگلوں میں پهرائے جا رہے تهے، ہاتھ ان کے گردنوں سے بندهے ہوئے تهے اور بازاروں میں ان کو پهرایا جا رہا تها ۔ وائے ہو ان نافرمانوں فاسقوں پر جنہوں نے آپ کو قتل کرکے اسلام کو تباه کردیا، نمازوں کو روزوں کو معطل کردیا، شریعت کے چلن کو اور احکام کو توڑدیا، ایمان کی عمارت کو ڈهادیا اور قرآنی آیات میں تحریف کی، اور بغاوت وسرکشی میں دهنستے چلے گئے ۔ آپ کے قتل سے رسول الله (ص) مظلوم قرار پاگئے، مظلوم بهی ایسے کہ اپنے بچہ کے خون کا بدلہ نہ لے سکے، آپ کے قتل سے کتابِ خدا پر لاوارثی چهاگئی ۔ آپ کے ستائے جانے سے اصل میں حق ستایا گیا ۔ آپ کے نہ ہونے سے اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ ان آوازوں میں کوئی روح نہ رہی، حرام و حلال کا امتیاز، قرآن اور قرآن کے معانی کا تعین سب ضائع ہوگیا، آپ کے بعد شریعت میں کهلی ہوئی تبدیلیاں، فاسد عقیدے سے حدود شریعت کا تعطل، نفسانی خواہشوں کا زور، گمراہیاں فتنے اور غلط چیزوں کا ظہور ہوا ۔ غرض کہ آپ کی سنانی سنانے والا آپ کے جد امجد کی قبر کے پاس کهڑا ہوا اور آپ کی سنانی برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ رسول الله (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنائی کہ: "یا رسول الله! آپ کا فرزند آپ کا بچہ قتل کردیا گیا، اور آپ کے گهروالوں اور جانثاروں کو ماردیا گیا، آپ کے بعد آپ کی ذرّیت کو قید کیا گیا، اور آپ کی ذریت و اہل بیت کو وه دکھ دیئے گئے جن دکهوں سے ان کو بچانا امت پر فرض تها"۔ روح اسلام کو انتہائی قلق ہوا اور آنحضرت کا قلب نازک گریاں ہوا، ملائکہ اور انبیاء نے ان کو آپ کا پرسہ دیا، آپ کے قتل ہونے سے آپ کی ماں فاطمہ زہرا (س) بے تاب ہوگئیں، ملائکہ مقربین کے ایک کے بعد ایک لشکر اترنے لگے جو آپ کے باپ امیرالمومنین (ع) کو پرسہ دے رہے تهے، اور اعلی علیین میں آپ پر نوحہ وماتم کررہے تهے، آپ کے غم میں حورانِ جنت اپنا منہ پیٹ رہی تهیں، آسمان اور آسمان کے باشندے آپ پر روئے، اور جنت کے خزینہ دار روئے، پہاڑ قطار در قطار روئے، دریا اور دریا کی مچهلیاں، [مکہ اور مکہ کی عمارتیں]، جنت اور غلمان، کعبہ اور مقامِ ابراہیم، مشعر حرام اور حل و حرم سب ہی آپ کے غم میں گریاں ہوئے ۔ خداوند اس بلند مرتبہ مقام کی حرمت کا واسطہ محمد و آل محمد پر درود وسلام بهیج، اور مجھ کو ان کے گروه میں محشور فرما، اور ان کی سفارش سے مجھے داخل جنت فرما ۔ اے کم سے کم وقت میں ہر ایک کا حساب کرنے والے، اے ہر بزرگ سے کہیں زیاده بزرگ تر، اے عالم حاکموں سے زیاده زور حکومت رکهنے والے، واسطہ حضرت محمد مصطفی (ص) کا جو تیرے آخری پیغمبر اور تمام عالم کی طرف تیرے رسول ہیں، اور ان کے بهائی کا واسطہ جو کشاده پیشانی اور معدنِ علم وحکمت اور ہر علم میں راسخ ہیں یعنی امیر المومنین علی مرتضی (ع)، اور فاطمہ زہرا (س) کا واسطہ جو زنانِ عالم کی سردار ہیں، حسن مجتبی (ع) کا واسطہ جو پاک وپاکیزه اور پرہیزگاروں کی پناه گاه ہیں، اور حضرت ابوعبدالله الحسین (ع) کا واسطہ جو تمام شہدا میں زیاده بزرگ مرتبہ ہیں، اور ان کی قتل ہونے والی [اولاد] کا واسطہ، اور ان کی مظلوم ذریت کا واسطہ، اور علی بن حسین زین العابدین (ع) کا واسطہ، اور محمد بن علی (ع) کا واسطہ جو عبادت گذاروں کے قبلہ ہیں، اور جعغر بن محمد (ع) کا واسطہ جو مجسمۂ صداقت ہیں، اور موسی بن جعفر (ع) کا واسطہ جو دلائل حق کو ظاہر کرنے والے ہیں، اور علی بن موسی (ع) کا واسطہ جو دین کے مددگار ہیں، اور محمد بن علی (ع) کا واسطہ جو اہل حق کے پیشوا ہیں، اور علی بن محمد (ع) کا واسطہ جو زاہدوں سے کہیں زیاده زاہد ہیں، اور حسن بن علی (ع) کا واسطہ جو ائمہ اطہار کے وارث ہیں، اور اس فرد کا واسطہ جو تمام خلق پر حجت ہیں، محمد و آل محمد پر درود بهیج جو صادقین میں بہترین نیکیوں کے حامل جن کا لقب آل طہ و آل یسین ہے، اور مجھے قیامت میں امن پانے والوں میں سے، صاحبان اطمینان میں سے، کامیاب ہونے والوں میں سے، خوش وخرم اور بشارت جنت پانے والوں میں قرار دے ۔ خداوندا مجھے اپنے فرمانبرداروں میں سے قرار دے (میرا نام مسلمانوں میں لکھ لے) اور صالحین سے وابستہ رکھ، میرے بعد نیکی اور بهلائی سے میرا ذکر ہو، جو بغاوت وسرکشی کرنے والے ہیں ان کے مقابلہ میں مجھے فتح دے، مجھے حاسدوں کے شر سے بچا، اور بری تدبیر کرنے والوں کی تدبیر کا رخ میری طرف سے پهیردے، ظالموں کے ہاتھوں کو مجھ پر ظلم کرنے سے روک دے، اور مجھے میرے با برکت پیشواؤں کو (محمد و آل محمد) اعلی علیین میں ایک جگہ مجتمع کردے، اے سب سے زیاده رحم کرنے والے مجھے تیری رحمت سے آخرت میں انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کی رفاقت نصیب ہو کیونکہ ان حضرات کو تو نے اپنی نعمتوں سے مالامال کیا ہے ۔ قسم دیتا ہوں خداوندا میں تجھ کو تیرے نبی معصوم (ص) کی، اور تیرے حتمی احکام کی، اور گناہوں سے بچنے کے لئے تیرے مقرره ارشادات کی، اور اس قبر مطہر کی جس کی زیارت کے لئے ہر طرف سے جن وانس وملک پہنچتے ہیں جس کے پہلو میں امام معصوم شہید ظلم وستم آرام فرما رہے ہیں، کہ میرے رنج وغم کو دور کردے، اور میرے مقدر کی برائی کو ہٹادے، اور مجھے جہنم کی آتشِ سوزاں سے پناہ دے ۔ اے اللہ! میرے چاروں طرف اپنی نعمتوں کا انبار لگادے اور مجھے اتنا دے کہ میں خوش و خرم رہوں (مجھے اپنی تقسیم کی ہوئی روزی پر راضی رکھ)، مجھے اپنے جود و کرم میں چهپا، اور اپنی سزا اور عتاب سے دور رکھ ۔ خداوندا مجھے ہر لغزش سے بچا، میرے قول و عمل کو درست کر، مجھے عمر دراز دے، اور امراض و اسقام سے بچا، اور مجھے میرے پیشواؤں کے وسیلہ سے اور اپنے فضل سے میری بہترین تمناؤں تک پہنچا ۔ خداوندا رحمت خاص نازل فرما محمد (ص) و آل محمد (ع) پر، اور میری توبہ کو قبول فرما، اور مجھے روتا دیکھ کر رحم فرما، میرے گناه بخش دے، میرے رنج و ملال کو دور کر، میری خطا کو بخش دے، میری اولاد کو نیک اور صالح قرار دے ۔ خداوند اس عظیم المرتبہ شہادت گاه اور اس بزرگ مرتبہ مقام پر (میری حاضری کا یہ نتیجہ) کہ میرے گناہ تو بخش چکا ہو، میرے ہر عیب کو تو چهپا چکا ہو، میرے ہر غم کو تو دور کرچکا ہو، میرے رزق میں تو کشائش کرچکا ہو، میرے گهر کے آباد رہنے کا تو حکم نافذ کرچکا ہو، میرے کاموں کے ہر بگاڑ کو تو درست کرچکا ہو، میری ہر آرزوئے دل کو تو پورا کرچکا ہو، میری ہر دعا کو تو قبول کرچکا ہو، میری ہر تنگی کو تو زائل کرچکا ہو، میرے ہر انتشار کو تو اطمینان سے بدل چکا ہو، میرے ہر کام کو تو تکمیل تک پہنچا چکا ہو، میرے ہر مال کو تو زیادہ سے زیادہ کرچکا ہو، اور مجھے ہر خلقِ حسن تو ادا کرچکا ہو، اور میرے ہر صرف کے بعد اس کا بدل دے کر اس کمی کو پورا کرچکا ہو، اور میرے ہر حاسد کو تو تباه کر چکا ہو، اور میرے ہر دشمن کو تو ہلاک کرچکا ہو، اور مجھے ہر شر سے تو بچا چکا ہو، اور مجھے ہر بیماری سے تو شفا عطا کرچکا ہو، اور میرے ہر ایک اپنے کو جو دور ہو تو اس کو قریب کرچکا ہو، اور میری ہر پریشانی کو تو اطمینان سے بدل چکا ہو، اور میرا ہر سوال تو مجھ کو عطا کرچکا ہو ۔ خداوندا میں تجھ سے اس دنیا کی بہتری اور اس جہانِ باقی کے ثواب کا سوال کرتا ہوں ۔ خداوندا مجھے وجہ حلال سے اتنا دے کہ میں حرام سے بے نیاز ہوجاؤں، اور اپنا فضل اس درجہ میرے شاملِ حال رکھ کہ مجھے کسی کی ضرورت ہی نہ ہو ۔ بار الہا میں تجھ سے اس علم کا سوال کرتا ہوں جو نفع بخش ہو، اور اس دل کا جس میں تیرا خوف ہو، اور اس یقین کا جو ہر شک کو دور کردے، [پاکیزه اور مخلصانہ عمل، مثالی صبر]، اور اس اجر کا جو فراوان ہو ۔ خداوندا مجھے توفیق دے کہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں، اور اپنا احسان وکرم مجھ پر زیاده سے زیاده فرما، اور ایسا کر کہ سب لوگ میری بات کو مانیں، اور میرا ہر عمل تیری بارگاه میں قبولیت کی بلندی حاصل کرے، اور نیکیوں میں لوگ میرے نقشِ قدم پر چلیں (یعنی نیکوں کے لئے میں ایک نمونہ بن جاؤں)، خداوندا میرے دشمن کو بر باد کردے ۔ بار الہا رحمت خاص نازل فرما محمد (ص) و آل محمد (ع) پر جو تیری تمام مخلوق میں بہتر سے بہتر ہیں، سلسلۂ رحمت تیرا ان حضرات پر شب وروز صبح وشام جاری رہے، اور شریر لوگوں کے مقابلہ میں تو میری حمایت کر، اور مجھے گناہوں سے اور گناہوں کے بار سے پاک کردے، اور مجھ کو جہنم سے پناه دے، اور راحت وآرام کے مقام (جنت) میں آباد کردے، اور میرے تمام دینی بهائی بہنوں مومنین ومومنات کو اے سب سے زیاده رحم فرمانے والے اپنے رحم وکرم سے بخش دے۔

