ضلع بہرائچ
بہرائچ ضلع (انگریزی: Bahraich district) بھارت کا ایک ضلع جو اتر پردیش میں واقع ہے۔[2]
ضلع بہرائچ | |
---|---|
اترپردیش کا ضلع | |
سرکاری نام | |
اترپردیش میں محل وقوع | |
ملک | بھارت |
ریاست | اترپردیش |
انتظامی تقسیم | دیوی پاٹن |
صدر دفتر | بہرائچ |
تحصیلیں | 6 |
حکومت | |
• لوک سبھا حلقے | بہرائچ، قیصر گنج |
رقبہ | |
• کل | 4,696.8 کلومیٹر2 (1,813.4 میل مربع) |
آبادی (2011) | |
• کل | 3,478,257 |
• کثافت | 740/کلومیٹر2 (1,900/میل مربع) |
• شہری | 284,044 [1] |
آبادیات | |
• خواندگی | 51.1 per cent |
اوسط سالانہ بارش | 1125 ملی میٹر |
ویب سائٹ | سرکاری ویب سائٹ |
بہرائچ ضلع تاریخی اودھ کا حصہ تھا۔ نانپارہ راجہ وارثوں کا حصہ تھا جس میں قبائلی علاقوں میں تین سو سے زائد گاؤں اور تمام جنگلات کا مالک تھا۔ دیر سے کنگ سادات کی میراث تعلیم تعلیم کے نظام اور اہم سڑکوں اور ہسپتالوں کا ایک بڑا حصہ تھا۔ [3]
تفصیلات
ترمیمبہرائچ ضلع کی مجموعی آبادی 3,478,257 افراد پر مشتمل ہے۔
جنگ آزادی میں بہرائچ کا کردار
ترمیم1857ء کی جنگ آزادی میں بہرائچ کا اہم کردار رہا ہے۔بہرائچ کے چہلاری کے راجا بلبدھر سنگھ نے بیگم حضرت محل کی فوج کی کمان سنبھالی تھی۔اور اسی جنگ میں شہید بھی ہوئے۔بیگم حضرت محل کو راجا چردا نے اپنے قلعہ میں پناہ دی تھی اور وہیں سے وہ بہرائچ کے راستے سے نیپال کو گئی تھی۔اس کے علاوہ بہرائچ کے کئی حصوں میں آزادی کے متوالوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے جنگیں ہوئیں۔کچھ دیسی ریاستوں نے جو پہلے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ تھیں۔جنگ میں ہار جانے کے بعد خود سپردگی کر دی جن میںریاست رہوا ،بھنگا اور ٹیپرہ وغیرہ شامل تھے۔ان کے کچھ علاقے ان سے چھین لیے تھے۔جبکہ ریاست نیپال کے ساتھ معاہدہ میں تلسی پور کے علاقے کو نیپال کو سونپ دیا گیا تھا۔اسی طرح انگریزوں نے کچھ علاقے راجا کپورتھلا اور راجا بلرام پور کو بھی دئے تھے۔[4] 7فروری1856ء کو ریزڈینٹ جنرل آؤٹرم نے اودھ میں کمپنی راج کے نفاد کا علان کیا اور بہرائچ کو ڈویژن کا مرکز بنایا اورمسٹر ونگ فیلڈ کو کمشنر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ لارڈ ڈلہوزی کی ریاست ہڑپنے کی پالیسی کی وجہ سے دیسی راجا اور نواب فرنگی راج کے خلاف تھے۔دہلی میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور لکھنؤ میں بیگم حضرت محل کے علاوہ کانپور میں نانا صاحب اور عظیم اللہ انگریزوں کے خلاف میدان میں تھے۔نانا صاحب پیشوا نے مقامی حکمرانوں سے ملاقات کے لیے بہرائچ آئے اورایک خفیہ اجلاس منعقد کیا جس میں چہلاری ،چردا،بھنگا،بونڈی،ٹپررہ وغیرہ کے حکمرانوں نے شرکت کی اور یہ عہد کیا کی موت تک آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔[5] بہرائچ میں اس وقت جنگ بڑے پیمانے پر تھی۔ریکواری کے تمام حکمراں اس وقت عوام کے ساتھ تھے۔جب یہ جد وجہد چل رہی تھی اس وقت 3 برٹس آفیسر نانپارہ کی طرف بھاگے لیکن عوام نے انھیں روک لیا اور انھیں واپس ہونا پڑا جہا ں سے وہ لکھنؤ کے لیے چل دئے لیکن جب یہ سب بہرام گھاٹ(گنیش پور)پہنچے تو اس وقت تمام ناؤ دیسی عوام کے قبضے میں تھی۔جہاں ہندستانی عوام سے فرنگی آفیسروں کا مورچا ہوا جس میں یہ سب آفیسر مارے گئے۔ اور پھر آزادی کے متوالوں نے پورے ضلع کو فرنگی لوگوں سے آزاد کرا لیا تھا اور 1858 ء تک بہرائچ مجاہدین آزادی کے قبضہ میں رہا۔[6] بہرائچ سے اتر میں نیپال کی سرحد کے قریب واقع تلسی پور قلعہ مجاہدین آزادی کا مضبوط قلعہ تھا جہاں نانا صاحب ،ان کے بھائی بالا راؤ نے پناہ لے رکھی تھی بعد میں دسمبر 1858 کو برطانوی فوج نے نانپارہ پر قبضہ کیا۔ پورے نانپارہ کو لوٹا اور برباد کر دیا گیا تھا۔مجاہدین آزادی برگادیا کے قلعہ پر فوجیوں کے خلاف ایکجا ہوئے اور وہاں ایک عظیم جدوجہد ہوئی۔تقریبا. 4000 فوجی بھاگ گئے اور مسجیدہ کے بہتّر قلعہ میں پناہ گزین ہو گئے لیکن پھر بھی برطانوی فوج نے قلعہ کو تباہ کر دیا اور یہ جنگ دھرمن پور میں واقع ہوئی. کلائیو نے دوسرے سپاہیوں کو جو دریا ئے راپتی کے کنارے پر رہ رگے تھے انھیں دوسری جانب منتقل کر دیا۔27 دسمبر 1858 کو برطانوی فوج چردا کی طرف منتقل ہو گئی اور 2 دن کی جنگ کے بعد برطانوی فوج نے چردا پر قبضہ کر لیا تھا۔29 دسمبر 1858 کو برطانوی فوج نانپارہ واپس آگئی۔[7] 1920ءمیں یہاں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی بنیاد ڈالی گئی جب یہاں سے کچھ لوگوں نے ناگپور کنونشن میں شرکت کی تھی۔جب کی اس وقت شہری علاقوں میں ہوم رول لیگ بہت مقبول تھی لیکن کچھ وقت میں بابا یوگل بہاری،شیام بہاری پانڈے، خواجہ خلیل احمد شاہ،مولانا محفوظ الرحمن نامیؔ،پنڈت بھگوان دین مشرا،ٹھاکر حکم سنگھ ،مولانا سلامت اللہ ،مولوی کلیم اللہ نوری وغیرہ اہم تھے۔[8] مہاتما گاندھی 1929ء میں بہرائچ آئے اور ایک عوامی اجلاس سے گورنمینٹ انٹر کالج (اب مہاراج سنگھ انٹر کالج)میں خطاب کیا تھا۔اور انھیں بہرائچ کی عوام نے 3500 روپئے کا چندہ بھی دیا تھا ہرجنوں کی فلاح بہبود کے لیے تھا۔ نمک قانون توڑنے کے کے لیے گاندھی جی نے ڈاندی مارچ کیا تھا جس کے سبب گاندھی جی کو حراست میں لے لیا گیا تھا اس کے احتجاج میں بہرائچ کے مقامی گھنٹہ گھر میں لوگوں نے نمک بنا کر قانون کو توڑنے کا اعلان کیا تھا۔تمام اہم رہنماؤں کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔[9]1931 ءکو پنڈت جواہر لعل نہرو نے بہرائچ کا دورہ کیا اور رامپوروہ،ہردی ، گیلولا،اکونا میں عوامی اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ 762 افراد نے گاندھی جی کے سستیا گرہ کے لیے اپنے نام دیاتھا جن میں سے 371 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔گاندھی جی کو 9 اگست 1942ء بھارت چھوڑوتحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھااس وقت ضلع میں احتجاجی جلوس کا انعقاد ہوا جس میں تمام مقامی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔[10]
ندیاں و جھلیں
ترمیمبہرائچ میں کئی ندیاں اور جھلیں ہے۔یہاں کی جھلیوں میں سب سے مشہور جھیل انار کلی جھیل ہے۔یہ جھیل درگاہ سید سالار مسعود غازیؒ کے قریب تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔یہاں سے ایک ندی بھی نکلی ہے جو آگے چل کر دوسری ندیوں میں مل جاتی ہے۔یہ جھیل شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے ایک تفریح گاہ ہے جہاں ہر اتوار اور جمعرات کو کافی تعداد میں شہر کے لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں۔سالانہ میلہ میں درگاہ آنے والے زائرین درگاہ پر حاضری دینے سے پہلے یہاں غسل کرتے ہیں پھر درگاہ حاضری کو جاتے ہیں۔یہاں لوگ مچھلیوں کا شکار بھی خوب کرتے ہیں۔کچھ سال پہلے تک اس جھیل میں پان کی کھیتی بھی ہوتی تھی۔[11] دوسری مشہور جھیل تال بگھیل ہے۔یہ صوبہ اترپردیش کے بڑے ویٹ لینڈ میں شمار ہوتی ہے۔یہ جھیل پیاگپور کے قریب واقع ہے۔اس کے علاوہ چتوڑ تال بھی مشہور جھیل ہے۔بہرائچ میں سرجو اور گھاگھرا دو بڑی ندیاں ہے۔سرجو ندی بہت ٹیڑی ندی ہے اس کابہاؤ بہت تیز ہے۔برسات کے دنوں میں اس میں سیلاب ہمیشہ آتا ہے۔ابن بطوطہ نے اس کا ذکر کرے ہوئے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ بہرائچ ایک خوبصورت شہر دریائے سرجو کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکثر اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔گھاگھرا ندی ضلع کی سرحد کا کام کرتی ہے۔گھاگھرا ضلع کے اندر نہیں بلکہ سرحد سے ہو تی ہوئی نکل جاتی ہے۔یہ ندی بہرائچ اور لکھیم پور کی سرحد سے شروع ہوتی ہے اور سیتاپور اور بارہ بنکی ہوتے ہوئے یہ گوندہ ضلع میں جاتی ہے۔[12]
جنگلات
ترمیمکترنیا گھاٹ وائلڈ لائف علاقہ ضلع بہرائچ کا مشہور سیاحتی جنگل ہے جو 400.6 کلومیٹر (154.7 مربع میٹر) کے ایک علاقے پر مشتمل ہے۔ 1987 میں، 'پراجیکٹ ٹائیگر' کے نقطہ نظر کے تحت اسے لایا گیا تھا اور اس کے علاوہ کشن پور وائلڈ لائف اور دودھوا نیشنل پارک کے ساتھ یہدودھوا ٹائیگر ریزرو بناتا ہے۔یہ 1975 میں قائم کیا گیا تھا۔کترنیا گھاٹ جنگل میں بھارت کے دودھوا نیشنل پارک اور کشن پور کے شیر کے رہائشی علاقوں اور نیپال کے بردیا نیشنل پارک کے درمیان اسٹریٹجک کنیکٹوٹی فراہم کرتا ہے۔[13]
تحصیل
ترمیمبہرائچ ضلع 6 تحصیلوں میں بنٹا ہوا ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیمویکی ذخائر پر ضلع بہرائچ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- ↑ https://www.census2011.co.in/census/district/551-bahraich.html
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Bahraich district"
- ↑ مرات الاولیاء فارسی مترجم اردو مصنف سید محمد بن سید حسین اودہ
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ گزیٹیر 1988
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ گزیٹیر 1988
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ بہرائچ ایک تارٰیخی شہر
- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/Katarniaghat_Wildlife_Sanctuary
- ↑ https://bahraich.nic.in/tehsil/
- ↑ https://en.wikipedia.org/wiki/Katarniaghat_Wildlife_Sanctuary