عبدالمغنی (بہار)

ڈاکٹر عبدالمغنی بہار (بھارت) سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے نقاد، ماہر اقبالیات اور اپنے ملک کے مسلمان دانشور تھے۔

ڈاکٹر عبد المغنی بہار (بھارت) سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے نقاد، ماہر اقبالیات اور اپنے ملک کے مسلمان دانشور تھے۔

خاندان

ترمیم

مغلیہ دور میں اورنگ آباد میں عبد المغنی کے ایک جد امجد کو قاضی مقرر کیا تھا۔ خود ان کے والد قاضی عبد الرؤف دیوبند اور ندوۃالعلماء کے فارغ التحصیل اور اورنگ آباد میں قاضی تھے۔[1]

تعلیم

ترمیم

عبدالمغنی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور باضابطہ دینی تعلیم کے لیے وہ مدرسہ شمس الہدیٰ، پٹنہ میں داخل ہوئے جہاں پرنسپل کے طور پر مشہور مورخ و عالم دین مولانا ریاست علی ندوی تعینات تھے اور اساتذہ میں تحریک اسلامی کے معروف عالم دین مولانا عروج احمد قادری جیسے جیّد علما شامل تھے۔ عبدالمغنی کے ہم جماعت طلبہ میں مولانا ارتضیٰ الدین ضیائی سہسرامی بھی تھے جو بعد میں جماعت اسلامی بہار کی شوری کے رکن، ناظم علاقہ اور مجلس نمائندگان جماعت اسلامی ہند کے رکن بھی رہے۔ ان دونوں ہم جماعت طلبہ کے درمیان تاعمر دوستانہ روابط قائم رہے۔ ان دونوں نے مولانا عروج قادری کی سبکدوشی کے خلاف مدرسہ کی انتظامیہ کے سامنے مطالبات رکھے اور اسٹرائک کی تحریک بھی چلائی۔ مدرسہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد عبدالمغنی نے پٹنہ یونیورسٹی سے انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ ایک بار ترجمۂ قرآن پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے ارشد اجمل اور شبیر عالم سے کہا کہ اپنی عربی، فارسی اور انگریزی استعداد کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلامی فقہ کے وسیع مطالعہ کی وجہ سے وہ بہتر پوزیشن میں ہیں کہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے عربی الفاظ کی صحیح معنویت کو انگریزی میں منتقل کر سکیں۔ انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ ترجمہ کا کام مکمل کیا۔ عبد المغنی نے ٹی۔ایس ایلیٹ کے تنقیدی نظریات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے مقالے کا انگریزی عنوان T S Elliot: Concept of Culture تھا۔[1]

ملازمت

ترمیم

عبد المغنی نے عملی زندگی کا آغاز انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا۔ 1996ء میں وہ پٹنہ یونیورسٹی سے ملحق کے بی این کالج کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ انھیں بہار کی بی این میتھلا یونیورسٹی، دربھنگا کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ ان کی کوششوں سے جامعہ میں ابوالکلام آزاد مسند (chair) قائم ہوئی۔ 1998ء-1999ء میں حکومت بہار کے محکمہ راج بھاشا نے انھیں ایک لاکھ روپیے کا شیخ شرف الدین منیری ایوارڈ سے نوازا۔ اسی دوران ان پر کچھ دھاندلیوں کے الزامات عائد ہوئے تھے جس کی وجہ سے انھیں وائس چانسلری چھوڑنی پڑی اور انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم وہ جلد ہی سبھی الزامات سے بری ہو گئے۔الزامات کا تعلق مالی بد عنوانی سے نہیں تھا بلکہ بی۔ ایڈ۔ کے اکیڈمک سیشن کو درست کرنے کے لیے انھوں نے دو سیشن کے طلبہ کا امتحان ایک ساتھ لینے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا جس کے خلاف ان کے سیاسی و نظریاتی مخالفین نے اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر تفتیشی جانچ قائم کردی اور ان کے گھر پر چھاپ ماری کرکے گرفتار کر لیا حالانکہ ان کے گھر سے ان کے خلاف کچھ بھی نہ ملا کہ انھوں نے پوری زندگی درویشی اور قناعت کے ساتھ گزاری۔ جب اس آزمائش سے دوچار ہوئے تو ان دنوں وہ مہینوں تک جامعۃ البنات میں مقیم رہے اور اپنے معمول کے علمی کاموں میں مشغول رہے۔ ان دنوں ارشد اجمل اور شبیر عالم بھی ان کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں پیش پیش رہے۔ جامعۃالبنات کھنڈیل کے بانی و سکریٹری نصیرالدین خاں اور طارق احسن فلاحی، عبدالمغنی کے گہرے رفیق تھے اور جامعہ کے قیام کے دوران دونوں رفقا ایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھتے رہے۔ [1]

ادبی سرگرمیاں

ترمیم

عبد المغنی چھوٹی بڑی 45 اردو اور انگریزی کی کتابوں کے مصنف تھے۔ وہ انجمن ترقی اردو بہار کے صدر رہے۔ اس ساتھ ساتھ وہ انجمن کے ادبی رسالے مریخ کے مدیر بھی تھے۔ عبد المغنی تحریک اسلامی کی کل ہند ادبی تنظیم ادارہ ادب اسلامی کے صدر بھی رہے اور زندگی کے آخری ایام تک اس تنظیم سے وابستہ رہے۔ انھوں نے کلیم الدین احمد کی رد اقبال سے متعلق کتاب کا جواب بھی ایک ضخیم کتاب لکھ کر دیا جس میں مناظرانہ رنگ غالب تھا۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں شمس الرحمن فاروقی کی بھی ادبی اور تنقیدی گرفت کی۔ وہ اردو ادب میں اپنی تنقید کا نقش چھوڑ گئے۔ ادب کے علاوہ انگریزی کالم نویسی کا سلسلہ بھی عمر بھر جاری رکھا جو بہار کے مشہور انگریزی اخبارات اور ریڈینس ویکلی میں شائع ہوتا رہا۔ ادبی اور علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ سماجی مذہبی اور ادارہ جاتی سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے۔ جامعۃ البنات، کھنڈیل جو بہار میں لڑکیوں کا ایک بڑا اقامتی ادارہ ہے اور 1986ء سے بہار، جھارکھنڈ اور نیپال کی مسلم طالبات کی اعلیٰ تعلیم کے مرکز کی حیثیت سے معروف ہے، کے صدر کے طور پر آخر تک ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور گورنر بہار اخلاق الرحمن قدوائی کے ہاتھوں جامعہ کے کیمپس میں لائبریری کا سنگ بنیاد رکھوایا۔ 1980ء میں اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان بنانے میں وہ پیش پیش تھے۔[1]

اقبالیات پر کتابیں

ترمیم
نام کتاب مقام و سنِ اشاعت
اقبال اور عالمی ادب پٹنہ، 1986ء، لاہور، 1990ء
اقبال کا نظام فن پٹنہ، 1984ء، 1985ء، لاہور، 1990ء
اقبال کا نظریہ خودی دہلی، 1990ء
تنویر اقبال لاہور، 1990ء
اقبال کا ذہنی و فنی ارتقا دہلی، 1991ء
Iqbal: The Poet لاہور، 1992ء

[1]

اسلامیات پر کتابیں

ترمیم
  • عبد المغنی نے آرامکو کی فرمائش پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا The Way of Islam۔ یہ تین جلدوں میں منقسم تھی جس میں عقائد، عبادات، معاملات کے ساتھ ساتھ معاشرت و حکومت، عہد رسالت سے لے کر عمر بن عبدالعزیز کے دور تک کی تاریخ درج تھی۔
  • ان کا آخری تحریری کام The Quran: An Authentic Idiomatic English Translation تھا، جس میں قرآن کا جدید بامحاورہ انگریزی زبان میں ترجمہ تھا۔ یہ کتاب ان کے وفات کے وقت غیر مطبوعہ تھی۔[1]

مصنفین جن سے عبد المغنی متاثر تھے

ترمیم

انتقال

ترمیم

عبد المغنی کا انتقال 5 ستمبر 2006ء کو پٹنہ، بھارت میں ہوا تھا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ڈاکٹر عبد المغنی: ایک جید نقاد اور اقبال شناس، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اقبال ریویو، اقبال اکیڈیمی حیدرآباد کا ششماہی ترجمان (نومبر 2013ء)، صفحات 6-18