شیدا جبل پوری

اردو زبان کے پاکستانی شاعر

سید احمد علی شاہ المعروف شیدا جبل پوری (پیدائش: 5 فروری 1910ء - 22 نومبر 1988ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ہومیو پیتھک معالج تھے۔ انھوں حمد، نعت، غزل، سلام، منقبت، نظمیں اور دیگر اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔

شیدا جبل پوری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: سید احمد علی شاہ ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 5 فروری 1910ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جبل پور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 نومبر 1988ء (78 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  معالج بالمثل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

شیدا جبل پوری 5 فروری 1910ء میں جبل پور (حالیہ مدھیا پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد علی شاہ تھا، شیدا تخلص اور جبل پور سے نسبت سے جبل پوری کہلائے۔ قلمی نام شیدا جبل پوری تھا۔ ان کے والد کا نام مولوی سید محمد علی شاہ تھا جو بی اے (علگ)، ایل ایل بی (ناگپور)، جنوبی ہند کی دو ریاستوں کے دیوان، رابرٹسن کالج جبل پور کے پروفیسر[1]، عدالت عالیہ جبل پور کے ایڈوکیٹ اور تحصیل دار بھی رہے۔ شیدا کے مورثِ اعلیٰ محمد بن قاسم کی افواج کے ہمراہ ہندوستان آئے اور پھر یہیں بس گئے۔ دادا حاجی سید اسماعیل شاہ ریاست حیدرآباد دکن میں رہے۔ فوج میں تھے، میرٹھ چھاؤنی تبدیل ہوئے تو ریٹائرمنٹ کے بعد وہیں مقیم ہو گئے۔ شیدا کا شجرۂ نسب انتالیس واسطوں سے حضرت علی ابن ابی طالب سے جا ملتا ہے۔ شیدا نے انجمن ہائی اسکول سے میٹرک اور کرائسٹ چرچ اسکول سینئر کیمبرج کیا۔ گھر پر قرآنی اور مذہبی تعلیم مولوی ولی محمد سے حاصل کی۔اردو اور فارسی کی تعلیم مولانا عبد الحئی فیض آبادی اور مولانا عزیز الحسن انصاری بھوپالی سے حاصل کی۔ ایک بار والد اور پھوپھا حیدر جبل پوری کے حکم پر مصرعۂ طرح میں غزل کہی جو پسند کی گئی اور اصلاح کر کے سراہا بھی گیا۔اسی دن ایک مصرع میں اصلاح کے ذریعے پھوپھا نے ان کا ادبی نام شیدا رکھ دیا اور انھیں بطور انعام پانچ روپے عنایت کیے، مزید مشقِ سخن جاری رکھنے کا کہا۔ مزید تعلیم کے لیے شیدا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچے اور مولانا احسن مارہروی کی تعلیمات سے فیضیاب ہوئے جو وہاں فارسی اور اردو کے مدرس تھے۔شیدا یہاں مشاعروں اور ادبی محافل میں شریک ہوتے رہے۔ نوجوانی میں شیدا کی پشت پر پھوڑا نکل آیا جس کی وجہ سے وہ سات برس صاحب فراش رہے۔ یہ پھوڑا کئی آپریشنوں کے بعد بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ بالآخر ایک بنگالی ہومیو پیتھک ڈاکٹر بسواس کے علاج سے صحت یابی حاصل ہوئی۔صحت یاب ہونے کے بعد انھوں نے ہومیوپیتھک سے لگاؤ کی وجہ گول بازار جبل پور میں واقع دوبے ہومیو پیٹھک کالج میں داخلہ لے لیا اور اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں ڈاکٹر دوبے کی درخواست پر کالج میں پڑھانے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ اپنا دواخانہ بھی کھول لیا اور پریکٹس شروع کر دی۔تحریک آزادی ہند نے زور پکڑا تو مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور فرنگی راج کے خلاف آزادی کے لیے نظمیں لکھنے لگے۔ اس جرم میں کوتوال شہر نے انھیں جیل بھیجنے کی دھمکی دی مگر وہ آزادی کی نظمیں لکھتے رہے اور وہ مختلف اخبارات و رسائل میں چھپتی رہیں۔ تقسیم ہند کے بعد اپنی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائداد، دواخانہ جس میں دواؤں سے بھری بارہ عدد الماریاں تھیں، نایاب کتابیں اور دیگر اثاثہ چھوڑ کر بیوی اور بچوں کو لے کر 23 ستمبر 1947ء کو پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ زادِ راہ شیدا کی مذہبی شاعری کا مجموعہ ہے جس میں حمد، نعت، مناقب، سورہ فاتحہ کا ترجمہ اور کئی اصنافِ سخن میں موجود ہے۔[2]

وفات

ترمیم

شیدا جبل پوری 22 نومبر 1988ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 316
  2. کراچی کا دبستان نعت، ص 317
  3. ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 65