انڈین نیشنل کانگریس

بھارت کی بڑی سیاسی جماعت
(کانگریس پارٹی سے رجوع مکرر)

انڈین نیشنل کانگریس (جسے کانگریس پارٹی اور آئی این سی بھی کہا جاتا ہے) بھارت کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت کا قیام دسمبر 1885ء میں عمل میں آیا جب ایلن اوکٹیوین ہیوم، دادابھائی نوروجی، ڈنشا واچا، ومیش چندر بونرجی، سریندرناتھ بینرجی، مونموہن گھوش اور ولیم ویڈربرن نے اس کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے بعد یہ ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک اہم جماعت بن گئی اور تحریک آزادی ہند کے دوران اس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد اراکین تھے۔

مخففINC
صدرملیکارجن کھرگے[1][2]
بانیA.O. Hume
ومیش چندر بنرجی
سریندر ناتھ بنرجی
من موہن گھوش
ولیم ویڈربرن
دادا بھائی نوروجی
بدرالدین طیب جی
فیروز شاہ مہتہ
ڈنشا ایڈولجی واچا
مہادیو گوویند رانڈے[3]
پارلیمانی چیئرپرسنسونیا گاندھی[4]
لوک سبھا رہنماراہل گاندھی
(LoP in Lok Sabha)
راجیہ سبھا رہنماملیکارجن کھرگے
(قائد حزب اختلاف راجیہ سبھا)
تاسیس28 دسمبر 1885 (139 سال قبل) (1885-12-28)
صدر دفترIndira Bhawan, 9 A, Kotla Marg, New Delhi-110001[5]
طلبا تنظیمNational Students' Union of India
یوتھ ونگIndian Youth Congress
خواتین وِنگAll India Mahila Congress
لیبر ونگIndian National Trade Union Congress
کسان ونگKisan and Khet Mazdoor Congress[6]
رکنیت55 million (2023)[7][8]
نظریات
سیاسی حیثیتمرکزیت[21]
بین الاقوامی اشتراکProgressive Alliance[22]
سوشلسٹ انٹرنیشنل[26]
ای سی آئی حیثیتNational Party[27]
اتحاد
Former Alliances
لوک سبھا میں نشستیں
101 / 543
(542 MPs and 1 vacant)[a][28] / 545
<div style="background-color: #00BFFF; width: خطاء تعبیری: غیر متوقع < مشتغل۔%; height: 100%;">
[29](موجودہ 541 ارکان + 1 اسپیکر)
راجیہ سبھا میں نشستیں
27 / 245
(231 MPs and 14 vacant)[30][31]
ودھان سبھا میں نشستیں
653 / 4,036

(4030 MLAs and 5 vacant)

(see complete list)
ودھان پریشد میں نشستیں
61 / 426

(390 MLCs and 36 vacant)

(see complete list)
حکومت میں ریاستوں و یونین علاقوں کی تعداد
6 / 31
(28 States and 3 UTs)
انتخابی نشان
جماعت کا پرچم
ویب سائٹ
www.inc.in/،%20https://www.elections.in/political-leaders/sonia-gandhi.html

پاکستان کے بانی محمد علی جناح بھی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میں موہن داس گاندھی، جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، راجندرہ پرساد، خان عبدالغفار خان اور ابو الکلام آزاد زیادہ معروف ہیں۔ ان کے علاوہ سبھاش چندر بوس بھی کانگریس کے سربراہ رہے تھے تاہم انھیں اشتراکی نظریات کی وجہ سے جماعت سے نکال دیا گیا۔

بعد آزاد تقسیم کے معروف کانگریسی رہنماؤں میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی معروف ہیں۔

1947ء میں تقسیم ہند کے بعد یہ ملک کی اہم سیاسی جماعت بن گئی، جس کی قیادت بیشتر اوقات نہرو گاندھی خاندان نے کی۔ 15 ویں لوک سبھا (2009ء تا حال) میں 543 میں سے اس کے 206 اراکین تھے۔ یہ جماعت بھارت کے حکمران یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس کی سب سے اہم رکن ہے۔ یہ بھارت کی واحد جماعت ہے جس نے گذشتہ تین انتخابات (1999ء، 2004ء، 2009ء) میں 10 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔۔

کانگریس کو 1975ء میں بھارت میں ہنگامی حالت کے نفاذ اور 1984ء میں سکھ مخالف فسادات (آپریشن بلیو اسٹار) کے باعث شدید تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔

تاریخ

ترمیم

کانگریس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا دور

ترمیم

اس کا پہلا حصہ 1885ء سے 1905ء تک محیط رہا۔ اس دور کو اعتدال پسندوں کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ کانگریس پر ان رہنماؤں کا غلبہ رہا جو حکومت کے وفادار تھے۔ مغربی تعلم سے آراستہ تھے، برطانوی جمہوری اداروں کو ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کے منصفانہ جذبہ میں یقین رکھتے تھے اور ان کے وجود کو ہندوستان کے باعث رحمت تصور کرتے تھے۔

دوسرا دور

ترمیم

اعتدال پسندوں کی پالیسی سے کانگریس کے رہنماؤں کا ایک طبقہ اختلاف رکھتا تھا۔ وہ اعتدال پسندوں کی اصلاحات اور مراعات کی پالیسی کو خیرات کی پالیسی سے تعبیر کرتا تھا اور ہندوستان کو ہندوستانیوں کی تقدیر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر ہندوستانیوں کا تصور کرتا تھا۔ یہ دور 1905ء سے 1919ء تک جاری رہا اور انتہا پسندوں کے دور سے موسوم ہوا۔ اس کے رہنماؤں میں لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھر تلک اور بپن چندر پال بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ 1907ء میں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب دو حصوں میں منقسم ہو گئی اور اعتدال پسندوں کو کانگریس کی رکنیت سے خارج کر دیا۔ بعد ازاں 1916 میں جب مسلم لیگ اور کانگریس نے میثاق لکھنؤ پر دستخط کیے تو انتہا پسندوں کو دوبارہ کانگریس میں داخل کر لیا گیا۔ 1918 میں مانٹیگو جیمسفورڈ اصلاحات پر اختلافات کے سبب اعتدال پسند کانگریس سے منحرف ہو گئے اور انھوں نے اپنے آپ کو لبرل پارٹی کے نام سے منظم کر لیا۔

تیسرا دور

ترمیم

کانگریس کا تیسرا دور 1919ء سے 1947ء تک محیط رہا ہے۔ اسے مہاتما گاندھی کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں گاندھی نے افریقا سے ہندوستان واپس آ کر 1917ء میں چمپارن میں ستیہ گرہ کیا۔ احمد آباد کے مل مزدوروں کی تحریک چلائی۔ 1919ء رولٹ بل کی مخالفت میں ستیہ گرہ کیا۔ 1920ء میں خلافت عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ 1930ء میں ڈانڈی مارچ کر کے نمک کا قانون توڑا۔ 1932ء میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا۔ 1940ء میں جنگ کے خلاف انفرادی ستیہ گرہ کیا اور 1942 میں ابو الکلام آزاد کی صدارت میں "ہندوستان چھوڑ دو" تحریک کی قرارداد پیش کی۔ اس کے نتیجے میں کانگریس کے تمام رہنماؤں کو گرفتا ر کر کے گاندھی جی کو آغا خان پونا میں نظر بند کر دیا گیا اور دوسرے رہنماؤں کو احمد نگر کے تاریخی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔

23 مارچ 1940ء کو جب مسلم لیگ نے لاہور میں اجلاس میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر لاہور قرارداد کے تحت مسلمانوں کے لیے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگریس نے شدت سے اس کی مخالفت کی لیکن برطانوی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کی پالیسی سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی مدد بھی کی اور بالآخر ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ذریعہ تین جون پلان کے تحت 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور 15 اگست کو ہندوستان آزاد ہو گیا۔ حصولِ آزادی کے بعد کانگریس تین برس تک مرکز اور کئی برسوں تک ریاستوں میں برسرِ اقتدار رہی۔ تاہم کانگریس کو 1977ء میں مسنر اندرا گاندھی کے الیکشن میں ناکامی کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور جنتا پارٹی نے مرار جی ڈیسائی کے زیر قیادت اقتدار کی ذمہ داری سنبھالی تاہم 1980ء میں مسنر گاندھی دوبارہ برسرِ اقتدار آ گئیں اور انھوں نے کانگریس کو کانگریس، آئی، کے نام سے موسوم کیا۔ مسنر گاندھی اس کی صدر منتخب ہوئیں۔ اکتوبر 1984ء میں ان کی ہتھیا کے بعد ان کے بیٹے راجیو گاندھی کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1989ء میں کانگریس پھر اقتدار سے محروم ہو گئی۔ تاہم 1991میں پھر برسرِ اقتدار آ گئی اور 1995ء تک صدر کانگریس نرسمہاراؤ کی وزارتِ عظمیٰ میں اقتدار پر قابض رہی۔ اس کے بعد سے 2001ء تک یہ اقتدار سے محروم ہے اور اس کی باگ ڈور راجیو گاندھی کی بیوی اور مسنر اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔

کانگریس سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم

ترمیم

عام انتخابات میں نتائج

ترمیم
سال مقننہ پارٹی رہنما نشستیں جیتیں نشستوں میں تبدیلی شرح ووٹ ووٹ میں تبدیلی نتیجہ
1934 5th Central Legislative Assembly بھولا بھائی ڈیسائی
42 / 147
  42
1945 6th Central Legislative Assembly Sarat Chandra Bose
59 / 102
  17 Interim Government of India (1946–1947)
1951 1st Lok Sabha جواہر لعل نہرو
364 / 489
  364 44.99% Government
1957 2nd Lok Sabha
371 / 494
  7 47.78%   2.79% Government
1962 3rd Lok Sabha
361 / 494
  10 44.72%   3.06% Government
1967 4th Lok Sabha اندرا گاندھی
283 / 520
  78 40.78%   2.94% Government
1971 5th Lok Sabha
352 / 518
  69 43.68%   2.90% Government
1977 6th Lok Sabha
153 / 542
  199 34.52%   9.16% Opposition
1980 7th Lok Sabha
351 / 542
  198 42.69%   8.17% Government
بھارت کے عام انتخابات، 1984ء 8th Lok Sabha راجیو گاندھی
415 / 533
  64 49.01%   6.32% Government
1989 9th Lok Sabha
197 / 545
  218 39.53%   9.48% Opposition
1991 10th Lok Sabha نرسمہا راؤ
244 / 545
  47 35.66%   3.87% Government
1996 11th Lok Sabha
140 / 545
  104 28.80%   7.46% Opposition, later اعتماد اور رسد for UF
1998 12th Lok Sabha سیتارام کیسری
141 / 545
  1 25.82%   2.98% Opposition
1999 13th Lok Sabha سونیا گاندھی
114 / 545
  27 28.30%   2.48% Opposition
2004 14th Lok Sabha
145 / 543
  31 26.7%   1.6% Government
2009 15th Lok Sabha
206 / 543
  61 28.55%   2.02% Government
بھارت کے عام انتخابات، 2014ء 16th Lok Sabha راہل گاندھی
44 / 543
  162 19.3%   9.25% Opposition
بھارت کے عام انتخابات، 2019ء سترہویں لوک سبھا
52 / 543
  8 19.5%   0.2% Opposition
بھارت کے عام انتخابات، 2024ء
101 / 543
  49 21.7%  2%
 
سونیا گاندھی، کانگریس کی موجودہ عبوری صدر

بیرونی روابط

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Mallikarjun Kharge wins Congress Presidential elections, set to become first non-Gandhi head of party in 24 years"۔ The Economic Times۔ 3 جون 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-10-21
  2. Sandeep Phukan (19 اکتوبر 2022)۔ "Mallikarjun Kharge wins Congress presidential election with over 7,800 votes"۔ The Hindu
  3. "Smt Sonia Gandhi re-elected as chairperson of Congress parliamentary party"۔ inc.in۔ 25 جون 2024
  4. "From 24 Akbar to 9 Kotla Road...how many Congress offices changed in 138 years?"۔ ABP News۔ 22 دسمبر 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-12-22
  5. "Kisan and Khet Mazdoor Congress sets 10-day deadline for Centre to concede demands"۔ The Hindu۔ 16 جون 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-03-10
  6. "Southern states ahead in Congress membership drive, Telangana unit leads"۔ ThePrint۔ 28 مارچ 2022
  7. "Congress' Digital Membership Drive Gains Focus With Boost in Participation, South Contributes Significantly"۔ اے بی پی نیوز۔ 27 مارچ 2022
  8. ^ ا ب پ Lowell Barrington (2009)۔ Comparative Politics: Structures and Choices۔ Cengage Learning۔ ص 379۔ ISBN:978-0-618-49319-7
  9. Karl Ernest Meyer؛ Shareen Blair Brysac (2012)۔ Pax Ethnica: Where and How Diversity Succeeds۔ PublicAffairs۔ ص 50۔ ISBN:978-1-61039-048-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-04-07
  10. [9][10]
  11. Emiliano Bosio؛ Yusef Waghid، مدیران (31 اکتوبر 2022)۔ Global Citizenship Education in the Global South: Educators' Perceptions and Practices۔ Brill۔ ص 270۔ ISBN:9789004521742
  12. Peter Ronald DeSouza (2006)۔ India's Political Parties Readings in Indian Government and Politics series۔ سیج پبلی شنگ۔ ص 420۔ ISBN:978-9-352-80534-1
  13. Stephen J. Rosow؛ Jim George (2014)۔ Globalization and Democracy۔ Rowman & Littlefield۔ ص 91–96۔ ISBN:978-1-4422-1810-9
  14. [12][13][14]
  15. Nehru on Social Issues۔ New Delhi: Concept Publishing۔ 1989۔ ISBN:978-817022207-1 {{حوالہ کتاب}}: الوسيط غير المعروف |مرتب آخری1-first= تم تجاهله (معاونتالوسيط غير المعروف |مرتب آخری1-last= تم تجاهله (معاونتالوسيط غير المعروف |مرتب آخری2-first= تم تجاهله (معاونت)، والوسيط غير المعروف |مرتب آخری2-last= تم تجاهله (معاونت)
  16. [9][16]
  17. ^ ا ب J. Christopher Soper؛ Joel S. Fetzer (2018)۔ Religion and Nationalism in Global Perspective۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ص 200–210۔ ISBN:978-1-107-18943-0
  18. "Political Parties – NCERT" (PDF)۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-02-14
  19. Jean-Pierre Cabestan, Jacques deLisle، مدیر (2013)۔ Inside India Today (Routledge Revivals)۔ روٹلیج۔ ISBN:978-1-135-04823-5۔ ... were either guarded in their criticism of the ruling party – the centrist Indian National Congress – or attacked it almost invariably from a rightist position. This was so for political and commercial reasons, which are explained, ...
  20. [9][19][20]
  21. "Progressive Alliance Participants"۔ Progressive Alliance۔ 2015-03-02 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-20
  22. "Full Member Parties of Socialist International"۔ Socialist International
  23. Gabriel Sheffer (1993)۔ Innovative Leaders in International Politics۔ SUNY Press۔ ص 202۔ ISBN:978-0-7914-1520-7۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-01-30
  24. "Meeting of the SI Council at the United Nations in Geneva"۔ Socialist International
  25. [23][24][25]
  26. "List of Political Parties and Election Symbols main Notification Dated 18.01.2013" (PDF)۔ India: Election Commission of India۔ 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-05-09
  27. National Informatics Centre (19 اپریل 2023)۔ "List of Lok Sabha Members"۔ Digital Sansad۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-02-13
  28. "Members: Lok Sabha"۔ loksabha.nic.in۔ لوک سبھا سیکریٹریٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-03-12 {{حوالہ ویب}}: استعمال الخط المائل أو الغليظ غير مسموح: |publisher= (معاونت) والوسيط غير المعروف |deadurl= تم تجاهله (معاونت)
  29. "Party Position in the Rajya Sabha" (PDF)۔ Rajya Sabha۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-07-14
  30. National Informatics Centre (14 نومبر 2022)۔ "List of Members"۔ Digital Sansad۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-02-13
  31. "AICC Office bearers, General Secretaries"۔ Indian National Congress۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-02-15