اخباری (اہل تشیع)

شیعہ ١٢ امامیہ کا ایک فرقہ

اخباری اثنا عشریہ اہل تشیع میں نمودار ہونے والا ایک ذیلی تفرقہ کہا جا سکتا ہے جس میں قرآن، حدیثِ محمد اور حدیثِ امامیانِ عشریہ کی جانب سے آنے والی خبر پر قیام کیا جاتا ہے اور ان کے مطابق کسی دیگر عالم (علما) کے اجتہاد کی اہمیت دینی امور میں محض فتاوی کی حد تک ہی محدود ہوتی ہے نا کہ اس کے برعکس تفرقے اصولی کی طرح علما کو امام کے بارے میں اجتہاد کی اجازت فراہم کی جائے۔ شیعاؤں میں اس تحریک یا تفرقے کی ابتدا کا زمانہ سترہویں صدی (یا اس سے کچھ قبل)۔[1] بیان کیا جاتا ہے اور اس کا مقام ایران تسلیم کیا جاتا ہے ؛ اس زمانے میں وہ علما جو اجتہاد کو رد کرتے تھے ان سے ہی اس کا آغاز ہوا جبکہ سنی تفرقے والوں کے برخلاف (جن کے مطابق اجتہاد کی اب ضرورت باقی نہیں رہی) شیعہ اخباریوں کے خیال میں قرآن اور سنت (جس میں امامیان کی احادیث یعنی خبریں بھی شامل ہیں) تمام اقسام کے مسائل کی وضاحت کے لیے کافی ہیں اور غیبت صغرٰی کے زمانے میں عقل اور اجماع کو استعمال کرتے ہوئے علما کے پاس مذہب میں مداخلت کی گنجائش نہیں [2]

اخباری شیعہ امامیہ فقہا کا ایک ایسا گروہ ہے جو فقط احادیث و روایات کو فقہ اور استبناط و استخراج احکام شرعی کا منبع و ماخذ مانتا ہے۔ یہ گروہ جو گیارہویں صدی ہجری کے بعد وجود میں آیا ہے وہ اجتہاد کے لیے استعمال ہونے والی راہ و روش اور علم اصول کو صحیح نہیں سمجھتا ہے۔ جبکہ ان کے برخلاف اصولی فقہا احکام فقہی کے استنباط و استخراج کے لیے اجتہاد کی راہ و روش اور اصول فقہ کو لازم و ضروری سمجھتے ہیں۔

شیعہ امامیہ اخباری و اصولی علما میں یہ اختلاف نظر گیارہوں صدی ہجری سے پہلے بھی غیر واضح اور مخفی طور پر موجود تھا۔ لیکن اس صدی میں اس اختلاف نظر نے شدت اختیار کر لی اور یہ دو اصطلاحیں اخباری اور اصولی رواج پا گئیں اور یہ دونوں گروہ آشکار اور باقاعدہ طور ایک دوسرے کے مقابلہ میں آ گئے۔

محمد امین استر آبادی، عبد اللہ بن صالح بن جمعہ سماہیجی بحرانی اور مرزا محمد اخباری کا شمار شدت پسند اخباریوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ شیخ یوسف بحرانی، سید نعمت اللہ جزائری، ملا محسن فیض کاشانی، محمد تقی مجلسی، محمد طاہر قمی اور شیخ حر عاملی اس مسلک کے اعتدال پسند اور میانہ رو افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں شیخ وحید بہبہانی، شیخ مرتضی انصاری اور شیخ جعفر کاشف الغطا جیسے اصولی علما مد مقابل کے طور پر قرار پاتے ہیں۔

اخباریوں اور اصولیوں کے اہم ترین اختلافات حرمت و جواز اجتہاد، انحصار ادلہ بہ کتاب و سنت، منع از تحصیل ظن، تقسیم بندی روایات کی روش، جواز تقلید غیر معصوم (ع)، اخذ ظواہر کتاب، حسن و قبح عقلی، بعض موارد میں اصالۃ البرائۃ جاری کرنا، قیاس کی بعض اقسام کے استعمال کی حرمت، کتب اربعہ و ۔۔۔ کی تمام احادیث کا صحیح ماننا، جیسے مسائل ہیں۔

اشتقاق

ترمیم

دراصل ١٤ معصومین کی آحدیث کو اخبار کہتے ہیں. اب اخباری شیعوں کو اخباری اس لیے کہا جاتا کیونکہ یہ لوگ قُرآن کے ساتھ فقط ١٤ معصومین کی آحدیث کو اپنے لیے حُجت سمجھتے ہیں اور ساری زندگی اسی پر عمل کرتے ہیں اور معصومین کی ان آحدیث کو آگے لوگوں تک بھی پہنچاتے اور پھیلاتے ہیں اسی لیے اخباری کہلاتے ہیں. اخباری کا ایک مطلب خبر دینے والا بھی ہے کیونکہ یہ معصومین کے فرمان اور آحدیث(یعنی اخبار) لوگوں تک پہنچاتے ہیں اس لیے بھی اخباری کہلاتے ہیں.

اخباری کے مزید معنی زیل میں موجود ہیں:

  • (جعفری) غیر مقلد فرقہ جو صرف قُرآن و آحدیث کو قابل استناد سمجھتا ہے اور اجتہاد و تقلید کا قائل نہیں، نیز اس فرقے کا فرد یا افراد
  • حدیث کا راوی[3]
  • مُحدث
  • تاریخ نویس
  • تاریخ دان
  • مورخ

اخباریت کی تشکیل کا تاریخی سفر

ترمیم

شیعہ امامیہ فقہ سے متعلق اخباری و اصولی نظریات کے تقابل کی بازگشت صدر اسلام تک ہوتی ہے۔ صدر اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں امامیہ کے فقہی مکاتب و مذاہب کے مطالعہ سے ایسے گروہ کو پہچانا جا سکتا ہے جو متون روایات کی پیروی کرنے والوں کے برخلاف مختلف طریقوں سے اجتہاد و استنباط کا سہارا لیتے تھے۔

حدیث کی طرف میلان کا عروج

ترمیم

چوتھی صدی ہجری بمطابق دسویں صدی عیسوی کو قم کے حدیثی مکتب کے تسلط کے دور کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ ابن ابی عقیل عمانی و ابن جنید اسکافی جیسے اہل اجتہاد و استنباط اقلیت میں شمار ہوتے تھے۔ اس دور کے برجستہ حدیثی میں محمد بن یعقوب کلینی (328 یا 329 ق۔ 940 یا 941 ع)، علی بن بابویہ قمی (328 ق)، ابن قولویہ (368 یا 369 ق۔ 979 ع) و محمد بن بابویہ قمی (381 ق۔ 991 ع) جیسے افراد کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ جنھوں نے قدیمی ترین فقہی۔حدیثی کتابوں کی تالیف میں نہایت اہم کردار ادا کیے ہیں۔[4]

فقہ استدلالی کی طرف رجحان

ترمیم

شیخ مفید (413 ق۔ 1022 ع) کے دور اور ان کے بعد سید مرتضی (436 ق۔ 1044 ع) اور شیخ طوسی (460 ق۔ 1068 ع) اور اس کے بعد شیعہ امامیہ کی علم اصول فقہ کی اولین کتاب کی تالیف کے ساتھ ہی فقہ امامیہ میں جدید باب کا آغاز ہو جاتا ہے جس نے صدیوں تک حدیثی میلان رکھنے والے فقہائ کے اوپر اجتہاد و استنباط کرنے والے فقہائ کو برتری بخشی۔ ان دونوں رجحانات کے تقابل کا سلسلہ مذکورہ علما کی تالیفات میں جگہ جگہ مشاہدہ میں آتا ہے۔ شیخ مفید، جن کا شمار اہل استنباط فقہائ میں ہوتا ہے، اپنی تالیف اوائل المقالات میں فقہائ کو مطلق طور پر اور حدیثی علما کو بارہا اہل النقل اور اصحاب الآثار جیسی تعبیرات کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔[5] سید مرتضی کی ایک تالیف میں فقہائ اصحاب حدیث سے ان فقہائ کو تعبیر کیا گیا ہے جو اصولی روش کے حامل نہیں ہیں اور اصولی روش کے فقہائ کو مورد حمایت قرار دیا گیا ہے۔[6]

چھٹی صدی میں اخباری اصطلاح کا ظہور

ترمیم

اخباری اصطلاح کا استعمال پہلی بار سن چھٹی صدی ہجری بمطابق بارہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں کتاب ملل و نحل میں جس کے مولف شہرستانی ہیں، دیکھنے میں آتا ہے۔[7] اور اس کے بعد چھٹی صدی ہجری کے شیعہ امامی عالم عبد الجلیل قزوینی رازی نے اپنی کتاب نقض میں ان دو اصطلاحوں اصولی و اخباری کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں قرار دیا ہے۔[8]

اہل حدیث فقہائ کا مکتب جسے چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں اصولی فقہائ کی کوششوں نے کمزور کر دیا تھا۔ اس نے اپنے محدود وجود کو امامیہ کے فقہی مجامع و محافل میں محفوظ کر لیا، یہاں تک کہ گیارہویں صدی ہجری کی ابتدائی میں اسے ایک بار پھر محمد امین استر آبادی (1033 یا 1036 ق۔ 1624 یا 1627 ع) کے ذریعہ ایک نئے قالب میں پیش کیا گیا۔[9] اور اس نے اپنے تیز و تند حملوں کا رخ اصولیوں کی طرف کر دیا۔ بعض کا ماننا ہے کہ ابن ابی جمہور احسایی (با قید حیات 904 ق۔ 1499 ع) کا شمار ان لوگوں میں ہیں جنھوں نے اخباریوں کے لیے راہ کو ہموار کیا۔ انھوں نے ایک رسالہ میں جس کا عنوان العمل باخبار اصحابنا تھا، اس سلسلہ میں اپنے دلائل پیش کیے۔[10]

اخباریت کی تاریخی قدمت کے مد نظر، اخباری عنوان کا رواج اور اطلاق اس خاص گروہ اور آج کے موجودہ معنی و اصطلاح کے مطابق جو گیارہویں صدی ہجری میں اور اخباریت کی جدید تحریک کے ظہور کے ساتھ اس کے بانی محمد امین استر آبادی سے ہوتا ہے جسے بعض افراد نے (اخباری صلب) کی صفت کے ساتھ متصف کیا ہے۔[11]

زوال

ترمیم

گیارہویں صدی ہجری میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان آشکارا طور پر تقابل کے آغاز اور بعد کی صدیوں میں اس کے جاری رہنے اور آیت اللہ وحید بہبہانی (متوفی 1205 ق) جیسے بزرگ اصولی عالم کے ظہور کے ساتھ ہی شیعہ حوزہ ھای علمیہ سے اخباریوں کا اثر و رسوخ رفتہ رفتہ کم ہونے لگا۔ اخباریوں کی اس شکست میں آیت اللہ وحید بہبہانی موثر ترین اصولی علما میں سے ہیں۔ انھوں نے اصولیوں سے اس مقابلہ کے رخ کو نظری دائرہ سے عملی سلسلہ کی طرف موڑ دیا اور اس سلسلہ میں انھوں نے اخباریوں کے پیشوا شیخ یوسف بحرانی کی امامت میں نماز جماعت کی اقتدائ کو حرام قرار دیا[12] اور ان کے بعد شیخ مرتضی انصاری (1281 ق)[13] اور شیخ جعفر نجفی کاشف الغطا (1227 یا 1228 ق)[14] وغیرہ جیسے اصولی علما نے اصولی نظریات کی تبلیغ و ترویج اور علم اصول کی تدوین و تدریس کے ساتھ، اخباریوں کو مکمل طور پر میدان سے باہر کر دیا اور آج شیعہ حوزات علمیہ میں اصولی افکار و نظریات حاکم ہیں اور اخباری نظریات پراکندہ صورت اور حالت کے علاوہ دیکھنے میں نہیں آتے ہیں۔

شدت پسندی

ترمیم

کہا جاتا ہے کہ محمد امین استر آبادی جو متاخرین شیعوں میں اخباری مسلک کے رئیس کے عنوان سے معروف ہیں۔ سب سے پہلے انھوں نے علم اصول اور مجتہدین پر تنقید کی ابتدا کی اور انھوں نے شیعہ امامیہ کو دو حصوں اخباری و مجتہدین (اصولی) میں تقسیم کیا[15] اور وہ خود ابتدائی میں مجتہدین میں شمار ہوتے تھے اور انھوں نے بڑے بڑے مجتہدین سے اجازات کسب کیے تھے لیکن بعد میں انھی کی روش پر حملہ کرنے لگے۔[16] گویا وہ نہایت شدت کے ساتھ اپنے استاد مرزا محمد استر آبادی کے افکار کے تحت تاثیر تھے،[17] محمد امین نے اپنے نظریات اور تعلیمات کو الفوائد المدنیۃ نامی کتاب میں تدوین کیا جس کا شمار اخباریوں کے مہم ترین منبع میں ہوتا ہے۔

گیارہویں صدی ہجری میں اخباری مسلک کے ایک تند اور متعصب پیرو میں عبد اللہ بن صالح جمعہ سماہیجی بحرانی کا نام بھی آتا ہے وہ منیۃ الممارسین نامی کتاب کے مولف ہیں۔[18] شیخ یوسف بحرانی تحریر کرتے ہیں کہ وہ اہل اجہتاد کو بیحد برا کہتے تھے۔ جبکہ ان کے والد ملا صالح خود اہل اجتہاد تھے۔[19]

ابو احمد جمال الدین محمد بن عبد النبی، محدث نیشاپوری استر آبادی (متوفی 1232 ق۔ 1817 ع) جو میرزا محمد اخباری کے نام سے معروف ہیں۔ وہ بڑے نامدار اصولی علما جیسے میرزا ابو القاسم قمی، شیخ جعفر نجفی کاشف الغطائ، میر سید علی طباطبایی، سید محمد باقر حجۃ الاسلام اصفہانی اور محمد ابراہیم کلباسی کا ذکر برائی کے ساتھ کرتے تھے [20]اور ان کے ساتھ آشکارا دشمنی رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے قتل کے حکم پر اس زمانہ کے نامور علما جن میں سید محمد مجاہد، میر سید علی طباطبایی کے بیٹے، شیخ موسی، کاشف الغطائ کے بیٹے، سید عبد اللہ شبر اور شیخ اسد اللہ کاظمینی شامل ہیں، نے دستخط کیے تھے۔

میانہ روی

ترمیم

شیخ یوسف بحرانی (ولادت 1186 ق۔ 1772 ع) نے اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان معتدل روش کا انتخاب کیا۔[21] ان کا کہنا تھا کہ وہ فقہ میں محمد تقی مجلسی کی روش اور ان کے مسلک پر ہیں، جو اخباریوں و اصولیوں کی اعتدال پسندی پر مبنی ہے۔[22] آیت اللہ وحید بہبہانی کو شیخ یوسف بحرانی کی مخالفت سے پرہیز نہیں تھا اور وہ لوگوں کو ان کی امامت میں نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے۔[23] شیخ یوسف بحرانی، اخباری مسلک کے رئیس ہونے کے عنوان سے جہاں بھی وہ مناسب سمجھتے تھے انھیں ایسے تند و تیز انتقادات سے جو شیعوں اور اخباری و اصولی علما کے درمیان شگاف اور اختلاف کا باعث ہوں، منع کرتے تھے۔

سید نعمت اللہ جزائری شوشتری (متوفی 1112 ق۔ 1700 ع) حالانکہ اخباری مسلک تھے اس کے باوجود وہ مجتہدین اور ان کے مقلدین کی تائید میں اور ان کی نظریات کے احترام کی بیحد سعی کرتے تھے۔[24]

بعض نے ملا محسن فیض کاشانی (1091 ق۔ 1680 ع) کا شمار بھی اخباریوں میں کیا ہے۔[25] فیض کاشانی کہتے ہیں: میں قرآن و حدیث کا مقلد ہوں اور ان کے علاوہ سے اجنبی ہوں۔[26] اگر چہ ظاہری طور پر ان کی مراد یہاں تصوف سے تقابل ہے نہ کہ اجتہاد اور علم اصول سے؛ البتہ فیض کاشانی معتقد ہیں کہ عام لوگوں (غیر معصوم) کی عقلیں ناقص اور غیر قابل اعتبار ہیں اور حجت نہیں ہیں۔[27] فیض کاشانی نے اپنی بعض تالیفات جیسے الکلمات الکمنونہ میں آشکارا طور پر مجتہدین پر حملہ کیا ہے اور ان کی اسولی روش پر تنقید کی ہے ۔ ان کی بعض کتابوں منجملہ مذکورہ کتاب میں موجود ان کی نظریات کی تحقیق اور مطالعہ سے ان کے اخباری مسلک ہونے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اصولی حضرات نے اجتہاد اصولی کا باب وا کرکے مکلفین کے لیے تکلیف شرعی کو سخت کر دیا ہے اور ان چیزوں کے بارے میں بات کی ہے جس بارے میں اللہ (عز و جل) نے کوئی قول پیش نہیں کیا ہے جبکہ حکمت اس بات میں تھی کہ وہ چیزیں ایسے ہی مسکوت رہ جاتیں۔[28]

محمد تقی مجلسی (متوفی 1070 ق۔ 1660 ع) کا شمار بھی اخباری مسلک کے معتدل افراد میں ہوتا ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا وہ محمد امین استر آبادی کے افکار و نظریات کی واضح اور صریح انداز میں تائید کرتے تھے۔[29]

ملا خلیل بن غازی قزوینی (متوفی 1089 ق۔ 1678 ع) شیخ حر عاملی، محمد باقر مجلسی، ملا محسن فیض کاشانی کے معاصرین میں اور شیخ بہایی اور میر داماد کے شاگردوں میں ہیں۔ وہ اجتہاد کی مکمل طور پر مخالفت کرتے تھے اور اس کا انکار کرتے تھے۔[30]

محمد طاہر قمی (1098 ق۔ 1687 ع) کا شمار بھی اخباری مسلک کے اعتدال پسند افراد میں ہوتا ہے۔[31]

شیخ حر عاملی (متوفی 1104 ق۔ 1693 ع) نے اپنی مشہور کتاب وسائل الشیعہ کے خاتمہ میں اپنے اخباری ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔[32]

اخباریت سے مقابلہ

ترمیم

اصولیوں اور اخباریوں کا مقابلہ جس کا آغاز گیارہویں صدی ہجری میں ہوا اور جس میں اخباریوں کی تند روی سے اضافہ ہوتا گیا۔ آخر میں مجتہدین کی طرف سے خاص طور پر شیخ وحید بہبہانی (متوفی 1205 ق۔ 1791 ع) کی طرف سے اخباریت کے خلاف ایک سنجیدہ اور منظم مقابلہ میں تبدیل ہو گیا۔[33] وحید بھبھانی کے زمانہ میں عراق کے شہر خاص طور پر کربلا اور نجف اخباریوں کا مرکز تھے اور اس زمانہ میں ان کی زعامت شیخ یوسف بحرانی کے ہاتھوں میں تھی۔ اس زمانہ میں اہل اصول و اجتہاد شدید طور پر گوشہ نشینی کا شکار ہو گئے تھے، یہاں تک کہ شیخ وحید بہبہانی نے کربلا کی طرف ہجرت کی[34] اور اخباریت کے خلاف سنجیدہ اور شدید مقابلہ کا محاذ کھول دیا۔

وہ اپنی علمی بحثوں اور استدلال کے ساتھ جو انھوں نے اخباریت کے بطلان پر قائم کی تھیں، اجتہادی روشوں کے اثبات اور اخباریت کی رد میں عملی اقدامات کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ انھوں نے شیخ یوسف بحرانی جو اس زمانہ میں اخباری مسلک کے رئیس تھے، کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو حرام قرار دے دیا تھا۔[35] شیخ وحید بہبہانی اور اس زمانہ کے دیگر برجستہ اصولی علما کے اقدامات کے سبب اصولی مسلک افراد گوشہ نشینی کی حالت سے باہر نکل کر اخباریت کے مقابلہ میں قدرت حاصل کر لی۔

شیخ وحید بہبہانی کی اخباریت کے رد اور مجتہدین کے دفاع میں لکھی جانے والی تالیفات میں سے ایک رسالۃ الاجتہاد والاخبار بھی ہے۔ وحید بہبہانی کو ان کے اخباریوں کے ساتھ شدید و طولانی عملی و نظری مقابلہ کے سبب انھیں تیرہویں صدی ہجری کا مروج مذہب، رکن طائفہ شیعہ، پایہ استوار شریعت اور نیز مجدد مذہب اور مروج طریقہ اجتہاد کہا گیا ہے۔[36]

شیخ انصاری

ترمیم

شیخ وحید بھبھانی کے بعد شیخ مرتضی انصاری (1281 ق۔ 1864 ع) کو علم اصول فقہ کا بانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے: اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو اس اصول کو قبول کر لیتے۔[37]

کاشف الغطا

ترمیم

اخباریوں سے مقابلہ کرنے والے دیگر علما میں سے ایک شیخ جعفر نجفی کاشف الغطا (1227 یا 1228 ق۔ 1812 یا 1813 ع) ہیں۔ وہ مرزا محمد اخباری کے مخالفین میں سے تھے۔ اور اسی سلسلہ میں انھوں نے ایک رسالہ کشف الغطا عن معائب مرزا محمد عدو العلما کے عنوان سے تالیف کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اس رسالہ کو فتح علی شاہ قاجار کو بھی بھیجا تھا تا کہ وہ مرزا محمد اخباری کی حمایت سے دست بردار ہو جائے۔[38]

اخباریت کا رواج

ترمیم

گیارہویں سے تیرہویں صدی ہجری تک اخباریت کا رواج ایران و عراق اور بحرین و ہندوستان کے زیادہ تر مذہبی شہروں میں ہو چکا تھا۔[39] اخباریت کے فروغ کے زمانہ میں اس کا زیادہ تر اثر قزوین کے مغربی علاقے میں تھا جو ایسے اخباریوں کا مرکز تھا جو ملا خلیل قزوینی (1089 ق) کے شاگردوں اور مریدوں میں سے تھے۔[40] لہذا اس شہر کا شمار اس مسلک کے مہم ترین شہروں میں کیا جاتا تھا۔ لیکن اصولیوں کے اخباریوں سے مقابلہ اور ان کے دن بہ دن کمزور ہو جانے کے بعد سے اس مکتب کا دائرہ نہایت محدود ہوتا چلا گیا۔

بنیادی اختلافات

ترمیم

سید نعمت اللہ جزائری نے کتاب منبع الحیات اور ملا رضی قزوینی نے لسان الخواص میں اصولیوں اور اخباریوں کے درمیان پائے جانے والے عمدہ اختلافات کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح سے عبد اللہ بن صالح سماہیجی بحرانی نے کتاب منیۃ الممارسین میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان پائے جانے والے چالیس فرق کو بیان کیا ہے۔ شیخ جعفر کاشف الغطائ نے بھی کتاب الحق المبین میں اخباریوں اور اصولیوں کے درمیان موجود فرقوں کی تحقیق و تجزیہ پیش کیا ہے۔ اور اسی طرح سے میرزا محمد اخباری نے کتاب الطھر الفاصل میں 59 فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سید محمد دزفولی نے کتاب فاروق الحق میں ان اختلافات کی تعداد 86 تک ذکر کی ہے۔ اور شیخ حر عاملی نے بھی الفواید الطوسیۃ کے فائدہ نمبر 92 میں ان دو گروہوں کے درمیان اختلافات کا ذکر کیا ہے۔

اجتہاد کا حرام ہونا

ترمیم

اخباری، اجتہاد کو حرام جانتے ہیں۔ جبکہ اصولی اسے واجب کفایی مانتے ہیں اور حتی بعض علما نے واجب عینی بھی کہا ہے۔ ملا محمد امین استر آبادی نے کتاب الفوائد المدنیۃ میں اجتہاد کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ علما ما سبق کی روش اجتہاد پر مبنی نہیں تھی۔[41]

کتاب و سنت پر انحصار

ترمیم

اخباری، ادلہ فقہی کو کتاب و سنت تک منحصر جانتے ہیں۔ اور اصولیوں کے بر خلاف اجماع اور عقل کو حجت نہیں مانتے ہیں۔

دوسرے اختلافات

ترمیم

منع از تحصیل ظن:اخباری ظن و گمان یا ادلہ ظنی کے ذریعہ حاصل ہونے والے احکام کو نہیں مانتے ہیں اور مجتہدین کے بر خلاف فقط علم کو حجت جانتے ہیں۔

تقسیم بندی روایات: اخباریوں کے نزدیک احادیث دو قسم کی ہوتی ہیں: 1۔ صحیح 2۔ ضعیف جبکہ مجتہدین کی تالیفات میں روایات کی چار اقسام بیان صحیح، حسن، موثق اور ضعیف بیان ہوئی ہیں۔

غیر معصوم کی تقلید؛ اصولی لوگوں کو دو گروہ مجتہد اور مقلد میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن اخباری غیر معصوم کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

اخذ ظواہر کتاب: اصولی ظاہر قرآن کو حجت سمجھتے ہیں اور اسے ظاہر روایات پر ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ اخباری ظاہر قرآن کو فقط اس صورت میں جائز سمجھتے ہیں جب معصومین (ع) سے کوئی تفسیر موجود ہو۔

کتب اربعہ کی تمام احادیث کا صحیح ہونا: اخباری، اصولیوں کے برخلاف کتب اربعہ کی تمام روایات کو صحیح اور قطعی الصدور مانتے ہیں۔

6۔ حسن و قبح عقلی: اخباری حسن و قبح عقلی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اصولیوں کے بر خلاف احکام مستقلات عقلی کو حجت شرعی نہیں مانتے ہیں۔

قیاس کی بعض اقسام پر عمل کو حرام قرار دینا: اخباری قیاس کی بعض قسموں جیسے قیاس اولویت، قیاس منصوص العلۃ اور حتی تنقیح مناط کو جنہیں اصولی معتبر مانتے ہیں، کو احادیث میں نہی شدہ قیاس سمجھتے اور انھیں باطل مانتے ہیں۔[42]

اصالۃ البرائت: اصولی شبہہ حکمیہ تحریمیہ میں بھی اور شبہہ حکمیہ وجوبیہ میں بھی دونوں میں اصالۃ البرائۃ جاری کرتے ہیں۔ جبکہ اخباری صرف شبہہ حکمیہ وجوبیہ میں ان کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں۔

روایات کے تعارض کی صورت میں اصالۃ البرائت: اخباری اصولیوں کے برخلاف روایات میں تعارض کے وقت برائت اصلیہ سے تمسک کرتے ہوئے ترجیح کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ استر آبادی کتاب فوائد المدنیۃ میں تحریر کرتے ہیں:

میرا ماننا ہے کہ برائت اصلیہ سے تمسک کرنا بطور کلی اکمال دین سے پہلے تک صحیح تھا لیکن اس کے بعد جب دین اپنے کمال تک پہچ گیا تو برائت کے کوئی محل باقئ نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ائمہ علیہم السلام سے منقول متواتر روایات تمام ان مواقع کے لیے جن کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے، ہم تک پہچ چکی ہیں اور روز قیامت تک موضوعات کے حقایق ثابت ہو چکے ہیں اور اسی طرح سے دو افراد کے ہر طرح کے اختلافات کی صورت میں حکم بیان کیا جا چکا ہے۔[43]

