ضلع مئو

اتر پردیش کا ایک ضلع

مئو ضلع (انگریزی: Mau district) بھارت کا ایک ضلع جو اتر پردیش میں واقع ہے۔ مئو ضلع کا صدر مقام مئو ناتھ بھنجن ہے جو اب صرف مئو کے نام سے جانا جاتا ہے۔[1]


मऊ
Uttar Pradesh کا ضلع
سرکاری نام
Uttar Pradesh میں محل وقوع
Uttar Pradesh میں محل وقوع
ملکبھارت
ریاستUttar Pradesh
انتظامی تقسیمAzamgarh
صدر دفترVaranasi
تحصیلیںMau
حکومت
 • لوک سبھا حلقےGhosi
رقبہ
 • کل1,713 کلومیٹر2 (661 میل مربع)
آبادی (2011)
 • کل2,205,170
 • کثافت1,300/کلومیٹر2 (3,300/میل مربع)
آبادیات
 • خواندگی75.16 per cent
 • جنسی تناسب978
اہم شاہراہیںNH-29
ویب سائٹسرکاری ویب سائٹ

وجہ تسمیہ

ترمیم

مئو شہر کی تاریخ کو لے کر کئی سارے قصے مشہور ہیں۔ ترکی زبان میں لفظ مئو کا معنی چھاؤنی یا پڑاؤکے ہوتا ہے۔ شیرشاہ سوری اور اورنگ زیب جیسے نامور بادشاہوں نے اس شہر کو اس طور پر استعمال کیا ہے۔ شیرشاہ سوری کا ٹونس ندی پر بنوایا ہوا پُل گری ہوئی حالت میں آج بھی موجود ہے اور محلّہ کیاری ٹولہ میں اورنگ زیب کی بہن جہاں آراء بیگم کی تعمیر کردہ شاہی مسجد کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بہت پہلے کبھی یہاں ایک نٹ رہا کرتا تھا جو یہاں کے لوگوں پر ظلم ڈھاتااور تنگ کرتا۔ شہر کی ایک عظیم شخصیت ملک طاہر بابا نے اس کی ظالمانہ کرتوتوں کی وجہ سے اسے شہر چھوڑنے کو کہا اور نٹ اس شرط پر راضی ہوا کہ کشتی کا مقابلہ ہو، جو ہار جائے وہ شہر چھوڑ دے۔ ملک طاہر بابا جیت گئے اور نٹ کو شہر چھوڑنا پڑا۔ اس طرح سے شہر کا نام مئو نٹ بھنجن (چھاؤنی جہاں نٹ کا بھنجن یعنی ناش ہوا) پڑاجو آگے چل کر مئو ناتھ بھنجن ہو گیا۔ ملک طاہر بابا کا مقبرہ شہر کے ملک طاہر پورہ محلّہ روضہ کے صحن میں واقع ہے۔

حدودِ اربعہ

ترمیم

مئو ضلع کے مشرِق میں بلیا، شمال میں گورکھپور اور دیوریا، جنوب میں غازیپور اور مغرِب میں اعظم گڑھ سے گھرا ہوا ہے۔ ضلع کی شمالی سرحد پر گھاگھرا ندی اور مئو شہر کے درمیان سے دریائے ٹونس گزرتی ہے۔

تفصیلات

ترمیم

مئو شہر دریائے ٹونس کے دکھنی کنارے پر بسا ہے۔ یہ شہر علمی، تاریخی، تجارتی اور یکجہتی تمام صفات کا حامل ہے۔ یہاں کے لوگ بہت ملنسار اور خوش مزاج ہیں، مہمان نوازی ان کا شیوہ ہے۔ یہاں کے لوگ ایک عجیب و غریب زبان بولتے ہیں جس میں عربی، فارسی، ترکی اور دوسری کئی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں جس میں کچھ ہو بہو موجود ہیں اور کچھ اپنی اصلی حالت کھو چکے ہیں۔ پارچہ بافی (کپڑا بُننا)یہاں کا خاص پیشہ ہے۔ مئو شہر میں نگر پالیکا پریشد قائم ہے جس کی موجودہ چیئر مین طیب پالکی ہیں۔

ضلع مئو، اعظم گڑھ کمشنری کا حصّہ ہے اور پہلے ضلع اعظم گڑھ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ صوبائی سرکار نے 19/ نومبر 1988 ء کو ایک الگ ضلع کے طور پرمئو کا قیام کیا۔ حالانکہ یہ علاقہ بادشاہ شیر شاہ سوری کے دورِ حکومت میں فوجی چھاؤنی کے طور پر مستعمل ہوا۔ جہاں آراء بیگم کی بنوائی ہوئی تاریخی مسجد جسے شاہی کٹرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے آج بھی اس کے کنارے فوجیوں کے کمروں کے نشانات موجود ہیں۔ ضیاءالدین برنی کی کتاب تاریخِ ھند میں مغلِ اعظم شہنشاہِ اکبر کے مئو سے گزرنے کا ذکر ہے۔ شیر شاہ سوری کے جی ٹی روڈ کے لیے دریائے ٹونس پر بنائے گئے پُل کی علامتیں آج بھی موجود ہیں جس کے ٹوٹے ہوئے حصے پر آج ایک مندر تعمیر ہو چکی ہے۔ مئو ضلع کی مجموعی آبادی 2,205,170 افراد پر مشتمل ہے۔

مذہبی اور تاریخی مقامات

ترمیم

مئو شہر سبھی مذاہب کے ساتھ یکجہتی کا ایک نمونہ ہے، شہر میں جہاں ایک اور مُغلیہ دورِ حکومت کی شاہی مسجد ہے تو وہیں تھوڑی ہی دوری پر شیتلا دیوی کا مندِر ہے۔ روضہ مُحلّہ کے صحن میں ملک طاہِر بابا کا مقبرہ ہے جہاں زبانی افسانوں کے مطابق ان کے قدموں کے نشان سیڑھیوں پر آج بھی موجود ہیں۔ تاریخی محلہ اورنگ آباد میں واقع پھاٹک والی مسجد کا شمار شہر کی قدیم ترین مساجِد میں ہوتا ہے۔ اُسی محلہ میں لبِ دریا واقع عید گاہ، اِمام باڑہ اور ساتھ ہی مُغلیہ دور کا تاریخی غسل خانہ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر واقع بنگالے بابا کی مسجد بھی بہت معروف ہے۔ پہر سے کچھ دوری پر بن دیوی کا مندِر ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔ محلہ حُسین پورہ سندھی کالونی میں شہداءِ جنگ آزادی کی یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔ مئو ضلع کا مدھوبن قصبہ جنگِ آزادی کے لیے کافی مشہور ہے، یہاں 1942 ء میں ہندوستانیوں نے انگریزوں کا جم کر مُقابلہ کیا تھا اور کئی لوگ شہید بھی ہو گئے تھے۔ مئو ضلع کے قصبہ دوہری گھاٹ میں 3/ اکتوبر 1939 ء کو موہن داس کرم چند گاندھی آئے تھے اور اِس تحریک مین بہت لوگوں نے شر کت کی تھی۔

ذرائع آمد و رفت

ترمیم

مئو ضلع میں آمدو رفت کا اچھا اِنتظام ہے ریلوے کا آغاز یہان 15/ مارچ 1899 ء کو ہی ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی یہاں کچی اور پکی سڑکوں کا جال سا بِچھا ہوا ہے۔ اِس کی وجہ سے یہاں تجارت کو بھی بہت فائدہ ملتا ہے۔

صنعت

ترمیم

مئو ضلع پارچہ بافی کے لیے بہت مشہور ہے۔ یہاں کی ہینڈ لوم اور پاور لوم کی بنی ہوئی ساڑیاں پوری دُنیا میں اِستعمال ہوتی ہیں۔ یہاں لنگیوں اور کھادی کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ رنگائی، کڑھائی اور زردوزی کے لیے بھی اِس کی الگ پہچان ہے۔ پرنٹنگ، بیڑی، اینٹ، برف، صابُن، چمڑے اور مٹی کے برتنوں کا کام بھی یہاں ہوتا ہے۔

تعلیم و تربیّت

ترمیم

تعلیم کے لحاظ سے مئو کافی اچھا ہے، یہاں کا شرحِ تعلیم 2011 کی مردُم شُماری کے مطابِق 75٫16 % ہے جو قومی شرحِ تعلیم سے زیادہ ہے۔ اِس میں مردوں کی شرح 84٫61% اور عورتوں کی شرحِ تعلیم 65٫59 %ہے۔ اس کو یہاں تک پہنچانے میں مدرسوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہاں مدرسوں کی خاصی تعداد ہے۔ اِسلامی تعلیم یہاں کاخاصّہ ہے۔ مدرسہ عالیہ عربیہ، جامعہ فیضِ عام، جامِعہ اثریہ دارالحدیث، مدرسہ دار العلوم،جامِعہ مِفتاحُ العلوم، مدرسہ تعلیمُ الدّین، مدرسہ مِرقاۃ العلوم، مدرسہ حنفیہ اہل سنت بحرُالعلوم، مدرسہ نورُالاسلام، کُلیّہ فاطِمۃ الزہرا، الجامِعۃ الاسلامیّہ للبنات، مدرسہ عزیز العلوم، مدرسہ قادریہ مجددیہ، مدرسہ عالیّہ نِسواں مئو کے خاص مدارِس ہیں۔ اِن کے علاوہ گھوسی، کوپا گنج، چریّا کوٹ، خیر آباد، محمدآباد، اندارا اور پورہ معروف (پورہ گھاٹ ) میں بھی کئی مدارِس واقع ہیں۔

عصری تعلیم کے لیے تعلیمُ الدّین اِنٹر کالج مئو، مسلم اِنٹر کالج مئو، ڈی اے وی اِنٹر کالج مئو، نُعمانی اِنٹر کالج مئو، دارالحدیث اِنٹر کالج مئو، دار العلوم بُوائز اِنٹر کالج مئو، تعلیمُ الدّین گرلس اِنٹر اور ڈگری کالج مئو، ڈی سی ایس کے پی جی کالج مئو، سروودے ڈگری کالج گھوسی، باپو اِنٹر کالج کوپاگنج، ٹاؤن اِنٹر کالج محمدآباد، نیشنل اِنٹر کالج محمد آباد اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ اِنگلِش میڈیم کے اسکولوں میں فاطِمہ کانوینٹ اسکول، لیٹِل فلاور اسکول، سنبیم اسکول اور کیندریّہ وِ دّ یالے خاص ہیں۔

مذہبی شخصیات

ترمیم

ضلع مئو میں نامور علمائے دین پیدا ہوئے ہیں جن میں چند مشہور و معروف شخصیات کے نام درج ذیل ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Mau district"