افغان مدبر۔ شاہ افغانستان ظاہر شاہ کے چچا ذاد بھائی۔ فرانس میں تعلیم پائی۔ 31 سال کی عمر میں کابل واپس آئے۔ اور پیادہ فوج کے افسروں کے اسکول میں داخل ہو گئے۔ 1935ء میں ظاہر شاہ کی بہن سے شادی کی اور اسی سال انھیں مشرقی صوبے کا گورنر اور ساتھ ہی جنرل آفیسر کمانڈنگ بنا دیا گیا۔ بعد میں وزیر جنگ اور وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ 1953ء میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1962ء میں مستعفی ہو گئے۔سردار داود کو پیار سی شاهی گهدا بهی بولایا جانا تنها. جولائی 1973ء میں فوج نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا اور 19 جولائی کو سردار داؤد جمہوریہ افغانستان کے صدر اور وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ 27 اپریل 1978ء کے انقلاب میں مارے گئے۔

محمد داؤد خان
(پشتو میں: سردار محمد داود خان ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

مناصب
وزیراعظم افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
7 ستمبر 1953  – 10 مارچ 1963 
صدر افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
17 جولا‎ئی 1973  – 27 اپریل 1978 
 
عبد القادر دگروال  
معلومات شخصیت
پیدائش 18 جولا‎ئی 1909ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کابل [3]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 اپریل 1978ء (69 سال)[4][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کابل   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات گولی کی زد   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات ماورائے عدالت قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت افغانستان
جمہوریہ افغانستان
افغانستان [5]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ زینب خاتون   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  سفارت کار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

سردار محمد داؤد خان افغانستان کے شاہی خاندان محمد زئی سے تعلق رکھتا تھا‘ وہ 18جولائی 1909ء کو پیدا ہوا اس نے ابتدائی تعلیم جلیلی اسکول کابل ثانوی تعلیم امینیہ کالج اور اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی وہ سینٹ کرائی ملٹری اکیڈمی کا گریجوایٹ تھا‘اس نے واپسی پرافغان فوج جوائن کی اور 24برس کی عمر میں میجر جنرل بنا دیا گیا۔

فوجی اور سیاسی کیریئر

ترمیم

وہ 1932ء میں محض 25سال کی عمر میں صوبہ ننگر ہار کا جی او سی بن گیا‘ 1935ء میں وہ قندھار کا جی او سی بنا اور اسی سال اسے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ کر دیا گیا‘ وہ دنیا کا کم عمر ترین جنرل تھا۔ 1946ء میں اسے یونیفارم کے ساتھ وزیر دفاع بنا دیا گیا‘ وہ پیرسبرن اور برسلز کے لیے سفیر بھی بنایا گیا اور اسی دوران افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے اسے اپنی ہمشیرہ شہزادی زینب کا رشتہ بھی دے دیا۔ وہ 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین کے لیے ماسکو گیا اور یہاں سے اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ وہ روسی حکمرانوں اور کے جی بی کا منظور نظربنا اور اس نے اس کی پشت پناہی کا آغاز کر دیا۔ ستمبر 1953ء کو شاہ نے اسے افغانستان کا وزیر اعظم بنادیا‘ وہ دنیا کا یونیفارم میں پہلا وزیر اعظم تھا‘ وہ وزیر اعظم بھی تھا‘ وزیردفاع بھی اور آرمی چیف بھی۔ اس نے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہی اپنے بھائی سردار محمد عظیم کو افغانستان کا وزیرخارجہ بنا دیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک کے اختیارات اپنے قبضے میں لے لیے‘ وہ سوویت یونین کا فکری حلیف تھا ۔

پشتونستان کا شوشہ

ترمیم

اس نے روس کے کہنے پر پاکستان میں پشتونستان کی تحریک شروع کرا دی۔

سیاست پر پابندی

ترمیم

ظاہر شاہ سردار داؤد کے عزائم اور طالع آزما فطرت کوپہچان گیا چنانچہ اس نے 3مارچ 1963ء کو اس سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد سردار داؤد نے شاہ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘ شاہ کو اطلاع ملی تو اس نے یکم اکتوبر 1964ء کو افغانستان کا آئین بدل دیا جس کی رو سے اب افغانستان کے شاہی خاندان کا کوئی رکن سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ شاہ نے سردار داؤد کا راستہ روکنے کا بندوبست تو کر دیا لیکن وہ یہ بھول گیا دنیا کا مضبوط سے مضبوط ترین آئین بھی فوج کا راستہ نہیں روک سکتا ۔

حکومت پر قبضہ

ترمیم

17جولائی 1973ء کو ظاہر شاہ علاج کے سلسلے میں اٹلی گیا اور پیچھے سے سردار داؤدنے شاہ کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لگا دیا‘اس نے 1964ء کا آئین منسوخ کیا‘ افغانستان کو جمہوریہ افغانستان کا نام دیا اوربیک وقت افغانستان کا صدر‘ وزیر اعظم اور سنٹرل کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا‘ اس نے 28جولائی کو پارلیمنٹ بھی توڑ دی اور وہ ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔

روشن خیالی

ترمیم

وہ ایک انتہا پسند اور اسلام بیزار تھا‘ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی‘ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ لازمی قرار دے دی‘ مسجدوں پر تالے لگوا دیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانے اور ڈسکو کلب بنوائے ‘سردار داؤد کے دور میں کابل دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے عیاشی کا اڈا بن گیا‘ اس دور میں ’’یورپ‘‘ کابل سے شروع ہوتا تھا‘ کابل کے بعد تہران عیاشی کا دوسرا اڈا تھا‘استنبول تیسرا اور اس کے بعد پورا مشرقی یورپ عیاشوں پر کھل جاتا تھا۔ سردار داؤد نے پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں عقوبت خانے بھی بنا رکھے تھے ۔

