محشر بدایونی

اردو زبان کے مشہور شاعر اور نعت گو شاعر منور بدایونی کے چھوٹے بھائی۔

محشر بدایونی (پیدائش: 4 مئی 1914ء - وفات: 9 نومبر 1994ء) پاکستان سے تعلق رکھنے و الے اردو زبان کے نامور شاعر تھے۔

محشر بدایونی
معلومات شخصیت
پیدائش 4 مئی 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 نومبر 1994ء (72 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  سندھ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستانی   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں غزل ،  نعت   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

محشر بدایونی 4 مئی، 1914ء کو بدایوں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2][3]۔ ان کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ انھوں نے بدایوں سے ہی تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے جریدے آہنگ سے منسلک ہو گئے۔ محشر بدایونی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن تھی۔ ان کی تصانیف میں شہر نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصل فردا، چراغ ہم نوا، حرف ثنا، شاعر نامہ، سائنس نامہ اور بین باجے کے نام شامل ہیں۔[3]

تصانیف

ترمیم
  • شاعرنامہ (53 شعرا کا منظوم تذکرہ)
  • شہر نو (شاعری)
  • حرف ثناء (نعتیں)
  • غزل دریا (شاعری)
  • گردش ِکوزہ (شاعری)
  • فصل فردا
  • چراغ ہم نوا
  • سائنس نامہ
  • بین باجے

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

جھوٹے اقرار سے انکار اچھا​تم سے تو میں ہی گنہہ گار اچھا​
حبس چھٹ جائے دیا جلتا رہے​ گھر بس اتنا ہی ہوا دار اچھا​
عجز خواری ہے نہ ظاہر داری​عجز کو چاہئے معیار اچھا​
یہ عمارت ہے اسی واسطے خوب​اس عمارت کا تھا معمار اچھا
چھوڑو یہ تجربے اے چارہ گرو​ جینے دو مجھ کو میں بیمار اچھا​​
سُکھ سے تو فن کبھی پنپتا ہی نہیں​جو دُکھی ہے وہی فن کار اچھا​[4]

غزل

کرے دریا نہ پُل مسمار میرے​ ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار میرے​
بہت دن گزرے اب دیکھ آؤں گھر کو​ کہیں گے کیا در و دیوار میرے​
وہیں سورج کی نظریں تھیں زیادہ​ جہاں تھے پیڑ سایہ دار میرے​
وہی یہ شہر ہے، تو اے شہر والو!​ کہاں ہیں کوچہ و بازار میرے​
تم اپنا حالِ مہجوری سناؤ​ مجھے تو کھا گئے آزار میرے​​
جنہیں سمجھا تھا جاں پرور میں اب تک​​ وہ سب نکلے کفن بردار میرے​​
دریچہ کیا کھُلا میری غزل کا​ ہوائیں لے اُڑیں اشعار میرے​[5]

شعر

اجازت ہے سب اسبابِ سفر تم چھین لو مجھ سے​ یہ سورج، یہ شجر، یہ دھوپ ، یہ سایہ تو میرا ہے​

شعر

کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے​ مِلائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے​

وفات

ترمیم

محشر بدایونی 9 نومبر، 1994ء کو کراچی، پاکستان میں 80 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[2][3][1]

حوالہ جات

ترمیم