شاہد الوری

اردو زبان کے پاکستانی شاعر

نذیر محمدالمعروف شاہد الوری (پیدائش: 26 دسمبر 1923ء - 15 ستمبر 2004ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز مزاحیہ اور نعت گو شاعر، صحافی اور مانامہ ادبی جریدے شعلے کے مدیر تھے۔ وہ شاعری میں ارمان اجمیری اور راغب مراد آبادی کے شاگرد تھے۔ وہ غالب کی زمین میں غزلیات لکھنے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔

شاہد الوری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: نذیر محمد ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 26 دسمبر 1923ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ریاست الور ،  راجستھان ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 ستمبر 2004ء (81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن کورنگی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ راغب مراد آبادی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  صحافی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

شاہد الوری 26 دسمبر 1923ءکو ریاست الور، راجستھان، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نذیر محمد ، تخلص شاہد تھا،جبکہ شاہد الوری کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ ان کے والد وزیر محمد انصاری ملازمت کی وجہ سے بمبئی، احمد آباد، کلکتہ، لکھنؤ اور دہلی میں مقیم رہے۔ والد کے شہر بہ شہر پھرنے کی وجہ سے شاہد الوری کی تعلیم کا خاطر خواہ بندوبست نہ ہو سکا۔ اس صورتھال کی بنا پر 1935ء میں ان کے نانا بخت آور نے نے انھیں دہلی بلوا لیا۔ 1940ء میں دوسری بار فیل ہونے کی وجہ سے پڑھائی سے دل اُچاٹ ہو گیا۔ دہلی میں بے مقصد گھومتے پھرنا ان کا مشغلہ بن گیا تھا۔ نانا کو جب ان کی آوارہ گردی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے ایک ویلڈر دوست کے پاس ویلڈنگ کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ 1947ء کے اوائل میں انھوں نے ویلڈنگ اینڈ انجینئرنگ کی ورکشاپ قائم کر لی، جو اگست 1947ء تک قائم رہی۔ تقسیم ہند کے بعد 13 ستمبر 1947ء میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے۔ابتدا میں راولپنڈی میں رہے۔ اس کے بعد 13 جنوری 1948ء میں لاہور چلے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد کراچی آ گئے اور یہاں مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔ شاہد الوری کو غنی اجمیری سے دوستی کی وجہ سے شاعری کا ذوق پیدا ہوا۔ ابتدا میں غنی اجمیری کے استاد ارمان اجمیری کے شاگرد ہو گئے۔ استاد نے ان کا تخلص شاہد رکھا۔ بعد میں انھوں نے راغب مراد آبادی کی شاگردی اختیار کر لی اور تا حیات ان سے اصلاح لیتے رہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن اور کئی ادبی اداروں کے نگران اور سرپرست بھی رہے۔ انھوں نے غزل، نظم، قطعات اور دیگر اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غالب کی غزلیات پر تظمین لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ان کاکتابوں میںسخن در سخن (کلام غالب پر تظمین، 1982ء)، حمد و ثنا (حمدیہ و نعتیہ مجموعہ، 1984ء)، چراغ سے چراغ (1986ء)، جذبوں کی زبان اور ففٹی فٹی (غالب و اقبال کے مصرعوں پر مزاحیہ قطعات، 1988ء) شامل ہیں۔[1]

نمونۂ کلام

ترمیم

نعت

نہ اگر بعثتِ نبی ہوتیکوئی شے ہی کہاں بنی ہوتی
اُن کے رُخ سے نہ گر نقاب اُٹھتاصبح ہوتی نہ شام ہی ہوتی
کاش میری جبیں کی قسمت میںخاک، پائے رسول کی ہوتی
گر نہ دربانِ مصفطفٰی ہوتےشان یہ جبریل کی ہوتی؟
ہاتھ آتا جو گلشنِ بطحاشاخِ ارماں پہ تازگی ہوتی
ذرے ذرے میں روح دوڑ گئیتم نہ ہوتے نہ زندگی ہوتی
گر نہ ہوتے محمدِ عربیپھر یہ دنیا کہاں بنی ہوتی
دولتِ نعت تیرے ہاتھ آتیبات جب شاہد الوری! ہوتی[2]

وفات

ترمیم

شاہد الوری 15 ستمبر 2004ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔وہ کراچی کے قبرستان کورنگی نمبر 1 مدفون ہیں۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 289
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 290
  3. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 62