ضلع ارریہ بہار کے 38 ضلعوں میں سے ایک مشہور ضلع اورشہر ہے جو سیمانچل علاقہ کے چار ضلعوں پورنیہ، ارریہ، کٹیہار اورکشن گنج میں سے ایک ہے اور یہ بھارتی  ضلع ایک سرحدی ضلع بھی ہے جو مشرق شمال میں نیپال سے منسلک ہے۔ ارریہ کی مجموعی آبادی 60,594 افراد پر مشتمل ہے اور 47 میٹر سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہے۔ اور ارریہ شہر اس ضلع کا انتظامی ہیڈکوارٹر ہے۔ ضلع ارریہ پورنیہ ڈیویژن کا ایک حصہ ہے۔ ضلع کا پھیلاؤ 2830 کلومیٹر ہے۔


ارریہ
अररिया
شہر
ملک بھارت
ریاستبہار
ضلعضلع ارریہ
حکومت
 • قسمبہار سرکار
 • مجلسجنتا دل یونائیٹڈ
بلندی47 میل (154 فٹ)
آبادی (2001)
 • کل60,594
زبانیں
 • دفتریہندی زبان، اردو
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز854311, 8543XX
لوک سبھا حلقۂ انتخابAraria
ودھان سبھا حلقۂ انتخابAraria
ویب سائٹhttp://www.araria.bih.nic.in/

تقریباً 400 سال پہلے سر زمین ارریہ پور نیہ صوبہ کا ایک حصہ تھی اور یہ مغل حکمراں کی ماتحتی میں تھا، حاکم سیف خان (1731ء-1748ء) نے اپنی ماتحت علاقہ کا پھیلاؤ کیا اور سلطانپور یعنی موجودہ فاربس گنج کو اپنے صوبہ میں ملا لیا، اس وقت پورنیہ بنگال کے تین صوبوں میں سے ایک تھا، سیف خان نے بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر پورنیہ اور سلطان پور کے بیچ ایک قلعہ بنوایا جسے جلال گڑھ کا نام دیا گیا جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے، سیف خان نے مسلم ہنر مندوں، تاجروں اور بہادروں کو اپنے صوبے میں بسنے کی ترجیح دی، ان میں سے دو بہت اہم تھے، محمد رضا لگھڑا کشن گنج کے نواب اور امیر تک میر یا برواہا (سلطان پور) کے میر صاحب، میر صاحب نے برواہا کے آس پاس کے پندرہ گاؤں کو خریدلیا،

پلاسی کی لڑائی 1757ء اور اس میں سراج الدولہ کی ہار نے پورے حکومتی ماحول کو بدل دیا۔

1765ء کی الہ باد کی سندھی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی برتاؤ کے طور پر بنگال کی مالک بن گئی، اس کے فوراً بعد سخت حکومت کے لیے بنگال کے صوبوں کو ضلع کہا جانے لگا اور پورنیہ صوبہ بنگال کا ایک ضلع بنا،  جس کی سرحد دارجلنگ سے گنگا ندی تک جاتی تھی۔

بدلی ہوئی حالت میں سلطان پور ایک زمیندارانہ حصہ بن گیا، جس کے آدھے حصہ پر میر صاحب کا حق تھا اور آدھے پر رانی اندرا وتی کا جو اندر نارائن رائے کی اہلیہ تھیں، اس رانی کا میکہ رانی گنج کے پاس کے گاؤں ہنس کولہ تھا اور آج کا رانی گنج رانی اندرا وتی کے نام پر ہی جانا جاتا ہے۔

راجا اندر نارائن کی زمینداری 1850ء میں مرشدابآد کے پرتاپ سنگھ کو بیچ دی گئی، پرتاب سنگھ کے لیے اتنے دور سے اس علاقہ نگرانی کرنا مشکل ہو رہا تھا اس لیے انھوں نے 1859ء میں سلطانپور کی زمینداری ایک انگریز مسٹر الیک زینڈر فاربس کو بیچ دی، اسی کے ساتھ ترقی کے ایک نئے زمانہ کی شروعات ہوئی۔  

دوسری طرف 1860ء میں میر صاحب کا انتقال ہو گیا ان کا کوئی وارث نہیں تھا،  نتیجتاً دھیرے دھیرے ان کی بھی زمینداری الیک زینڈر فاربس کی زمینداری میں شامل ہو گئی یا کر دی گئی،  الیک زینڈر فاربس نے پورے پرغنے میں نیل کی کھیتی کروائی جب یورپ میں کیمیائی طور پر نیل بننے لگا تو نیل کی کھیتی بند کروا دی گئی 1890ء میں الیک زینڈر فاربس اور اس کی بیوی ڈائینا کی ملیریا کے سبب موت ہو گئی، اس کے انتقال تک سلطان پور کی زمینداری پورنیہ ضلع کی سب سے بڑی زمینداری بن گئی تھی۔  

آرتھر ہینری فاربس نے والد کے فوت ہوجانے کے بعد حکومت سنبھالی اسی کے وقت میں سلطان پور کا نام بدل کر فاربس گنج رکھا گیا یہ ظالم قسم کا انسان تھا اسی نے ڈگڈگی پٹوائی کہ سلطان پور کا کوئی بھی باشندہ اپنے رہنے کے لیے پکا مکان نہیں بنائے گا،  

اس خاندان کا آخری وارث مسٹر مکائی تھا،  1947ء کے بعد یہ خاندان انگلینڈ چلا گیا اور آزادی کے بعد سے سنہ 1990ء تک موجودہ ارریہ پورنیہ ضلع کا حصہ بنا رہا،  14 جنوری 1990ء کو یہ ایک نئے ضلع کے طور پر رونما ہوا تب سے یہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔[bih.inc.in 1] 

سنہ 1864ء میں ارریہ برگاچھی کے قریب گرائنی کوٹھی میں ارریہ سب ڈویژن قائم کیا گیا تھا،[1]  

سیلاب کی وجہ سے سنہ 1875ء سب ڈویژن کچہری کو موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا لیکن جس مقام سے حکومت نے اپنی شروعات کی تھی آج وہ جگہ اجاڑ اور نظر انداز کی ہوئی ہے،  ماضی کے کئی حاکموں نے یہاں نہ مٹنے والی نشانیاں چھوڑی ہیں [2]  

دوسری طرف 1860ء کے آس پاس میر صاحب کا انتقال ہو گیا ان کا کوئی وارث نہیں تھا،  نتیجتاً دھیرے دھیرے ان کی بھی زمینداری الیک زینڈر فاربس کی زمینداری میں شامل ہو گئی یا کر دی گئی،  الیک زینڈر فاربس نے پورے پرغنے میں نیل کی کھیتی کروائی جب یورپ میں کیمیائی طور پر نیل بننے لگا تو نیل کی کھیتی بند کروا دی گئی 1890ء میں الیک زینڈر فاربس اور اس کی بیوی ڈائینا کی ملیریا کے سبب موت ہو گئی، اس کے انتقال تک سلطان پور کی زمینداری پورنیہ ضلع کی سب سے بڑی زمینداری بن گئی تھی،  

آرتھر ہینری فاربس نے والد کے فوت ہوجانے کے بعد حکومت سنبھالی اسی کے وقت میں سلطان پور کا نام بدل کر فاربس گنج رکھا گیا یہ ظالم قسم کا انسان تھا اسی نے ڈگڈگی پٹوائی کہ سلطان پور کا کوئی بھی باشندہ اپنے رہنے کے لیے پکا مکان نہیں بنائے گا،  

اس خاندان کا آخری وارث مسٹر مکائی تھا، 1947ء کے بعد یہ خاندان انگلینڈ چلا گیا اور آزادی کے بعد سے سنہ 1990ء تک موجودہ ضلع ارریہ پورنیہ ضلع کا حصہ بنا رہا،  14 جنوری 1990ء کو یہ ایک نئے ضلع کے طور پر رونما ہوا تب سے یہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے [bih.inc.in 1] 

سنہ 1864ء میں ارریہ برگاچھی کے قریب گرائنی کوٹھی میں ارریہ سب ڈویژن قائم کیا گیا تھا،  

سیلاب کی وجہ سے سنہ 1875ء سب ڈویژن کچہری کو موجودہ مقام پر منتقل کر دیا گیا لیکن جس مقام سے حکومت نے اپنی شروعات کی تھی آج وہ جگہ اجاڑ اور نظر انداز کی ہوئی ہے،  ماضی کے کئی حاکموں نے یہاں نہ مٹنے والی نشانیاں چھوڑی ہیں۔[3] 13

نیپال کی قومی سر حد کے پاس بسے ضلع ارریہ میں  آزادی کی جد و جہد کی تاریخ سنہری رہی ہے سنہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی سے لے کر 1942ء کی اگست کرانتی تک ارریہ کے بہادروں نے ہر موقع پر اپنی شہادت دی اور دیش کو غلامی کی زنجیر سے آزاد کرانے میں زبردست مدد دی ضلع کے باشندوں کو ان بہادروں پر فخر ہے،  تاریخی اوراق کے مطابق 1857ء میں جب انگریزوں کے غلاف بغل بچا تو  جلپائی گڑی اور  ڈھاکہ میں تعینات بھارتی جوانوں نے ضلع ارریہ کے ناتھ پور میں انگریزی بندوقوں کا بہادری سے سامنا کیا انگریزوں کو دھول چٹاتے ہوئے بھارتی فوجیوں نے نیپال کی چترا گدھی میں کوسی ندی پار کی اور ترائی جنگل مارک سے اودھ کی بیگم حضرت محل کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھ گیئے حالانکہ اس دوران انھیں کوسی ندی کی تیز دھارا میں اپنے کئی گھوڑے اور سامان گنوانے پڑے لیکن دوسری اور کھڑا میجر رچارڈ سن ان کا بال بھی بانکا نہ کر سکا۔  بہر حال 1857ء کے ان بہادروں نے جس جذبہ سے آزادی کا بیج بویا اس کا پھل بیسویں صدی میں دیکھنے کو ملا۔

ضلع کی تحریک آزادی کا بانی رام دینی تواری دوجدینی کو مانا جاتا ہے ان کی اور بابو بسنت سنگھ کی ماتحتی میں بہادروں کی جو فوج اس علاقہ میں تیار ہوئی اس نے انگریزوں کو ہر وقت ناک میں دم کیے رکھا۔  اور گاندھی جی کے درسی ساتھی رام لال منڈل جنھوں نے ڈانڈی یاترا میں حصہ لیا تھا اور جن کی آواز سریلی تھی باپو کو رامائن سنایا کرتے تھے  اسی ضلع کے بھوڑ ہڑ گاؤ کے باشندہ تھے۔[4] 

ارریہ ابتدائی طور پر ایک دیہاتی ضلع ہے اس کی تقریباً 93 فیصد آبادی دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے ضلع کل 9 تحصیل ہیں جن ميں سے دو ارریہ شہر اور فاربس گنج شہری حیثیت کے حامل ہیں

ضلع کی سرحد ایک قومی سرحد ہے جو شمال مشرق میں نیپال بنگلہ دیش اور بھوٹان کی سرحد سے مس ہے اسی لیے یہ ضلع حفاظتی عملہ کے تحت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

کوسی ندی بہار کے اسی ضلع سے ہوکر گزرتی ہے اور اہم ندی پنار ہے جس سے کاشت کاری میں آب پاشی کی جاتی ہے

دفتری زبان ہندی ہے جبکہ اردو کو دوسرا درجہ حاصل ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم
  • جوکی ہاٹ، جو ضلع ارریہ کے بلاک میں سے ایک اہم بلوک ہے جسے تسلیم الدین مرحوم ایم پی نے اپنی نگرانی میں سینچا ہے

حوالہ جات

ترمیم
  1. jagran.com 17nov. 2013
  2. jagran.com 17 nov. 2013
  3. bharatdiscovery.org