سلیم ملک
سلیم ملک پرویز (پیدائش:16 اپریل 1963ء) پاکستان کرکٹ ٹیم کے دائیں ہاتھ کے بلے باز تھے[1]انھوں نے 103 ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔جبکہ 283 ایک روزہ بین الاقوامی میچز بھی کھیلے سلیم ملک کو سلم کے نک نیم سے بھی پکارا جاتا ہے۔ وہ دائیں ہاتھ کے سٹائلش بلے باز اور سیدھے ہاتھ کے سلو میڈیم آف بریک بولر تھے۔ ان کے ایک برادر نسبتی اعجاز احمد نے بھی پاکستان کی طرف سے کرکٹ مقابلوں میں حصہ لیا۔ سلیم ملک نے پاکستان کے علاوہ حبیب بینک لمیٹڈ، لاہور، سرگودھا اور اسسیکس کائونٹی کی طرف سے بھی کرکٹ مقابلوں میں شرکت کی۔
سلیم ملک 2020ء میں | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | سلیم ملک پرویز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | لاہور, پنجاب, پاکستان | 16 اپریل 1963|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا سلو گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 90) | 5 مارچ 1982 بمقابلہ سری لنکا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 20 فروری 1999 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 38) | 12 جنوری 1982 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 8 جون 1999 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ایک روزہ شرٹ نمبر. | 3 | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1981–1999 | لاہور کرکٹ ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1982–2000 | حبیب بینک لمیٹڈ کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1991–1993 | ایسیکس | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1991–1992 | سرگودھا کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: Cricinfo، 8 فروری 2010 |
بین الاقوامی کیریئر
ترمیمملک نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ مارچ 1982 میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں کھیلا، اپنی پہلی اننگز میں 12 رنز بنانے کے بعد دوسری میں ناقابل شکست 100 رنز بنا کر ڈکلیئریشن قائم کی۔ 18 سال اور 323 دن کی عمر میں وہ اس وقت ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بنانے والے دوسرے کم عمر ترین کھلاڑی تھے۔ 1987 میں انگلینڈ کے دورے کے دوران، ملک ہیڈنگلے میں 99 رنز پر گر گئے اور اوول میں 102 رنز بنائے۔ وہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں کچھ سال ایسیکس کے لیے کھیلتے ہوئے انگریزی حالات سے واقف ہو جائے گا۔ 1991 میں اس کا سیزن اچھا رہا، اس نے 1972 رنز بنائے، جو ایسیکس کے لیے کسی غیر انگلش کھلاڑی کی طرف سے تیسرے نمبر پر تھے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اس نے انگلینڈ کے خلاف اپنے دوسرے حریفوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، 19 بار حاضر ہوئے اور 60.70 کی رفتار سے 1396 رنز بنائے۔ ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں ان کی نمایاں کارکردگی ایک اننگز تھی جو انھوں نے 1987 میں ہندوستان کے خلاف کھیلی تھی۔ 40 اوورز میں 238 رنز کا تعاقب کرتے ہوئے، سلیم جب کریز پر آئے تو پاکستان 5/161 پر سمٹ گیا۔ انھوں نے بقیہ 77 رنز میں سے 72 رنز بنائے، وہ صرف 36 گیندوں پر بنائے۔ وہ ناقابل شکست رہے اور پاکستان نے میچ میں 3 گیندیں باقی رہ کر 2 وکٹوں سے جیت لیا۔
میچ فکسنگ
ترمیمملک نے کرکٹ سے معطل ہونے سے قبل جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دوروں میں پاکستان کی کپتانی کی تھی۔ تاہم وہ بے قصور پایا گیا اور اسے اپنا کیریئر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ ملک نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ جنوری 1999 میں کھیلا لیکن مئی 2000 میں جسٹس قیوم کی انکوائری کے نتیجے میں ان پر تاحیات پابندی عائد ہونے کے باعث رسوائی کے ساتھ اپنے کرکٹ کیریئر کا خاتمہ ہوا۔لاہور کی ایک مقامی عدالت نے 23 اکتوبر 2008 کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے لگائی گئی تاحیات پابندی کو ہٹا دیا۔ سول جج ملک محمد الطاف نے ملک کے حق میں فیصلہ سنایا اور مبینہ میچ فکسنگ کے الزام میں لگائی گئی پابندی کو منسوخ کر دیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پابندی ہٹائے جانے کے چند دن بعد ہی 3 نومبر 2008 کو ملک کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے چیف کوچ کے طور پر کام کرنے کے لیے پی سی بی کی جانب سے پیشکش قبول کر لی تھی، تاہم، پی سی بی نے ایسی کوئی پیشکش کرنے سے انکار کر دیا۔ اکتوبر 2012 میں، سلیم ملک نے بیٹنگ کوچ کے عہدے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو اپنی درخواست جمع کرائی۔ اس مہینے کے شروع میں پی سی بی نے قومی ٹیم کے لیے بیٹنگ کوچ کی تلاش کے لیے ایک اشتہار دیا تھا۔ اب وہ لاہور میں نوجوان کرکٹرز کے لیے کرکٹ اکیڈمی قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور اپنے طویل مدتی ساتھی حمزہ یوسف کے ساتھ اپنا ذاتی کاروبار کر رہا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ کا سفر
ترمیمسلیم ملک نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں پہلی اننگ میں 12 رنز بنائے لیکن دوسری اننگ میں انھوں نے 100 رنز ناٹ آئوٹ کی اننگ کھیلی۔ اس طرح وہ ان کھلاڑی میں شمار ہو گئے جنھوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری سکور کی تھی۔ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے 396 رنز بنائے۔ اس کے جواب میں سری لنکا کا سکور 344 رہا۔ پاکستان نے دوسری اننگ میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 301 رنز بنائے۔ سلیم ملک نے 191 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے اپنی پہلی سنچری سکور کی۔ جاوید میانداد 92 اور اقبال قاسم 56 رنز کے ساتھ ٹیم کی مدد کے لیے موجود تھے۔ سری لنکا کی ٹیم چوتھی اننگ میں 354 رنز کے ہدف میں 149 پر ہی پویلین لوٹ گئی اور پاکستان 204 رنز سے یہ میچ جیت گیا۔فیصل آباد کے اگلے ٹیسٹ میں وہ 23 اور 4 رنز تک ہی پہنچ پائے 1983ء میں بھارت کے خلاف 6 اور 3 تک محدود رہے لیکن فیصل آباد میں روایتی حریف کے خلاف اس نے ایک اور سنچری بنا ڈالی پاکستان نے اس ٹیسٹ میں 10 وکٹوں سے کامیابی سمیٹی کیونکہ اسے چوتھی اننگ میں صرف 7 رنز کا ہدف ملا تھا سلیم ملک کے لیے یہ ٹیسٹ یادگار رہا صرف 3 ٹیسٹوں کے بعد 1983ء میں سلیم ملک نے فیصل آباد کے مقام پر بھارت کی مہمان ٹیم کے خلاف 107 رنز کی ایک اور اننگ کھیل ڈالی۔ یہ ٹیسٹ بھی پاکستان 10 وکٹوں سے جیت گیا۔ پاکستان نے اپنی اننگ میں 652 رنز سکور کیے تھے۔ پاکستان کے سبھی کھلاڑیوں میں ظہیر عباس 168، جاوید میانداد 126، عمران خان 117 اور سلیم ملک نے 168 بالوں پر 14 چوکوں کی مدد سے 107 رنز کی باری کھیل کر پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ 5 ٹیسٹوں میں 2 سنچریاں بنانے کے بعد وہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گئے۔ اسی سیزن میں بھارت کے دورے میں 3 ٹیسٹوں میں وہ بڑی اننگ نہ کھیل سکے۔ 