زیارت ناحیہ مقدسہ، اہلبیت(ع) پورٹل

زیارت کی سند

ترمیم

اس زیارت کا قدیم ترین ماخذ، ابن المشہدی کی کتاب المزار الکبیر (متوفٰی سنہ 595ھ ق) ہے۔ انھوں نے سند حذف کرکے اس زیارت کو نقل کیا ہے[7] اور اپنی کتاب میں واضح کرتے ہیں کہ یہ زیارت سند متصل کے ذریعے ان تک پہنچی ہے لیکن کتاب کے اختصار کے پیش نظر ـ اور اس اطمینان کی رو سے جو انھیں زیارات کے معصوم سے صادر ہونے کے سلسلے میں حاصل ہے ـ انھوں نے اسناد کو حذف کر لیا ہے۔[8] زیادہ تر علما نے ابن المشہدی کی توثیق و تائید کی ہے اور ان کی کتاب المزار الکبیر کے اعتبار کو قبول کر لیا ہے؛ جیسے: محدث نوری (مستدرک الوسائل میں)، علامہ مجلسی (بحار الانوار میں)، شیخ عباس قمی،[9] شیخ حر عاملی،[10] شہید اول[11]، سید محسن امین[12] اور آقا بزرگ طہرانی۔[13] لیکن آیت الله خوئی، ابن المشہدی کی کتاب المزار الکبیر کی وثاقت کو نہیں مانتے اور ابن المشہدی کو مجہول شخص، قرار دیتے ہیں۔

اس زیارت کے لیے قدیم تر مآخذ بھی بیان ہوئے۔ علامہ مجلسی بحار الانوار میں اس زیارت کو نقل کرتے وقت کہتے ہیں: شیخ مفید (متوفٰی سنہ 413ھ ق) نے اس کو اپنی کتاب المزار میں روز عاشورا کے اعمال کے ضمن میں ثبت کیا ہے۔[14] گوکہ مذکورہ کتاب کے دستیاب نسخوں میں یہ متن موجود نہیں ہے۔[15] نیز کہا گیا ہے کہ سید مرتضی (متوفٰی سنہ 436ھ ق)، ـ جو شیخ مفید کے شاگر تھے ـ نے اپنی کتاب مصباح الزائر میں اس زیارت ـ کو ناحیۂ مقدسہ سے منسوب کیے بغیر ـ اس کا تذکرہ کیا ہے تاہم یہ کتاب اس زمانے میں نایاب ہے اور اس کی بعض نشانیاں سید ابن طاؤس کی مصباح الزائر میں پائی جاتی ہیں۔[16]علامہ مجلسی نے بھی اس زیارت کو نقل کرتے ہوئے سید مرتضی کا حوالہ دیا ہے۔[17]

محمد ہادی یوسفی غروی کی رائے کے مطابق تین قسموں کی متداخل زیارات ناحیہ منقول ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ متناسب نہیں ہیں اور زیارت ناحیہ کے کمزور پہلؤوں میں سے ایک یہ ہے کہ تایخ کے مسلمات اور مقتل کی مسلمہ روایات کے مخالف ہے۔[18]

زیارت ناحیہ مقدسہ بارے آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان

ترمیم

١۔ یہ زیارت محدثین اور فقہا شیعه کے بڑی ہستیوں کا مورد توجہ رہا ہے بلکہ بعض مجتہدوں نے اس کی کچھ جملات سے فقہی مسائل میں استناد کیا ہے اور اسی کے مطابق فتوا صادر فرمایا ہے ۔

٢۔ ابن مشہدی کہ جن کا شمار بڑے علما میں هوتا ہے ،انھوں نے اس زیارت کو المزار الکبیر میں نقل کیا ہے اور اس کتاب کے مقدمہ میں یوں رقمطراز ہے :«فانّي قد جمعت في کتابي هذا من فنون الزيارات .... مما اتصلت به من ثقاة الرواة الي السادات»؛ ان کی یہ عبارت روایات کے سند میں موجود راویوں کی توثیق پر دلالت کرتی ہے اور ان کے نام کو ذکر نہ کرنا اور مرسل چھوڑنا ان راویوں کا موثق ہونا بالکل واضح ہونے کی وجہ سے ہے اور وہ بھی نہ صرف ان کے نزدیک بلکہ تمام محدثین کے نزدیک موثق ہیں اور یہ بہت ہی مشکل ہے کہ ان راویوں کے موثقہ ہونے سے مراد صرف خود ان کے نزدیک موثقہ ہونا ہو ، لہذا اس بارے میں بعض نے جو یہ بتایا ہے کہ ابن مشہدی کا مقصد صرف بلا واسطہ مشایخ کی توثیق ہے ، صحیح نہیں ہے ، یہ مطلب ان کی اس عبارت اور اذہان کے برخلاف ہے ، اگر ان کا مقصد یہ ہوتا تو اس کو واضح طور پر بیان فرماتے اور مشایخ بلاواسطہ کو باواسطہ مشایخ سے جدا کرتے ،لہذا ان کی یہ عبارت اس بارے میں ظہور رکھتی ہے کہ ان روایات کے تمام راوی سب کے نزدیک یا اس فن کے اکثر افراد کے ہاں موثقہ ہیں،اور ابن مشہدی کا متاخرین میں سے ہو کر ان کی توثیق کا حجیت نہ ہونے کا اشکال بھی پیش نہیں آتا ،اگرچہ ہم نے مناسب موقع پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ متاخرین کی توثیق جب قدماء کے اعتراض سے تعارض نہ ہو تو معتبر ہے ۔

٣۔شیخ مفید نے مزار قدیم میں اس زیارت کے ابتدا میں فرمایا ہے : : «زيارة اخري في يوم عاشوراء برواية أخري». یہ عبارت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ یہ زیارت ان کے نزدیک امام معصوم علیہ السلام سے وارد ہوئی ہے ، اس کے علاوہ اس کتاب کے ابتدا میں فرمایا ہے :یہ منتخب مأثور دعاؤں اور مروی اقوال کے لیے تالیف ہوئی ہے ، ان کی یہ عبارت بھی واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ اس زیارت کا امام معصوم علیہ السلام سے صادر ہونا ان کے لیے ثابت ہے ۔

٤۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دعاؤں خصوصاً زیارت اور خاص کر اس زیارت کے جعل کرنے یا جھوٹی نسبت دینے کا انگیزہ منتفی ہے اور اگر ابن مشہدی یہ ادعا کرے کہ ان زیارتوں اور ان جیسی دوسری دعاؤں کہ جو فروع اور احکام اور اعتقادات سے مربوط نہیں ہے ، کے راوی سب کے سب موثق ہیں تو اسے بھی غیر ممکن نہیں سمجھناچاہئے ۔

٥۔ زیارت ناحیہ مقدسہ کے کچھ خاص خصوصیات ہیں :

الف: اس زیارت میں امام حسین علیہ السلام کے مصائب دقیق اور تفصیلی طور پر بیان ہوئی ہیں کہ ایسا کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔

ب: اس زیارت میں عالی مضامین و معارف اور دقیق اطلاعات بیان ہوئی ہیں اور اس کے ساتھ سوز وگداز بھی ہے ۔ معارف اور مطالب سے پر مرثیہ اور معرفت اورمسؤلیت آفرین ہے ۔ اس لحاظ سے ، زیارت ناحیہ مقدسہ ایک مأثور مقتل ہے اور ایک عام آدمی کی زبان سے صادر ہونا ناممکن ہے ،ایسے مضامین لازمی طور پر ایک ایسے انسان کے زبان مبارک سے صادر ہونا چاہیے جو عاشورا کی خصوصیات اور کربلا کے واقعہ پر کامل طور پر عبور رکھتا ہے ۔

زیارت ناحیہ کی شرحیں

ترمیم

اس زیارت نامے پر لکھی گئی بعض شرحوں کے عناوین حسب ذیل ہیں:

  • الذخیرة الباقیہ، بقلم: محمد جعفر شاملی شیرازی، (فارسی)
  • الشمس الضاحی، بقلم: علما کی ایک جماعت، (فارسی)
  • تحفۂ قائمیہ'، بقلم: حاج شیخ محمد باقر فقیہ ایمانی (فارسی)
  • کشف داحیہ، بقلم: بعض ہندی علما، (اردو)
  • ہمرہ نور، شرح زیارت ناحیۂ مقدسہ، بقلم: سید ہدایت اللہ طالقانی
  • سلام موعود، (زیارت ناحیۂ مقدسہ کا تحلیلی اور توصیفی بیان)، بقلم: ڈاکٹر محمد رضا سنگری۔[19]

غیر مشہور زیارت ناحیہ (زیارت الشہداء)

ترمیم

یہ زیارت نامہ زیارات ناحیہ میں سے ایک ہے جس کو سید ابن طاؤس نے اپنی سند سے اقبال الاعمال اور روز عاشورا کے اعمال کے ضمن، میں نقل کیا ہے۔ یہ زیارت 63 شہدائے کربلا کے اسمائے گرامی پر مشتمل ہے اور اس کا آغاز جملہ "اَلسّلامُ عَلَی اَوّلِ قَتیلٍ مِن نَسلِ خَیرِ سَلیلٍ " سے ہوتا ہے۔[20] سید ابن طاؤس سے قبل یہ زیارت المزار شیخ مفید[21] اور ابن المشہدی کی المزار الکبیر[22] میں نقل ہوئی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. محمدی ری شہری، دانشنامہ امام حسین(ع)، ج12، ص271۔
  2. تصحیف کے معنی لغت میں خطا کے ہیں، تصحیف تحریف ہی کا ایک حصہ ہے، جس میں الفاظ میں لفظی اور تحریری شباہت کی وجہ سے لفظ کی تبدیلی معرض وجود میں آتی ہے؛ فَراہیدی، العین، ج3، ص120۔ ذیل لفظ "صحف"۔
  3. بحار الانوار، ج45،ص64۔
  4. ثُمَّ اقتِضاكَ العِلْم لِلاِنكارِ، وَ لَزمَكَ اَن تُجاهِدَ الفُجّارَ، فَسِرْتَ فِی اَولادِكَ وَاَهالیكَ وَشیعتِكَ وَمَوالیكَ...۔
  5. وَرُفِعَ عَلَی القَناةِ رَأسُكَ وَسُبِی اَهلُكَ کالعَبیدِ، وَصُفِّدوا فِی الحَدیدِ، فَوقَ اَقتابِ المَطِیاتِ، تَلفَحُ وُجوهُهُم حَرَّ الهاجِراتِ، یساقونَ فِی البَراری وَالفَلَواتِ، اَیدیهِم مَغلولَةٌ اِلی الاَعناقِ، یطافُ بِهِم فِی الاَسواقِ۔
  6. وَفَقَدَ بِفَقدِكَ التَّكبيرُ وَالتَّهليلُ والتَّحريمُ وَالتَّحليلُ والتَّنزيلُ وَالتّأويلُ وَظَهَرَ بَعدَكَ التَّغييرُ وَالتّبديلُ وَالاِلحادَ والتّعطيلُ وَالاَهواءُ وَالاَضاليلُ وَالفِتَنُ وَالاَباطيلُ۔
  7. زيارة أخری فی یوم عاشورا لأبی عبدالله الحسین ممّا خرج من الناحیة إلی أحد الأبواب. قال: تقف علیه و تقول: السلام علی آدم صفوة الله... ابن المشهدی، المزار الکبیر، 496-519۔
  8. فإنّي قد جمعت في كتابي هذا من فنون الزيارات.... ممّا اتصلت به من ثقات الرواة إلی السادات. المزار الکبیر، 27۔
  9. قمی، شیخ عباس، الکنی والالقاب، ج1، ص409، مکتبة الصدر۔
  10. المزار، مقدمه، ص6۔
  11. المزار، مقدمه، ص6۔
  12. امین، سید محسن، اعیان الشیعه، ج9،ص202، دار التعارف، بیروت، 1403ه‍ ق۔
  13. تهرانی، آقا بزرگ، الذریعه، ج 20،ص324، چاپ دوم، دار الاضواء، بیروت، بی‌تا۔
  14. قال الشیخ المفید قدس الله روحه فى كتاب المزار ماهذا الفظه: زيارة أخری في يوم عاشورا برواية اخری، إذا أردت زيارته بها في هذا اليوم فقف عليه(ع) و قل: السلام علی صفوة اللّه... بحارالانوار، ج 98، ص317۔
  15. محمدی ری شہری، دانشنامه امام حسین(ع)، ج12، ص272۔
  16. زيارة ثانية بألفاظ شافية يُزارُ بها الحسين صلوات اللّه عليه زار بها المرتضی عَلَمُ الهُدی رضوان الله عليه قال: فإذا أردت الخروج فقل: أللّهمّ إليك توجهت.... ثم تدخل القبة الشريفة وتقف علی القبر الشريف و قل: السلام علی آدم صفوة الله... مصباح الزائر، ص221۔
  17. بحارالانوار، ج98، ص328۔
  18. بررسی تحلیلی سیر مقتل نگاری عاشورا[مردہ ربط]۔
  19. ویب گاہ پژوہہ[مردہ ربط]۔
  20. مجلسی، بحارالانوار، ج98، ص269-274۔
  21. بحارالانوار، ج98، ص274۔
  22. المزار الکبیر، ص485۔

مآخذ

ترمیم
  • ابن المشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم، 1378ھ ش
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ،دار التعارف للمطبوعات، بیروت، 1403ہ‍ ق
  • انصاری قمی، ناصرالدین، مجلہ موعود، اسفند 82؛ شمارہ 42۔
  • آيتى، دكتر محمد ابراہيم، بررسى تاريخ عاشورا، ناشر: كتابخانہ صدوق، چاپ ششم، بہار1366ھ ش
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، چاپ دوم، دار الاضواء، بیروت، بی‌تا.
  • طبسی، نجم الدین، تا ظہور، بنیاد فرہنگی مہدی موعود، تہران، 1388ھ ش
  • طبسی، نجم الدین، مجلہ انتظار، بہار 86، شمارہ 20.
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، مکتبۃ الصدر، تہران، بی‌تا.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر الاخبار الائمۃ الاطہار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403ھ ق
  • محمدی ری شہری، محمد، دانشنامہ امام حسین (ع) بر پایہ قرآن حدیث و تاریخ،انتشارات دار الحدیث قم، 1388ھ ش

بیرونی روابط

ترمیم