ملا احمد جیون
شیخ احمد بن ابو سعید بن عبد اللہ بن عبد الرزاق بن خاصہ خدا عرف ملّا جیون جن کی پیدائش 1047ھ میں ہوئی۔
احمد | |
---|---|
احمد | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | احمد |
اصل نام | ملا احمد جیون |
تاریخ پیدائش | 12 جنوری 1637ء [1] |
تاریخ وفات | 4 اکتوبر 1718ء (81 سال)[1] |
مدفن | امیٹھی |
رہائش | بھارت |
شہریت | مغل سلطنت |
نسل | ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | حنفی |
والد | ابو سعید |
رشتے دار | میر آتش (ماموں) |
عملی زندگی | |
استاد | ملا لطف اللہ کوڑوی |
پیشہ | مدرس |
مادری زبان | ہندوستانی زبان |
پیشہ ورانہ زبان | عربی ، فارسی |
شعبۂ عمل | تفسیر ، اصول فقہ |
وجۂ شہرت | نور الانوار |
کارہائے نمایاں | نور الانوار ، تفسیرات احمدیہ |
مؤثر | ابو حنیفہ |
متاثر | احمد رضا خان ، فضل حق خیر آبادی |
درستی - ترمیم |
نام و نسب اور خاندان
ترمیمآپ کا نام احمد عرف ملا جیون اور نسب نامہ یہ ہے۔ شیخ احمد بن ابی سعید بن عبد اللہ بن عبد الرزاق بن خاصہ الصدیق صالحی نسب نامہ خلیفہ اول صدیق اکبر تک پہنچتا ہے۔ والد بزرگوار کا نام نامی ابو سعید ہے۔ آپ کی والدہ شاہ عالمگیر کے داروغہ مطبخ میر آتش عبد اللہ عرف نواب عزت خاں امیٹھوی کی ہمشیرہ محترمہ تھیں۔ آپ کا خاندان علم و تقوی کے لحاظ سے مضافات لکھنؤ میں نہایت مقبول اور مرجع عام و خاص تھا۔
ولادت:
ترمیمملااحمدجیون کے آباء واجداد مکہ مکرمہ سے ہندوستان تشریف لائے پہلے امیٹھی آئے جہاں ملا جیون پیدا ہوئے بعد میں لکھنؤ اور کوڑہ (کورا جہان آباد ضلع فتح پور، اتر پردیش) بھی گئے آپ کی ولادت پیر کے دن 25 شعبان المعظم 1047ھ کو قصبہ امیٹھی میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت
ترمیموالدین نے بڑے ناز و نعم سے پرورش کی۔ جب عمر چار سال کی ہو گئی تو حسب قاعدہ شرفاء باپ نے قرآن کریم حفظ کرانا شروع کیا سات سال ہی کے تھے کہ قرآن کریم کے حفظ سے فارغ ہو گئے۔ حفظ قرآن کریم کے بعد دیگر علوم کی طرف توجہ کی اور اس زمانے کی مروجہ درسی کتب کی تعلیم شیخ محمد صادق ترکھی سے حاصل کی بعض کتابیں ملا لطف اللہ کوڑوی سے پڑھیں بائیس سال کی عمر میں علوم درسیہ سے فراغت حاصل کرلی۔ تحصیل علم کے بعد اپنے وطن امیٹھی آکر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ آپ کی علمی قابلیت اور تقوی کے سبب آپ کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا تھا۔
قوت حافظہ
ترمیمملا احمد جیون کا قوت حافظہ حیرت انگیز تھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ تمام درسی کتب کی عبارت کے ورقوں کے ورق آپ کے حفظ تھے اور قوت حافظہ کی اس سے بہتر کی امثال ہو سکتی ہے کہ سات سال کی عمر میں حافظ ہو چکے تھے اور بائیس سال کی عمر میں درسی کتابوں سے فراغت حاصل کرچکے تھے۔ صاحب تذکرہ علمائے ہند کا کہنا ہے کہ طویل ترین قصیدے کے سب اشعار ایک بار ہی سننے سے آپ کو ازبر ہوجاتے تھے۔
تصانیف
