الفضل ابن سہل
الفضل ابن سہل (وفات: 818ء) خلافت عباسیہ کا مشہور فارسی النسل با اِختیار وزیر تھا جس نے خلیفہ الامین اور خلیفہ المامون کے مابین عباسی خانہ جنگی کے دوران اہم کردار ادا کیا اور 817ء تک خلافت عباسیہ پر مطلق العنانیت قائم کیے رکھی۔
الفضل ابن سہل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 770ء سرخس [1] |
وفات | 12 فروری 818ء (47–48 سال) سرخس [1] |
شہریت | دولت عباسیہ |
بہن/بھائی | الحسن بن سہل [1] |
عملی زندگی | |
پیشہ | ماہر فلکیات ، منجم ، ریاست کار ، وزیر |
مادری زبان | عربی |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی |
شعبۂ عمل | نجوم |
درستی - ترمیم |
ابتدائی حالات
ترمیمالفضل ابن سہل کی پیدائش کوفہ میں ہوئی تھی جہاں اُس کا خاندان آباد تھا۔ الفضل کا والد سہل زرتشت کے مذہب پر تھا اور غالباً 806ء کے قریب قریب اُس نے آلِ برامکہ سے متوسل ہوکر اسلام قبول کیا۔ اُس کے قبولِ اِسلام میں یحییٰ ابن خالد کا بڑا نمایاں کردار تھا۔[2] سہل بعد ازاں خلیفہ ہارون کے دربار سے متصل ہو گیا اور بعد میں اُس کا فرزند الفضل بھی خلیفہ المامون کے دربار سے منسلک رہا۔
پیدائش
ترمیمایک محتاط اندازے کے مطابق الفضل ابن سہل کی پیدائش سرخس میں 156ھ مطابق 771ء میں ہوئی۔الفضل پیدائشی طور مجوسی یعنی مذہبِ زرتشت کا پیروکار تھا۔ اُس نے 190ھ مطابق 806ء میں اسلام قبول کیا تھا۔ [3]
واقعات حکومت اور وفات
ترمیمہارون الرشید کے دربار میں الفضل کے خاندان کی سفارش برامکہ نے کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الفضل ابن الربیع کو جو اِن کا سخت دشمن تھا، ابن سہل سے عداوت پیدا ہو گئی اور اِس عداوت میں ملکی عصبیت کو بھی دخل تھا۔ فضل ابن الربیع نسلاً عرب اور فضل ابن سہل نسلاً ایرانی (فارسی النسل) تھا۔ فضل ابن الربیع امین الرشید پر اور فضل ابن سہل مامون الرشید پر حاوی تھے اور دونوں بھائی دونوں وزراء کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے تھے، گویا ہارون الرشید کے دونوں بیٹوں کے درمیان جو کشمکش ہوئی وہ دراصل اِن کے وزیروں یا عرب اور ایرانی تمدن کی کشمکش تھی۔ فضل ابن سہل کو اندیشہ تھا کہ ہارون الرشید کی وفات پر امین الرشید وراثت سے متعلق اُس کے اِنتظامات کو یکسر نظر انداز کر دے گا، لہٰذا اُس نے مامون الرشید کو یہ ترغیب دی کہ 192ھ مطابق 808ء میں ہارون الرشید کے ہاتھوں خراسان کی حکومت لے لے۔ لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور اگلے ہی سال 809ء میں ہارون الرشید کا اِنتقال ہو گیا اور جب امین الرشید نے اُس لشکر کو جو خراسان جا رہا تھا، واپس بلا لیا اور مامون الرشید کا اِرادہ ہوا کہ وہ اِس لشکر کا تعاقب کرکے اُس لشکر کو فرض یاد دِلائے مگر فضل ابن سہل نے اُس کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ مامون الرشید کی طرف ایک سفیر امین الرشید کی جانب بھیجا گیا، مگر اِس سے کچھ بھی معاملہ طے نہ پاسکا، بلکہ اُس سفیر کی اہانت کرکے واپس بھیج دیا گیا۔ لشکر نے اپنا سفر بغداد کی جانب جاری رکھا۔ اب جو زمانہ آیا، اُس میں فضل مامون الرشید کا وفادار اور دوست بن کر رہا اور بطور بہترین مشیر کار کی حیثیت سے اُس کے ہمراہ رہا۔ اِس عرصے میں وہ المامون کو ہر بات پر اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے امین الرشید کے مقابلے میں اُکساتا رہا۔ یہی فضل ابن سہل کی چالاکی اور سازشوں کا نتیجہ تھا کہ 195ھ مطابق 811ء میں جو فوج مامون الرشید کے خلاف بغداد سے بھیجی گئی، اُس کی قیادت امین الرشید نے علی ابن عیسیٰ نامی ایک نا اہل کے سپرد کر ڈالی تھی۔ علی ابن عیسیٰ نے طاہر ابن الحسین سے شکست کھائی اور خود لڑائی میں مارا گیا اور اُس کی فوج کو جس طرف سے راستہ ملا، بھاگ نکلی۔ اِس کامیابی کے بعد المامون نے فضل ابن سہل کو مشرقی صوبوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ ذوالریاستین (دو بلند ترین عہدوں کا مالک یعنی وزیر اور سپہ سالار) کا خطاب دیا۔ پھر جب پیرانہ سال سپہ سالار ہرثمہ ابن اعین جس نے اِسی قسم کی خدمات ہارون الرشید کے لیے سر انجام دی تھیں، عرب اور بلاد الشام کا گورنر (عامل) مقرر کیا گیا تو ہرثمہ نے یہ فیصلہ کیا کہ سلطنت کے مختلف حصوں میں جو صورت حال درپیش ہے، اُسے خود مامون الرشید کے سامنے مرو جا کر بیان کرے، اِس پر خلیفہ المامون نے اُسے دمشق جانے کا حکم دیا۔ اِس حکم کے باوجود جب ہرثمہ ابن عین خراسان پہنچا تو فضل ابن سہل نے اُسے خلیفہ المامون کے سامنے ایک باغی کی حیثیت سے پیش کیا، لہٰذا خلیفہ نے اُسے زندان میں ڈال دیا جہاں چند روز کے بعد فضل ابن سہل نے اُسے مروا ڈالا۔ انجام کار مامون الرشید کو پتا چل گیا کہ معاملات پس پردہ کیا تھے اور فضل ابن سہل نے اُس کے سامنے صاف گوئی سے کام نہیں لیا تھا۔ لہٰذا 2 شعبان 202ھ مطابق 12 فروری 818ء کو فضل ابن سہل کو حمام میں قتل کروا دیا گیا۔ [4][5]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ ت مصنف: ذہبی — عنوان : سير أعلام النبلاء — ناشر: مؤسسة الرسالة — اشاعت اول — جلد: 10 — صفحہ: 100 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://shamela.ws/book/10906
- ↑ ابن جوزی: المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، جلد 10، صفحہ 110، ترجمہ 1105۔
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 15، صفحہ 369، مطبوعہ لاہور، 2006ء
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 15، صفحہ 369، مطبوعہ لاہور، 2006ء
- ↑ ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد 10، صفحہ 304، واقعات سال 202ھ، مطبوعہ لاہور