مرزا صاحباں پنجابی کی چار کلاسیکی رومانوی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ باقی تین ہیر رانجھا، سسی پنوں اور سوہنی ماہیوال ہیں۔ مرزا کی تاریخ پدائش 28 مارچ 1586ء بتائی جاتی ہے اور صاحباں اس سے ایک سال چھوٹی تھی ،۔

مرزا دانا باد کا کھرل تھا جو اپنے نانکے کھیوے میں پلا بڑھا تھا۔

داستان

ترمیم

مرزا اور صاحباں جو باہم رشتہ دار تھے اور بچپن سے اکھٹے کھیلتے رہے تھے، نہ جانے کب ایک دوسرے کے پیار میں کھو گئے۔ لیکن جب اس خوبصورتی کو زبردستی طاہر خان کے بیاہہ جانے لگا تو صاحباں نے اپنی محبت مرزا کو کامو براہیم کی زبانی پیغام بھیجا۔

"تمھیں آ کر صاحباں کے ہاتھ حنا سے رنگنے چاہئیں"۔

وقت آ گیا ہے کہ اپنی عزت نفس بچانے کے لیے، اپنے وعدوں کی پاسداری کے لیے اور سچ کی جیت کے لیے جان کی بازی لگا دو۔ مرزا جو ایک گرم خون نوجوان تھا، اپنی گھوڑی، جس کا نام نیلی تھا، کی پیٹھ پر بٹھا کے صاحباں کر لے جاتا ہے۔ لیکن رستہ میں جب وہ ایک درخت کی چھاؤں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں، پیچھا کرنے والے پہنچ جاتے ہیں۔

صاحباں ظاہری طور خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ من کی بھی خوبصورت تھی، جو اپنی وجہ سے کوئی خون نہیں بہانا چاہتی تھی۔ وہ حنا کی بجائے اپنے ہاتھوں کو خون سے نہیں رنگنا چاہتی تھی اور مرنے والا بھی اس کا اپنا ہی ہوتا۔ کیونکہ ایک طرف اس کی محبت مرزا تھا تو دوسری طرف اس کا بھائی۔ وہ جانتی تھی کہ مرزا کا نشانہ خطا نہیں جاتا اور اگر مرزا نشانہ لے گا تو نشانہ بننے والا اس کا اپنا بھائی ہی ہو گا۔ بھائی پر اعتماد اس کو ایک بہت بڑی غلطی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا بھائی اس پر ترس کھائے گا اور ان کو معاف کر کے گلے لگا لے گا۔ اس خیال سے وہ مرزا کو جگانے سے پہلے اس کا تیر کمان ہٹا دیتی ہے۔ لیکن بھائی اس کی سوچ کے بر عکس مرزا پر حملہ کر دیتا ہے اور مرزا کو مار دیتا ہے۔ صاحباں یہ برداشت نہیں کر سکتی اور تلوار لے کر خود کشی کر لیتی ہے۔

مرزا صاحباں کی لوک داستان

ترمیم

پنجاب کی لوک داستانوں میں سے مرزا صاحباں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ تاریخ دان میاں نور محمد چیلہ کی لکھی گئی کتاب 'تاریخ جھنگ سیالاں' کے مطابق مرزا صاحباں کا تعلق ہیر کی گیارہویں پشت سے تھا۔ جھنگ کے نواحی موضع ستیانہ کی بنیاد رکھنے والے ستی خان کے ہاں بیٹے کھیوہ خان (صاحباں کا باپ) کی پیدائش ہوئی جس کے تین ماہ بعد اس کی بیوی وفات پا گئی۔ اکلوتے بچے کی پرورش کے لیے واڑھ سلیمان سے مڑہل خاندان کی خاتون نور بی بی کو بلایا گیا جس نے اپنی بچی فتح بی بی (مرزا کی ماں) کے ساتھ کھیوہ خان کو بھی دودھ پلایا اور یہ دونوں دودھ شریک بہن بھائی بن گئے۔ سیال سردار سوم غازی خان نے موضع کھیوہ کی بنیاد رکھنے پر سردار کھیوہ کو "خان" کے خطاب سے نوازا۔ فتح بی بی نے جب یہ سنا کہ اس کا دودھ شریک بھائی ایک سردار بن گیا ہے تو اس نے اپنے کم عمر بیٹے مرزا کو اس کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا۔ یوں مرزا اور صاحباں ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے لگے اور کم عمری سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔[1]

