وادی سون
وادی سون سکیسر پاکستان کی قدیم اور خوبصورت وادی ہے جو قدرتی مناظر کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ نوشہرہ اس وادی کا صدر مقام ہے اور ضلع خوشاب کی ذیلی تحصیل ہے۔ سکیسر پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک صحت افزاء مقام کا نام ہے۔ یہ ایک وسیع پہاڑی سلسلے کا عنوان ہے جس میں کئی وادیاں اور چھوٹے بڑے گاؤں ہیں۔ اس علاقے کو "وادی سون سکیسر'" کہا جاتا ہے۔ عظیم مسلمان فاتح ظہیرالدین بابر کا پوٹھوہار کے علاقے سے گذر ہوا تھا۔ راستے میں ایک وادی تھی جس کے حسن نے بادشاہ سلامت کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پڑائو ڈالا۔ قدرتی حسن تو اس وادی کا تھا ہی بابر نے بھی اس وادی کے حسن میں اضافہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ باغات اگانے کا حکم جاری کیا اور اس وادی کے بارے میں تاریخی کلمات ادا کیے۔ جو اس علاقے کے لوگوں کے لیے آج بھی باعث فخر ہیں ظہیر الدین بابر نے کہا کہ:
وادیِ سُون | |
---|---|
پاکستان میں مقام | |
متناسقات: 32°58′N 72°15′E / 32.967°N 72.250°E | |
ملک | پاکستان |
علاقہ | صوبہ پنجاب |
ضلع | ضلع خوشاب |
منطقۂ وقت | پی م و (UTC+5) |
ٹیلی فون کوڈ | 0454 |
” | ایں وادی بچہ کشمیر است | “ |
یعنی یہ وادی چھوٹا کشمیر ہے۔ اس بادشاہ کی چند نشانیاں آج بھی اس وادی میں موجود ہیں۔ اس وادی کا نام سون سیکسر ہے۔" [1]
وجہ تسمیہ
ترمیم"سون' کا لفظ سنسکرت میں سوہن بمعنی خوبصورت کے ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ سوہن کا تلفظ سون کی شکل اختیار کر گيا۔ یوں یہ "سوہن دھرتی" "وادی سون" کے نام سے پککاری جانے لگی۔ "سکیسر " مرکب ہے "سکی" اور سر" سے سنسکرت ہی "سر " تالاب سے عبارت ہے اور سکی سے مراد منی گوتم ہے۔ ایک روایت کے مطابق "ساکیا" ایک قوم کا نام ہے اور "ساکیانی" کا اطلاق مہاتمابدھ پر بھی ہوتا تھا یوں "سکیسر" کا لفظ ساکی سر سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ساکیہ کا تالاب۔[2] ڈاکٹر دانی کا خیال ہے کہ سون سنسکرت میں سونے کو کہا جاتا ہے۔ سک کسی شخص یاقبیلے کا نام ہے۔ ایسر دراصل ایشوڑا یعنی دیوتا سے لیا گيا ہے۔
مذکورہ روایت کی تائيد اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس پہاڑ کے دامن میں واقع جھیل اوچھالی کو سکی منی گوتم کا "سر " کہا جاتا ہے۔ اس لسانی تجزیہ اور لغوی تحقیق کے ضمن میں ایک وہم کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ دریائے سواں اور وادی سون دو الگ الگ نام ہیں۔ دریائے سواں سالٹ رینج میں بہتا ہے۔ اس علاقے میں قدیم تہذیبوں کے آثار ملے ہین۔ یہ علاقہ ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ کا ایک عرصہ سے مرکز رہا ہے لیکن وادی سون اس سے علحیدہ علاقہ ہے اگرچہ یہ علاقہ بھی قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے مگر آثار قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق کاموضوع نہیں بن سکا۔ وادی سون کوہستان نمک اور پوٹھوہار ایک سیدھ میں واقع ہے اس علاقے میں ایسے محجرات اور ڈھانچے ملے ہیں۔ جو ساخت اور زمانے کے اعتبار سے پوٹھوہار اور بالخصوص دریائے سواں کے قریب ڈھوک پٹھان کے آثار و محجرات سے ملتے جلتے ہیں۔ وادی سون کے سرے پر واقع گاؤں چنچی اور اس کے اردگرد محجرات کے وسیع ذخائر کا پتہ چلایا گيا ہے۔ وادی کے دوسرے گاؤں میں بھی آثار قدیمہ کے مطالعہ سے تاریخ قدیم کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ خیال ہے کہ ابتدائی زمانہ میں یہاں انسانی آبادی نہ تھی یہاں مانس رہتے تھے۔ بعد میں انسان نے ترقی کی اور غاروں میں رہنا شروع کیا۔ وہ کچا گوشت، پھل اور سبزیاں کھاتے تھے۔ اس علاقہ میں ہر موسم میں جنگلی پھل مل جاتے تھے اور رہنے کے لیے غاریں تھیں جنہیں علاقائی زبان میں "مہلے" کہا جاتا ہے۔ ان آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر انسانی آبادی زمانہ قدیم سے ہے ۔[2]
مجموعی رقبہ
ترمیموادی سون سکیسر کا مجموعی رقبہ دس ہزارایکڑ جبکہ قابل کاشت تین ہز1ر ایکڑ بنجر یا ناقابل کاشت رقبہ سات ہزار ایکڑہے۔ کے مشرق میں جہلم چکوال کے کچھ علاقے شمال میں تلہ گنگ مغرب میں میانوالی جبکہ جنوب میں نور پور تھل کا علاقہ ہے۔[3]
زمینیں اور پہاڑ
ترمیموادی سون کی مٹی زیادہ تر بھر بھری ہے اور یہاں کے پہاڑ ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھر پر مشتمل ہے یہاں کی زراعت کا دارومداربرسات پر ہے۔ ڈھلوانی کھیت عام ہیں پہاڑ اور پتھروں کی مختلف قسمیں جن میں چونے کا پتھر،پیلے رنگ کے پتھر،سفید پتھر،سنگ مرمر وغیرہ شامل ہیں۔ وادی سون کے پہاڑوں سے نمک،گندھک،کوئلہ،بجری کا پتھر موجود ہے۔ موسم: یوں تو یہاں بھی چاروں موسم پائے جاتے ہیں البتہ دو موسم برائے نام ہی ہیں۔ یہاں مارچ سے اکتوبر تک موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے اوریہی وۂ موسم ہے جب وادی سون میں سیر و سیاحت کا مزہ دو بالا ہوتا ہے۔ سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے یہاں کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے ژالہ باری اور بارشیں ہونے سے سردی شدید تر ہو جاتی ہے۔ وادی سون میں سیر کے لیے انتہائی موزوں مہینے مارچ ،اپریل ،جولائی ،اگست اور ستمبر ہیں۔ وادی میں برسات کا موسم انتہائی پر لطف ہوتا ہے جب پہاڑوں سے بہتے نالوں کا شورایک خوبصورت سماں پیش کرتا ہے۔ پھولوں اور سبزے میں ایک تروتازگی آجاتی ہے اورگرمی کے موسم میں سرد ہوائیں جاڑے کا احساس دلاتی ہیں۔ برسات کا مزہ ایسی صورت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے جب آپ کسی جھیل کے کنارے یا کسی پہاڑی پر ہوں وہاں سے وادی سون کے طول وعرض میں پھیلے ہرے بھرے کھیت جنت کا سماں پیش کرتے ہیں۔ یہاں کا موسم انتہائی دلفریب ہے۔ ذرہ سے بادل بنے اورپل میں برس کے آسماں صاف ہو جاتا ہے البتہ سردیوں میں بارش کئی کئی روز تک جاری رہتی ہے۔[3] وادی سون کا علاقہ اپنی دلکش وادیوں۔ خوبصورت جهیلوں اور باغات اور خوشگوار موسم کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ کر لے آتی ہے۔ اور ہر سال بے شمار سیاح وادی سون کا رخ کرتے ہیں۔
زرعی پیداوار
ترمیموادی سوُن باقی بارانی علاقوں کی نسبت بہتر زرعی پیداوار کا علاقہ ہے۔ یہاں دونوں موسموں کی فصلیں جبکہ پھلوں میں بادام، آڑو، انگور، سیب، ناشپاتی، کینو، لوکاٹ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ ربیع کی فصلوں میں گندم،سرسوں،چنا کاشت کیے جاتے ہیں انھیں ْ ہاڑیاں کہتے ہیں۔ خریف فصلوں میں جوار ،باجرہ ،مکئی ،مونگ،ماش وغیرہ شامل ہیں انھیں ْ ساونیاں کہتے ہیں۔ گرمئی سبزیوں میں کدو، بھنڈی، کریلا، بینگن، گوبھی، ٹینڈا، کھیرا، مرچ، ٹماٹر زیادہ اہم ہیں۔ یہاں واضح کردوں وادی سوُن کی اگیتی گرمئی گوبھی ملک کے طول وعرض میں بھیجی جاتی ہے جس سے وادی میں خوش حالی کی لہر آئی ہے راقم جب اگست کے اوائل میں وادی میں پھر رہا تھا ہر طرف لوگ گوبھی کی فصلوں میں ایسے نظر آتے جیسے بہار میں کسی گلشن میں پھول کھلے ہوں۔ سرِشام ٹرکوں پر اپنی اجناس لاد کر منزل کو روانہ ہوتے ہوئے وادی کے محنتی نوجوانوں کے چہروں پر روایتی طمانیت نظر آتی ۔[3]
محجرات
ترمیموادی سوُن کے متعلق وثوق سے کچھ کہنا تو شاید ممکن نہیں البتہ وادی سے ملنے والے محجرات سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وادی کے کئی مقامات سے مختلف انسانی ڈھانچے ،جانوروں کے ڈھانچے اور کئی ایک گھریلو ضروریات زندگی کی اشیاء ملی ہیں۔ کنہٹی کے قریب ڈھانچے ملے ہیں مردوال سے مختلف جانوروں کے ڈھانچے،قدیم طرز رہائش ،سامانِ حرب،گھریلو ضروریات کی چیزیں اور سکے ملے ہیں۔ محققین کی رائے میں پوٹھوہار اور وادی سوُن کا زمانہ ملتا جلتا ہے۔ آریہ بدھ مت کے زمانے کی جنگوں میں بعض واقعات ثابت کرتے ہیں مثلاً رگ وید میں شرنجے بادشاہ نے سروشوں اور وڑچی ونتوں کے خلاف جنگ لڑی وڑچی ونتو جہلم اور سندھ کے درمیان میں آباد تھے۔ وادی سوُن کے مہاڑی گاؤں وڑچھا کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں جنگ لڑی گئی اس جنگ کا زمانہ ساڑھے پانچ سو قبل مسیح کا ہے۔ محققین نے تہ دار چٹانوں سے عمر پچاس ملین سال شمار کی ہے۔ پاکستان میں سب سے پرانی تہ دار چٹانیں کوہِ نمک سے کوئلہ کی کانیں ہیں جن کی عمر ساٹھ ملین سال جبکہ چونے کے پتھر والی چٹانیں چالیس ملین سال پرانی ہیں۔ روایت ہے کہ کبھی کوہِ نمک (TEETHS)سمندر کا حصہ تھا جو رفتہ رفتہ خشک ہوتا گیا۔ سکندراعظم کے حوالے سے کئی ایک روایتیں موجود ہیں یہاں سے سکندر اعظم کے زمانے کے سکے ملے ہیں۔سکندراعظم 376 قبل مسیح میں ٹیکسلا وارد ہوا سکندراعظم کی فوجی چھاؤنی کے حوالے سے سید نور علی ضامن نے اپنی کتاب تذکرہ سکندر اعظم اور پٹھان میں کوہِ نمک اور یونان کی اوسط بلندی کو جواز بتایا ہے۔[3]