1983-84ء کے سیزن میں پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا اور 3 ٹیسٹ میچوں میں اس نے 2 نصف سنچریاں 77 اور 54 سکور کیں۔ اسی سیزن میں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو سلیم ملک نے کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں 74 رنز کی باری کھیلنے کے بعد فیصل آباد میں ایک بار پھر سنچری تک رسائی کے مالک بنے۔ پاکستان نے پہلی اننگ 449 رنز 8 کھلاڑیوں پر ڈکلیئر کردی تھی۔ سلیم ملک 270 گیندوں پر 17 چوکوں کی مدد سے 116 رنز بنا کر ٹاپ سکورر تھے۔ وسیم اکرم 112، ظہیر عباس 68 اور عبد القادر نے 50 رنز بنا کر اننگ کو ایک مستحکم شکل دی تھی۔ انگلستان نے جواب میں 8 وکٹوں پر 546 رنز بنائے جس میں ڈیوڈ گاور 152 رنز کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ اسی سیزن میں بھارت کے خلاف سلیم ملک نے فیصل آباد کے ہی مقام پر 102 ناقابل شکست رنز بنائے جس سے یہ لگا کہ فیصل آباد کا میدان سلیم ملک کے لیے خوشی قسمتی کا باعث ہے۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 500 رنز بنائے تھے جس میں روی شاستری 139 اور سندیپ پاٹیل 127 رنز کے ساتھ نمایاں رنز میکر رہے۔ جواب میں پاکستان نے ایک بڑا مجموعہ ترتیب دیا جس میں قاسم عمر 210، مدثر نذر 199 اور سلیم ملک 102 کے ساتھ سکور کو 674 تک لے گئے جبکہ انھیں 6 وکٹیں گنوانا پڑی تھیں۔ اسی سیزن کے آخر میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو سلیم ملک نے کراچی کے ٹیسٹ میں بھی پہلی اننگ میں 50 رنز بنائے جبکہ دوسری باری میں 119 ناقابل شکست رنز بنا کر انھوں نے ایک اور سنچری اپنے کھاتے میں درج کرائی۔ پاکستان کے جوابی دورے میں سلیم ملک ولنگٹن میں 66 اور آکلینڈ میں 41 ناٹ آئوٹ رنز بنا پائے۔ سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں کراچی کے مقام پر 54 رنز سکور کیے تاہم اس کے بعد ان کی کارکردگی میں تسلسل نہ رہا۔ 1987ء میں بنگلور کے مقام پر بھارت کے خلاف انھوں نے یکساں دونوں اننگز میں 33,33 رنز سکور کیے۔ انگلینڈ کے خلاف لیڈز میں وہ 99 یعنی نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے لیکن ایک ٹیسٹ کے بعد انھوں نے اوول کے مقام پر سنچری بنا ہی لی جب انھوں نے 102 رنز کی باری کھیلی۔ اس کے بعد 1987-88ء کے سیزن میں انگلستان کے دورئہ پاکستان میں انھوں نے فیصل آباد میں 60، کراچی میں 55 رنز بنائے۔ اپریل 1988ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا۔ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سلیم ملک نے پورٹ آف سپین میں 66 اور 30، برج ٹائون میں 15 اور 9 پر سیریز کا اختتام کیا۔ آسٹریلیا کے دورہ پاکستان میں 45، 10، 26، 13 پر ہی محسوس ہوا کہ رنزوں کے لیے انھیں کتنی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ 1989ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ولنگٹن ٹیسٹ میں 38 اور آکلینڈ کے مقام پر 80 ناقابل شکست رنز بنائے۔ بھارت کے خلاف فیصل آباد میں 63، لاہور میں 55 اور سیالکوٹ میں 34 کی اننگز کھیلیں۔ 1990ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کا دورہ کیا تو انھوں نے ایڈیلیڈ کے مقام پر 65 ناقابل شکست رنز کی باری کھیلی۔ 1990ء میں نیوزی لینڈ کے دورہ پاکستان میں فیصل آباد ٹیسٹ میں 71 رنز کی ایک اور عمدہ اننگ کھیلی۔ انھوں نے کراچی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک اور سنچری کر ڈالی۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 261 رنز بنائے جس میں کپتان ڈیسمنڈ ہینز نے 117 سکور کیے تھے۔ پاکستان نے جواب میں 345 رنز کا مجموعہ سجایا جس میں سلیم ملک نے 208 گیندوں پر 102 رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ 8 وکٹوں سے جیت لیا تھا کیونکہ پاکستان کو چوتھی اننگ میں 98 رنز کا ہدف ملا جو اس نے 2 وکٹوں پر پورا کر لیا۔ فیصل آباد کے اگلے ٹیسٹ میں انھوں نے 74 اور 71 کی 2 اننگز کھیلیں۔ 1991ء میں سری لنکا کے خلاف سیالکوٹ ٹیسٹ میں انھوں نے 101 رنز بنائے۔ اگلے سال برمنگھم کے مقام پر انگلینڈ کے خلاف ان کی ایک بڑی اننگ 165 منظر عام پر آئی۔ ایک ڈرا ٹیسٹ میں انھوں نے اس اننگ کو کھیلنے کے لیے 297 گیندوں کا استعمال کرتے ہوئے 19 چوکے اور ایک چھکا لگایا۔ کپتان جاوید میانداد نے اسی میچ میں 153 ناٹ آئوٹ بنائے۔ انگلینڈ کی یہ سیریز سلیم ملک کے لیے بڑی خوشگوار رہی۔ لارڈز میں 55، مانچسٹر میں 34 اور 16 جبکہ لیڈز کے ٹیسٹ میں 82 اور 84 کی دونوں اننگز میں وہ ناٹ آئوٹ رہے۔ اوول کے آخری ٹیسٹ میں انھیں صرف 40 رنز کی مل سکے۔ اگلے سال 1993-94ء کی سیریز میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف 4 ٹیسٹ کھیلے جن میں ولنگٹن ٹیسٹ میں ان کی ایک نمایاں اننگ سامنے آئی۔ پاکستان کی ایک اننگ اور 12 رنز سے فتح پر ختم ہونے والے اس میچ میں نیوزی لینڈ کی پہلی اننگ 175 کے جواب میں پاکستان نے 5 وکٹوں پر548 رنز سکور کیے جس میں سعید انور 169 اور سلیم ملک جو اس میچ میں کپتانی کے فرائض انجام دے رہے تھے 200 گیندوں پر 20 چوکوں کی مدد سے 140 رنز بنائے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم دوسری اننگ میں 361 رنز پر ڈھیر ہوکر پاکستان کی فتح کو ممکن بنا گئی۔
1994-95ء کا ٹیسٹ سیزن اور اگے
ترمیمسری لنکا کے دورے میں انھوں نے 50 ناقابل شکست، 22 رنزوں کی باریاں کھیلیں۔ جبکہ اسی سیزن میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں انھوں نے ایک بار پھر اپنی عمدہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے راولپنڈی ٹیسٹ میں اپنی پہلی ڈبل سنچری سکور کی۔ یہ ٹیسٹ اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ایک موقع پر فالو آن کا شکار ہو گئی۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگ میں مائیکل سلاٹر 110، سٹیو وا 98، مائیکل بیون 70، مارک وا 68 اور آئن ہیلی کے 58 رنز کی بدولت 9 وکٹوں پر 521 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کردی تھی۔ جواب میں پاکستان کی ٹیم 260 رنز پر فالو آن کا شکار نظر آئی۔ عامر سہیل 80، وسیم اکرم 45 ناٹ آئوٹ اور سلیم ملک نے 33 رنز بنائے۔ فالو آن کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے نہایت ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کیا، خصوصاً کپتان سلیم ملک نے 328 گیندوں پر 34 چوکوں کی مدد سے 237 رنز بنائے۔ سعید انور 75، عامر سہیل 72، عامر ملک 65 رنز کے ساتھ یقینی شکست کو ٹالنے میں کامیاب رہے۔ آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 277 رنز کا ہدف ملا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث وہ ایک وکٹ کے نقصان پر صرف 14 رنز کی بنا سکے۔ لاہور کے اگلے ٹیسٹ میں سلیم ملک ایک بار پھر آسٹریلیا پر جھپٹے۔ انھوں نے پہلی اننگ میں 75 اور دوسری باری میں 143 رنز سکور کیے۔ یہ میچ بھی برابری پر ختم ہوا۔ 1995ء میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ اس سیریز میں انھیں جوہانسبرگ میں واحد ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا۔
ون ڈے کیریئر
ترمیمسلیم ملک کو ویسٹ انڈیز کے خلاف 1982ء کے مقام پر سڈنی کے ورلڈ سیریز کرکٹ کپ میں پہلے ون ڈے کے لیے مدعو کیا گیا۔سلیم ملک اپنے پہلے میچ میں بغیر کوئی رنز بنائے آئوٹ ہوئے۔ کراچی کے ون ڈے میں ان کی باری نہ آئی اور جے پور کے ون ڈے میں انھوں نے بھارت کے خلاف 27 رنز سے اپنے کھاتے کا اندراج شروع کیا تاہم 1984ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 41 رنز ان کی نمایاں اننگ تھی جس کے بعد انھیں ایک سال کے بعد سری لنکا کے خلاف گوجرانوالہ میں 72 ناقابل شکست رنز کی باری سامنے لانا پڑی جبکہ 2 سال کے بعد اس نے بھارت کے خلاف مسلسل 2 نصف سنچریاں 72 ناٹ آئوٹ اور 84 بنا کر ٹیم کی مدد کی۔ 1987ء میں بھارت کے خلاف شارجہ میں 61 ناقابل شکست اور 87ء میں کے عالمی کپ میں انگلستان کے خلاف راولپنڈی میں 65 رنز کی عمدہ باری کھیلی۔ کراچی کے انگلستان کے خلاف 88، فیصل آباد میں سری لنکا کے خلاف 100 اس کی عالمی کپ میں عمدہ کارکردگی کی عکاس تھی۔ اس نے اپنی اگلی سنچری بھارت کے خلاف شارجہ کا انتخاب کیا۔ 1988ء میں بننے والی 101 کی سنچری نے روایتی حریف کے خلاف اس کے غصہ کو نمایاں کیا۔ 1988ء میں ہی آسٹریلیا کے خلاف 44 اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوبارٹ میں 68 رنز بھی خوب تھے۔ اگلے سال اس کے دائو مزید چلے اور اس نے نیوزی لینڈ کے خلاف ڈونیڈن میں 83 اور آکلینڈ میں 56 ناٹ آئوٹ رنز سکور کیے۔ اسی سیزن میں اس کی سری لنکا اور انڈیا کے خلاف عمدہ بیٹنگ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جب انھوں نے سری لنکا کے خلاف 100 ناقابل شکست رنز بنائے اور بھارت کے خلاف شارجہ میں ہی 68 ناقابل شکست اور بھارت ہی کے خلاف شارجہ میں 102 رنز کی عمدہ باریاں سکور بورڈ پر سجائیں۔ 1989ء میں سہہ ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ میں انگلستان کے خلاف ناگپور میں 66 اور کولکتہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 71 رنز بھی خوبصورت رنگ لیے ہوئے تھے۔ 1990ء میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں 67 اور 1990ء میں ہی آسٹریلیا کے خلاف شارجہ میں 87 رنز پر مشتمل جارحانہ انداز ادا کیا۔ سیالکوٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 65 ناٹ آئوٹ، ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں 58 اور لاہور میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 91 ناٹ آئوٹ بھی ان کی کھیل پر گرفت کی عکاسی کر رہے تھے۔ 1991ء میں شارجہ کے مقام پر بھارت کے خلاف ان کے 87 رنز قابل دید تھے جبکہ سری لنکا کے خلاف راولپنڈی میں ان کی ایک اور سنچری نے انھیں ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کا بڑا کھلاڑی ثابت کیا۔ پرتھ میں سری لنکا کے خلاف 1992ء کے ورلڈ کپ میں 51 اور آسٹریلیا کے خلاف ہوبارٹ میں 64 رنز نے بھی اس کے وقار میں اضافہ کیا۔ 1993ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف شارجہ میں 84 رنز بنا کر اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تاہم سری لنکا کے خلاف 1994ء میں ٹیم کے ہمراہ اس نے 61، 93 ناٹ آئوٹ، 50 ناٹ آئوٹ اور 53 رنز کی نمایاں اننگز اپنے کھاتے میں درج کیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف کراچی میں 62 ناٹ آئوٹ اور راولپنڈی میں 56 رنز کے ساتھ اس نے سیزن کا اختتام نمایاں انداز میں کیا جبکہ سری لنکا کے خلاف ڈربن میں 65 ناٹ آئوٹ اور پورٹ الزبتھ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 58 رنز ان کی شاندار کارکردگی کی عکاس تھی۔ 1996ء میں وہ اپنے کھیل میں عروج پر تھا۔ اس نے نیوزی لینڈ کے خلاف 55، سری لنکا کے خلاف 68، جنوبی افریقہ کے ساتھ شارجہ میں 64 ناقابل شکست اور ٹورنٹو میں بھارت کے خلاف 70 ناقابل شکست رنز ٹیم کے حوالے کیے۔ کوئٹہ میں زمبابوے کے خلاف 72 ناٹ آئوٹ اور گوجرانوالہ میں نیوزی لینڈ کے خلاف 73 ناقابل شکست رنز، سری لنکا کے خلاف شارجہ میں 51 اور 58 کے علاوہ نیوزی لینڈ کے خلاف 47، سری لنکا کے خلاف گوالیار میں 49 کے ساتھ عالمی کپ مقابلوں میں اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ اس نے 1997ء میں بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والے عالمی مقابلوں میں 97 اور 62 جبکہ بھارت کے خلاف ٹورنٹو میں 64 رنز سکور کیے۔ 1999ء میں اپنے ون ڈے کی آخری سیریز میں اس نے شارجہ میں انگلستان کے خلاف 47 ناقابل شکست اور بھارت کے خلاف شارجہ میں 50 رنز کی عمدہ باریاں کھیل کر اس آخری سیزن کو یادگار بنایا۔
اعداد و شمار
ترمیمسلیم ملک نے 103 ٹیسٹ میچوں کی 154 اننگز میں 22 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 5768 رنز کرکٹ کی ریکارڈ بک میں جمع کروائے۔ ان کا سب سے زیادہ سکور 237 تھا اور فی اننگ اوسط 43.69 رہی۔ انھوں نے 15 سنچریاں اور 29 نصف سنچریاں، 65 کیچز کے طور پر دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ سلیم ملک نے 283 ایک روزہ مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کی جس کی 256 اننگز میں 38 مرتبہ بغیر آئوٹ ہوئے ان کے سکور کی تعداد 7170 رہی جن میں 102 ان کی کسی ایک اننگ کا بہترین سکور تھا۔ 32.88 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 5 سنچریاں اور 47 نصف سنچریاں نیز 81 کیچز ان کے شاندار کیریئر کی عکاسی کرتے ہیں۔ سلیم ملک نے 269 ایک روزہ مقابلوں کی 417 اننگز کھیل کر 56 دفعہ آئوٹ ہونے سے محفوظ رہے جبکہ ان کے فرسٹ کلاس مجموعے میں 16586 رنز شامل ہیں۔ 237 ان کا سب سے زیادہ انفرادی سکور ہے جس کے ذریعے انھیں 45.94 کی اوسط حاصل ہوئی جس کے لیے انھوں نے 43 سنچریاں اور 81 نصف سنچریاں سکور کیں جبکہ فیلڈنگ میں انھوں نے 167 کیچ بھی تھامے۔ بولنگ میں سلیم ملک نے ٹیسٹ میچوں میں 414 رنز دے کر 5، ایک روزہ مقابلوں میں 2959 رنز دے کر 89 اور فرسٹ کلاس میں 3283 رنز دے کر 93 وکٹوں کو اپنی ملکیت میں کیا۔ ایک روزہ مقابلوں میں ان کی بہترین بولنگ 5/35 اور فرسٹ کلاس میچوں میں ان کی بہترین بولنگ 5/19 رہی۔ سلیم ملک کا شمار بھی ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے یہ کارنامہ 1982ء میں کراچی کے مقام پر سری لنکا کے خلاف 272 منٹ میں 191 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے 100 ناقابل شکست بناکر حاصل کیے۔ سلیم ملک نے اس فہرست میں چھٹا نمبر حاصل کیا جس میں ان کھلاڑیوں کے نام ہیں جنھوں نے کم عمر کرکٹ کھلاڑی کی حیثیت سے سنچری سکور کی۔ سلیم ملک نے سری لنکا کے خلاف 1982ء میں کراچی کے مقام پر جب 100 ناقابل شکست رنز سکور کیے تو اس وقت ان کی عمر 18 سال 323 دن تھی۔ یاد رہے کہ کم عمر ترین سنچری میکرز کا موجودہ ریکارڈ بنگلہ دیش کے محمد اشرفل کے پاس ہے جنھوں نے 2001ء میں سری لنکا کے خلاف کولمبو کے مقام پر 17 سال 61 دن کی عمر میں 114 رنز سکور کیے تھے۔ سلیم ملک کے پاس ایک یہ ریکارڈ بھی ہے کہ انھوں نے ایک ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں بغیر آئوٹ ہوئے نصف سنچریاں سکور کی ہیں۔ 1992ء میں دورئہ انگلستان کے دوران وہ لیڈز کے میدان پر 82 اور 84 کی 2 ناقابل شکست اننگز وجود میں لائے تھے۔
حوالہ جات
ترمیم
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |