مولانا احمد سعید مجددی دہلوی

مولانا احمد سعید مجددی دہلوی (پیدائش: یکم اگست 1802ء– وفات: 18 ستمبر 1860ء) تیرہویں صدی ہجری کے اکابر مشائخ اور جید علمائے برصغیر میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ بیک وقت عالمِ دین، فقیہ، محقق اور مصنف بھی تھے۔

مولانا احمد سعید مجددی دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش 1 اگست 1802ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رام پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 ستمبر 1860ء (58 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت (اگست 1802–ستمبر 1857)
سلطنت عثمانیہ (مئی 1858–18 ستمبر 1860)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  فقیہ ،  مصنف ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

پیدائش اور تعلیم

ترمیم

مولانا احمد کے والد مولانا ابوسعید مجددی دہلوی تھے اور اِس خاندان کی پشت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ مولانا کی پیدائش یکم ربیع الثانی 1217ھ مطابق یکم اگست 1802ء کو رام پور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی ابوسعید مجددی دہلوی اور مولانا سراج احمد رام پوری سے حاصل کی۔ کتب درسیہ کی تکمیل مفتی شرف الدین رام پوری سے کی۔ مزید تعلیم کے لیے لکھنؤ کا عزم کیا اور وہاں کچھ کتابیں شیخ محمد اشرف لکھنؤی اور کچھ کتب مولانا نور الحق لکھنؤی کے حلقہ درس میں مکمل کیں۔ لکھنؤ سے دہلی کا قصد کیا۔ وہاں مولانا فضل امام خیرآبادی اور مولانا رشید الدین دہلوی کے درس میں شرکت کی اور اُن سے اِستفادہ کیا۔ دہلی میں بہت سے اصحابِ کمال کے تدریس کے حلقے قائم تھے، جن میں شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی کے فرزندگان گرامی (شاہ عبد القادر دہلوی، شاہ رفیع الدین دہلوی ، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی) مصروفِ درس و اَفادہ تھے۔ مولانا احمد سعید طلبِ علم کے لیے اِن حضرات کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے جن میں تحقیقی مسائل اور کبھی سماعِ درس شامل تھے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے تو صحاح ستہ، حصن حصین، دلائل الخیرات اور قول الجمیل کا باقاعدہ شرف اجازہ حاصل کیا۔اِس اثناء میں شیخ غلام علی دہلوی کے بابِ تصوف و طریقت پر دستک کی اور اُن سے رسالہ قشیریہ، عوارف المعارف، احیاء العلوم الدین، نفحات الانس، رشحات عین الحیات ، مثنوی مولانا روم اور مکتوباتِ امام ربانی کا درس لیا اور اُن کے حلقہ بیعت میں داخل ہو گئے۔[1]

1857ء کی جنگِ آزادی اور مولانا احمد سعید کا مرتبہ و مقام

ترمیم

دہلی میں سکونت کے دوران مولانا احمد کا مقام و مرتبہ انتہا کو پہنچ گیا تھا اور اکتسابِ علم کے واسطے شاگرد دور دور سے اُن کے حلقہ درس میں شامل ہوتے تھے۔ لیکن یہ عہد مغلیہ سلطنت کے زوال کا عہد بھی ہے ۔ خود مولانا نے تین مغل شہنشاہوں کا دور دیکھا جن میں شاہ عالم ثانی، اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر شامل ہیں۔1857ء کی جنگ آزادی میں جب ہندوستان بھر میں باغیوں کے ہنگامے پھوٹ پڑے تو مولانا احمد سعید اُس وقت پیرانہ سالی میں تھے اور دہلی میں اپنی خانقاہ میں بیٹھے رہے اور ہنگاموں سے لاتعلق رہے۔ پوری دلجمعی و سکون سے رشد و ہدایت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔آپ کو تفسیر، حدیث اور فقہ میں درجۂ کمال حاصل تھا اور اِسی کی روشنی میں مسائل شرعیہ کی وضاحت کیا کرتے تھے اور فتاویٰ جاری کرتے تھے مگر مولانا وقتی اور ہنگامی سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھتے تھے۔ سیاست میں ملوث ہونے کی صورت میں خدمتِ دین میں رکاوٹ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، اِسی لیے 1857ء کے ملک گیر ہنگاموں میں کوئی حصہ نہ لیا اور اپنے آپ کو اشاعتِ دین کے لیے وقف کیے رکھا۔ جنگ کے دوران بعض بدخواہوں کی غلط خبروں کے ذریعے انگریز آپ کی گرفتاری پر آمادہ ہوئے مگر فتویٰ غداری جھوٹ ثابت ہونے پر آپ اپنے خاندان سمیت ستمبر 1857ء میں دہلی سے حجازِ مقدس کی جانب روانہ ہو گئے اور 9 مہینے بعد شوال المکرم 1274ھ مطابق مئی 1858ء میں مکہ مکرمہ پہنچے۔حج اداء کرنے کے بعد مدینہ منورہ آگئے اور پھر وہیں آباد ہو گئے۔[2]

وفات

ترمیم

مولانا احمد سعید دہلوی کی وفات بروز منگل 2 ربیع الاول 1277ھ مطابق 18 ستمبر 1860ء کو مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مرقد کے قریب تدفین کی گئی۔[3]

کتابیات

ترمیم
  • محمد اسحاق بھٹی: فقہائے ہند، جلد 6، مطبوعہ دارالنوادر پبلیکیشنز، لاہور، 2013ء
  1. فقہائے ہند، جلد 6، صفحہ 57-58۔
  2. فقہائے ہند، جلد 6، صفحہ 58-59۔
  3. فقہائے ہند، جلد 6، صفحہ 59۔