مظالم

ترمیم

خفیہ اداروں کے اہلکار اس کے مخالفین کو دن دیہاڑے اٹھا لے جاتے تھے اور اس کے بعد کسی کو ان کا نام اورپتہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا۔ سردار داؤد کے زمانے میں تیس ہزار کے قریب لوگ ’’مسنگ پیپل‘‘ کہلائے اور ان لوگوں کے لواحقین کو بعد ازاں ان کی قبروں کا نشان تک نہ ملا۔ جنوری 1974ء کو اس کے خلاف ایک چھوٹی سی بغاوت ہوئی لیکن اس نے تمام باغیوں کے سر قلم کرا دیے ۔

مغرب کے ساتھ تعلقات

ترمیم

ایک طرف اس کے مظالم جاری تھے اور دوسری طرف وہ عالمی میڈیا کو ایک جمہوریت پسند اور روشن خیال لیڈر کا چہرہ پیش کررہا تھا۔ اس نے روس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ۔

نیا آئین اور کابینہ

ترمیم

27فروری 1977ء کو اس نے ملک کو نیا آئین دیا‘ ملک میں صدارتی طرز حکومت اور یک جماعتی نظام قائم کر دیا اور یہ وہ وقت تھا جب اس کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا‘ اس نے مارچ 1977ء کو نئی کابینہ بنائی اور اس کابینہ کے سارے عہدے اپنے خاندان اور دوستوں میں تقسیم کر دیے ۔

حکومت خلاف مظاہرے

ترمیم

اس وقت تک ملک میں اس کے خلاف لاوا پک چکا تھا چنانچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں خلق اور پرچم پارٹی اس کی مخالف ہو گئیں‘ ملک میں ہنگامے‘ سیاسی قتل وغارت گری اور مظاہرے شروع ہو گئے۔ وہ ظالم انسان تھا لہٰذا اس نے اپنی عادت کے مطابق مخالفین کو قتل کرانا شروع کر دیا‘ اس نے 17اپریل 1978ء کو اپنے سب سے بڑے مخالف کیمونسٹ لیڈر میر اکبر خان کو قتل کرا دیا اور یہ وہ قتل تھا جس نے سردار داؤد خان کے خلاف نفرت کو ایک نقطے پر جمع کر دیا ۔

میر اکبر کے قتل کے محض دس دن بعد 27اپریل کو سردار داؤد کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور فوج نے اسے ‘اس کے بھائیوں‘ بیویوں‘ بیٹیوں‘ پوتوں اور پوتیوں کو گولی مار دی‘ اس بغاوت میں اس سمیت اس کے خاندان کے 30افراد ہلاک ہو گئے‘ داؤد کی نعش کو جیب کے ساتھ باندھا گیا اور کابل شہر میں گھسیٹاگیا‘داؤد کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی لوگ اس پر تھوکتے تھے اور اسے ٹھڈے مارتے تھے‘شام کو جب نعش کا سفر مکمل ہوا تو اسے جنارے‘ غسل اور کفن کے بغیر خاندان کی دوسری نعشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔

لاش کی دریافت

ترمیم

سردار محمد داؤد خان کی نعش 30برس تک ایک گمنام قبرمیں پڑی رہی لیکن پھر 26جون 2008ء کو کھدائی کے دوران کابل شہر میں دو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ دونوں قبروں میں سولہ‘ سولہ نعشیں تھیں‘ ان نعشوں میں سے ایک نعش سردار داؤد کی تھی ، جسے جوتوں سے پہچانا گیا۔سردار داؤد کے بوٹوں کی آب و تاب ابھی تک باقی تھی۔ اس جوتے کے تلوؤں پر مگرمچھ کی تصویر بھی تھی اور ان کا سنہری بکل ابھی تک قائم تھا۔ یہ جوتے سوئزرلینڈ کی ایک کمپنی صرف ایک ہزار خاندانوں کے لیے بناتی تھی۔ ان جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہوتی ہے اور دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔جوتے کی ’’ٹو‘‘ برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے بنائی جاتی۔جوتے کا ’’کوّا‘‘ افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور سلائی کے لیے استعمال ہونے والا دھاگہ بلٹ پروف جیکٹ میں بھی استعمال ہوتا تھا۔کمپنی کا دعویٰ تھا کہ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک سو سال بعد تک جوتے کی آب وتاب برقرار رہتی ہے۔ افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ اس کمپنی کا رکن تھا۔ ظاہر شاہ جلا وطن ہوا تو سردار داؤد نے اس کمپنی کی ممبر شپ لے لی اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ اس کمپنی کا جوتا استعمال کیا یہاں تک کہ جب 1978ء کو اسے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا گیا

== حوالہ جات ==۔



  1. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/11403080 — بنام: Mohammed Daoud Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mohammad-Daud-Khan — بنام: Mohammad Daud Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. http://en.academic.ru/dic.nsf/enwiki/32887
  4. اشاعت: نیو یارک ٹائمز — تاریخ اشاعت: 31 جنوری 2009 — An Afghan Secret Revealed Brings End of an Era — اقتباس: The popular account of the massacre, which Mr. Naeem retold, was that the family was slain between 4 a.m. and 5 a.m. on April 28, 1978.
  5. http://www.nytimes.com/2009/03/18/world/asia/18afghan.html