تاریخ دان ایک واقع پر متفق ہیں کہ ایک بار معلم نے مرزا کو اپنی چھمک سے مارا تو صاحباں نے اپنی ہتھیلی بند کر لی اور جب اس نے ہتھیلی کھولی تو اس پر چھمک کے نشان تھے۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور مرزا کو واپس اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا لیکن تب تک عشق دلوں میں گھر کر چُکا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مرزا ایک بہترین تیر انداز اور گھڑ سوار بن چکا تھا۔ صاحباں کے ایک ملازم کے ذریعے مرزا کا اس سے رابطہ تھا جس کا نام تاریخ میں کرموں ملتا ہے۔ مرزا کے چلے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد کھیوہ خان نے صاحباں کا رشتہ چدھڑ خاندان میں طے کر دیا جبکہ مرزا کا رشتہ اس کی ماں نے ساہی خاندان میں طے کر دیا۔شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صاحباں نے کرموں کو مرزا تک اس کی شادی کی اطلاع پہنچانے کے لیے بھیجا۔ جب کرموں نے اطلاع مرزا کو پہنچائی تو مرزا ترکش اور تیر کمان سے لیس ہو کر اپنی "بکی" نامی گھوڑی پر سوار ہوا اور صاحباں کو لینے نکل کھڑا ہوا۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب مرزا گھر سے نکلا تب اس کی بہن کی شادی ہو رہی تھی اسی وجہ سے ماں اور بہن نے روکنے کی کوشش کی لیکن عشق تھا کہ ہر رشتہ بُھلا گیا۔ مرزا سیدھا صاحباں کے علاقے میں پہنچا اور شادی والے گھر سے صاحباں کو لے کر نکل گیا اس وقت گھوڑی کے قدموں کی ٹاپ نے ڈھولکی کی تھاپ کو نیچا دکھا دیا اور یوں وہ سفر شروع ہوا جس کی منزل مرزا کی موت ٹھہری۔ تاریخ دان لکھتے ہیں چونکہ جاٹ بہنوں کے معاملے میں کافی محتاط ہوتے ہیں اس لیے مرزا نے بہن کی ڈولی اٹھ جانے کے بعد رات کی تاریکی میں گھر جانے کا فیصلہ کیا اور راستے میں ایک درخت کے نیچے تھکان اتارنے کے لیے سو گیا۔صاحباں نے مرزا کے تیر توڑ دیے کیونکہ یہ جانتی تھی کہ وہ ایک قابل تیر انداز ہے اور یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ مرزا کے نشانے پر اس کے بھائی ہوں۔ صاحباں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو منا لے گی لیکن اُس کے بھائیوں نے اس کی ایک نہ سنی اور مرزا کو مار دیا۔ مرزا صاحباں کے بھائیوں سے نہیں بلکہ اس کی بے وفائی سے ہی مر گیا تھا اور یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ مرزا کے مرنے کے وقت بھی اس کی زبان پر صاحباں کا نام تھا۔ اس حوالے سے بہت سی متضاد روایات ملتی ہیں۔ کچھ کے مطابق صاحباں مرزا کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور کچھ کے مطابق اس کے بھائی اسے محل واپس لے گئے اور وہاں پر اسے مار دیا گیا۔

اس موقع پر پیرو کی نظم کے یہ الفاظ پڑھنے والوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔

مندا کیتوئی صاحبا،میرا ترکش ٹنگی او جنڈ سر توں منڈا سا اڈ گیا، گل وچ پیندی چنڈ باجھ بھراواں جٹ ماریا،کوئی نہ مرزے دے سنگ جٹا ای او

ترجمہ :

اے صاحباں یہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ میرا ترکش درخت پہ لٹکا دیا مرزا کے سر سے پگڑی اتر گئی اور اس کے بال (بکھر کر)اس کے گلے میں میں پڑ گئے۔ جاٹ کو بغیر بھائیوں کے مارا اور مرزا بالکل اکیلا تھا۔

