غلام سرور لاہوری

مؤرخ، عالم دین، محقق، لغت نویس

مفتی غلام سرور قریشی چشتی لاہوری عالم، فاضل ،ادیب، شاعر، مورخ اور سوانح نگار ہوئے ہیں۔

غلام سرور لاہوری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1837ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 اگست 1890ء (52–53 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدر   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  مورخ ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں جامع اللغات اردو   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی حالات ترمیم

مفتی غلام سرور لاہوری 1244ھ مطابق 1837ء میں اپنے آبائ، محلہ کوٹلی مفتیاں، لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مفتی غلام محمد سے حاصل کی۔ طب بھی اپنے والد سے پڑھی۔ سلسلہ سہروردیہ میں مفتی صاحب اپنے والد سے بیعت ہوئے تھے۔ بعد ازاں مولانا غلام اللہ لاہوری کے حلقہ ٔ درس میں شامل ہوئے اور اُن سے علوم تفسیر و حدیث، فقہ، عربی ادب، صرف و نحو، معانی و منطق اور تاریخ پڑھی۔ اپنے زمانے میں مفتی صاحب بے مثل عالم، ادیب، شاعر، بے نظیر تاریخ گو، مؤرخ اور شہرۂ آفاق تذکرہ نویس کہلائے۔

ملازمت ترمیم

زِندگی کا ابتدائی حصہ ملازمت میں بھی گزارا۔ اولاً سردار بھگوان سنگھ، رئیس لاہور اور جاگیردار فتح گڑھ، چونیاں کی جائداد کے مہتمم بھی رہے۔ پھر رائے بہادر کنہیا لال ہندی (ایگزیکٹو انجنئیر لاہور ڈویژن) نے آپ کو اپنے محکمے میں ایک معقول مشاہرے پر ملازمت دِلوا دی تھی۔ کنہیا لال ہندی مفتی صاحب کے تلامذہ میں سے تھا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مفتی صاحب نے یہ ملازمت ترک کردی۔

مزاج و طبیعت ترمیم

در حقیقت آپ ایسی طبیعت لے کر آئے تھے کہ جو تصنیف و تالیف اور شعر و اَدب ہی کے لیے موزوں تھی۔ طبع عالی میں حد درجہ استغنا تھا۔ حکامِ وقت سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پنڈت بیج ناتھ، فقیرشمس الدین اور داکٹر لائٹز (رجسٹرار جامعہ پنجاب) نے بارہا کوشش کی کہ آپ حکامِ وقت کے ساتھ راہ و رسم رکھنے سے گریز نہ کریں کہ آپ جیسے فاضل مصنف کی حکومت ہند کو بے حد ضرورت ہے۔ نیز حکومت کو آپ سے متعدد کتب مختلف علوم میں لکھوانا چاہتی ہے۔ لیکن مفتی صاحب نے کہا: نہ تو مجھے خطاب و جاگیر کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں اپنی تصانیف کو حکومت کے زیر اثر لکھنا چاہتا ہوں۔ اِن لوگوں کی تصنیف و تالیف کا مقصد کچھ اَور ہے اور میرا راستہ اُن سے الگ ہے۔ حتیٰ کہ داکٹر لائٹز کے اصرار کے باوجود آپ نے جامعہ پنجاب کا اعزازی فیلو بننا بھی منظور نہ کیا اور تا دمِ زِیست اپنے اِسی مسلک پر قائم رہے اور حکومت کے ساتھ کسی قسم کا ادبی و سیاسی اِتحاد نہ کیا۔[1]

سر سید احمد خان سے ملاقات ترمیم

سر سید احمد خان (متوفی 27 مارچ 1898ء) 1884ء میں علی گڑھ کالج کی مالی اِمداد کے لیے پنجاب کے دورے پر لاہور بھی آئے۔اپنے دوست خاں بہادر ڈپٹی برکت علی کے پاس فروکش ہوئے۔ خاں بہادر نے اکابر لاہور کا ایک نمائندہ اجلاس اپنی کوٹھی واقع بیرون موچی دوازہ، لاہور میں بلوایا۔ جس میں مفتی صاحب بھی مدعو تھے۔ خاں بہادر نے آپ کا تعارف سر سید احمد خان سے کروایا۔ سر سید احمد خان آپ کی ذات سے بہت متاثر ہوئے۔ کہنے لگے: نام تو سنا تھا، آج مل بھی لیا۔ پھر اپنے مشن کا کچھ کام اُن کے سپرد کرنا چاہا ۔ مفتی صاحب نے کہا: سید صاحب! میں اِس کام کے لیے موزوں نہیں ہوں، میرا شغل تصنیف و تاالیف ہے۔ آپ نے جن لوگوں کی جماعت اپنے گرد اکٹھی کرلی ہے، وہ اِس مقصد کے لیے بہت مفید ہے اور پھر جماعتی اِتحاد کے لیے عقائد کے اِتحاد کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں میں یہاں نہیں دیکھتا۔ سر سید احمد خان آپ کا یہ جواب سن کر خاموش رہے۔[2]

وفات ترمیم

ماہِ جون 1890ء میں مفتی صاحب اپنے برادر زادہ مفتی جلال الدین بن مفتی سید محمد کی معیت میں حج کے لیے روانہ ہوئے۔ 20 ذوالحجہ 1307ھ کو مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ تیسری منزل پر پہنچ کر مسافروں میں اچانک وبائے ہیضہ پھوٹ پڑی اور پانچویں منزل میں آپ بھی اِس مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ساتویں منزل کے قریب پہنچ کر جمعرات 27 ذوالحجہ 1307ھ مطابق 14 اگست 1890ء کو بدر کے مقامی علاقے منزل بئربالا حسانی میں انتقال کرگئے اور بئربالا حسانی منزل (مضافات جنگ بدر) میں دفن ہوئے۔ مولانا غلام دستگیر قصوری نے جو رفیق سفر تھے، نے نماز جنازہ پڑھائی۔[3]

تصانیف ترمیم

مفتی صاحب کثیرالتصانیف تھے۔ اُن کی مشہور تصانیف یہ ہیں:

مزید دیکھیے ترمیم

جامع اللغات اردو

حوالہ جات ترمیم

  1. حدیقۃ الاولیاء،  صفحہ 16/17۔
  2. محمود عالم:  ذِکر جمیل،  صفحہ   106 تا    111۔
  3. محمود عالم:  ذِکر جمیل،  صفحہ  101 تا  103۔