شمس تبریزی یا شمس الدین محمد (1185ء – 1248ء) ایران کے مشہور صوفی اور مولانا روم کے روحانی استاد تھے۔ روایت ہے کہ شمس تبریزی نے مولانا روم کو قونیہ میں چالیس دن خلوت میں تعلیم دی اور دمشق روانہ ہو گئے۔ ابھی حال ہی میں ان کے مقبرے کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کے لیے نامزد کیا ہے۔

شمس تبریزی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1185ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تبریز   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1248ء (62–63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خوی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خوارزم شاہی سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت شاہ شمس تبریز وقت کے بہتے دریا میں تین شمس الدین ابھرتے ہیں جو تبریزی کہلاتے ہیں پہلے شمس الدین تبریزی مولانا روم کے استاد گرامی ہیں جن کا مزار قونیہ میں ہے دوسرے شخص تبریزی اصل میں شمس عراقی ہیں جن کا روضہ کشمیر میں ہے اور ان کی وفات 924 ہجری میں ہوئی جبکہ تیسرے شمس تبریزی شمس الدین سبزواری ہیں جن کا مزار ملتان میں ہے چوتھے شمس الدین سبزواری جو شاہ شمس سبزواری ملتان کی اولاد سے ہیں انکا مزار آلہ آباد(انڈیا) میں ہے عوامی حلقہ میں اس حوالہ سے حیرانی اور پریشان پائی جاتی ہے کہ قونیہ والے شاہ شمس تبریز کون ہیں اور شاہ شمس تبریز ملتان والے کون ہیں اہل علم جانتے ہیں کہ شاہ شمس تبریز جن کا مزار قونیہ میں ہے وہ مولا روم کے استاد گرامی تھے جن کے بارے میں مولانا روم فرماتے ہیں معنوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلامے شمس تبریزی نہ شد حضرت شاہ شمس تبریز وہ عارف ہیں جنھوں نے مولانا روم کو معرفت کے اسرار رموز سے آگاہ کیا حضرت مولانا جلال الدین رومی کو شاہ شمس تبریزی سے بڑی عقیدت مندی تھی اور زیادہ تر وہ شاہ شمس کے ساتھ ہی رہتے تھے ایک مرتبہ مولانا روم اپنی کتب لیے ہوئے اپنے استاد کے پاس تشریف لائے وہ حوض پر بیٹھے ہوئے تھے حضرت شاہ شمس تبریز نے علامہ سے پوچھا یہ کیا ہے مولانا نے کہا یہ یہ قبل و قال ہے یہ وہ چیز ہے جس کا آپکو علم نہیں اس پر شاہ شمس نے تمام کتابیں تالاب میں پھینک دیں مولانا روم گھبرائے کہ اس میں میرے والد بزگوار کے اقوال تھے جن کا ملنا اب مشکل ہے حضرت شاہ شمس تبریز نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اور کتابیں پانی سے باہر نکال دیں مولانا روم نے دیکھا کتابیں بھیگی نہیں بلکہ ان سے گرد اڑ رہی تھی مولانا روم نے شاہ شمس سے پوچھا یہ کیا راز ہے شاہ شمس نے جواب دیا تم کو اسی خبر نہیں مولانا روم یہ کشف کرامات کو دیکھ کر شاہ شمس تبریز کے مرید ہو گئے مولانا روم کو شاہ شمس تبریز نے باطنی علوم سے روشناس کرایا کچھ عرصہ بعد شاہ شمس مولانا روم کو چھوڑ کر دمشق چلے آئے مولانا روم نے ان کی جدائی میں کھانا پینا چھوڑ دیا لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا پھر اپنے بیٹے سلمان کو دمشق بھیجا جو شاہ شمس تبریز کو واپس قونیہ لے آئے جب شاہ شمس تبریز کی کرامات کے چرچے ہوئے تو مولانا روم کے بیٹے علاؤ الدین محمد نے چند لوگوں کو ساتھ ملا کر شاہ شمس تبریز کو 645 ہجری میں قتل کر دیا آپ کا مزار قونیہ میں ہے حضرت شاہ شمس تبریز کا کلام کتب خانوں میں موجود نہیں ہے کلیات شاہ شمس تبریزی میں سارا کلام مولانا روم کا ہے جس میں مولانا روم نے شاہ شمس کے عشق میں غزلیات کہی ہیں چونکہ مولانا روم کو ولایت مطلقہ کا حقیقی عرفان شاہ شمس تبریز کی صحبت سے حاصل ہوا دوسرے سید شمس الدین سبزواری جن کا مزار ملتان میں ہے آپ کا شجرہ نسب چند پشتوں کے بعد مولا امام جعفرصادق ع سے جاکر ملتا ہے آپ صوبہ خراسان کی بستی سبزوار میں 560ہجری میں پیدا ہوئے آپ کے والد سید صلاح الدین گرم کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے سید صلاح الدین عالم فاضل اور دیندار مبلغ تھے فاطمیوں کے نقیب خاموشی کے ساتھ عالم اسلام میں پھیلائے گئے سید صلاح الدین کا خاندان کس داعی کے ساتھ سبزوار آیا پتہ نہیں چلتا سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کا نام شمس الدین رکھا آپ کا شجرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے مولا امام جعفر صادق ع _ امام ذادہ اسماعیل _سید محمد عریضی _سید زید(اسماعیل ثانی) _سید معصوم شاہ _سید غالب الدین _سید عبد المجید _مستنصرباللہ_سید محمد ہادی_محمد ہاشم(مدفون یمن) سید محمود سبزواری(مدفون لاہور)_سید محب مشتاق_سید خالد الدین_سید صلاح الدین _شمس الدین سبزواری(مدفون ملتان) مناسب وقت پر شمس الدین کی تعلیم و تربیت کی فارسی و عربی میں سمجھ بوجھ کے بعد قرآن حدیث تفسیر فقہ کی طرف لائے یوں ایمانیات عبادات معملات کی بنیادیں مضبوط کرکے شیعیت کے ساتھ طریقت کو شامل کیا تذکرتہ اولیاء فرید الدین عطار میں ہے کہ سید صلاح الدین ایرانی صوفیائے کرام کی پیدا کردہ روحانی ہوا و فضا میں سانس لے رہے تھے اندازہ ہے کہ سید صلاح الدین نے فرزند گرامی کو تعلیمات چہاردہ معصومین ع سے روشناس کرایا کیونکہ آخری فاطمی خلفاء اثنا عشری مسلک رکھتے تھے بعض مورخین شاہ شمس سبزواری کو شاہ شمس اسماعیلی کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت اسماعیل بن امام جعفرصادق ع کی اولاد سے ہیں نہ کہ اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کی درگاہ عالیہ میں امام بارگاہ موجود ہے جہاں قدیم عرصہ سے مجالس امام حسین ع کا اہتمام ہوتا ہے ہر جمعرات کو ہفتہ وار مجالس عزا برپا ہوتی ہیں بارہ اماموں کے حوالے سے دیگر تقاریب کا انقعاد ہوتا ہے یہی دستور درگار بی بی پاک دامناں درگاہ امام بری درگا شہباز لعل قلندر پر نافذ العمل ہے بعض مورخین نے شاہ شمس تبریزی کو کو ملتان کی سر زمین پر عزاداری کا آغاز کرنے والا درج کیا ہے سید صلاح الدین کا انتقال 665ہجری میں ہوا اس دور میں عالم اسلام مغلوں کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے زلزلہ میں آگیا تھا سید شمس الدین سبزوار سے نکلے 666ہجری میں ملتان میں وارد ہوئے متاخرین تذکرہ نگاروں نے حکایت اولیا سنائی کہتے ہیں کہ بہاؤ الدین زکریا نے آپ کی خبر پائی تو دودھ کا پیالہ لباب بھیجا مطلب یہ تھا یہاں اہل اللہ کی بھیڑ بھاڑ ہے تمھاری گنجائش نہیں ہے حضرت شاہ شمس الدین نے پیالہ دودھ پر گلاب کا پھول تیرا دیا اور اپنی گنجائش کا جواز دکھلایا حضرت بہاؤ الدین زکریا کے پوتے سے شاہ شمس کے گہرے روابط تھے خطاب رکن الدین والعالم شاہ شمس کا عطا کردہ ہے جو بعد ازاں شاہ رکن عالم بن گیا تذکرہ نگاروں نے حکایات اولیاء میں ایک اور اضافہ کیا ہے سید شمس الدین نے جلادوں کو اپنی کھال اتار کر دے دی اب کوئی انھیں اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتا تھا بھوک نے ستایا تو لب دریا آئے مچھلیاں ابھرنے لگئیں ایک مچھلی پکڑی مگر ملتانیوں نے اسے بھوننے سے انکار کر دیا آپ نے سورج کو حکم دیا تبش بکن سورج سوا نیزے پر اتر آیا اور مچھلی بھون دی جسے آپ نے تناول فرمایا اسی وجہ سے ملتانی آپ کو تپ ریز(گرمی دینے والا)کہنے لگے بعد میں تپ ریز تت ریز تب ریز اور تبریز ہوا یوں شمس الدین سبزواری شمس تبریزی ہوئے ملتان کی شدید گرمی اسی وجہ سے ہے ورنہ ملتان کی آب و ہوا خوشگوار معتدل تھی نو تعمیر سہ دری کی پیشانی پر ائمہ اہل بیت اطہار ع کے اسم گرامی لکھے ہوئے ہیں بورڈ پر لکھا ہے "کربلا دربار شاہ شمس تبریز" مزار شریف کے چبوترے پر ایک چھوٹا سے دروازہ ہے بورڈ پر لکھا ہے حضرت شمس الدین ولی سبزواری جبکہ مزار شریف کے اندر لکھا ہوا ہے حضرت شاہ شمس تبریز یہ تضاد عوام کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے بعض مورخین نے اسی وجہ سے شمس الدین سبزواری کو ہی شمس الدین تبریزی مانا ہے جیسا کہ تاریخ انوار السادات المعروف گلستان فاطمہ میں لکھا ہے کہ مخدوم سید شمس الدین تبریزی کی ولادت ماہ شعبان بقول ماہ رجب بروز جمعہ 560 ہجری میں شہر سبزوار میں ہوئی علم فضل و تقوی اور طہارت میں بے عدیل صاحب کرامت ہوئے جب آپ اپنے والد صلاح الدین کے ہمراہ کشمیر و تبعت بغرض دعوت اسلام تشریف لے گئے تو وہاں شمس الدین عراقی کہلائے اور جب عرصہ تک تبریز میں مقیم رہے تو تبریزی کہلائے 675 ہجری میں وفات پائی مزار ملتان میں ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ اس بات کا تاریخی شواہد کے لحاظ سے حقیت کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کیونکہ شمس الدین سبزواری کا کسی طور پر بھی تبریز سے کوئی واسطہ نہیں ہے تبریز کہلانے کی وجہ وہ صرف تپ ریز ہے جو بعد میں تبریز ہو گیا جبکہ شمس تبریزی مولانا روم کے استاد تھے جن کا مزار قونیہ میں آج بھی موجود ہے اسی طرح شمس الدین عراقی اور ہیں جن کا مزار کشمیر میں ہے انکا انتقال 924ہجری میں ہوا سید شمس الدین نے گیارہ سال ملتان میں تبلیغ کی اور 677ہجری کو ملتان میں وفات پائی حجرہ کے قریب سپرد خاک کیا گیا قبر پر مقبرہ آپ کے پوتے سید صدر الدین نے تعمیر کرایا سیٹھ مہر دین نے عالیشان مقبرہ تعمیر کرایا رنجیت سنگھ کے دور میں سکھ گورنر ساون مل نے مسجد مقبرہ مسلمانوں سے چھین کر گردوارہ بنا دیا مسجد گرنتھی کی جائے رہائش تھی رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد مقبرہ بددستور گردوارہ رہا ان سارے سکھاشاہی دور میں ملتان میں اذان سنائی نہیں دی نماز پنجگانہ نماز عید بقر فطر پر مکمل طور پر پابندی تھی انگریزوں کے ملتان پر قبضے کے بعد 1850ء میں مقبرہ و مسجد مسلمانوں کو دے دی گئی آپ کے صرف ایک ہی فرزند صاحب اولاد ہوئے جن کا نام نصرالدین ہے جو لاہور میں دفن ہیں ان کی اولاد میں کبیرالدین کا مدفن اوچ شریف میں ہے اور صدر الدین ملتان میں ان کی اولاد سے سید عالم پیدا ہوئے جنکو پیار سے جتو شاہ کہتے ہیں اور ان کی قبر شاہ شمس کے برابر ہی ہے