وادی سون تک رسائی
ترمیموادی سون تک رسائی بہت آسان ہے پبلک ٹرانسپورٹ لاہوریا راولپنڈی دونوں جگہ سے تین گھنٹے میں وادی سون کے مرکزی شہرنوشہرہ پہنچا دیتی ہے ۔ ذاتی ٹرانسپورٹ ہو تو لاہور سے آتے ہوئے موٹروے للہ انٹر چینج سے اتر کر 30 کلو میٹرجنوب کی طرف سفر کرکے کٹھہ گاؤں سے دائیں طرف کٹھہ کے پہاڑعبورکرکے 16کلو میٹر آگے پیل چوک ہے۔ پنڈی اسلام آباد سے آنے والے سیاح کلرکہار انٹر چینج سے اتر کر جنوب کی سمت 35 کلومیٹر سفر کے بعد پیل چوک پہنچ سکتے ہیں۔جہاں سے بالکل سیدھی جانے والی سڑک صرف 8 کلومیٹر دور جابہ گاؤں پہنچا دیتی ہے جابہ گاؤں سے جانب مشرق مڑ جائیں ۔ وادی سون شروع ہو چکی ہے
وادی سون کے فیملی پوائنٹ اورتاریخی مقامات
ترمیم1۔ کنہٹی گارڈن ، جہاں کئی چشمے اور آبشاریں ہیں۔گھنے درخت اور ویو پوائنٹ ہیں ۔ دن کا بیشتر حصہ وہاں سیروسیاحت اور ککنگ کرتے ہوئے گزارا جا سکتا ہے ۔ کیمپنگ کی اجازت بھی ہے 2۔ کھبیکی جھیل ۔ دلکش بورڈ ، برڈز ویوپوائنٹ۔ کشتیاں ہیں ۔ پی ٹی ڈی سی کا ریسٹورنٹ پلس ہوٹل ہے 3۔ اوچھالی جھیل ۔ بہت ہی وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ یہاں بھی کشتیاں موجود ہیں 4۔ مائی والی ڈھیری ۔ گول چوٹی والی پہاڑی جو وادی سون کے بیشتر حصوں سے دکھائی دیتی ہے یہاں سے وادی سون کی دونوں جھیلیں ، نمل جھیل اور شمالی طرف پوٹھوہار کا کچھ حصہ دیکھا جا سکتا ہے • تھوڑی بہت چلنے کی مشقت کر لی جائے تو کفری کے نزدیک چشمہ ڈیپ شریف دس منٹ کی پیدل واک پر ہے اس کے قریب سے گزرتے ہوئے مزید آگے چشمہ جھال مجھالی ہے ۔ اس سے بھی مزید آگے وادی گوسر ہے جہاں ہموار میدان ہیں جو نہایت سرسبزو شاداب ہیں ۔ یہیں جنوبی پہاڑی سے وادی سون کی تیسری بڑی جاہلر جھیل کا نظارا کیا جا سکتا ہے • سوڈھی جے والی چانبل روڈ پر خانقاہ حضرت سلطان مہدی کے قریب چشمہ ہے جس کا رستہ تھوڑا مشکل ہے لیکن یہاں پانی بہت وافر مقدار میں موجود ہے ۔ تھوڑی سی ٹریکنگ کر کے یہاں پہنچ سکتے ہیں اور پورا ایک دن یہاں ککنگ و نہانے میں گزارا جا سکتا ہے • نرسنگ پھوار چانبل کے نزدیک ہے یہاں بھی پانی کے چشمے ہیں ۔ بیس سے تیس منٹ کی پیدل واک ہے ۔ یہاں بوڑھ اور کئی دوسرے گھنے درخت ہیں وسیع و عریض گراسی لان ہیں ۔ سکھوں کے تعمیرکردہ دو اشنان گھاٹ ہیں ۔ ایک گردوارہ بھی ہے ۔ • کھڑومی جھیل ۔ یہاں کا پانی نیچے کی طرف جاتا ہوا چار الگ الگ خوب صورت آبشاریں بناتا ہے ۔ رستہ تھوڑا مشکل ہے ایک گھنٹے کی ٹریکنگ ہے ۔ لیکن بہترین جگہ ہے • امب شریف ٹیمپل۔ یہاں جانے کا رستہ کافی خراب ہے فوروہیل جیپ جا سکتی ہے یا اوچھالی سے پیدل دو گھنٹے کا رستہ ہے جو چشمے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ دلکش جگہ ہے • قعہ کوٹ ہر دو سودھی نزد کٹھوائی کے قریب ہے یہاں تک گاڑی پر جا سکتے ہیں پرانے قلعے کے آثار ہیں • تلاجھا ۔ یہ بھی ایک قدیم قلعہ ہے جہاں خوب صورت پتھروں سے بنائے گئے تقریباً250 مکانات موجود ہیں ۔ جانے کا رستہ تھوڑا مشکل ہے ۔ کھوڑہ گاؤں سے ڈھوک کسیری کے پاس سے گزرتے ہوئے پیدل جائیں تو دو گھنٹے میں قلعہ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ خوشاب سے آئیں تو پہاڑی کے درمیان بابا کچھی والا فقیر کا بورڈ لگا ہوا ہے وہاں سے سات کلومیٹر دور دربار ہے یہاں گاڑی کھڑی کرکے بھی قلعہ تک جا سکتے ہیں • اکراندا قلعہ ۔ کھبیکی کے شمال میں بھی ایک بڑے قلعے کے آثار ہیں • کھبیکی سے ہی شمال کی طرف چشمے ہیں جن کا پانی نیلے رنگ کا ہے دو سے تین گھنٹے کی واک ہے ۔ • وادی سون کے مشہور گاؤں سوڈھی جے والی میں سرکاری ریسٹ ہاؤس ہے جہاں مختلف خوش ذائقہ پھلوں کے درخت بھی ہیں اور قریب سے ایک چشمہ بھی گذر رہا ہے • پھلواری ریسٹ ہاؤس بھی سرکاری ہے جو سکیسر پیک کے قریب ہے یہاں گھنے جنگل ہیں بکنگ کے لیے ڈپٹی کمشنر خوشاب سے اجازت لینا پڑتی ہے ۔ • کلیال گاؤں کے قریب ایک خانقاہ ہے جو کافی بلندی پر ہے لیکن وہاں تک گاڑیاں اور بائیک جا سکتی ہیں ۔ • ہر دو سودھی گاؤں سے کوٹ قلعہ اور وہاں سے آگے سترہ کے مقام پر کچھ چشمے اور ایک جھیل ہیں یہ رستہ جبی ڈھوکری سے گذر کر میانوالی خوشاب روڈ سے جا ملتا ہے وادی سون میں اب کافی رہائشی ہوٹل بن چکے ہیں سب سے بہتر ، معیاری اور مناسب قیمت والا مہریہ ہوٹل نوشہرہ ہے ۔ دوسرا ہوٹل اس کے قریب مدینہ ہوٹل ہے ۔ جبکہ کھبیکی جھیل مین روڈ پر جھیل کنارے نام کا ایک ہوٹل ہے جہاں ایک کنٹینر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دو کمرے بنائے گئے ہیں ۔ ایڈونچر کے شائقین ایک دن میں کھڑومی آبشارز کی سیر کر سکتے ہیں۔فطری حسن اور پرسکون جگہ دیکھنے کے شوقین حضرات کے لیے یہاں پر نرسنگھ پھوار اور چشمہ ڈیپ شریف، کنھٹی باغ کے مقامات ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ سیر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ جمعہ کی شام کو کھبیکی جھیل پر آ جائیں جہاں پر پی ٹی ڈی سی نے ایک اچھا ریزورٹ بنایا ہے۔ بہترین کھانے کے لیے نوشہرو کا دیسی ڈیرہ ہوٹل جبکہ پیل چوک میں واقع ہوٹل الثرید بھی بہترین ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے تلاجہ قلعہ، اکراند قلعہ، امب مندر اور شیر شاہ سوری کی چیک پوسٹ اور دیگر مقامات ہیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ وادی سون سکیسر۔ رضا عرفان خواجہ
- ^ ا ب وادی سون سکیسر۔ محمد سرور خان اعوان
- ^ ا ب پ ت وا دی سو ن، شاہ دل اعوان