اخلاقی اور تہذیبی اقدار

ترمیم

پنجابی ادب کی چاروں کلاسیکی رومانوی کہانیاں محبت کرنے والوں کی موت پر ہی ختم ہوتی ہیں۔ لیکن پنجابی اس اختتام کو محبت کرنے والوں کی فتح قرار دیتے ہیں۔ لاتعداد لوک گیت ان کرداروں پر لکھے گئے ہیں، جنکو بڑی محبت اور عقیدت سے گایا اور سنا جاتا ہے۔ کیونکہ محبت مر نہیں سکتی اور ان محبت کرنے والوں کے دنیا ترک کرنے سے ان کی محبت امر ہو گئی ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔

اسی قسم کے خیالات کا اظہار وارث شاہ کے کلام ہیر میں بھی ملتا ہے، جو ہیر کی محبت کو اسی انداز سے دیکھتے ہیں جیسے خدا سے حقیقی محبت۔ جب آپ محبت کے مضمون کو شروع کرتے ہیں تو پہلے خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہی ریت ہے پنجاب کی اور پنجابیوں کی، جہاں مرنے والوں کی محبت کو زندہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو حقیقی محبت کے روح گردانا جاتا ہے۔

جیسا کہ ہر معاشرہ میں اخلاقیات کی جانچ کے دو معیار ہوتے ہیں ایسے ہی پنجابی معاشرہ میں بھی ہے۔ ہر چیز کو دو زاویوں سے دیکھا جاتا ہے، ایک انتہائی نزدیک سے اور دوسرا ذرا فاصلہ سے۔ جہاں ایکا طرف تو اخلاقی اقدار ہیر کو زہر کھانے پر مجبور کرتی ہیں اور دوسری طرف اس کے مزار پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

سسی، ہیر، سوہنی، صاحباں اور ان جیسے بے شمار دوسرے لوگوں نے اس دوغلے معیار کے خلاف جنگ کی ہے۔ اور پنجابی ادب اور تہذیب ان کی عظمت کے گیت گاتے ہیں۔

مرزا صاحباں پر فلمیں

ترمیم

مرزا صاحباں کے قصے پر بہت سی فلمیں بنی ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔

مرزا صاحباں (1947 فلم) : ہندوستانی اردو فلم جس میں نور جہاں اور تری لوک کپور مرکزی کرداروں میں تھے۔ [2]

مرزا صاحباں (1956 فلم): پاکستانی پنجابی فلم جس میں مسرت نذیر اور سدھیر نے کام کیا۔

مرزا جٹ (1967):پاکستانی پنجابی فلم جس میں فردوس اور عجاز درانی نے کام کیا۔

مرزا جٹ (1982):پاکستانی پنجابی فلم جس میں شاہد حمید نے کام کیا۔ [3]

مرزا جٹ (1992):ہندوستانی پنجابی فلم جس میں گگو گل نے کام کیا۔

ہیرو ہٹلر ان لو (2011):ہندوستانی پنجابی فلم جس میں ببو نے کام کیا۔

مرزا - ان ٹولڈ سٹوری (2012):ہندوستانی پنجابی فلم جس میں عارف لوہار(عالم لوہار کا بیٹا) نے مرکزی گانا گایا۔

مرزیا (2016):ہندوستانی اردو فلم جس کی ہدایت کاری کے فرائض راکیش اوم پرکاش مہرا نے دیے، مرزا صاحباں کی اصلی کہانی پر مبنی فلم جس میں ہرش وردھن نے مرزا اور سیامی کھیر نے صاحبہ کا کردار ادا کیا۔ [4]

مرزا جولیٹ (2017): ہندوستانی اردو فلم جس میں اصلی کہانی کو نئے انداز سے دکھایا گیا۔ اس فلم میں اترپردیش میں جرائم پیشہ اور سیاست دانوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو صاحباں مرزا کی کہانی سے جوڑا گیا ہے۔

مزید پڑھیئے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تاریخ جھنگ سیالاں
  2. Karan Bali (13 September 2016)۔ "Before 'Mirzya', Mirza and Sahiban have died over and over again for their love (Numerous versions of the legend exist, including productions in Punjabi on both sides of the border)"۔ Scroll.in website۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2020 
  3. Mirza Jat (1982 film) on Complete Index To World Film (CITWF) website آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ citwf.com (Error: unknown archive URL) Retrieved 8 November 2020
  4. Ruchi Kaushal (16 December 2015)۔ "WATCH: Harshvardhan Kapoor's 'Mirziya' logo trailer unveiled!"۔ The Times of India (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 نومبر 2020