شیخیت اور اخباریت کا باہمی ارتباط

ترمیم

شیخیوں سے اخباریوں کے باہمی رابطے کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے بزرگان اخباریوں سے کسی بھی طرح کے رابطے کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مخالفین شیخیوں و اخباریوں کے درمیان بعض بنیادی رابطے کے قائل ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ شیخی مسلک کی پیدائش اخباری مکتب کے افکار سے متاثر رہی ہے۔[44] جبکہ بعض کا ماننا ہے کہ شیخی فرقے کے افراد نہ پوری طرح سے اصولیوں کے پیرو ہیں اور نہ اخباریوں کے بلکہ ان کا مسلک ان دونوں اصولی و اخباری کے درمیان کا راستہ ہے۔

یورپی محققین کی توجہ

ترمیم

بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں اخباریت کے سلسلہ میں یورپی محققین کی تحقیقات میں اضافہ ہو گیا۔ 1958 عیسوی میں اسکارچہ نے ایک مقالہ میں جس کا عنوان: ایران کے شیعہ امامیہ اخباری اور اصولی کے درمیان مباحثات کے سلسلہ میں تھا۔ اس میں اس نے تفصیل کے ساتھ ان کے آرائ و نظریات پر تنقید و تحلیل پیش کی ہے اور ان دونوں کے درمیان پائے جانے والے بعض اختلافات کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد 1980 ع میں مادلونگ نے ایک مقالہ دائرۃ المعارف اسلام تحریر کیا، جس میں اس نے موضوع کے ضمن میں اخباریت کا تعارف پیش کیا ہے۔[45] کولبرگ نے بھی 1985 عیسوی میں ایک مقالہ اخباریان کے عنوان سے تالیف کیا ہے۔[46]

اخباری شیعوں کے منابع

ترمیم
  • قرآن کریم
  • ١٤ معصومین(علیہ السلام) کی آحدیث و سیرت[47]

ممتاز اخباری علماء

ترمیم
  • (ابو القاسم جعفر ابنِ محمد ابنِ جعفر ابنِ موسیٰ ابنِ قولویہ قمی البہدادی) اُرف (ابنِ قولویہ)
  • نعمت اللّٰہ جزائری
  • عبد علی ابنِ جمعہ العروسی حویزی
  • یوسف بحرانی
  • مرزا مُحمد کامل دہلوی
  • مُحمد اسماعیل
  • آصف علی رضا(ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
  • عبداللّٰہ بن صالح سماہیجی
  • مرزا مُحمد اخباری
  • صالح الکرزکانی

حوالہ جات

ترمیم
  1. Islamic law: theory and practice By Robert Gleave, Eugenia Kermeli; I.B.Tauris 2001گوگل کتاب
  2. Transnational Shia Politics By Laurence Louėr; Columbia Uvi Press. 2008 گوگل کتاب
  3. https://www.rekhtadictionary.com/meaning-of-akhbaarii?lang=ur
  4. مدرسی طباطبایی، مقدمه‌ای بر فقه شیعه، ص34 کے بعد
  5. مفید، اوائل المقالات، ص19، 23، جم
  6. سید مرتضی، «‌رساله فی الرد علی اصحاب العدد »، ص18
  7. 1/147
  8. شهرستانی، الملل و النحل، ص256، 300-301
  9. مدرسی طباطبایی، مقدمه‌ای بر فقه شیعه، ص57
  10. حر عاملی، امل الآمل، ج2، ص253؛ خوانساری، روضات الجنات، ج7، ص33
  11. بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص117
  12. خوانساری، ج2، ص94.
  13. اعتماد السلطنه، ص137؛ مدرس، ج1، ص191 و 192، مدرسی طباطبایی، ص61.
  14. خوانساری، ج2، ص202.
  15. کشمیری، نجوم السماء، ص41؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص321؛ بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص117
  16. استرابادی، الفوائد المدنیه، ص2؛ نیز خوانساری، روضات الجنات، ج1، ص120
  17. خوانساری، روضات الجنات، ج1، ص120؛ نیز نک: استرابادی، الفوائد المدنیه، ص11، جم
  18. خوانساری، روضات الجنات، ج2، ص247؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص310
  19. بحرانی، لؤلؤه البحرین، ص98
  20. خوانساری، روضات الجنات، ج2، ص127 کے بعد؛ نفیسی، تاریخ اجتماعی و سیاسی ایران در دوره معاصر، ص250
  21. کشمیری، نجوم السماء، ص279؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص271؛ مدرس، ریحانه الادب، ج3، ص360
  22. کشمیری، نجوم السماء، ص283
  23. مامقانی، نقیح المقال، ج2، ص85
  24. مدرس، ریحانة الادب ج3، ص113
  25. برای نمونه: خوانساری، روضات الجنات، ج6، ص85
  26. فیض کاشانی، ده رساله، ص196
  27. فیض کاشانی، ده رساله، ص169-170
  28. فیض کاشانی، الکلمات الکمنونه، ص209 و 215.
  29. 57 S, ,.EI
  30. خوانساری، روضات الجنات، ج3، ص270؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص263
  31. مدرس، ریحانه الادب، ج4، ص489
  32. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج20، ص105- 112.
  33. صالحی، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، ج1، ص25؛ مدرسی طباطبایی، مقدمه‌ای بر فقه شیعه، ص60
  34. خوانساری، روضات الجنات، ج2، صص94، 95
  35. مامقانی، تنقیح المقال، ج2، ص85
  36. خوانساری، روضات الجنات، ج2، ص94
  37. اعتمادالسلطنه، المآثر و الاثار، ص137؛ مدرس، ریحانة الادبف ج1، ص191- 192؛ مدرسی طباطبایی، مقدمه‌ای بر فقه شیعه، ص61
  38. خوانساری، روضات الجنات، ج2، ص202
  39. حائری، تشیع و مشروطیت ایران، ص86
  40. صالحی، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، ج1، ص26
  41. استرآبادی، الفوائد المدنیه، ص40
  42. دزفولی، «‌فاروق الحق »، ص3 به بعد؛ خوانساری، روضات الجنات، ج1، صص127-130؛ : امین، اعیان الشیعه، ج3، ص223
  43. استرآبادی، الفوائد المدنیه، ص106
  44. رازی، آثار الحجه، ج 1، ص 168
  45. : S , 2.EI
  46. رجوع کریں: ایرانیکا
  47. "Welcome to Akhbari.com"۔ 14 جولا‎ئی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2018 

منابع

ترمیم
  • استرابادی، محمد امین، الفوائد المدنیه، چ سنگی.
  • امین، محسن، اعیان الشیعه، به کوشش محسن امین، بیروت، 1403ق.
  • اعتماد السلطنه، محمد حسن، المآثر و الاثار، چ سنگی، کتابخانه سنائی.
  • بحرانی، یوسف، لؤلؤه البحرین، به کوشش محمد صادق بحرالعلوم، قم، مؤسسه آل البیت.
  • تنکابنی، محمد، قصص العلماء، تهران، 1369ق.
  • حائری، عبدالهادی، تشیع و مشروطیت ایران، تهران، 1360ش.
  • حر عاملی، محمد، امل الامل، به کوشش احمد حسینی، نجف، 1385ق.
  • وہی، وسائل الشیعه، بیروت، 1389ق.
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، قم، 1391ق.
  • دزفولی، فرج الله، «‌فاروق الحق »، در حاشیه حق المبین.
  • رازی، محمد، آثار الحجه، قم، 1332ق.
  • سید مرتضی، علی، «‌رساله فی الرد علی اصحاب العدد »، رسائل الشریف المرتضی، قم، 1405ق، ج2.
  • شهرستانی، محمد، الملل و النحل، به کوشش محمد بن فتح الله بدرانی، قاهره، 1357ق /1936م.
  • صالحی، عبدالحسین، مقدمه بر غنیمة المعاد فی شرح الارشاد (موسوعه) برغانی، تهران، مطبعه احمدی.
  • فیض کاشانی، محسن، ده رساله، به کوشش رسول جعفریان، اصفهان، 1371ش.
  • فیض کاشانی، محسن، الکلمات المکنونه، تصحیح و مقدمه ابراهیم احمدیان، پایان نامه کارشناسی ارشد دانشگاه تهران، 1377ش.
  • قزوینی رازی، عبد الجلیل، نقض، به کوشش جلال الدین محدث ارموی، تهران، 1331ق.
  • کشمیری، محمدعلی، نجوم السماء، چاپخانه جعفری، 1303ق.
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، نجف، 1350ق.
  • مدرس، محمد علی، ریحانه الادب، تبریز، 1346ق.
  • مدرسی طباطبایی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه، ترجمه محمدآصف فکرت، مشهد، 1368ش.
  • مفید، محمد، اوائل المقالات، قم، 1413ق.
  • نفیسی، سعید، تاریخ اجتماعی و سیاسی ایران در دوره معاصر، تهران، 1335ش.

انگریزی منبع

ترمیم

EI2,S,Iranica.