ترمیممدینہ منورہ میں نور الانوار کی تصنیف فرمائی اس کے علاوہ تفسیرات احمدیہ بھی آپ ہی کی شاہکار تصنیف ہے۔
زیارت حرمین شریفین
ترمیمجب ملا احمدجیون کی عمر عزیز 58 سال کی ہو گئی تو آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کا قصد کیا اور وہاں تشریف لے جا کر تقریباً 5 سال وہیں قیام پزیر رہے۔ ایک بار اپنے والد اور ایک بار اپنی والدہ محترم کی طرف سے حج بدل کی سعادت حاصل کی۔ وہاں آپ نے بہت سے علما سے ملاقات کی اور علوم دینیہ میں ان سے فیض حاصل کیا۔ یہیں پر آپ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف شرح منار تصنیف کی جس کی عمدگی اور نفاست آج بھی مسلم گردانی جاتی ہے۔ جس کی مدت تصنیف صرف دو ماہ ہے۔
لاہور، اجمیر اور دکن میں قیام
ترمیمآپ نے اپنی زندگی میں بہت سے شہروں مین قیام کیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے چشمہ علم سے سیراب کیا۔ ان میں سے مشہور شہر دہلی، لاہور، اجمیر اور حیدرآباد دکن ہیں۔ دہلی اور اجمیر میں تو آپ نے باقاعدہ درس کا انتظام کر رکھا تھا جس میں آپ باقاعدگی سے درس دیتے تھے یہاں آپ کے چشمہ علم سے ہزا رہا لوگ مستفید ہوئے۔ لاہور میں آپ شاہ عالم کے ساتھ تشریف لائے تھے جب کہ شاہ عالم بن اورنگ زیب کو لاہور کا گورنر بنایا گیا تھا۔ جب شاہ عالم کا انتقال ہو گیا تو آپ واپس دہلی تشریف لے گئے اور وہیں قیام پزیر رہے۔ اورنگ زیب کے شہزادوں میں سے فرخ سیر بھی آپ کی علمی قابلیت اور ورع و تقوی سے بہت متاثر تھا وہ آپ کو اپنے ساتھ اجمیر لے گیا جہاں پہنچ کر آپ نے اپنی فطرت اور طبیعت کے موافق بہت سے لوگوں کو راہ راست کی تلقین کی اور مدت تک دینی و علمی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ دکن میں آپ اورنگ زیب کی فوج میں قاضی عسکر تھے۔ تقریباً پانچ سال دکن میں قیام رہا۔
وفات حسرت آیات
ترمیم83 برس کی عمر میں بمقام دہلی انتقال ہوا، 8 ذیقعدہ سوموار کے روز 1130ھ کو وفات ہوئی لیکن دفن کے لیے اپنے بزرگوں کی صف میں امیٹھی لے جایا گیا[2] وقت وفات حسب معمول طلبہ کے درس و تدریس سے فارغ ہوئے نماز مغرب مع اوابین و اوراد و ظائف ادا کی۔ رات کا کھانا تناول فرمایا۔ عشاء پڑھی اور سنن و نوافل ادا کیے نصف شب گذری تو سینہ میں کچھ سوزش محسوس کی جو بڑھتے بڑھتے پہلو میں بھی ہونے لگی۔ شام کے وقت جامع مسجد دہلی کے جنوبی دالان کی طرف ایک کوٹھڑی میں جا کے لیٹ گئے۔ کلمہ طیبہ ورد زبان تھا کہ روح اطہر جسد عنصری کو چھوڑ کر راہی جنت ہوئی 9 ذیقعدہ منگل 1130ھ کے دن ظہر کے وقت آپ کی میت کو میر محمد شفیع کے تکیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ناشر: او سی ایل سی — وی آئی اے ایف آئی ڈی: https://viaf.org/viaf/90077501/ — اخذ شدہ بتاریخ: 25 مئی 2018
- ↑ اشرف الانوار شرح نور الانوار، صفحہ 6، جلد اول، مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان
- ↑ تفسیرات احمدیہ، ملا احمد جیون، صفحہ 13،14، ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور، 2006ء