واقد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ(50ق.ھ / 13ھ) غزوہ بدر میں شامل مہاجر صحابی قدیم اسلام والے ہیں۔غزوہ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں شرکت کی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔

واقد بن عبد اللہ
معلومات شخصیت

نام و نسب ترمیم

واقد نام،والد کا نام عبد اللہ تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے،واقدبن عبد اللہ بن عبد مناف ابن عریب بن ثعلبہ بن یربوع بن حنظلہ بن مالک بن زید مناۃ بن تمیم تمیمی حنظلی۔

اسلام و ہجرت ترمیم

دعوت کے آغاز یعنی آنحضرت کے ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے قبل مشرف باسلام ہوئے اور اذن ہجرت کے بعد وطن چھوڑ کر مدینہ کی ہجرت اختیار کی اورابو لبابہ کے مہمان ہوئے، آنحضرت نے ان میں اور بشر بن براء بن معرور رضی اللہ عنہ میں مواخات کرا دی۔[1]

غزوات ترمیم

ہجرت مدینہ منورہ کے بعد آنحضرت نے سب سے پہلے سریہ مقام نخلہ میں عبداللہ بن جحش کی زیر امارت بھیجا، اس میں واقد بھی تھے، ان لوگوں نے منزل مقصود پر پہنچ کر قیام کیا، ابھی یہ لوگ پہنچے ہی تھے کہ قریش کا قافلہ ادھر سے گذرا، مسلمانوں نے حملہ کرنے کا مشورہ کیا، لیکن رجب کا مہینہ تھا جس میں عرب میں خونریزی حرام تھی، اس لیے سب ابتدا کرتے ہوئے جھجکتے تھے؛لیکن واقد نے ہمت کرکے عمرو بن حضرمی کو تیر کا نشانہ بنادیا،مکہ والوں نے آنحضرت کے پاس شکایت کہلا بھیجی کہ تم لوگ بھی شہر حرام کی حرمت کرتے ہو اور اس میں خونریزی کرنا برا سمجھتے ہو،پھر تمھارے آدمی نے ہمارے ایک آدمی کا خون کیوں بہایا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ :217 اے محمد  ! مشرکین تم سے شہرحرام میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں،ان سے کہدو کہ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے ؛لیکن خدا کی راہ سے روکنا اورلوگوں کو مسجد حرام میں نہ جانے دینا اور اس مسجد میں عبادت کرنے والوں کو نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور فساد برپا کرنا قتل سے بھی بڑے کر ہے۔ سریہ نخلہ میں ایک مشرک کا سب سے پہلا خون تھا جو واقد کے ہاتھ سے بہا،اس سریہ کے بعد غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق وغیرہ کی تمام معرکہ آرائیوں میں برابر شریک ہوتے رہے۔

وفات ترمیم

حضرت واقد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔[2][3][4]

فضل و کمال ترمیم

فضل و کمال کے لحاظ سے گو کوئی لائق ذکر مرتبہ نہ پاسکے، تاہم ان کی ایک آدھ روایت کتب احادیث میں موجود ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (ابن سعد:3/ق1:284)
  2. الاصابہ فی تمیز الصحابہ جلد 6صفحہ 387مؤلف: حافظ ابن حجر عسقلانی ،ناشر: مکتبہ رحمانیہ لاہور
  3. اصحاب بدر،صفحہ 125،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  4. اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 355حصہ نہم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور