محمد رفیق قاسمی (1946ء — 6 جون 2020ء) بھارت کے ایک تحریکی اور فکری عالم دین اور فاضلِ دیوبند جو جماعت اسلامی ہند کے اہم ذمہ دار اور اس کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے۔ نیز آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند کے بھی رکن تھے۔[1]

محمد رفیق قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1946ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلرام پور ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 6 جون 2020ء (73–74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت جماعتِ اسلامی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 10   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
مظاہر علوم سہارنپور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ سید فخر الدین احمد ،  محمد طیب قاسمی ،  محمد زکریا کاندھلوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

مولانا رفیق قاسمی کی پیدائش 1365ھ / 1946ء میں اتر پردیش کے ضلع بلرام پور میں ہوئی، ان کے والد کا نام محمد الیاس تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، اترپردیش سے حاصل کی، اس کے بعد اعلی دینی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں 5 برس تک رہے اور فضیلت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں مظاہر علوم سہارنپور سے بھی کسب فیض کیا۔ مشہور اساتذہ میں سید فخر الدین احمد، قاری محمد طیب اور محمد زکریا کاندھلوی قابل ذکر ہیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ شمس العلوم ضلع سدھارتھ نگر، مدرسہ ناصر العلوم گونڈہ، مدرسہ اسلامی میرٹھ اور جامعہ محمدیہ بلرام پور وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد جماعت اسلامی ہند سے باضابطہ منسلک اور جماعت کی سرگرمیوں کے لیے وقف ہو گئے۔[2]

جماعت اسلامی میں

ترمیم

1975ء میں جماعت اسلامی ہند، ریاست اترپردیش کے اضلاع گونڈہ و بہرائچ کے ناظم، پھر علاقہ بریلی کے ناظم مقرر کیے گئے۔ مولانا رفیق قاسمی بھارت میں ایمرجنسی کے دوران میں بہت زیادہ سرگرم رہے۔

1982ء میں انھیں اتر پردیش کے امیر حلقہ سید حامد حسین کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا، حامد حسین کے انتقال کے بعد انھیں کچھ عرصہ قائم مقام امیر حلقہ، اس کے بعد امیر حلقہ مقرر کیا گیا۔

1995ء میں مرکز جماعت دہلی میں بلا کر شعبۂ خواتین کے اضافی چارج کے ساتھ شعبۂ اسلامی معاشرہ کا کل ہند سکریٹری بنا دیا گیا۔ اس عہدے پر وہ مارچ 2019ء تک فائز رہے۔ اپریل 2019ء میں وہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور وفات تک اسی عہدے پر رہے۔

وفات

ترمیم

مولانا رفیق قاسمی عوارض قلب میں مبتلا تھے اور اسی عارضہ میں 6 جون 2020ء کی صبح تقریباً 8 بجے دل کا سخت دورہ پڑا اور 75 برس کی عمر میں دہلی کے الشفا ہسپتال میں وفات پائی۔ اسی دن عصر کے بعد جماعت کے احاطہ کی مسجد "اشاعت الاسلام" میں لوگوں نے کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی فاصلہ گیری بنائے ہوئے متعدد بار نماز جنازہ ادا کی اور پھر شاہین باغ قبرستان میں بھی نماز جنازہ ہوئی، سینکڑوں لوگوں نے احتیاط کے ساتھ جنازہ و تدفین میں شرکت کی۔ پسماندگان میں ایک بیوی، چار لڑکیاں اور چھ لڑکے ہیں۔[3]

معاصرین کی نگاہ میں

ترمیم

جماعت اسلامی ہند کے امیر سعادت اللہ حسینی نے سوشل ذرائع ابلاغ پر لکھا کہ:

مولانا محمد رفیق قاسمیؒ کی رحلت، تحریک اسلامی ہند اور ملک و ملت کا بڑا نقصان ہے۔ مرحوم نے متعدد میدانوں میں جماعت کی گراںقدر خدمات انجام دی ہیں۔ شعبہ اسلامی معاشرہ کے طویل عرصہ تک وہ سکریٹری رہے۔ اس کے علاوہ علماء کے حلقے سے ربط و تعلق اور انہیں جماعت سے قریب کرنا، غیر مسلم مذہبی رہنماوں سے رابطہ اور ان پر اثر اندازی، خواتین کے کام کی نگرانی اور ان کی تربیت وغیرہ ان کے وہ منفرد کام رہے ہیں جن سے انہوں نے تحریک کو غیر معمولی فائدہ پہنچایا۔ علماء اکرام کے لئے مرکز میں منعقد ہونے والے خصوصی کیمپوں کا سلسلہ مولانا عبد الرشید عثمانی مرحوم کی نگرانی میں شروع ہوا اور بعد میں مولانا رفیق قاسمیؒ کی نگرانی میں تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ دونوں بزرگوں نے اپنے حلم و شفقت، اور اخلاق و کردار کی جو چھاپ ان کیمپوں کے شرکاء پر چھوڑی اس نے بے شمار علماء کو تحریک سے قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔[4]

جماعت اسلامی ہند کے اہم ذمہ دار، مصنف و محقق ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

مولانا مرحوم کا ایک امتیازی وصف یہ تھا کہ مختلف مذاہب کے رہ نماؤں سے وہ خصوصی دعوتی روابط رکھتے تھے، 'دھارمک جن مورچہ' کے تحت انہیں مشترکہ مسائل کے حل کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنے کے لیے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے، یہ مذہبی رہ نما بھی ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور ان کی خوب قدر و ستائش کرتے تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے علماء اور دینی رہ نماؤں سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے، خاص طور پر حلقۂ دیوبند کے اکابر ، علماء اور نمائندہ شخصیات سے ان کے بے تکلف تعلقات تھے اور وہ حضرات بھی ان سے انسیت ، محبت اور اپنائیت محسوس کرتے تھے، ان کی وجہ سے جماعت اور حلقۂ دیوبند میں کافی حد تک دوریاں کم ہوئیں اور قربت بڑھی۔ دار العلوم دیوبند اور مظاہر علوم کے متعدد مواقع پر ان کے اسفار سابق امرائے جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری اور مولانا سید جلال الدین عمری کے ساتھ ہوئے، وہاں ان مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان ان کے خطابات بھی ہوئے۔ مولانا کی حیثیت ایک زنجیر کی سی تھی جو ذمے دارانِ جماعت کو حلقۂ دیوبند کے اکابر سے جوڑے ہوئے تھے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. جماعت کے قدیم رہنما مولانا رفیق قاسمی کی وفات
  2. "زنجیر کی شکست از رضی الاسلام ندوی"۔ 08 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جون 2020 
  3. جماعت کے قدیم رہنما مولانا رفیق قاسمی کی وفات
  4. https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2753004561652641&id=1724476231172151
  5. مضمون بر وفات محمد رفیق قاسمی "زنجیر کی شکست" از: محمد رضی الاسلام ندوی