کتاب.حقائق بیاں طلب صفحہ.١١٩

ولادت

ترمیم

15 شعبان المعظم 560ھ کو ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپ کا شجرہ مبارک امام جعفر سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ اُس وقت سبزوار ایران کا مشہور شہر تھا۔

والد کا نام

ترمیم

ان کے والد کا نام علاؤ الدین اور نفحات الانس میں علی بن ملک داؤد تبریزی لکھا ہے۔

پیر و مرشد

ترمیم

بابا کمال الدین جندی کے مرید تھے شیخ رکن الدین سنجاسی اور شیخ ابوبکر زنبیل باف تبریزی کو بھی مرشد کہا گیا ۔

مولانا روم سے ملاقات اور دنیا کا سفر اور کرامات

ترمیم

شمس تبریزی نے ایک دفعہ دعا کی کہ مجھے وہ بندہ ملے جو میری صحبت کا متحمل ہو یہ دعا قبول ہو گئی اور قونیہ میں مولانا روم کے پاس پہنچ گئے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ آپؒ کی ولادت 15 شعبان المعظم 560 ہجری کو ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپؒ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر ؓ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ اُس وقت سبزوار ایران کا مشہور شہر تھا۔ حضرت شاہ شمس ؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید صلاح الدین محمد سے حاصل کی۔ 16 سال کی عمر میں آپؒ نے تمام دینی و دنیاوی تعلیم مکمل کر لی تھی۔ آپؒ اپنے والد محترم کے ساتھ 579 ہجری میں سبزوار سے براستہ چرکس بدخشاں گئے۔ وہاں آپؒ کی تعلیمات سے ہزاروں لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپؒ دنیا کے کئی ممالک میں تشریف لے گئے، جہاں آپؒ نے اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ برصغیر میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے۔ آپؒ نے کوہستان تبت، سکردو میں اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ اس طرح ہزاروں لوگ آپؒ کے کرم و فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ 586 ہجری میں آپ کے والد محترم سید صلاح الدین نے اپنے آبائی وطن سبزوار جانے کا فیصلہ کیا اور سبزوار پہنچ کر آپؒ نے حضرت شاہ شمسؒ کی شادی اپنے حقیقی بھائی حضرت سید جلال الدین کی دختر سے کر دی۔ بعد ازاں آپؒ ایران کے شہر تبریز تشریف لے گئے۔ 12 برس تک آپؒ شہر تبریز میں سکونت پزیر رہے اور وہاں آپؒ شمس تبریزی مشہور ہوئے۔ آپؒ کی ولادت سبزوار میں ہوئی، اس لیے آپؒ سبزواری کہلائے۔ آپؒ کے مرشد کے حکم پر قونیہ تشریف لے گئے، جہاں آپؒ کی ملاقات اس وقت کے عظیم عالم دین مولانا جلال الدین رومیؒ سے ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ایک مشہور و معروف کرامت معرض وجود میں آئی کہ مولانا جلال الدین رومیؒ اپنے درس میں طالب علموں کو تعلیم دے رہے تھے کہ حضرت شاہ شمس سبزواری تبریزیؒ دورانِ درس تشریف لے گئے جو نہایت سادہ لباس میں تھے اور مولانا رومیؒ کے قریب بیٹھ گئے۔مولانا رومیؒ کے قریب چند کتابیں پڑی تھیں، حضرت شاہ شمسؒ نے مولانا رومیؒ کی طرف مخاطب ہو کر کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ جواب ملا اسے علم کہتے ہیں، جو آپؒ نہیں جانتے۔ آپؒ کو اس سے کیا نسبت؟ حضرت شاہ شمسؒ نے مولانا رومیؒ کا یہ فقرہ سنا تو جلال میں آئے اور وہ تمام کتابیں اٹھا کر پانی کے بھرے حوض میں ڈال دیں۔ مولانا رومیؒ کو آپؒ کے اس عمل سے بڑا قلق ہوا اور غصہ و پریشانی کے عالم میں آپؒ رو پڑے اور کہا: اے درویش! تم نے یہ کیا کر دیا، میری تمام روح کی غذا تم نے ایک لمحے میں ضائع کر دی ، کتابیں بڑی نایاب تھیں۔ اب کہیں سے نہیں ملیں گی۔ حضرت شاہ شمسؒ نے جب مولانا رومیؒ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو فرمایا: تمھاری روح کی غذا اگر تمھیں مل جائے تو؟ مولانا رومیؒ نے کہا کیسے ممکن ہے؟ آپؒ دوبارہ پانی سے بھرے حوض کے نزدیک گئے۔ سب سے پہلے پانی میں سے وہ کتاب نکالی ،جس کا مولانا رومیؒ کو زیادہ صدمہ تھا۔ جب حضرت شاہ شمسؒ نے کتاب کو مولانا رومیؒ کے ہاتھوں میں دیا تو کتاب کو پانی کے قطرے نے بھی نہ چھوا تھا۔ مولانا رومیؒ نے آپ حضرت شاہ شمسؒ کا یہ کمال دیکھ کر حیرت سے پوچھا یہ کیا ہے؟ آپؒ نے مولانا رومیؒ کو جواب دیا: یہ وہ علم ہے کہ جسے تم نہیں جانتے۔ اس دوران مولانا رومیؒ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ آپؒ کے دست مبارک پر بیعت ہو گئے۔ آپؒ نے مولانا رومیؒ کو طریقت کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا، تو آپؒ نے اپنی پوری زندگی حضرت شاہ شمسؒ کے نام وقف کر دی۔مولانا جلال الدین رومیؒ نے لوگوں سے گفتگو ترک کر دی۔ ان معاملات کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں میں حضرت شاہ شمسؒ کے خلاف چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور لوگ آپؒ کو دیوانہ کہنے لگے۔ یہاں تک کہ مولانا رومیؒ کے خاص شاگرد بھی حضرت شاہ شمسؒ سے برہم ہونے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا رومیؒ کی عدم توجہی کا باعث حضرت شاہ شمسؒ ہیں۔ اگر وہ یہاں سے چلے جائیں ،تو پھر مولانا رومیؒ کی صحبتوں سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔ حضرت شاہ شمسؒ کو لوگوں کی براہمی کا حال معلوم ہوا ،تو ایک دن چپکے سے دمشق چلے گئے۔ مولانا رومیؒ نے شاگردوں اور دوسرے لوگوں سے یکسر قطع تعلق کر لیا۔ گوشہ تنہائی دن و رات مرشد کی یاد میں تڑپتے رہتے۔ اس زمانے میں مولانا رومیؒ نے حضرت شاہ شمسؒ کی یاد میں ایسے پردرد اشعار کہے، جنہیں سن کر پتھر دل بھی رو پڑے: مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزیؒ نہ شُد ملتان میں جہاں آپؒ کا مزار اقدس ہے، سینکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی۔ آپؒ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کامیابی کے مقام تک پہنچاتے رہے۔ غیر مسلم قبیلوں کے سرداروں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ یہیں آپؒ نے وصال فرمایا۔ آپؒ کی وفات 28 صفر المظفر 675 ہجری کو ہوئی

مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی ان سے متاثر تھے۔ دوسال ان کی صحبت میں رہے، کہا جاتا ہے کہ مولانا روم کے مریدوں نے حسد کی وجہ سے قتل کیا۔

ہم عصر اولیاء

ترمیم

حضرت سید محمود محمد مکی نقوی رضوی لعل شہباز قلندر،شیخ فرید الدین گنج شکر،مخدوم عبدالرشید حقانی،شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، جلال الدین رومی اور جلال الدین سرخ بخاری، بو علی شاہ قلندر ان کے ہم عصر اولیاء تھے۔

شاعری

ترمیم

باکمال صوفی بزرگ اور شاعر تھے، دیوان شمس تبریزی کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

مقالات شمس تبریزی

ترمیم

مقالات شمس تبریزی، شمس تبریزی کے وہ دانشمندانہ اور دلچسپ مکالمات ہیں جو قونیہ میں 642 ہجری تا 643 ہجری اور تھوڑے عرصے کی گمشدگی کے بعد 644 ہجری تا 645 ہجری کے قیام کے دوران ان کی زبان پر جاری ہوئے تھے اور جو مولانا جلال‌الدین محمد بلخی کے مریدوں کے پاس بکھرے ہوئے مختلف نوشتوں میں موجود تھے جنہیں بعد ازاں جمع کر دیا گیا تھا۔ان کی بے ترتیب اور شکستہ عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شمس تبریزی کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ مریدین کے روزنامچوں سے لیے گئے اقتباسات ہیں جنہیں یکجا کر دیا ہے۔[1]

وفات

ترمیم

نفحات الانس میں ان کی وفات 645ھ بمطابق 1247ء ہے۔[2][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. بدیع‌الزمان فروزانفر، زندگانی مولانا جلال‌الدین محمد بلخی، ص 89
  2. نفحات الانس عبد الرحمن جامی، شبیر برادرز لاہور
  3. سوانح مولانا روم،شبلی نعمانی،صفحہ 7