ملا محسن فیض کاشانی

فارسی فلسفی (١۵٩٨-١٦٨٠)

ملا محمد محسن فیض کاشانی (پیدائش: 26 ستمبر 1598ء— وفات: 23 مئی 1680ء) گیارہویں صدی اخباری اہل تشیع عالم، مفسر، محدث ، شاعر، فلسفیاور فقیہ تھے۔ ملا فیض کاشانی نے مختلف موضوعات تفسیر، حدیث، فقہ، اخلاق و عرفان میں تفسیر صافی، الوافی، مفاتیح الشرائع، المحجۃ البیضاء اور الکلمات المکنونہ جیسے آثار چھوڑے ہیں۔ فیض کاشانی نے اخباریوں میں سے معتدل روش اختیار کی اس لحاظ سے پہلے فقہا کے برعکس بہت سے مقامات پر ان کے نظریات مختلف ہیں۔اہم ترین نظریات میں سے مخصوص شرائط کے تحت غنا کا جواز ،مختلف واجبات شرعی کی نسبت سن بلوغ کا مختلف ہونااور نماز جمعہ کے وجوب کا عینی ہونا ہیں۔ کاشان اور اصفہان میں اقامۂ نمازِ جمعہ اُن کی سیاسی فعالیت کی وجہ سے قائم ہوئی۔

ملا محسن فیض کاشانی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 ستمبر 1598ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاشان ،  صفوی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 مئی 1680ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کاشان ،  صفوی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت صفویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل تشیع (اخباری اثنا عشری)
فقہی مسلک جعفری
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  فلسفی ،  متصوف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش

ترمیم

ملا فیض کی پیدائش بروز بدھ 14 صفر 1007ھ مطابق 15 ستمبر 1598ء کو کاشان میں ہوئی۔[1][2][3] ملا فیض کا نام محمد تھا [4][5] مگر محسن یا محمد محسن کے نام سے مشہور ہوئے۔ خود ملا فیض نے اپنے نام ’’محمد‘‘ کی تصریح اپنی تصنیف الوافی میں کی ہے۔ [6] ملا فیض مشہور فلسفی و حکیم، دانشور عالم ملا صدرا (متوفی 1045ھ/ 1636ء) کے داماد تھے۔ ملا صدرا نے انھیں ’’فیض‘‘ اور اپنے دوسرے داماد عبد الرزاق لاہیجی کو ’’فیاض‘‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ یہی وجہ تسمیہ بنی کہ وہ عوام میں ملا فیض کاشانی کے نام سے مشہور ہوئے۔[7][8]

خاندان

ترمیم

فیض کاشانی کا خاندان کاشان کا مشہور علمی شیعی خاندان شمار ہوتا تھا۔[9][2][3] ملا فیض کے والد رضی الدین شاه مرتضی تھے جو 950ھ میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال 1009ھ میں ہوا تھا۔[10] والدہ کا نام فاطمہ زہرا تھا جو ضیاء العرفا رازی کی بیٹی تھیں۔ والدہ کا انتقال 1071ھ میں ہوا۔[11] ملا فیض کے جد کا نام تاج الدین شاه محمود بن ملا علی كاشانی تھا اور وہ کاشان میں مدفون ہیں۔ ملا صدرا کی بیٹی سے شادی کے بعد دو بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں: محمد علم الہدیٰ، معین الدین احمد، علیہ بانو (کنیت ام الخیر)، سکینہ (کنیت ام البر)، سکینہ (کنیت ام سلمہ)۔[12]

وفات

ترمیم

ملا فیض کاشانی کا انتقال 22 ربیع الثانی 1091ھ مطابق 22 مئی 1680ء کو کاشان میں ہوا۔ملا فیض نے جس قبرستان کی زمین اپنی زندگی میں  وقف کردی تھی، بعد ازاں اُسی میں سپردِ خاک کیے گئے۔ [13]

نظریات

ترمیم

محمد باقر خوانساری اور شیخ یوسف بحرانی، ملا فیض کاشانی کو اخباری شمار کرتے ہیں۔ اِس کی تائید و تصدیق ملا فیض کی کتب سے بھی ہوتی ہے۔ باوجود اِس کے کہ وہ اخباری تھے، لیکن پھر بھی وہ اہل تشیع کی متفقہ آراء کی نسبت منفرد رائے اور نظریات کے حامل تھے۔ جیسے کہ:

  • ہر غسل وضو کی جگہ کافی ہے۔[14]
  • وضو میں مقامِ مسح کا خشک ہونا شرط نہیں۔[15]
  • نمازِ جمعہ واجب عینی ہے۔[16]
  • نجس شدہ چیز دوسری اشیاء کو نجس نہیں کرتی۔[17]
  • قلیل پانی نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا۔[18]
  • کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔
  • بلوغت کا سن مختلف شرعی واجبات کی نسبت مختلف ہے۔[19]
  • اہل اجتہاد کی نجات ممکن نہیں، اگرچہ بزرگ ترین دانشمندان حضرات ہی کیوں نہ ہوں۔
  • اگر حائل و رکاوٹ نہ ہو تو عادی طور پر آنکھیں جب سورج کی قرص (ٹکیہ) کو کے استثار کو پالیں، تو مغرب شرعی ہوجاتی ہے۔[20]
  • جوازِ غناء اور موسیقی، حرمتِ عناء کی روایات کو صرف کسی دوسرے حرام جیسے آلاتِ لہو و لعب مردوں اور عورتوں کا مشترکہ کسی تقریب میں جمع ہوکر یا کلامِ باطل کے ساتھ گانا ہو تو اُسے حرام جانتے تھے، ورنہ صرف غناء کو حرام نہیں تسلیم کرتے تھے۔[21]

حوالہ جات

ترمیم
  1. میرزا عبد اللہ افندی اصفہانی: ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، تحقیق: سید احمد حسینی، جلد 5، صفحہ 180۔ مطبوعہ مطبعہ الخیام، قم۔ 1401ھ۔
  2. ^ ا ب شیخ عباس قمی: الکنی و الالقاب، جلد 3، صفحہ 39۔ مطبوعہ مکتبۃ الصدر، تہران۔
  3. ^ ا ب ملا فیض کاشانی: الوافی، جلد 1، صفحہ 17 تحت ترجمہ مولف۔ مطبوعہ مکتبہ الامام امیر المومنین علی علیہ السلام، اصفہان، 1412ھ۔
  4. محمد باقرخوانساری: روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، جلد 5، صفحہ 79۔ مطبوعہ قم، 1390ھ۔
  5. شیخ عباس قمی: الکنی والالقاب، جلد 3، صفحہ 39۔
  6. ملا فیض کاشانی: الوافی، مقدمہ مصنف، جلد 1، صفحہ 4۔ مطبوعہ اصفہان، 1412ھ۔
  7. محمد باقرخوانساری: روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، جلد 6، صفحہ 94 تا 100۔ مطبوعہ قم، 1390ھ۔
  8. شیخ عباس قمی: الکنی والالقاب، جلد 3، صفحہ 41۔
  9. میرزا عبد اللہ آفندی اصفہانی: ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، جلد 5، صفحہ 580۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  10. محمد باقرخوانساری: روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، جلد 6، صفحہ 79۔ مطبوعہ قم، 1390ھ۔
  11. ملا فیض کاشانی: دیوان، جلد 1، مقدمہ، صفحہ 6۔ مطبوعہ قم، 1371ھ۔
  12. ملا فیض کاشانی: الوافی، جلد 1، صفحہ 18 تا 30۔ مطبوعہ اصفہان، 1412ھ۔
  13. شیخ عباس قمی: الکنی والالقاب، جلد 3، صفحہ 40۔
  14. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 50۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  15. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 46۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  16. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 71۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  17. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 75۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  18. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 81۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  19. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 13۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  20. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 1، صفحہ 94۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔
  21. ملا فیض کاشانی: مفاتیح الشرایع، جلد 2، صفحہ 21۔ مطبوعہ قم، 1401ھ۔