ظہیر الدین محمد بابر
ظہیر الدین محمد بابر (پیدائش: 14 فروری 1483ء - وفات: 26 دسمبر 1530ء)، ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھے۔ ان کے والد عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کے حاکم تھے۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھے۔ اس طرح ان کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون دوڑ رہا تھا۔ بابر ابھی بارہ برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے بابر گیارہ برس تک پریشان رہے۔ کبھی تخت پر قابض ہوجاتے اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتے۔ بالآخر 1504ء میں، بلخ اور کابل کے حاکم بن گئے۔ یہاں سے انھوں نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔
| ||||
---|---|---|---|---|
(فارسی میں: ظهیرالدین مُحمَّد بابُر) | ||||
مغل شہنشاہ | ||||
دور حکومت | 30 اپریل 1526 (قدیم تقویم) — 26 دسمبر 1530 (قدیم تقویم) | |||
تاج پوشی | رسمی تاجپوشی نہیں ہوئی | |||
چغتائی / فارسی | بابر | |||
خطاب | السلطان الاعظم والخاقان المکرم پادشاہ غازی شاہِ فرغانہ (1495–1497) ، شاہِ سمرقند (1497) ، شاہِ کابل (1501–1530) | |||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | فروری 23 [قدیم طرز فروری 14] 1483 اندیجان، فرغانہ |
|||
وفات | جنوری 5 [قدیم طرز دسمبر 26, 1530] 1531 (عمر 47) آگرہ |
|||
مدفن | باغ بابر ، کابل ، افغانستان | |||
تاریخ تدفین | 1531 | |||
مذہب | سنی اسلام | |||
زوجہ | عائشہ سلطان بیگم بیبی مبارکہ یوسف زئی دلدار بیگم گلنار آغاچہ گل رخ بیگم ماہم بیگم آسیہ رضوی نارگُل آغاچہ سیدہ آفاق |
|||
ساتھی | بابری اندیجانی [1] | |||
اولاد | مرزا ہندال ، گلبدن بیگم ، نصیر الدین محمد ہمایوں ، کامران مرزا ، عسکری مرزا ، فخر النسا ، گل چہرہ بیگم ، التون بشیک ، معصومہ سلطان بیگم (بابر کی بیٹی) ، گل رخ بیگم | |||
والد | عمر شیخ مرزا ، امیر فرغانہ | |||
والدہ | قتلغ نگار خانم | |||
بہن/بھائی | ||||
خاندان | مغل خاندان | |||
نسل | ہمایوں ، کامران مرزا ، عسکری مرزا ، ہندال مرزا ، گلبدن بیگم ، فخر النساء ، التون بِشِک | |||
خاندان | مغل | |||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | شاعر ، آپ بیتی نگار ، شاہی حکمران [2]، مصنف [3] | |||
مادری زبان | چغتائی | |||
پیشہ ورانہ زبان | چغتائی ، فارسی ، عربی ، ازبک زبان [4]، ہندی | |||
کارہائے نمایاں | بابرنامہ | |||
درستی - ترمیم |
مغل حکمران | |
ظہیر الدین محمد بابر | 1526–1530 |
نصیر الدین محمد ہمایوں | 1530–1540 1555–1556 |
جلال الدین اکبر | 1556–1605 |
نورالدین جہانگیر | 1605–1627 |
شہریار مرزا (اصلی) | 1627–1628 |
شاہجہان | 1628–1658 |
اورنگزیب عالمگیر | 1658–1707 |
محمد اعظم شاہ (برائے نام) | 1707 |
بہادر شاہ اول | 1707–1712 |
جہاں دار شاہ | 1712–1713 |
فرخ سیر | 1713–1719 |
رفیع الدرجات | 1719 |
شاہجہان ثانی | 1719 |
محمد شاہ | 1719–1748 |
احمد شاہ بہادر | 1748–1754 |
عالمگیر ثانی | 1754–1759 |
شاہجہان ثالث (برائے نام) | 1759–1760 |
شاہ عالم ثانی | 1760–1806 |
[[بیدار بخت محمود شاہ بہادر] (برائے نام) | 1788 |
اکبر شاہ ثانی | 1806–1837 |
بہادر شاہ ظفر | 1837–1857 |
برطانیہ نے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ کیا |
پانی پت کی پہلی جنگ
ترمیممغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطنت دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے درمیان میں 21 اپریل 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھی اپنے امرا اور فوج میں مقبول نہ تھا۔ وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امرا اس کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔
بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر ہو گئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ پانی پت کی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔ یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا بیگم نے کیا۔ بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا۔ دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار، حصار، ریاست میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ تزک بابری اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا.
مزید
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: ظہیر الدین محمد بابر — عنوان : بابر نامہ — باب: FARGHANA (q. Babur's first marriage.) — صفحہ: 120-121
- ↑ عنوان : Бабур, Зехир-эд-дин Мухаммед
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2018981803 — اخذ شدہ بتاریخ: 20 فروری 2023