صادق آباد، رحیم یار خان
صادق آباد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں ایک شہر ہے۔
صادِق آباد | |
---|---|
شہر | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب، پاکستان |
ضلع | ضلع رحیم یار خان |
تحصیل | تحصیل صادق آباد |
حکومت | |
• ناظم | ڈاکٹر طالوت سیلم باجوہ (سابقہ) |
• نائب ناظم | رئیس اکمل ورند (سابقہ) |
رقبہ | |
• کل | 30 کلومیٹر2 (10 میل مربع) |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
کالنگ کوڈ | 068 |
Number of | 29 |
اشتقاقیات
ترمیممحکمہ آثار قدیمہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جہاں پر اس وقت پرانا صادق آباد موجود ہے اس جگہ پر بہت عرصہ پہلے ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی جس کا نام صادق ورند تھا، صادق آباد میں ورند قوم اچھی خاصی آباد ہے بلکہ ریلوے لائن کے دونوں جانب ورند قوم کی کئی ایک بستیاں آج بھی موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ واقعی ہی پرانا صادق آباد کے مقام پر بستی صادق ورند موجود تھی جو ریلوے لائن کے آنے تک موجود رہی اور بعد میں اس بستی کی نسبت سے ریلوے حکام نے اس کا نام صادق آباد رکھ دیا۔ جبکہ کچھ روایات کے مطابق صادق آباد منڈی کا نام امیر آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی خامس کے نام پر رکھا گیا۔
تاریخ
ترمیمصادق آباد سے پہلے تحصیل احمد پورلمہ ہوا کرتی تھی جب ٹرین چل پڑی تو اعلیٰ حضرت امیر آف بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی خامس بذریعہ ٹرین بہاولپور سے کراچی جا رہے تھے کہ اس وقت کوئی تیز رفتار ٹرین نہیں چلتی تھی بلکہ مسافر ٹرین ہی چلا کرتی تھیں جب ٹرین صادق آباد منڈی کے کچے اسٹیشن، جو مال گودام کے سامنے ہوا کرتا تھا ،پہنچی تو دریافت کیا کہ ہم اس وقت کہاں ہیں اس جگہ کا نام کیا ہے؟ تو نواب ریاست سر صادق محمد خان کو بتایا گیا کہ یہ صادق آبا دکا اسٹیشن ہے جو ریاست بہاولپور کی آخری تحصیل احمد پورلمہ کے قریب واقع ہے۔ اس پرانہوں نے حکم جاری کیا کہ محکمہ ریلوے جلد پختہ ریلوے اسٹیشن تعمیر کرے کیوں کہ ہم یہاں پر ایک نیا شہر آباد کریں گے جس کا نام منڈی صادق آباد ہو گا اور تحصیل احمد پورلمہ کی بجائے اس شہر کو تحصیل کا درجہ دیا جائے گا ۔ اس طرح اعلیٰ حضرت امیر آف بہاولپور سر صادق آباد محمد خان عباسی خامس نے 18 نومبر 1935کو صادق آباد منڈی کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا جو شہر کے سرے پر واقع ہے اور بعد میں اس جگہ ایک چھوٹا سا پارک بنا دیا گیا جس کا نام صادق آباد پارک رکھا گیا ۔
ریاست بہاولپور
ترمیمامیر آف بہاولپور سر صادق آباد محمد خان عباسی خامس کے ہاتھ کا نصب شدہ وہ پتھر آج بھی اپنی اصل حالت میں مارکیٹ کے عین درمیان میں نصب ہے (پارک جہاں اس وقت بازار ہے )منڈی صادق آباد کو جدید نقشے کے تحت تعمیر کیا گیا اور اس کے دو بازار بنائے گئے ایک کا نام ریل بازاراور دوسرے کا نام مین بازار رکھا جو اسی نام سے آج تک مشہور ہیں ان بازاروں کے آخری سروں پر دو گول چوک بنائے گئے۔ واضح رہے اس وقت بہاولپور ہائی کورٹ میں قادیانیت کے حوالے سے تنسیخ نکاح کا ایک مقدمہ چل رہا تھا، جس کا چرچا ہندوستان بھر میں تھا، جو 1926 سے7 فروری 1935 تک چلا اور جسٹس محمد اکبر نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے اور نکاح کو فسخ کر دیا۔ ایسے حالات میں انگریز سرکار کے بے پناہ دباؤ کے باوجود نواب سر صادق محمد خان عباسی والئ ریاست بہاولپور نے اس فیصلے کو ریاستی سطح پر بھر پور پزیرائی دی اور اس خوشی میں اس وقت منڈی صادق آباد کی تعمیر کے سلسلے میں اڑھائی لاکھ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا۔اس بجٹ سے تھانہ سٹی، کچہری، تحصیل داروں کی کوٹھیاں اور ان کے ملازمین کے کوارٹرز، ویٹرنری اسپتال، ماڈل ہائی اسکول اور موجودہ ٹی ایم اے کی بلڈنگ میں واقع اسپتال بھی بنایا گیا۔ اس کے علاوہ قذافی بازار کے قریب واٹر سپلائی کے لیے بھی انتظام کیا گیا، تاکہ صادق آباد شہر کی تعمیر کے بعد مقامی لوگوں کو سہولیات میسر آئیں۔منڈی صادق آباد کی تمام رونق موجودہ فوراہ چوک میں ہوا کرتی تھیں ایک طرف بابو دین تمباکو فروش کی دکان ہوا کرتی تھی جس کے پاس بلدیہ کے گیس جلانے کا ٹھیکا ہوا کرتا تھا۔چوک فوارہ کے درمیان رات کے وقت روشنی کے لیے گیس جلائی جاتی تھی۔اس کے علاوہ صادق پارک ،گول چوک ،غلہ مندی تین چونگیوں اور کئی دوسری جگہوں پر گیس جلائی جاتی تھی۔پرانا صادق آباد میں روشنی کے لیے ہر چوک میں مٹی کے تیل کی بتی جلائی تھی جس کا ٹھیکا بعد میں ملک جلال الدین فوٹو گرافر کے پاس ہوا کرتا تھا۔[1]
قیام پاکستان کے بعد
ترمیمکبھی وہ وقت تھا کہ رات کے وقت اگر کسی شخص نے ریل گاڑی میں سوار ہونا ہوتا تھا تو وہ تین آدمی اسے گاڑی میں سوار کرنے آتے، کیونکہ ریلوے اسٹیشن کے دونوں جانب کوئی آبادی نہ تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ صادق آباد نے قیام پاکستان کے بعد ترقی کی ہے اس کی ترقی کا عروج صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان کے دور میں ملا اور اسی دور میں بجلی رحیم یارخان سے صادق آباد آپہنچی۔ بجلی کا ٹرانسفارمر صادق پارک کے سامنے نصب ہوا۔بجلی کا دوسرا ٹرانسفارمر نہر کے کنارے حیدری مسجد کے قریب لگایا گیا جس سے تمام علاقے کو بجلی سپلائی کی گئی ۔
مذہب
ترمیمشروع شروع میں منڈی صادق آباد میں آبادی کے لحاظ سے ہندو سب سے زیادہ آباد تھے جب کہ مسلمان میں حافظ برکت علی،حکیم جان محمد ،اجمل دواخانہ ،ڈاکٹر عبد القادر ،ابراہیم زرگر،عطا محمد زرگر ،محمد ابراہیم لوہار ،جان محمد عرف جانا لوہار ،رئیس خان محمد ورند ،شیخ سوہنا ،نظام الدین جٹ،چوہدری برکت علی منیجر ،مولوی محمد ادریس انصاری ،مولوی محمد الیاس انصاری ،حاجی تاج الدین لکڑے والے ،محمد رمضان اور نواب دین حلوائی ،بابا قلعی گر محمد دین ،محمد اقبال گرداور،میر سید زاہد حسین ،میر سید عابد حسین ،رئیس غلام قادر ورند ،ڈاکٹر محمد اکرم ،نواب دین ٹیلر ماسٹر ،نذر حسین شاہ ،شیخ لالو ،دانشمند خان ،ارجمند خان ،شیخ صوفی محمد شفیع حلوائی ،بابو دین ،ٹھیکیدار علم الدین ،شیخ حاکم علی ،ڈاکٹر حافظ محمد حنیف تھے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد اب یہاں پر 97 فیصد مسلمان آبادی ہے۔[2]
کھانا
ترمیمکھانے پینے کے تمام ہوٹل فوارہ چوک میں امام دین نانبائی،نواب دین نانبائی اور محمد رمضان نانبائی کے ہوا کرتے تھے لیکن اس کے علاوہ تحصیل بازار میں عبد اللہ بلوچ ہوٹل بھی ہوا کرتا تھا جس کا نام کوثر ہوٹل تھا۔ جس کے سری پائے بڑے مشہور تھے ،بعد ازاں قیام پاکستان کے بعد صادق پارک کے مغرب کی جانب ایک بڑا صاف ستھرا ہوٹل بنا جس کا نام کوثر ہوٹل تھا جس کے مالک کا نام محمد کفیل دروغہ تھا۔جس کا تعلق رانا فیملی سے تھا جس نے پہلی مرتبہ گراموفون کو ہوٹل پر بجایا جس کی بڑی دھوم مچی کچھ عرصہ کے بعد گول چوک غلہ منڈی میں چائے دودھ کی ایک نئی دکان کھلی جس کا نام اب طارق سویٹ و غلام نبی ہوٹل ہے۔ابتدائی دور میں اس کی چائے بہت مشہور تھی اور بہت چلتی تھی شام کے وقت کڑھائی والا گرم گرم دودھ لوگ شوق سے پیتے آتے۔حاجی غلام نبی نے اپنے چائے والے ہوٹل سے ریڈیو بجانے کی ابتدا کی، اس طرح پہلی بار صادق آباد کے لوگوں کو ریڈیو سننے کو ملا۔ یہی وجہ تھی بڑے بڑے لوگ خبریں سننے آیا کرتے تھے۔کریم الدین صدیقی نے بھی کوثر ہوٹل کے قریب ایک ہوٹل بنایا جو کامیاب نہ ہو سکا اس عرصہ میں ہوٹل کی صنعت میں امیر بخش بھنگا آیا اس نے حکیم شیر محمد کی دکان کے قریب ہوٹل بنایا اور بعد میں ڈاکٹر قمر الزمان ولی بلڈنگ میں ہوٹل بنا اور پھر تاج سنیما کے قریب بھی ہوٹل بنایا اس طرح فوارہ چوک سے ہوٹلوں کی رونق ختم ہوکر صادق پارک اور پھر ریلوے اسٹیشن کے قریب منتقل ہو گئی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ شاپنگ سنٹر آباد ہو گیا تھا۔
تاریخی مقامات
ترمیمصادق آباد میں تقریبا آٹھ قلعہ جات اور متعدد تاریخی مقامات ہیں جن میں کچھ مذہبی مقامات بھی ہیں جبکہ مزارات کی کثیر تعداد بھی یہاں موجود ہے۔ یہاں مدفون تہذیبوں کے آثار بھی موجود ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ ان میں سے کچھ مقامات پر تحقیقی کام کتابی شکل میں میسر ہے۔ مشہور رومانوی داستان کے کردار سسی کی جائے پیدائش، بھٹہ واہن اور عالمی شہرت یافتہ مسجد بھونگ شریف کا صادق آباد اس وقت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
صنعت و زراعت
ترمیمیہاں ملکی زرعی ضروریات پورا کرنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے کھاد بنانے کے دو بڑے کارخانے موجود ہیں۔ جب کہ 3شوگر ملز، متعدد کاٹن جننگ فیکٹریز، آئل فیکٹریز اور کئی چھوٹے صنعتی ادارے روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو تقویت دے رہے ہیں۔گنا، کپاس، گندم اور رسیلے باغات خصوصا آم یہاں کی خاص سوغات ہے، گنے کی وسیع رقبے پر کاشت کی وجہ سے یہ علاقہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ تعلیمی لحاظ سے صادق آباد ضلع بھر میں اول درجے پر ہے۔
زبانیں
ترمیمصادق آباد کی سالگرہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ تین صوبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے مختلف النوع زبانیں ثقافت مثلا سندھی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی اور راجستھانی رنگوں کا حسین امتزاج ہے۔ یہ سالگرہ کی تقریب دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب سب علاقائی رنگ اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔[3]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر صادق آباد، رحیم یار خان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ "میگزین اگست 2014"۔ ہفت روزہ اخبارِ اکبر۔ 15 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2023
- ↑ "رحیم یار خان"۔ انگریزی ویکیپیڈیا
- ↑ زاہد نثار (دسمبر 11، 2016)۔ "صادق آباد، پاکستان کا واحد شہر جس کی سالگرہ منائی جاتی ہے"۔ ایکسپریس نیوز
|
|