پپو (ہندی: पप्पु) بھارت کے کئی علاقوں میں مستعمل مذکر نام ہے۔[1] پپو ایک ہندی لفظ ہے جو اصل نام اور چھوٹے بچوں کے نام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ثقافت عامہ میں لفظ پپو بہت معروف رہا ہے[2] مثلاً اے آر رحمان کا گانا پپو کانٹ ڈانس سالا، بھارتی الیکشن کمیشن کی مہم “پپو ووٹ نہیں ڈال سکتا“، کیڈبری کا اشتہار “پپو پاس ہو گیا“ وغیرہ۔ پپو لفظ پر فلم بھی بنی ہے جیسے پپو پاس ہو گیا (2007ء)، پپو کانٹ ڈانس سالا (2011ء)۔[3]

اشتہارات میں استعمال

ترمیم
"پپو ایک چلبلا اور معصوم بچہ ہے جو کچھ زیادہ ذہین نہیں ہے۔ درحقیقت زندگی میں ہر ایک کا کسی نہ کسی پپو سے سامنا ہوتا ہے۔)[4]

اشتہارات میں لفظ پپو کا پہلی مرتبہ استعمال کیڈبری نے 2006ء میں کیا۔ پپو کردار کے خالق ابھیجیت اواستی کو مانا جاتا ہے۔ انھوں نے کیڈبری کے اشتہارات کے لیے اس کردار کو تخلیق کیا۔[4] کیڈبری نے پپو خوب مشہور کیا اور خود کیڈبری نے اس کردار سے بہت فائدہ اٹھایا۔ اس کے نعرے ‘‘پپو بلو ہے“ اور “پپو پاس ہو گیا“ بہت مشہور ہوئے۔ پپو کو ایک جوان عمر کا لڑکا دکھایا گیا ہے جو امتحان میں کامیاب ہوجاتا ہے اور خوشی میں وہ کیڈبری تقسیم کرتا ہے۔[5] دی اکنامک ٹائمز کے مطابق کردار پپو کی وجہ خریدار خوب متوجہ ہوئے اور بازار میں خوب اس کردار کا خوب فائدہ اٹھایا گیا۔[4] ماروتی سوزکی نے بھی پپو کو اپنے اشتہار میں استعمال کیا۔ اس کا نعرہ تھا “ماروتی کے اصلی لگاوگے تو پپو نہیں کہلاوگے“۔[4] کیرالا پولس نے ٹرافک شعور کی بیداری کے لیے “پپو دی زیبرا“ کو تخلیق کیا۔ کیرلا میں کچھ اسکولوں میں “پپو زون“ بنایا گیا جہاں طالب علم ٹرافک سے متعلق جانکاری دیتے تھے۔[6][7]

پپو کا کم عقل شخص کے لیے استعمال

ترمیم

پپو کا جدید طور پر کسی کم عقل شخص کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے کسی کو پپو بنانے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کو بے بے وقوف بنانا۔ [8]

راہول گاندھی کے لیے بھارت میں یہ لفظ کا استعمال

ترمیم

بھارت میں بی جے پی اور اس کے قائدین، بہ شمول وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقیدی حملہ کرنے کے کچھ مواقع پر خود کو نرم گفتار اور سیاست کا مہذب چہرہ بتانے کے لیے کانگریسی قائد راہول گاندھی نے کچھ موقع پر پپو کا لفظ استعمال کیا۔ مگر یہ لفظ سیاسی حلقوں میں اور سماجی میڈیا پر ان کے لیے مخصوص ہو گیا۔ [9]

مودی حکومت کے وزیر مہیش شرما نے مارچ 2019ء میں مودی حکومت میں ثقافت کے مرکزی وزیر مہیش شرما نے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے راہول گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی کو "پپو کی پپی" کا نام دیا۔ اسے گانگریس نے سیاست کی تازہ گراوٹ قرار دیا۔ تاہم اس بد نما لقب کو ملک میں زبان زد عام ہونے کا موقع نہیں ملا۔ [10]

پپو نام کے مشہور اشخاص

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. It’s a Beehive Full of Complainers, But if You Can Make it Here …
  2. Pheroze Vincent (6 جون 2013)۔ "Finding Pappu"۔ دی ہندو۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 ستمبر 2014 
  3. Pappus say they aren't one, brave chant with a smile آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ articles.timesofindia.indiatimes.com (Error: unknown archive URL)۔ The Times of India. 9 مئی 2009, 0421 hrs IST, Megha Suri, TNN.
  4. ^ ا ب پ ت Rajiv Singh, ET Bureau Aug 15, 2011, 09.59am IST۔ "'Pappu' connects with consumers; becomes darling salesman for marketers – timesofindia-economictimes"۔ Articles.economictimes.indiatimes.com۔ 08 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2015 
  5. Philip Kotler (1 ستمبر 2010)۔ Principles Of Marketing: A South Asian Perspective, 13/E۔ Pearson Education۔ صفحہ: 205–۔ ISBN 978-81-317-3101-7 
  6. "'Pappu' in school to teach road safety – KERALA"۔ The Hindu۔ 2009-11-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2015 
  7. "Road safety lessons from 'Pappu'"۔ The Hindu۔ 2013-10-08۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2015 
  8. "~Shrenu Parikh/Gauri K Ssarma ;Hi duffer.You jerk"۔ انڈیا فورمس۔ 2017-11-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2019 
  9. "How Rahul Gandhi became 'Pappu' of politics"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 2018-07-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2019 
  10. "Minister bares 'culture' againMahesh Sharma known to have a reputation for sexist and sectarian comments, described Priyanka Gandhi as 'Pappu ki Pappi' of politics"۔ دی ٹیلی گراف۔ 2019-03-19۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 دسمبر 2019