مجنوں نانپاروی کا اصلی نام سید آباد احمد زیدی تھا اور آپ کے والد کا نام سید اشتیاق احمد زیدی تھا ۔

مجنوں نانپاروی
پیدائشسید آباد احمد زیدی
1937ء
قصبہ قیصرگنج ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات2016
شہر نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہشہر نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہملازمت
زباناردو,ہندی
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیممیٹرک
موضوعغزل

ابتدائی حالات

ترمیم

مجنوں نانپاروی کی پیدائش 1937ء میں قصبہ قیصرگنج ضلع بہرائچ اتر پردیش ہندستان میں ہوئی تھی۔ مجنوں نانپاروی کے والد نے بعد میں قیصرگنج سے نانپارہ جاکر وہیں سکونیت اختیار کر لی تھی۔ مجنوں کی تعلیم نانپارہ میں ہی ہوئی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے نانپارہ کے مشہور کالج جنتا انٹر کالج میں ایک معمولی عہدے پر نوکری کر لی لیکن مجنوں کی قابلیت اور ایمان داری کی وجہ سے کالج میں آپ سے ہمیشہ اہم کام ہی لیا جاتا تھا،اور کالج میں آپ کی کافی عزت تھی۔

ادبی خدمات

ترمیم

مجنوں نانپاروی کی اردو ادب میں گہری دلچسپی تھی او ر کالج میں ہونے والی شعری محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ آپ استاد شاعر ایمن چغتائی نانپاروی کی رہنمائی میں شاعری کرتے تھے اور ایمنؔ چغتائی سے ہی اصلاح کرواتے تھے۔ اور ہمیشہ مزاحیہ شاعری کرتے تھے۔ انجمن ترقی اردو شاخ نانپارہ کی جانب سے ہونے والے مقامی مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور لوگ ان کا کلام پسند کرتے تھے۔ مجنوں نانپاروی کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ ضلع بہرائچ کے نامور شاعر اور ادیب شارق ربانی نے کافی مشقت سے مجنوں نانپاروی کے اشعار اور تفصیلات یکجہ کر کے 2014ء میں ہندی روزنامہ ہندستان میں شائع ہوئے سلسلہ’ اردو ادب اور بہرائچ ‘ میں شائع کرایا جس سے دنیا اردو ادب میں مجنوں کا نام پھر سے ابھر کر سامنے آیا۔ شاعر اور ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ سید آباداحمد زیدی مجنوںؔ نانپاروی بہترین طنز و مزاح کے شاعر تھے۔

ادبی شخصیات سے را بطہ

ترمیم

مجنوں نانپاروی کا نانپارہ کے واصف القادری، ایمن چغتائی ،محشر نانپاروی ،فنا نانپاروی کے ہمعسر شاعروں میں ہوتا تھا اور ان سب سیمجنوں نانپاروی کا گہرا تعلق تھا۔ اور بہرائچ کے تمام شعرا سے بھی آپ کا گہرا تعلق تھا۔ جن میںواصف القادری ڈاکٹر م۔ن۔ خیالیؔ ،وصفیؔ بہرائچی،عبرتؔ بہرائچی،اثر بہرائچیریئس صدیقی بہرائچی ،محمود حسانی بہرائچی،اطہرؔ رحمانی ،انورؔ قریشی،غوث نانپاروی، وغیرہ اہم تھے۔

وفات

ترمیم

مجنوں نانپاوری کا انتقال 1 اکتوبر 1994ءکو نانپارہ میں ہوا تھا اور تدفن بھی نانپارہ مین ہوئی۔ جس میں شہر کے تمام بہت سے لوگوں نے سرکت کی تھی۔

نمونہ کلام

ترمیم
لات مجنوں کو مار کر لیلا

کہتی بھاگی کر یہ پھٹیچر ہے

لنگوٹی باندھ کر جب کوچئے جاناں سے گذرا تھا

تبھی تو ہوگا لائق دیکھنے کو بانکپن میرا

روز محشر اے خدا چلچلاتی دھوپ ہو

ابرِرحمت بن کے سر پہ زلفِ جاناناں رہے

حوالہ جات

ترمیم
  • ہندی روزنامہ ہندستان میں شائع مضمون 2014ء