قدیم زمانے میں پنجاب کے باشندے سوتی کپڑے پہنا کرتے تھے۔ مرد و عورت دونوں کے کرتے گھٹنوں تک ہوتے اور اوپر سے ایک رومال اس طرح ڈالا جاتا کہ اس کا ایک سرا بائیں شانے کے اوپر اور دوسرا دائیں ہاتھ کی بغل کے نیچے ہوتا۔ نیز اس کے اوپر ایک بڑی چادر کسی ایک شانے پر لٹکا لیتے جو گھٹنوں تک چلی جاتی۔ اور نیچے دھوتی پہننے کا چلن تھا جو مرد و عورت دونوں میں یکساں رائج تھا۔[1] جدید پنجابی لباس میں گوکہ لباس کی اس قدیم وضع کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن مرور زمانہ کی وجہ سے لباس کی بعض نئی شکلیں بھی رائج ہو چکی ہیں۔

لاہور میں پنجابی لباس، 1890 کی دہائی میں

انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل تک پنجاب میں سوتی کپڑوں کی صنعت خوب ترقی پر تھی، اس وقت ہوشیارپور، گرداسپور، پشاور، لاہور، ملتان، امرتسر، لدھیانہ، جھنگ، شاہ پور، جالندھر، دہلی، گرگاؤں، روہتک، کرنال، ریواڑی اور پانی پت وغیرہ میں دبیز سوتی کپڑے مثلاً لنگی، کھیس، دتاہی، چادر، کرتے پاجامے، پردے، سوسی، تہبند، دری، پٹکا وغیرہ خوب تیار ہوتے تھے۔[2] سوتی کپڑوں کی صنعت نے پنجابی ملبوسات میں نئے نئے طرز کے لباس متعارف کرائے، جدید تراش خراش کے یہ لباس پنجابیوں کی تہذیب اور ان کی خوش ذوقی کی علامت بن گئے۔[3][4] پنجابی تہوار اور مقامی تقریبات کے موقع پر مختلف اقسام کے لباس زیب تن کیے جاتے۔

مختلف روایتی ملبوسات کے ساتھ مخصوص طرز کے زیورات پہننے کا رواج بھی عام تھا۔[5]

سٹھان

ترمیم

خطہ پنجاب میں سٹھان کا استعمال درحقیقت دور قدیم کے سواستھن کا احیا ہے۔ سواستھن لباس زیریں کے طور پر مستعمل تھا جسے ایک قسم کا تہبند کہا جا سکتا ہے۔[6] موریا حکمرانوں (322–185 ق م)،[7] پہلی اور تیسری صدی عیسوی کے درمیان کشن سلطنت کے دور حکومت میں شمالی ہند کے حاکم طبقوں،[8] چوتھی اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیان گپتا حکومت کے دور حکومت[9] اور ساتویں صدی عیسوی میں شہنشاہ ہرش کے دور حکومت میں[10] اس کے پہننے کا چلن تھا۔

پنجابی سٹھان سواستھن ہی کی ایک قسم ہے جسے دو طریقے سے پہنا جاتا ہے، ٹخنوں کے اوپر ڈھیلا اور ٹخنوں کے پاس تنگ یا گھٹنوں تک تنگ اور ٹخنوں تک ڈھیلا۔ سٹھان مرد و عورت دونوں کا مشترکہ لباس ہے اور پنجابی سٹھان لباس میں اس کا استعمال خاصی اہمیت کا حامل ہے، عورتیں اسے کرتی یا کرتے کے ساتھ پہنتی ہیں۔ نیز سٹھان پنجابی گھاگرا لباس کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اور چوغہ وغیرہ بھی اسی کی ایک قسم ہے۔

کرتا

ترمیم

کرتا اور بالخصوص دونوں چاک کیے ہوئے پنجابی کرتوں کا سراغ گیارہویں صدی عیسوی سے ملتا ہے۔[11] نسوانی کرتاکا شمالی ہند کے علاقوں میں پہنا جاتا ہے۔ کرتاکا ایک چھوٹا کرتا ہوتا تھا جس میں دونوں طرف شانوں سے نصف بدن تک ڈھلکتی ہوئی آستینیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں جانب چاک ہوا کرتا تھا۔[12] یہ کرتاکا ہو بہو موجودہ پنجابی کرتے کی طرح تھا، موجودہ کرتوں میں بھی دونوں جانب چاک ہوتے ہیں، یہ کرتا پنجابی مرد و عورتیں کا خاص لباس ہے۔[13] موجودہ کرتوں میں جامہ اور پنجابی انگرکھا کی شباہت بھی ملتی ہے۔ کرتوں کو عموماً شلوار، سٹھان، تہبند، لنگی، دھوتی، پنجابی گھاگرا اور جینز کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔

ملتانی کرتا

ترمیم

ملتانی کرتوں پر ملتان (پنجاب، پاکستان) کے ڈیزائنوں کا کروشیا کیا جاتا ہے۔[14] مقامی اجرک کی نقاشیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

پنجابی پھلکاری کرتا

ترمیم

پھلکاری کرتوں پر پنجاب کی نقاشیوں کی کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔[15]

پنجابی باندھنی کرتا

ترمیم

پنجاب کے صحرائے چولستان میں باندھنی باندھ کر رنگنے کا رواج بہت عام ہے،[16] باندھنی طرز بھی کرتوں پر استعمال ہوتا ہے۔

مکتسری کرتا

ترمیم

پنجاب کا روایتی کرتا کشادہ اور گھٹنوں تک لمبا ہوتا ہے[17] اور اسے سیدھا چاک کیا جاتا ہے۔[18] دور حاضر میں مکتسری کرتوں کا خوب چلن ہو گیا ہے، اس کرتے کی ابتدا اصلاً سری مکتسر صاحب سے ہوئی تھی۔ جدید پنجابی کرتا اپنی خوش نمائی، خوبصورتی اور موزونی میں خاصا معروف اور نوجوان سیاست دانوں میں خوب رائج ہے۔[19]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Mohinder Singh Randhawa. (1960) Punjab: Itihas, Kala, Sahit, te Sabiachar aad.Bhasha Vibhag, Punjab, Patiala.
  2. Parshad, Gopal (2007) Industrial development in Northern India: a study of Delhi, Punjab and Haryana, 1858-1918 [1]
  3. "Punjabi Dressing"۔ Coloursofpunjab.com۔ 03 مئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2015 
  4. "Baisakhi Dress,Bhangra Dress,Gidda Dress,Dress for Baisakhi Festival"۔ Baisakhifestival.com۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2015 
  5. "Traditional Dresses of Punjab | Traditional Punjabi Attire"۔ Discoveredindia.com۔ 23 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2015 
  6. Catherine Ella Blanshard Asher, Thomas R. Metcalf (1994) Perceptions of South Asia's visual past [2]
  7. Viishnu Asha (1993) Material Life of Northern India: Based on an Archaeological Study, 3rd Century B.C. to 1st Century B. [3]
  8. Archaeological Congress and Seminar Papers: Papers Presented at the 4th Annual Congress of the Indian Archaeological Society and the Seminars Held at Nagpur on the 10th, 11th, and 12th Nov. 1970, Volume 4, Part 1970 [4]
  9. Mohapatra, Ramesh Prasad (1992) Fashion Styles of Ancient India: A Study of Kalinga from Earliest Times to Sixteenth Century Ad [5]
  10. A. V. Narasimha Murthy, K. V. Ramesh (1987) Giridharaśrī: essays on Indology : Dr. G.S. Dikshit felicitation volume [6]
  11. Ghurye, Govind Sadashiv (1966) Indian Costume
  12. Yadava,Ganga Prasad (1982) Dhanapāla and His Times: A Socio-cultural Study Based Upon His Works [7]
  13. Sharma, Brij Narain (1966) Social life in Northern India, A.D. 600-1000 [8]
  14. Official Journal of the European Communities: Legislation, Volume 30, Issues 248-256 (1987) [9]
  15. Naik, Shailaja D. (1996( Traditional Embroideries of India
  16. Nasreen Askari, Liz Arthur, Paisley Museum and Art Galleries Merrell Holberton, (1999) Uncut cloth [10]
  17. Punjab District Gazetteers: Attock district, 1930. Printed 1932
  18. Asoke Kumar Bhattacharyya, Pradip Kumar Sengupta (1991) Foundations of Indian Musicology: Perspectives in the Philosophy of Art and Culture [11]
  19. Puneet Pal Singh Gill (04.01.2012) The Chandigarh Tribune Muktsari-style kurta pyjama a fad [12]