کُشان سلطنت (c. 30–c. 375 AD) (انگریزی: Kushan Empire، قدیم یونانی: Βασιλεία Κοσσανῶν، باختری: Κοϸανο، کوشانو، سنسکرت: कुषाण، براہمی: 𑀓𑀼𑀱𑀸𑀡، کُوشاݨا، بدھ مت ہائبرڈ سنسکرت: گُشانہ ومشا، پارتھی: 𐭊𐭅𐭔𐭍 𐭇𐭔𐭕𐭓، چینی: 貴霜)[6] پہلی صدی کے اوائل میں یوچی کی طرف سے باختری علاقوں میں قائم کی گئی ایک ہم آہنگی والی سلطنت تھی۔ یہ موجودہ تاجکستان، ازبکستان، افغانستان، پاکستان، مشرقی ایران اور شمالی ہندوستان، کم از کم وارانسی کے قریب ساکیتا اور سارناتھ تک پھیلی ہوئی تھی[7]، جہاں کشان شہنشاہ کنشکِ اعظم کے دور سے متعلق نوشتہ جات اور سکے پائے گئے ہیں۔[8][9]

کشان سلطنت
Κυϸανο (باختری)
Βασιλεία Κοσσανῶν (قدیم یونانی)
30–375
Kushan territories (full line) and maximum extent of Kushan dominions under کنشک (dotted line), according to the Rabatak inscription.[1]
Kushan territories (full line) and maximum extent of Kushan dominions under کنشک (dotted line), according to the Rabatak inscription.[1]
حیثیتNomadic empire
دار الحکومتبامیان (Bamigián) بگرام (Kapiśi)
پشاور (تاریخ پشاور)
ٹیکسلا (Takṣaśilā)
متھرا (Mathurā)
عمومی زبانیںکوینہ یونانی (official until ca. 127)[2]
Bactrian[3] (official from ca. 127)
Unofficial regional languages:
Gurjari-Gandhari, Sogdian, Chorasmian, Tocharian, Saka dialects, پراکرت
Liturgical language:
سنسکرت زبان
مذہب
بدھ مت
Bactrian religion
ہندو مت[4]
زرتشتیت
حکومتMonarchy
Emperor 
• 30–80
Kujula Kadphises
• 350–375
Kipunada
تاریخی دورکلاسیکی قدیمت
• 
30
• 
375
رقبہ
3,800,000 کلومیٹر2 (1,500,000 مربع میل)
کرنسیKushan drachma
ماقبل
مابعد
ہند-پارتھی سلطنت
Indo-Scythians
ساسانی سلطنت
گپتا سلطنت
Hephthalite Empire
موجودہ حصہ افغانستان
 چین
 کرغیزستان
 بھارت
 نیپال
 پاکستان
 تاجکستان
 ازبکستان
 ترکمانستان
100 عیسوی میں کشن سلطنت کا علاقہ۔
200 عیسوی میں کشن سلطنت کا علاقہ۔

کشان غالباً پوچی کنفیڈریشن کی پانچ شاخوں میں سے ایک تھے[10]، ممکنہ طور پر توچاری نسل کے ایک ہند-یورپی خانہ بدوش لوگ[11]، جو شمال مغربی چین (سنکیانگ اور گانسو) سے ہجرت کر کے قدیم باختر میں آباد ہوئے۔

یوچاعظم ی

ترمیم

چینی ماخذوں کی رو سے یوچیوں کا وطن شمالی چین تھا۔ 165 ؁ ق م میں وسطی ایشیا کے ایک دوسرے قبیلہ ہیونگ نو (Hinng nu) نے یوچیوں پر حملہ کر دیا اور انھیں وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یوچی سردار مارا گیا اور فاتح نے اس کی کھوپڑی کو جام شراب کے طور پر استعمال کیا۔ یوچی (yuechi ) ترک وطن کے بعد مغرب کی طرف روانہ ہوئے تو ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ راستہ میں انھوں نے دریائے ایلی (Ealy) کے کنارے دوسون (Wn sun) قبیلہ کو شکست دی۔ اس فتح کے بعد ان کی ایک شاخ جنوب کی طرف بڑھ گئی اور تبت (Tibte) کی سرحد پر آباد ہو گئی۔ یہ شاخ جسے تاریخ میں یوچی خورد (Yuechi Miner) کہلاتی ہے، جبکہ بڑی شاخ یوچی اعظم (yuechi The Garet) کہلاتی ہے۔ یوچی اعظم مغرب کی جانب بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ دریائے سیحون (Oxus) کے میدان میں پہنچے اور چند سال کی جنگوں کے بعد انھوں نے سیتھیوں کو مغلوب کر لیا اور انھیں جنوب و مغرب کی طرف ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب ساکاؤں کو نیا وطن اپنا نیا وطن تلاش کرنا پڑا، چنانچہ وہ جنوبی افغانستان کے علاقے میں آ گئے۔ اس عرصہ میں دوسون سردار کا لڑکا جوان ہو چکا تھا۔ وہ یوچیوں کے مخالفین یعنی ہیونگ نو کے سرداروں سے مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دوسون اور ہیونگ نو قبیلے نے مل کر یوچیوں کو اس علاقے سے بھی نکال دیا، جو انھوں نے ساکاؤں سے چھین لیا تھا۔ اب یوچی مجبور ہوکر دریا جہیون کی وادی میں آ گئے اور وہاں سے ساکاؤں کو نکال کر بلخ، باختراور سغدیانہ کے علاقے پر قابض ہوکر اس علاقے میں آباد ہو گئے۔ پہلی صدی کے آخر تک یوچی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے رہے اور پہلی صدی کے آخر میں انھوں نے خانہ بدوشوں کی زندگی ترک کر کے ایک ممتذن قوم کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کے پانچ قبیلے تھے اور انھوں نے پانچ ریاستوں کی بنیاد رکھی , جن میں ایک قبیلہ کشن یا کشان تھا اور جس کے نام پر ان کی ریاست کا نام بھی کشن یا کشان پڑا۔ یہ تمام معاشرتی اور سیاسی ارتقا 10 ق م میں مکمل ہو گیا۔


شمال مغربی چین میں’ ’یوہ چی یا چیچی‘‘ نام کی برادری کے کئی قبیلے تھے جنھوں نے وسط ایشیا کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلی صدی قبل مسیح کے آخر تک اس برادری کے ایک طاقتور قبیلے’’کشان(سنسکرت: کشانہ/کسانہ‘‘) نے اپنی برادری کے بقیہ قبیلوں کو شکست دے کر ان پر اپنا قبضہ جمالیا۔ اس کے بعد پوری برادری کا نام ہی’ ’کُشان ‘‘ پڑ گیا۔ کُشان نسل کے لوگوں نے وسطی اشیا میں کاشغر اور کھوٹان سے لے کر ہندوستان کے شمال مغرب میں پرتھیا اور بیکٹریا پر قبضہ کر کے سندھ، پنجاب اور شمالی ہند میں کاشی تک اپنی حکومت پھیلادی۔ کُشان شاہی گھرانے کا پہلا شہنشا ہ کڈ فائسِس اول (73۔33ء) تھا اور دوسرا بیٹا بِیم کڈ فائسِس دوم (78۔73ء) تھا۔ اس نسل کا تیسرا شہنشاہ کَنِشک(128۔78ء) ہندوستان کے کُشان حکمرانوں میں سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ وہ بودھ مذہب کا پیرو تھا۔ ہندوستان میں اس کی حکومت کشمیر، پنجاب، سندھ و موجودہ اترپردیش کے مغرب سے کاشی اور پاٹلی پُتر تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس میں شمالی ہند کا سنبھل علاقہ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان، بیکٹریا اور وسطی ایشیا کے یارقند، تاشقند، کاشغر اور کھوٹان بھی اس کی ریاست میں ملے ہوئے تھے۔ کَنِشک کی راجدھانی پورُشپور (موجودہ پشاور )تھی۔ کَنِشک نے تقریباً 45سال حکومت کی۔

اس کی ایک صدی تک یوچی قوم کی سلطنت کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا ۔ لیکن اس قوم کی پانچ ریاستوں میں جو ہندو کش کے شمال میں واقع تھیں منقسم ہو جانے کے بعد کم و بیش سو برس کے بعد کشن کا سردار جو کیڈ فائسس اول کے نام سے مشہور ہے۔ اس کام میں کامیاب ہوا کہ اور اپنے ہم قوم و دیگر سرداروں کو اور خود کو تمام یوچی قوم کا سردار اور بادشاہ ہو جائے اس کی صحت کی تاریخ 15ء؁ تقریباً صحت کے ساتھ مقرر کی جا سکتی ہے۔

کیڈ فائسس اول

ترمیم

کشن کا پہلا بادشاہ کیو ٹسیو کیو Kieu Tsieu kio تھا، جو کجولا کیڈ فائسس یا کیڈ فائسس اولKujulo Kid Pheses or Kad Pheses 1th کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے اپنے مقبوضات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی اور اس نے کی پن (؟ کشمیر؟ کافرستان) اور کابل کے علاقہ پر قبضہ کیا، پھر اس نے اپنی طاقت مستحکم کرنے کے بعد وہ پاتھیوں پر حملہ آور ہوا اس طرح اس کی حکومت ایران سے لے کر دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھی اس میں صغدانہ اور پورا افغانستان بھی شامل تھا۔ اس کو فتح کابل 20ء؁ کا واقع قردیا جا سکتا ہے۔ یوچی قوم کے آگے بڑھنے سے ہندی۔ یونانی اور ہندی۔ پارتھی ریاستوں کا خاتمہ اس لازمی نتیجہ تھا ان کی بتدریج مغلوبیت کا اظہار نہایت صراحت کے سے سکوں سے ہوتا ہے۔ پنجاب و وادی سندھ میں ان ریاستوں خاتمہ غالباً کنشک کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔

کیڈ فائسس دوم

ترمیم

خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 50ء ؁ میں کیڈفائسس اول نے اسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا ین کاؤ چن یا کیڈفائسس دوم Yen Kao Chen or Kad Pheses 2ed تخت نشین ہوا۔ یہ بھی باپ کی طرح اولوالعزم جنگجو حکمران تھا۔ اس نے ہند و پاک کے سھتی اور پارتھی حکمرانوں کو زیر کرکے پنجاب وگنگا کے میدان کے کچھ حصہ پر قبضہ کرکے اپنے گورنر مقرر کردئے۔ اس کا دور حکومت 50ء؁ تا 78؁ء تک تھا۔ یہ باور کرنے کی وجہ ہے کہ اس نے پنجاب اور دریائے گنگا کی وادی کے ایک بڑے حصہ کو غالباً بنارس تک قبضہ کر لیا۔ دریائے سندھ کی وادی میں زیریں سندھ کا علاقہ بظاہر بدستور سابق پارتھی سرداروں کے ہاتھ ہی میں رہا۔ برصغیر کے مفتوحہ صوبہ جات پر فوجی نائب السلطنت کے ذریعہ نظم و نسق کیا جاتا تھا اور غالباً انھوں نے ہی وہ مضروب کرائے جن کو ماہرین مسکویات نے گمنام بادشاہ کے سکے کہتے ہیں اور تمام شمالی ہند میں وادی کابل سے لے کر گنگا کے کنارے غازی پور، بنارس اور کاٹھیاواڑ میں بکثرث اور عام پائے گئے ہیں۔ پہلی صدی کی آخری چوتھائی میں 37ء؁ تا 102ء؁ کے تیس سال کے عرصہ میں چینی جنرل پان چاؤPan Chao فتوحات حاصل کرتا ہوا بحیرہ خزر کے کنارے تک پہنچ گیا اور ختن، کاشغر اور کشن سلطنت کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہاں تک کے چینی سرحد رومی سرحد سے مل گئی۔ اس کے نتیجے میں اب مغرب کی طرف کا راستہ صحرا میں سے ہوکر چینی فتوحات اور تجارت کے لیے بالکل کھل گیا، بعینہ اسی طرح 94ء؁ میں کچا اور کر شہر کی فتح نے ان کے لیے راستہ بالکل صاف کر دیا۔ کیڈفائسس دوم یا اس کے جانشین کنشک کو اس کی فتوحات نے ہوشیار کر دیا، چنانچہ اس نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے یہ مطالبہ کیا کہ ایک چینی شہزادی سے اس کی شادی کردی جائے۔ اس عرض سے اس کا ایک سفیر جنرل پاؤ چن کے پاس گیا۔ چینی جنرل نے اس مطالبعہ کو اپنے آقا کی توہین سمجھا اور سفیر کو قید کر لیا۔ اس پر کشن بادشاہ کڈفائسس دوم نے ایک فوج جس کی تعداد ستر ہزار تھی اپنے ایک سپہ سالار سی sie کے ماتحت چین پر حملہ کرنے کے لیے بھیجی۔ مگر جب یہ فوج کوہستانی سلسلہ تسنگ لنگ یا تالخ ومباش پامیر کے پار روانہ کر دیا۔ یہ فوج غالباً دررہ تاشکرغان کے راستے روانہ ہوئی۔ جب سلسلہ کوہستانی غبور کرنے کے بعد کاشغر یا یا رقند کے میدانوں میں اتری تو اس کی حالت خستہ ہو چکی تھی، کیوں کہ اس کو راستہ میں سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے باآسانی پان چو کے شکنجہ میں آگئی اور بری طرح برباد ہو گئی۔ اس پر کیڈفائسس دوم یا کنشک کو مجبوراََ خراج کے وعدے پر صلح کرنی پڑی اور چین کی حکومت نے کشان حکومت سے خراج وصول کیا۔ چینی تاریخوں میں ایسی چند سفارتوں کا ذکر ہے جو اس زمانے میں خراج لے کر چین آئی تھیں۔

رومی سلطنت سے تعلقات

ترمیم

مگر کیڈفائسس دومKad Pheses 2ed کے رومیوں سے تعلقات بڑھے خوشگوار تھے۔ یوچی فتوحات نے رومی سلطنت اور رومیوں کے درمیان تجارت کا دروازہ کھول دیا۔ کیڈفائسس نے صرف تانبے اور چاندی کے سکے مضروب کروائے تھے۔ اس نے کابل کی فتح کے بعد اپنے سکے یا تو آگسٹس کے آخری سنین کے سکوں یا ویسے ہی ٹائبیرس کے سکوں کی نقل میں ڈھلوائے تھے۔ 14ء؁ تا 38ء؁ جب شروع کے زمانے میں قیاصرہ کے مضروبہ سونے کے رومی سکے مشرقی براعظم میں ریشم، مصالح، جوہرات اور رنگوں کی قیمت میں آنے لگے تو کیڈ فائسس دوم کو سونے کے سکوں قدر معلوم ہوئی اور اس نے رومی سکہ اوری کی نقل میں بکثرت سکے مضروب کروائے جو وزن میں بالکل اصل کے مطابق تھے اور اسی طرح دھات کے خالص ہونے میں بھی کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ کیڈفائسس دوم کی فاتحانہ حکومت کا زمانہ غالباً بہت دراز تھا۔ اس کے متعلق یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اس نے تنتیس برس 45ء؁ تا 78ء؁ برس تک حکومت کی۔

کنشک

ترمیم

کیڈفائسس دوم کے بعد 87 ء؁ اس خاندان کا سب سے نامور حکمران کنشک Kanshaka کشن یا کشان یا کوشان سلطنت کا بادشاہ ہوا۔ کنشک اپنی فتوحات اوربدھ مت کی سرپرستی کی وجہ سے مشہور ہے، لیکن افسوس ہے ہمارے پاس اس کے عہد اور کارناموں کے بارے میں محدود معلومات ہیں۔ اس قدر پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے نہ صرف شمالی ہند و پاکستان کو ہی مکمل فتح کیا، بلکہ پامیر کے پار تک کے علاقے کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ گمان ہوتا ہے وہ فتوحات حاصل کرتے ہوئے سار ناتھ (بنارس) تک چلا گیا تھا، کیوں کہ اس کے قریب اس کے 3 ؁ جلوس کے سکے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس نے کشمیر بھی فتح کیا اور عمارتوں کے علاوہ کنشک پورہ شہر تعمیر کرایا۔ روایات کے مطابق وہ حملہ کے دوران میں ہی مشرقی علاقہ سے بزرگ اشواگہوش Asvaghochکو ہمراہ لایا تھا۔ کنشک کا پایہ تخت پرش پور Purshapura موجودہ پشاور تھا۔ یہاں اس نے ایک بڑا مینار جو تیرہ منزلہ تھا اور ایک شاندار خانقاہ تعمیر کروائیں تھیں جو نویں صدی تک بدھ مت کے علوم کے مرکز کی حثیت سے مشہور تھی۔ ان ہندی فتوحات کے علاوہ کنشک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے پارتھیا پر بھی کامیاب حملہ کیا تھا۔ لیکن اس کے جنگی کارناموں میں سب سے وہ نمایاں حملہ تھا جو اس نے پامیر کے پار کیا گیا تھا اور جس کے بعد اس نے کاشغر، یاقند اور ختن کے صوبوں کا الحاق کرکے اس طرح اس نے اپنے پیش رو کا انتقام لیا تھا۔ کنشک وہاں سے کچھ لوگوں کو یرغمال لایا تھا۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان کو خانقاؤں میں قیام کرنے کی اجازت دے دی۔ ان لوگوں کے متعلق جو یرغمال کے طور پر لائے گئے تھے ایک عجیب روایت مشہور ہے کہ انھوں نے ایک خزانہ اس عرض سے دفن کیا تھا کہ وہ خانقا کے لیے وقف کے طریقہ پر رہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی راجا نے اور بعض راہبوں نے خزانہ پر قبضہ کرنے کی کوششیں کیں مگر انھیں کامیابی نہیں ہوئی، لیکن ہونگ سانگ کی موجودگی میں اور اس کے تقدس کی بدولت مزدوروں کو اس کے کھودنے میں کامیابی ہوئی اور انھوں نے ایک برتن نکالا جو سونے اور موتیوں سے بھرا ہوا تھا اور بعد میں اس دولت کو خانقا کی مرمت کے لیے استعمال کیا گیا۔

مذہب

ترمیم

کنشک کو جو دائمی شہرت ہوئی وہ فتوحات کی بدولت نہیں بلکہ مذہبی خذمات کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ بدھ روایات میں کنشک کو اشوک کی طرح بدھ مت قبول کرنے سے پہلے ایک ظالم شخص بتایا گیا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے عقیدے میں تبدیلی اس خیال سے پیدا ہوئی کہ ہزاروں آدمیوں کا خون اس کی گردن پر ہے، مگر دوسرے ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے ہیں اور اس روایات سے معتبر بیان ان محققین کا ہے جنھوں نے اس کے مختلف سکوں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کنشک نے بدھ مذہب قبول کر لیا تھا۔ لیکن اس کے سکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زرتشتی اور یونانی دیوتاؤں کی پوجا بھی کرتا تھا۔ کیوں کہ اس کے سکوں پر جو عبادت موجود ہے وہ یونانی زبان میں ہے اور اس کے ساتھ سورج اور چاند دیوتاؤں بھی ہیں۔ ان میں یونانی، ایرانی اور ہندی دیوتا سب ملے جلے ہیں۔ لیکن اس کے کمیاب سکے جو بدھ کی مورتی کے ساتھ یونانی زبان میں لکھا گیا ہے، غالباََ آخری دور کے ہیں اور عمدہ بنے ہوئے ہیں شاید اس تاریخ سے پہلے کے نہیں ہیں جو عام طور پر اس کے اجزاء کی سمجھی جاتی ہے۔ قابل ذکر یہ بات ہے کہ کنشک کا مذہب مہایان (Mahayana) بدھ مت تھا۔ مہایانا میں بدھ کے ساتھ مختلف دیوتا بھی شامل ہیں۔ ان میں وہ دیوتا بھی شامل ہیں جن کے کان ایمان رکھنے والوں کی دعا سنتے ہیں اور جن کے ماتحت بہت بدھستواؤں اور دوسرے کارکنوں کا ایک سلسلہ ہے، جو ان کے اور گنہگاروں کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ اس فرقہ میں بتوں کی پرستش بہت سی مفصل رسوم اور بذریعہ ایمان نجات پانے والوں کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ ان روایات میں جو چینی اور تبتی تصانیف میں محفوط ہیں کہ مطابق اشوک کی طرح کنشک نے بدھوں کی ایک کونسل طلب کی اس کونسل بلانے کا مقصد یہ تھا کہ بدھ مذہب کے اختلافات کو ختم کیاجائے اور بدھ مت کے صحیح مطالب بیان کیے جائیں۔ کیوں کہ کنشک بدھ مت کے مختلف فرقوں کے اختلافات کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ چنانچہ کنشک کشمیر میں بدھ مت کے پیشواؤں کی مجلس منعقد کی۔ اس مجلس کا صدر واسومتر (Vasumitra) اور نائب صدر مشہور مصنف آسو گھوش (Asvaghoch) تھا۔ اس مجلس میں اختلافات دور کرنے کی کوشش کی گئی نیز کنشک کے ایما پر اس مجلس نے قدیم ترین مذہبی علوم کی کتابوں سے لے کر اس دور کی حاضر کتب کی چھان بین کی گئی اور گوتم بدھ کی تعلیمات پر صخیم تفسیریں تانبے کی چادروں پر کندہ کرا کے ایک خاص اسٹوپا جو اسی عرض سے تعمیر کیا گیا تھا اس میں محفوظ کی گئیں۔ کنشک کی موت کے متعلق ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ اس کے خود آدمی اس کی جنگجویانا پالیسی سے اس قدر دل برداشتہ ہو گئے تھے کہ تنگ آ کر خود انھوں نے ہی اسے قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کنشک نے 54 سال حکومت کی تھی اور یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ 123ء میں ہوا۔

ہوشک

ترمیم

کنشک Kanshaka کے دو بیٹے واسشک Vasishka اور ہوشک Huvishka غالباََ اپنے باپ کی زندگی میں شمالی صوبوں کے گورنر تھے۔ واسشک کے نام کے سکہ نہیں ملتے ہیں، اس سے قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی زندگی میں مرگیا تھا۔

کنشک کا جانشین اس کا دوسرا بیٹا ہوشک ہوا تھا۔ یہ امر یقینی ہے ہوشک کی سلطنت میں کشمیر اور متھرا شامل تھے۔ اس طرح اسے یونانی، ہندی اور ایرانی دیوتاؤں کا یکساں شوق تھا۔ ہوشک کے سکوں کی مورتوں میں میں ہر کلیس، سراپس (سراپو) سکندر مع اپنے بیٹے وساکھ، آگ کا دیوتا فیرو اور بہت سی تصویریں پائی جاتی ہیں۔ مگر بدھ کی مورت اور نام دونوں ان میں ندارد ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ہوشک بادشاہ بدھ مت میں بہت کچھ راسخ الاعتقاد نہ تھا اور غالباً اس میں صداقت سے دور نہیں ہوگا کہ شاہی انعام و اکرام مذہب کے علاوہ ان کی زبر دست طاقتور خانقاؤں کو دیے جاتے تھے۔ اصل میں کوئی دور اندیش بادشاہ اس زمانے میں اتنی مجال نہیں رکھتا تھا کہ ان طاقت ور اور با اثر اور خانقاہوں کو نذر اندز کر دے جس کی شاخیں سلطنت کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ہوشک نے ایک شہر ہشک پور بسایا۔ یہ شہر عین درہ بارہ مولا کے جو اس زمانے میں وادی کا مغربی دروازہ ہونے کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتا تھا اور صدیوں تک مشہور و معروف رہا۔ 631ء؁ میں ہیونگ سانگ کشمیر گیا تو کچھ چند روز تک ہشک پور کی خانقاہ میں ٹھہرا، خانقاہ والوں نے اس کی مہمان نوازی کا پورا پورا حق ادا کیا اور وہاں سے اس کو عزت و احترام سے دارالسطنت پہنچایا گیا کہ پانچ ہزار بھکشو اس کے ہم رکاب تھے۔ ہشک پور کے مقام پر آج کل ایک چھوٹا سا گاؤں اشکور آباد ہے۔ جہاں ایک قدیم استوپ کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہوشک کا عرصہ حکومت زیادہ تھا۔ مگر اس کے عہد کے تمام سیاسی واقعات بالکل فراموش ہو گئے ہیں۔ اس کے کثیر تعداد سکے کنشک سے بھی زیادہ نوعیت کے ہیں اور اسی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں فن سنگتراشی کی طرح ان میں بھی یونانی خیالات کا اثر برابر پایا جاتا ہے۔ چند سونے کے سکوں پر باشاہ کی نہایت عمدہ تصویر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے ایک مسقل مزاج آدمی مگر بھدے نقوش کا آدمی تھا۔ جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور لمبی سی ناک تھی۔ جہاں تک پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں کشن سلطنت میں کسی قسم کا رخنہ یا کمی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی حکومت کے متعلق فرض کیا جاتا ہے کہ140ء میں یا اس کے قریب ختم ہوئی تھی۔

باسودیو اول

ترمیم

ہوشک کے بعد واسیودیو Vasudivaکا نام ملتا ہے، جو اس کا جانشین بتایا جاتا ہے۔ چونکہ اس کا نام خالص ہندی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس قدر اجنبی حملہ آور اپنے گرد و پیش کے حالات سے متاثر ہوئے تھے۔ اس کے سکے بھی اس کی شہادت دیتے ہیں۔ چنانچہ تقریباً ان سب کی پشت پر شیو Shiva کی تصویر مع اس کے بیل نندی، ترشول اور ہندی بتوں کی دیگر علامتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ باسودیو کے کتبات جو اکثر متھرا میں ملتے ہیں 74 تا 98 کے بین بین ہیں یعنی اس سن کے جو خاندان کشان کے زمانے میں مروج تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حکومت کا عرصہ کم و بیش پچیس برس کا تھا۔ ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ اس کی حکومت کا خاتمہ 178؁ کے لگ بھگ ہوا ہے۔

زوال

ترمیم

باسودیو اول کی طولانی مدت حکومت کے اواخر میں سلطنت کشن پر ضرور زوال آنا شروع ہو گیا ہوگا۔ بظاہر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے خاتمہ کے قریب یا فوراً اس کے بعد کنشک کی سلطنت بھی ایشیا کی دوسری سلطنتوں کے قانون زوال و انحطاط سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے سکی اور مختصر سے زمانے اتحاد و اتفاق کے بعد اس کے بھی پرخچے اڑا گئے۔ بادسیوں کے مرنے کے بعد ایک عرصہ کے بعد تک اس کے نام کے سکے مضروب ہوتے رہے۔ آخر کار ان میں بادشاہ کو ایرانی لباس پہنے ہوئے دیکھایا گیا ہے اور یہ صریحاً معلوم ہوتا ہے کہ ان میں شاہ پور اول ساسانی کی جس نے ایران پر 269ء؁ تا 138ء؁ تک حکومت کی تصویر کی نقل اتارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سکوں کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے ایران کا اثر پھر ہندوستان میں اندرون ملک پر پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ لیکن جن ذرائع و وسال سے یہ اثر یہاں تک پہنچا ان کے متعلق کوئی بات یقینی طور معلوم نہیں۔ یہ بات معلوم ہے 277ء؁ تا 294ء؁ کے دوراب بہرام دوم نے سیستان میں لشکر کشی کی تھی۔ مگر تیسری صدی عیسویں میں ساسانیوں کے برصغیر پر کسی حملے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ کیوں کہ اس زمانے میں تمام تاریخی ماخذ کے معمولی ماخذ منبعے بالکل خشک ہو چکے تھے۔ کوئی ایسا کتبہ ایسا دریافت نہیں ہوا جس کو اس زمانے کا کہا جاسکے اور سکے بھی جو مقامی باشندوں نے مضروب کرائے تاریخی طور پر روشنی نہیں ڈالتے ہیں۔ بہر حال یہ یقینی ہے کہ برصغیر دو زبردست اور عایشان خاندان یعنی کشن شمال میں اور اندھر دکن کے سطح مرقع ہیں ایران کے اشکانی خاندان کے ساتھ جس کی جگہ ساسانی قائم ہو گئے۔ ایک ہی وقت میں (266ء؁) میں برباد ہوئے۔ یہ بات دیکھتے ہوئے یہ اس خیال کو دل سے دور کرنا ناممکن ہے کہ کسی نہ کسی طریقے ان تینوں واقعات کا تعلق ایک دوسرے سے تھا اور شمالی ہند کے خاندان کشن کے سکوں پر جو اثر پایا جاتا ہے اس کی وجہ کوئی نہ کوئی ایرانی حملہ ہوگا جس کی خبر ہم تک نہیں پہنچی۔ مگر اس خیال کی تعائید کے لیے کوئی ثبوت بلا واسطہ نہیں ملتا ہے اور یہ حملہ ہوا بھی ہوگا تو وہ ان قزاق اور لیٹری اقوام کی طرف سے سیستان ہوا ہوگا۔ جو ایران کے زیر اثر تھیں اور باقیدہ حملہ ایران نے برصغیر پر نہ ہوگا۔

بیرونی حملہ

ترمیم

یہ بات یقینی ہے کہ شاہان کشن میں سے باسودیو آخری بادشاہ تھا جو برصغیر کے وسیع علاقے پر حکمران تھا۔ اس کی وفات کے بعد شمالی ہند میں کسی اعلیٰ حکومت کا کوئی وجود کا کوئی پتہ یا نشان نہیں ملتا ہے۔ غالباً جس طرح ایشائی سلطنتوں کی بربادی کے وقت بالعموم ہوا کرتا ہے کہ بے شمار چھوٹے چھوٹے رجواڑے خود مختار ہو گئے اور بہت سی چند روزہ ریاستیں قائم کر لیں۔ لیکن تیسری صدی عیسوی کی تاریخ کے لیے مواد اس درجہ ناپید ہے کہ یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ ریاستیں کیسی تھیں اور تعداد میں کتنی تھیں۔ باظاہر یہ تمام زمانہ پراز فتنہ و فساد تھا۔ جس میں شمال و مغرب سے بیرونی حملوں کی یاد باقی تھی اور جس کا اظہار پرانوں کے پریشان آمیز بیانات متعلقہ آبھیر، گرو بھل، سک، یون یا بالیک اور دوسرے اجنبی ناموں سے ہوتا ہے۔ جو خاندان اندھر کے جانشین ہوئے۔ مذکور بالا تمام خاندان صریحاً بڑی حد تک ایک دوسرے کے ہم عصر تھے نہ ایک دوسرے کے بعد برسر حکومت ہوئے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی سلطنت اعلیٰ کا مستحق نہ تھا۔ اس پرفتن زمانے کے حالات جو پرانوں میں پائے جاتے ہیں، ترتیب و تہذیب بظاہر بالکل امکان سے باہر ہے۔

کابل و پنجاب کے شاہان کشان

ترمیم

سکوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کشان نے پنجاب و کابل پر ایک عرصہ تک اپنا سکہ جمائے رکھا تھا۔ یہ امر یقینی ہے کہ کابل کے شاہان کشن پانچویں صدی عیسوی تک جب کہ سفید ہنوں نے بالآخر ان کو مغلوب کیا خاصے طاقت ور تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں ان کے ایک بادشاہ نے اپنی بیٹی شاہ ایران ہرمز دوم سے بیاہی گئی تھی اور 360ء میں جب شاہ پور دوم نے آمدہ کے مقام کا محاصرہ کیا تو رومی محصور پر اس کو ہندی ہاتھیوں اور سلطنت کشن کی فوج کی بدولت جو اس کے بڈھے بادشاہ گرمبٹیس کے زیر کمان تھی نصیب ہوئی۔ یہ گرمبٹیس وہ تھا جسے فوج میں سب سے زیادہ عزت دی جاتی تھی اور مدد کے لیے سیستان کے سک بھی موجود تھے۔

ماتحت سردار

ترمیم

اس بات کا فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ تیسری صدی عیسوی کے دوران میں جو بیرونی سردار پنجاب میں حکمران تھے اور جو ٹھوڑی بہت تعریف کے ساتھ بادسودیو اول کے سے سکے مضروب کرائے تھے کہاں تک کشان سے تعلق رکھتے تھے اور کہاں تک وہ دیگر ایشیائی اقوام سے تھے۔ اس قسم کے تمام سکوں میں عبارتوں میں جو ذرا تبدیل شدہ یونانی طرز تعمیر میں لکھی ہوئی ہیں۔ کنشک بادسو (دیو) کشن شہنشاہ کا نام تو محفوظ ہے۔ مگر ہندی حروف میں جو نام لکھا ہوا ہے، وہ چینی الفاظ کی طرح ایک ہی حرکت کا لفظ ہے۔ مثلاً بھ ک وی وغیرہ۔ گمان غالب ہے کہ یہ وسط ایشیا کے مختلف اقوام کے سرداروں کے نام ہیں۔ جنھوں نے برصغیر پر حملہ کیا اور کشن یا کابل کے شاہی فرمان رواؤں کو اپنا حاکم اعلیٰ ہونا قبول کر لیا۔ ایک سکے پر ایک رخ کشن سکوں سے ذرا تبدیل شدہ ہے اور جس پر برصغیر کے براہمی حروف میں پاسن نُ شیلد کے نام پائے جاتے ہیں۔ اس کی دوسری طرف آگ کی قربان گاہ کی ایسی تصویر ہے جو قدیم ترین ساسانی بادشاہوں کے سکوں پر پائی جاتی ہے۔اس طرح یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح تیسری صدی میں پنجاب کا براہ راست تعلق ایران سے قائم ہو گیا تھا۔ یہ بات یقینی ہے کہ کشن بادشاہوں کے سکے صریحاً ساسانی سکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تیسری صدی اور چوتھی صدی عیسوی کے اوئل میں کشن اور اندھر خاندانوں کے نیست و نابود کے قریب جتنا زمانہ گذرا وہ تاریخ ہند کا تاریک زمانہ ہے۔

پروفیسر مقبول بیگ درخشانی تاریخ ایران جلد اول میں لکھتے ہیں، ساسانیوں کے دور میں صوبہ خراسان کا حکمران ہمیشہ کوئی شہزادہ ہوتا تھا اور وہ شاہ کوشان کہلاتا تھا۔.مثلاََ شاپور اول کے بھائی پیروزPeiruz نے اپنا لقب کوشان بزرگElder of Kashan رکھا تھا، جب کہ اس کے بیٹے ہرمز کو شہنشاہ نے کوشان بزرگ کا خطاب دیا تھا، بہرام دوم کے زمانے میں اس کا بھائی ہرمز حکمران مقرر ہوا، اس نے بغاوت کردی تھی اور ساکا اقوام اور دوسرے قبائل کی مدد سے مشرق میں ایک آزاد سلطنت قائم کر نے کی کوشش کی تھی، جس کو بہرام دوم نے ناکام بنادیا۔

یوچی خورد (Yuechi Miner)

ترمیم

چوتھی صدی کی نصف دہائی کے بعد یوچیوں کی وہ شاخ جو تبت میں آباد ہو گئی تھی، ان پر مشرق کی جانب سے منگولی ترکوں نے حملے شروع کر دیے اور انھیں تبت سے نکل نے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ وہ باختریہ آ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی ہی نسل سے تعلق رکھنے والے دوسرے قبائل کی جمیت بھی تھی جن میں ہن بھی شامل تھے۔ اگرچہ شاپور رومیوں کے مقابلے پر سرپیکار تھا، تاہم وہ لشکر لے کر ان قبائل کے مقابلے پر آیا مگر صلح پر مجبور ہو گیا اور نہیں باختریہ میں اس شرط پر آباد ہونے کی اجازت دی کہ وہ رومیوں کے مقابلے میں مدد دیں گے۔ یوچی خورد کے بادشاہ کیدار (Kidara) نے جلد ہی فتوحات کے دائرہ کو کوہستان ہندوکش کے جنوب تک بڑھا کر کابل، غزنین، سوات و پشاور کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ بعد ازاں کیدار نے آزادی کا حق منوانے کی کوشش کی، تو جلد ہی ایرانی فرمانروا شاپور سے جنگ کی نوبت آگئی اور ہوا بھی یہی کیدار اور شاپور سے تصادم میں دوسرے ہم نسلی قبائل نے شاپور کا ساتھ دیا اور کیدار مملکت چھن گئی اور وہ مارا گیا۔

ماخذ

ترمیم
  • افغان۔ معارف اسلامیہ
  • ڈاکٹر معین الدین، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
  • ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
  • ویسنٹ اے سمتھ۔ قدیم تاریخ ہند
  • پروفیسر مقبول بیگ درخشانی۔ تاریخ ایران، جلد اول

حوالہ جات

ترمیم
  1. "The Rabatak inscription claims that in the year 1 Kanishka I's authority was proclaimed in India, in all the satrapies and in different cities like Koonadeano (Kundina), Ozeno (اوجین), Kozambo (Kausambi), Zagedo (Saketa), Palabotro (پاٹلی پتر) and Ziri-Tambo (Janjgir-Champa). These cities lay to the east and south of Mathura, up to which locality Wima had already carried his victorious arm. Therefore they must have been captured or subdued by Kanishka I himself." "Ancient Indian Inscriptions", S. R. Goyal, p. 93. See also the analysis of Sims-Williams and J.Cribb, who had a central role in the decipherment: "A new Bactrian inscription of Kanishka the Great", in "Silk Road Art and Archaeology" No4, 1995–1996. Also Mukherjee B.N. "The Great Kushanan Testament", Indian Museum Bulletin.
  2. The Kushans at first retained the یونانی زبان for administrative purposes, but soon began to use Bactrian. The Bactrian Rabatak inscription (discovered in 1993 and deciphered in 2000) records that the Kushan king کنشک (c. 127 AD), discarded Greek (Ionian) as the language of administration and adopted Bactrian ("Arya language"), from Falk (2001): "The yuga of Sphujiddhvaja and the era of the Kuṣâṇas." Harry Falk. Silk Road Art and Archaeology VII, p. 133.
  3. The Bactrian Rabatak inscription (discovered in 1993 and deciphered in 2000) records that the Kushan king کنشک (c. 127 AD), discarded Greek (Ionian) as the language of administration and adopted Bactrian ("Arya language"), from Falk (2001): "The yuga of Sphujiddhvaja and the era of the Kuṣâṇas." Harry Falk. Silk Road Art and Archaeology VII, p. 133.
  4. André Wink, Al-Hind, the Making of the Indo-Islamic World: The Slavic Kings and the Islamic conquest, 11th-13th centuries, (Oxford University Press, 1997), 57.
  5. "Afghanistan: Central Asian and Sassanian Rule, ca. 150 B.C.-700 A.D."۔ United States: کتب خانہ کانگریس مطالعہ ممالک۔ 1997۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2012 
  6. John M. Rosenfield (1967)۔ The Dynastic Arts of the Kushans۔ University of California Press۔ صفحہ: 7, 8 
  7. پروفیسر فضل رحمٰن (۱۹۹۶)۔ اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد اوّل۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے ترقی اردو۔ صفحہ: ۵۴۲ 
  8. Harry Falk (2001)۔ "The yuga of Sphujiddhvaja and the Era of the Kusânas"۔ Silk Road Art and Archaeology: 121–136 – Academia سے 
  9. مولوی سید ہاشمی صاحب فرید آبادی (1939)۔ تاریخ ہند، جلد اوّل، برائے انٹرمیڈیٹ۔ جامعہ عثمانیہ سرکار عالی، حیدر آباد دکن۔ صفحہ: 123–124 
  10. Jones Evans، Head Barclay V.، Herbert A. Grueber (1888)۔ The Numismatic Chronicle, and Journal of the Numismatic Society۔ Tayor anaf Walton۔ صفحہ: 53 
  11. جوزف نیدھم، وانگ لنگ (۱۹۵۴)۔ سائنس اینڈ سویلائزیشن ان چائنہ۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: ۱۷۳